أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَسَوَآءٌ عَلَيۡهِمۡ ءَاَنۡذَرۡتَهُمۡ اَمۡ لَمۡ تُنۡذِرۡهُمۡ لَا يُؤۡمِنُوۡنَ ۞

ترجمہ:

اور آپ کا ان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا ان کے حق میں برابر ہے یہ ایمان نہیں لائیں گے

کفار کو ڈرانا یا نہ ڈرانا صرف ان کے حق میں برابر ہے 

اس کے بعد فرمایا اور آپ کا ان کو ڈرانا یا نہ ڈرانا ان کے حق میں برابر ہے یہ ایمان نہیں لائیں گے (یٰسین : ٠١)

اگریہ سوال کیا جائے کہ جب کافروں کو ڈرانا اور نہ ڈرانا برابر ہے تو پھر ان کو کس لئے آپ ڈراتے تھے اور آپ کو تبلیغ کرنے اور ان کو آخرت کے عذاب سے ڈرانے کا کیوں حکم دیا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ عذاب سے ڈرانا اور نہ ڈرانا کفار کے حق میں برابر ہے آپ کے حق میں برابر نہیں ہے، آپ کفار کو عذاب سے جتنا زیادہ ڈرائیں گے آپ کو اتنا زیادہ ثواب ملے گا، اور تبیغ کی راہ میں آپ جس قدر زیادہ تکلیفیں اور مشقتیں اٹھائیں گے، اللہ کے نزدیک آپ کا قرب اور درجہ اتنا زیادہ ہوگا اور ان کے حق میں آپ کا عذاب سے ڈرانا اور نہ ڈرانا اس لئے برابر ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ازل میں علم تھا کہ آپ کی بسیار کوشش اور انتھک جدوجہد کے باوجود یہ اپنی ضد اور تکبر پر قائم رہیں گے اور اپنے قصد اور اختیار سے ایمان نہیں لائیں گے اور آخر وقت تک کفر پر جمے رہیں گے۔ اس آیت کی زیادہ تفصیل اور تحقیق کے لئے البقرہ : ٦ تبیان القرآن ج ١ ص 292-297 کو ملاحظہ فرمائیں۔

اس آیت سے جبر یہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ انسان مجبور محض ہے اللہ جس کو چاہے ممن بنا دے اور جس کو چاے کافر بنا دے انسان کا کسی چیز پر کوئی اختیار نہیں ہے، یہ غلط نظریہ ہے، اللہ اسی چیز کو پیدا کرتا ہے جس کو انسان اختیار کرتا ہے، اس کو ازل میں علم تھا کہ یہ کفار اپنے اتخیار سے ایمان نہیں لائیں گے اس لئے اس نے ان کے حق میں عدم ایمان کو مقدر کردیا۔

القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 10