أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَوَلَمۡ يَسِيۡرُوۡا فِى الۡاَرۡضِ فَيَنۡظُرُوۡا كَيۡفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِيۡنَ مِنۡ قَبۡلِهِمۡ وَكَانُوۡۤا اَشَدَّ مِنۡهُمۡ قُوَّةً ؕ وَمَا كَانَ اللّٰهُ لِيُعۡجِزَهٗ مِنۡ شَىۡءٍ فِى السَّمٰوٰتِ وَلَا فِى الۡاَرۡضِ ؕ اِنَّهٗ كَانَ عَلِيۡمًا قَدِيۡرًا‏ ۞

ترجمہ:

اور کیا انہوں نے کبھی زمین میں سفر نہیں کیا پس وہ دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیسا انجام ہوا حالانکہ وہ ان سے زیادہ سخت اور طاقت ور تھے، اور اللہ کی یہ شان نہیں ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں سے کوئی چیز اس کو عاجز کر دے، بیشک وہ بہت علم والا بڑی قدرت والا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور کیا انہوں نے کبھی زمین میں سفر نہیں کیا پس وہ دیکھتے کہ ان سے پہلے لوگوں کا کیسا انجام ہوا، حالانکہ وہ ان سے زیادہ سخت اور طاقت ور تھے، اور اللہ کی یہ شان نہیں ہے کہ آسمانوں اور زمینوں میں سے کوئی چیز اس کو عاجز کر دے بیشک وہ بہت علم والا بڑی قدرت والا ہے اور اگر اللہ لوگوں کے کئے ہوئے کاموں کی وجہ سے ان پر گرفت فرماتا تو روئے زمین پر کسی جاندار کو نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک وقت مقرر تک انہیں ڈھیل دے رہا ہے، پس جب ان کا وقت آجائے گا تو اللہ دوران سفر آثار عذاب دیکھ کر عبرت حاصل کرنا 

فاطر : ٤٤ میں اہل مکہ کو اس بات پر ابھارا ہے کہ وہ صرف مکہ میں اپنے گھروں میں بیٹھے نہ رہیں بلکہ مکہ سے باہر نکل کر شام، یمن اور عرقا کی طرف سفر کریں تو اثناء سفر میں ان کو پچھلے زمانہ کی امتوں پر نازل ہونے والے عذاب کے آثار نظر آئیں گے، عاد، ثمود اور سبا ان سے پہلی امتیں تھیں وہ لوگ جسمانی طور پر بہت مضبوط اور طاقت ور تھے، ان کی عمریں بھی بہت لمبی لمبی ہوتی تھیں لیکن جب ان کے کفر اور انکی سرکشی کی وجہ سے ان پر عذاب آیا تو نہ ان کی طویل عمریں اللہ کے عذاب کے مقابلہ میں ڈھال بن سکیں اور نہ ان کی جسمانی قوت کسی کام آسکی اور آسمانوں اور زمینوں میں سے کوئی چیز اللہ تعالیٰ کو عاجز کرنے والی نہیں ہے وہ بہت علم والا اور بڑی قدرت والا ہے، اس کا علم ہر چیز کو محیط ہے، اس لئے ہر شخص کا عمل خواہ نیک ہو یا بد اس سے مخفی نہیں ہے اور چونکہ اس کی قدرت ہر چیز کو شامل ہے اس لئے وہ نیکو کاروں کو اچھی جزا دینے پر اور بدکاروں کو سخت سزا دینے پر قادر ہے اور کوئی نیکی کرنے والا اس کے فضل سے محروم نہیں ہوتا اور کوئی بدکار اس کی گرفت سے باہر نہیں ہے، اس کے فضل اور انعام کا مدارس کی توحید اور اس کے رسولوں کو ماننے پر ہے، اور اس کے عذاب کا باعث شرک اور اس کے رسولوں کا انکار کرنا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا بہ تدریج گرفت فرمانا 

اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مہلت دیتا رہتا ہے اور ان پر اچانک گرفت نہیں فرماتا تاکہ لوگوں کو معلوم ہو کہ ماف کرنا اور احسان فرمانا اللہ تعالیٰ کے نزدیک گرفت کرنے اور انتقام لینے سے زیادہ پسندیدہ ہے تاکہ لوگ اس کی شفقت اور اس کے فضل و کرم کا اندازہ کریں اور یہ کہ اس کی رحمت اس کے غضب پر غالب ہے، پھر جب لوگ اس کے قہر کا اس کے لطف کی وجہ سے اور اس کے جلال کا اس کے جمال کی وجہ سے اور اس کے غضب کا اس کی رحمت کی وجہ سے ادراک نہیں کرتے تو وہ دنیا میں لوگوں پر مصائب، آفات اور بلائیں نازل فرماتا ہے جو مومن کے حق میں اسک یگناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہیں اور کافر کے حق میں محض سزا اور عذاب ہوتی ہیں، مصائب کسی شخص کے لئے اس وقت تطھیر کا سبب ہوتے ہیں جب اس کے جرائم اور گناہوں میں کفر اور شرک نہ ہو، اللہ تعالیٰ ہم سب کو کفر اور شرک اور اللہ تعالیٰ کے غضب اور اس کے عذاب اور عقاب سے محفوظ رکھے۔ (آیمن)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 35 فاطر آیت نمبر 44