أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنۡ كَانَتۡ اِلَّا صَيۡحَةً وَّاحِدَةً فَاِذَا هُمۡ خٰمِدُوۡنَ ۞

ترجمہ:

وہ صرف ایک زبردست چیخ تھی جس سے وہ اچانک بجھ کر رہ گئے

بستی والوں کو ایک زبردست چیخ سے ہلاک کر دینا

اس کے بعد فرمایا : وہ صرف ایک زبردست چیخ تھی جس سے وہ اچانک بجھ کر رہ گئے

مفسرین نے کہا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت جبریل علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ان کی طرف بھیجا، انہوں نے ان کی بستی کے دروازے کی چوکھٹ کو پکڑ کر بہت زور سے چیخ ماری جس سے ان کے جسموں میں زندگی کی کوئی حرارت باقی نہ رہی اور چشم زدن میں وہ تمام لوگ بجھ کر رہ گئے۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص 12 تفسیر ابن کثیر ج ٣ ص 624)

ان سے حواس اور حرکات کے آثار کا ظہور ختم ہوگیا، ان کے مردہ اجسام کو بجھی ہوئی آگ کے ساتھ تشبیہ دی گئی ہے اس میں یہ اشارہ ہے کہ جو شخص زندہ ہے وہ اپنے حواس کے آثار اور حرکات ارادیہ کے ظہور کی وجہ سے بھڑکتی ہوئی روشن آگ کی مانند ہے اور جو شخص مردہ ہے وہ راکھ کی مثل ہے۔

بعض تفاسیر میں مذکور ہے کہ رسولوں اور حبیب نجار کو قتل کرنے کی تین دن بعد حضرت جبریل نے ان کی بستی میں آ کر چیخ ماری تھی، اور بعض میں یہ مذکور ہے کہ وہ رسولوں اور حبیب نجار کو قتل کرنے کے بعد خوشی خوشی اپنے گھروں کی طرف جا رہے تھے کہ اچانک ایک چیخ کی آواز آئی اور وہ ہیں ڈھیر ہو کر رہ گئے اور اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب بھیجنے میں جلدی اس لئے کی کہ جو شخص اللہ تعالیٰ کے اولیاء کو ایذاء پہنچاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتا ہے، جیسا کہ اس حدیث میں ہے :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا بیشک اللہ عزو جل ارشاد فرماتا ہے۔ جس شخص نے میرے ولی سے عداوت رکھی ‘ میں اس سے اعلان جنگ کردیتا ہوں ‘ جس چیز سے بھی میرا بندہ میرا تقرب حاصل کرتا ہے اس میں سب سے زیادہ محبوب مجھے وہ عبادت ہے جو میں نے اس پر فرض کی ہے اور میرا بندہ ہمیشہ نوافل سے میرا تقرب حاصل کرتا رہتا ہے ‘ حتیٰ کہ میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کے کان ہوجاتا ہوں جن سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جن سے وہ دیکھتا ہے ‘ میں اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جن سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پیر ہوجاتا ہوں جن سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے تو میں اس کو ضرور عطا کرتا ہوں اور اگر وہ مجھ سے پنا طلب کرے تو میں اس کو ضرور پناہ دیتا ہوں اور میں جس کام کو بھی کرنے والا ہوں کسی کام میں اتنا تردد (اتنی تاخیر) نہیں کرتا جتنا تردد (جتنی تاخیر) میں مومن کی روح قبض کرنے میں کرتا ہوں۔ وہ موت کو ناپسند کرتا ہے اور میں اسے رنجیدہ کرنے کو ناپسند کرتا ہوں۔

(صحیح البخاری رقم الحدیث ٢٠٥٦‘ صحیح ابن حبان رقم الحدیث ٧٤٣‘ مسند احمد ج ٦ ص ٦٥٢‘ مسند ابو بعلیٰ رقم الحدیث ٧٨٠٢‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث ٣١٦‘ حلیتہ الاولیاء ج ا ص ٥۔ ٤‘ کتاب الاسماء و الصفات ص ١٩٤‘ صفوۃ ج ا ص ٥١‘ مشکوۃ رقم الحدیث ٦٦٢٢‘ کنزالعمال رقم الحدیث ٧٢٣١٢)

شیخ تقی الدین احمد بن تیمیہ الحرانی المتوفی ٨٦٧ ھ نے بھی اس حدیث سے استدلال کیا ہے۔

(مجموع الفتاویٰ ج ٢ ص ٠٨٢‘ ج ٣ ص ٦٥٢‘ ج ٠١ ص ٣٨٣‘ جا اص ٢٨١‘ ٣٧١۔ ٥٤ ‘ْ ٧ اص ٦٧ )

حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ٢٥٨ ھ اور حافظ محمود بن احمد عینی متوفی ٥٥٨ ھ نے لکھا ہے کہ عبدالواحد کی روایت میں یہ اضافہ ہے کہ میں اس کا دل ہوجاتا ہوں جس سے وہ سوچتا ہے اور میں اس کی زبان ہوجاتا ہوں جس سے وہ کلام کرتا ہے۔

(فتح الباری ج ٣ اص ٦٤١‘ دارالفکر بیروت ٠٢٤١ ھ ‘ عمدۃ القاری ج ٣٢ ص ٨٣١‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ١٢٤١ ھ)

حدیث من عادلی ولیا کی سند پر حافظ ذہبی اور حافظ عسقلانی کے اعتراضات کے جوابات :۔

حافظ شمس الدین محمد بن احمد ذہبی متوفی ٨٤٧ ھ اس حدیث کی سند پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں :۔

یہ حدیث بہت غریب ہے اور اگر صحیح بخاری کی ہیبت نہ ہوتی تو اس حدیث کو خالد بن مخلد کی منکر روایات میں سے شمار کیا جاتا کیونکہ اس حدیث کے الفاظ بہت غیر مانوس ہیں اور اس لئے کہ اس کی روایت میں شریک منفرد ہے اور وہ حافظ نہیں ہے اور یہ متن صرف اس سند کے ساتھ مروی ہے اور امام بخاری کے علاوہ اور کسی امام نے اس حدیث کو روایت نہیں کیا اور میرا گمان ہے کہ یہ حدیث مسند احمد میں نہیں ہے۔ (میزان الاعتدال ج ٢ ص ٧٦٤‘ دارالکتب العلمیہ بیروت ٦١٤١ ھ)

میں کہتا ہوں کہ حافظ ذہبی کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ اس حدیث کو امام بخاری کے علاوہ اور کسی نے روایت نہیں کیا کیونکہ ہم اس حدیث کی تخریج میں بیان کرچکے ہیں کہ اس حدیث کو امام احمد نے مسند احمد میں ‘ امام ابن حبان نے صحیح ابن حبان میں ‘ امام ابویعلیٰ نے مسند ابو یعلیٰ میں ‘ امام طبرانی نے امعجم الاوسط میں ‘ امام ابو نعیم نے حلیتہ الاولیاء میں ‘ امام بیہقی نے الاسما والصفات میں اور امام ابن جوزی نے صفوۃ الصفوۃ میں روایت کیا ہے ‘ علاوہ ازیں شیخ ابن تیمیہ نے بھی اس حدیث سے مجموع الفتاویٰ میں متعدد مقامات پر استدلال کیا ہے۔

حافظ ابن حجر عسقلانی نے حافظ ذہبی کا یہ قول نقل کیا ہے کہ میرا گمان ہے کہ یہ حدیث مسند احمد میں نہیں ہے ‘ پھر اس کے بعد یہ لکھا ہے کہ مجھے اس پر جزم اور یقین ہے کہ یہ حدیث مسند احمد میں نہیں ہے۔

(فتح الباری ج ٣١ ص ٢٤١‘ دارالفکر بیروت ٢٤١ ھ)

حافظ عسقلانی کا بھی یہ لکھنا صحیح نہیں ہے کہ یہ حدیث یقینا مسند احمد میں نہیں ہے بلکہ یہ حدیث مسند احمد میں موجود ہے اور اس کے حسب ذیل حوالہ جات ہیں : (مسند احمد ج ٦ ص ٦٥٢ طبع قدیفم ‘ مسند احمد رقم الحدیث ٧٤٢٦٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ٣١٤١ ھ ‘ مسند احمد رقم الحدیث ١٧٠٦٢‘ مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ ٢١٤١ ھ ‘ مسند احمد رقم الحدیث ٣٢٧٦٢‘ عالم الکتب بیروت ٩١٤١ ھ)

مسند احمد کے مخرج الشیخ الشعیب الارنوط نے مسند احمد کے حاشیہ میں اس حدیث کی تخریج میں لکھا ہے :

امام ابن ابی الدنیا نے اس حدیث کو الاولیاء : (٥٤) میں ‘ امام بیہقی نے الزہد (٨٩٦) میں : (٥٤) میں ‘ امام بیہقی نے الزہد (٨٩٦) میں ‘ امام البزار نے (٧٢٦٣) اور (٧٤٦٣) میں ‘ امام ابونعیم نے حلیتہ الاولیا ج ١ ص ٥ میں ‘ امام القضاعی نے مسند الشہاب (٧٥٤١) میں ‘ امام طبرانی نے الاوسط (٨٤٣٩) میں ‘ حافظ الہیشمی نے الجمع ٠١ ص ٩٦٢ میں روایت کیا ہے۔

امام بخاری نے اس کو اپنی صحیح میں خالد بن مخلد کی سند سے حضرت ابوہریرہ سے روایت کیا ہے ‘ حافظ ذہبی نے میزان الاعتدال میں اس پر اعتراض کیا ہے کہ یہ حدیث خالد کی منکرات میں سے ہے اگر امام بخاری کی صحیح کی ہیبت نہ ہوتی تو اس کو خالد کی منکرات میں سے شمار کیا جاتا ‘ حافظ عسقلانی نے فتح الباری ج ١١ ص ١٤٣‘ میں اس کا جواب دیا یہ کہنا کہ یہ حدیث صرف خالد کی سند سے مروی ہے مردود ہے ‘ کیونکہ یہ حدیث متعدد طرق سے مروی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حدیث کی اصل ہے اور انہوں نے حضرت عائشہ کی اس حدیث کا بھی ذکر کیا ہے۔

(مسند احمد ج ٣٤ ( ٣٦٢۔ ٢٦٢‘ مطبوعہ موسستہ الرسالتہ بیروت ‘ ١٢٤١ ھ)

حدیث مذکور کا معجزات اور کرامات کا اصل ہونا :

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ جب میرا محبوب بندہ مجھ سے سوال کرتا ہے تو میں اس کو ضرور بہ ضرور عطا کرتا ہوں اور یہ حدیث معجزہ اور کرامت کی اصل ہے کیونکہ معجزہ میں اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی دعا قبول فرما کر کسی خلاف عادت کام کو ظاہر فرماتا ہے اور کرامت میں اللہ تعالیٰ اپنے ولی کی دعا قبول فرما کر کسی خلاف عادت کام کو ظاہر فرماتا ہے۔

اس طرح معجزہ کی اصل یہ حدیث ہے :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا چھ شخصوں پر میں نے لعنت کی اور ان پر اللہ نے لعنت کی ہے اور ہر نبی مجاب (مستجاب الدعوات) ہے۔ الحدیث ‘ یعنی ہر نبی کی دعا قبول ہوتی ہے۔

(صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٩٤٧٥‘ تحفتہ الاخیار (شرح معانی الآثار) رق الحدیث : ٩١٦٤‘ المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٣٨٨٢‘ المعجم الاوسط رقم الحدیث ٨٨٦١‘ السنتہ لابی العاصم رقم الحدیث : ٧٣٣۔ ٤٤‘ المستدرک ج ١ ص ٦٣‘ ج ٢ ص ٥٢٥‘ ج ٤ ص ٠٩ طبع قدیم ‘ المستدرک رقم الحدیث : ١١٠٧‘ ٠٤٩٣‘ ٢٠١ طبع جدید ‘ مصابیح السنہ رقم الحدیث : ٧٨‘ مشکوۃ المصابیح رقم الحدیث ٩٠١‘ ْمجمع الزوائد ج ١ ص ٦٧١‘ ج ٧ ص ٥٠٢‘ جمع الجوامع رقم الحدیث : ٥٨٨٢١‘ الجامع الصحیح رقم الحدیث : ٠٦٦٤ )

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے علم غیب اور قدرت کے ثبوت کے سلسلہ میں شیخ ابن تیمیہ کی تصریح

شیخ تقی الدین احمد بن تیمیۃ الحرانی المتوفی ٨٢٧ ھ لکھتے ہیں :

لغت میں ہر خلاف عادت کام کو معجزہ کہتے ہیں اور اصطلاح میں معجزہ نبی کے ساتھ مخصوص ہے اور کرامت ولی کے ساتھ مخصوص ہے۔

پس ہم کہتے ہیں کہ صفات کمال کا رجوع تین چیزوں کی طرف ہوتا ہے ‘ َعلم ‘ قدرت اور غنیٰ اور یوں بھی کہا جاسکتا ہے کہ فعل پر قدرت کو تاثیر کہتے ہیں اور ترک پر قدرت کو غنیٰ کہتے ہیں اور یہ تینوں صفات علیٰ وجہ الکمال صرف اللہ عزوجل کے ساتھ مخصوص ہیں کیونکہ اس کا علم ہر عیز کو محیط ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے اور وہی تمام جہانوں سے غنی ہے اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو حکم دیا ہے کہ وہ ان تینوں چیزوں کا دعویٰ کرنے پر برات کا اظہار کریں ‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

ترجمہ ( الانعام ٠٥):۔ آپ کہئے کہ میں تم سے یہ نہیں کہتا ہوں اور نہ میں تم سے یہ کہتا ہوں کہ میں فرشتہ ہوں ‘ میں صرف اسی چیز کی پیروی کرتا ہوں جس کی میری طرف وحی کی جاتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) (ازخود) غیب کو نہیں جانتے اور نہ آپ (ازخود) اللہ کے خزانوں کے مالک ہیں اور نہ آپ فرشتے ہیں کہ کھانے پینے اور مال سے مستغنی ہوں۔ آپ تو صرف اس چیز کی اتباع کرتے ہیں جس کی آپ کی طرف وحی کی جاتی ہے اور آپ کی طرف دین کی ‘ اللہ تعالیٰ کی عبادت کی اور اس کی اطاعت کی وحی کی جاتی ہے اور ان تین چیزوں (علم غیب ‘ اللہ کے خزانے اور مال) میں سے آپ کو صرف اتنی چیزیں حاصل ہیں جتنی آپ کو اللہ تعالیٰ نے عطا کی ہیں۔ آپ کو اسی غیب کا علم ہے جو اللہ نے آپ کو عطا کیا ہے اور آپ کو ان ہی چیزوں پر قدرت حاصل ہے جن چیزوں پر اللہ نے آپ کو قدرت عطا کی ہے اور جن خوارق (معجزات اور کرامات) سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو مستغنی کردیا ہے آپ اس سے مستغنی ہیں۔

اور علم کے باب میں سے یہ خوارق ہیں کہ بعض اوقات انسان ان چیزوں کو سن لیتا ہے جن کو دوسرا سن نہیں سکتا اور بعض اوقات انسان ان چیزوں کو نیند اور بیداری میں دیکھ لیتا ہے جن کو دوسرا دیکھ نہیں سکتا اور بعض اوقات اس کو وحی اور الہام سے یا علم بدیہی کے نازل ہونے سے یا فراست صادقہ سے ان چیزوں کو علم ہوجاتا ہے جن کا دوسروں کو علم نہیں ہوتا اور اس کو اصطلاح میں کشف ‘ مشاہدات ‘ مکاشفات اور مخاطبات کہتے ہیں ‘ پس سننے کو مخاطبات ‘ دیکھنے کو مشاہدات اور علم کو مکاشفہ کہتے ہیں اور جو چیز باب قدرت سے ہو اس کو تاثیر کہتے ہیں اور کبھی یہ تاثیر بندہ کی ہمت سے ظاہر ہوتی ہے اور کبھی اس کی مقبول دعا سے ظاہر ہوتی ہے اور کبھی یہ محض اللہ کے فعل سے ظاہر ہوتی ہے جس میں بندہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا مثلاً اللہ تعالیٰ اس کے دشمن کو ہلاک کردیتا ہے جیسے فرمایا میں اس شخص سے اعلان جنگ کردیتا ہوں جو میرے ولی سے عداوت رکھے ‘ یا اللہ تعالیٰ ان کی محبت میں لوگوں کے دلوں کو جھکا دیتا ہے۔ (مجموع الفتاویٰ ج ١١ ص ٢٧١۔ ٢٧١‘ مطبوعہ دارالجیل ریاض ٨١٤١ ھ)

نیز شیخ ابن تیمیہ لکھتے ہیں :

ہمارے نبی سید نا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے معجزات اور خوارق کی تمام انواع کو جمع کردیا گیا ہے ‘ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جو علم غیب ہے اس کی دلیل یہ ہے کہ آپ نے انبیاء متقدمین کی اور ان کی امتوں کی خبریں دی ہیں اور ان کے احوال بیان کئے ہیں اور ان کے علاوہ اولیاء سابقین کے بھی احوال بیان کئے ہیں۔ ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کی خبریں دی ہیں۔ ملائکہ کے متعلق بیان کیا ہے اور جنت اور دوزخ کے احوال بیان کئے ہیں اور آپ نے ماضی ‘ حال اور مستقبل کی غیب کی خبریں بیان کی ہیں۔

اور جہاں تک آپ کی قدرت اور تاثیر کا تعلق ہے تو آپ نے چاند کو ثق کیا اور جب حضرت علی کی نماز عصر قضا ہوگئی تو آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ڈوبے ہوئے سورج کو لوٹا دیا۔ اس طرح آسمانوں میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا شب معراج جانا بھی اس پر دلیل ہے اور زمین میں آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تصرف یہ ہے کہ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک گئے ‘ اسی طرح جب آپ پہاڑ پر چڑھے تو پہاڑ لرزنے لگا۔ آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی انگلیوں سے پانی جاری ہوا۔ کئی مرتبہ پانی زیادہ ہوا اور کئی مرتبہ طعام زیادہ ہوا اور یہ بہت وسیع باب ہے۔ ہمارا مقصد تمام معجزات کا احاطہ کرنا نہیں ہے بلکہ چند مثالیں دینی ہیں۔ (مجموع الفتاویٰ ج ١١ ص ٥٧١‘ ٤٧١‘ ملخصا مطبوعہ دارالجیل ریاض ‘ ٨١٤١ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 29