أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَخَلَقۡنَا لَهُمۡ مِّنۡ مِّثۡلِهٖ مَا يَرۡكَبُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور ہم نے ان کے لئے اس کشتی کی مثل اور چیزیں پیدا کیں جن پر وہ سوار ہوتے ہیں

عیش و آرام کے حال میں اللہ کی یاد سے غافل نہ ہونا چاہئے

اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اور ہم نے ان کے لئے اس کشتی کی مثل اور چیزیں پیدا کیں جن میں وہ سوار ہوتے ہیں (یٰسٓ: ٢٤ )

مفسرین نے کہا ہے کہ کشتی کی مثل سے مراد اونٹ ہیں کیونکہ اونٹ بھی صحرائی جہاز ہیں اور اس آیت سے مراد یہ ہے کہ اہل مکہ پر قیامت اور حشر و نشر کی صحت پر دلیل قائم کی جائے۔ اس سے پہلی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے موت کے بعد حیات پر پہلے مردہ زمین کو زندہ کرنے سے استدلال فرمایا کیونکہ زمین کی پیداوار ان کی مادی حیات کا سبب ہے ‘ پھر یہ دلیل دی کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہوائوں اور سمندروں کو مسخر کردیا اور ان میں کشتیوں اور بحری جہازوں کو رواں دواں کردیا ‘ جن میں بیٹھ کر وہ تجارتی سفر کرتے ہیں اور اپنی عورتوں اور بچوں کو ساتھ لے کر ایک علاقے سے دوسرے علاقے میں جاتے ہیں ‘ جیسا کہ آیت میں ہے :

ترجمہ (بنی اسرائیل : ٠٧)… اور بیشک ہم نے بنی آدم کو بہت عزت دی ہے اور ہم نے ان کو خشکی اور سمندر میں سفر کی سواریاں دی ہیں اور ان کو پاکیزہ چیزوں سے رزق عطا کیا ہے اور ان کو ہم نے اپنی بہت سی مخلوقات پر فضیلت دی ہے۔

قدیم زمانہ میں انسان اونٹوں ‘ گھوڑوں ‘ خچروں ‘ گدھوں اور بیل گاڑیوں پر سفر کرتے تھے اور اب ٹرینوں ‘ بسوں ‘ ہوائی جہازوں اور بحری جہازوں اور دخانی کشتیوں کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔

اگر یہ شبہ ہو کہ کشتیوں ‘ بحری جہازوں اور ایٹمی آب دوزوں کو تو انسان نے بنایا ہے تو اس کا ازالہ اس طرح ہوگا کہ خود انسان کو کس نے بنایا ہے اور اس کو عقل اور فہم و فراست کس نے عطا کی ہے۔ وہ اللہ ہی تو ہے جس نے نطفہ کی ایک بوند سے جیتا جاگتا انسان کھڑا کردیا اور اس کو ایسی عقل اور فہم عطا فرمائی جس سے کام لے کر وہ ایسی عجیب و غریب اشیاء بنا رہا ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 36 يس آیت نمبر 42