أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاِنَّمَا هِىَ زَجۡرَةٌ وَّاحِدَةٌ فَاِذَا هُمۡ يَنۡظُرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

وہ صرف ایک زور دار جھڑک ہوگی پھر وہ یکایک دیکھنے لگیں گے

زجرۃ کا معنی

الصّٰفّٰت : ١٩ میں زجرۃ کا لفظ ہے ‘ اس کا معنی جھڑکنا ہے ‘ جیسے بکریوں اور اونٹوں کو ہنکاتے ہوئے زور سے ڈانٹتے ہیں ‘ پھر یہ لفظ چیخ کے معنی میں استعمال ہونے لگا ‘ اس سے مراد یہ ہے کہ قیامت کے دن جب صور پھونکا جائے تو ایک زوردار چیخ کی آواز آئے گی جس سے مردے اپنے قبروں سے اٹھ کھڑے ہونگے ‘ اور اس صور کی آواز کو زجرۃ سے اس لیے تعبیر فرمایا ہے کہ یہ آواز جھڑکنے کی آواز کی طرح ہوگی جو مردوں کو قبروں سے اٹھا دے گی اور ان کو ہنکا کر میدان حشر کی طرف لے جائے گی۔

اگر یہ سوال کیا جائے کہ اس چیخ یا جھڑک کا کیا فائدہ ہوگا تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ محض ڈرانے کے لیے ہوگی ‘ اور اگر یہ سوال کیا جائے کہ کیا اس جھڑک کی مردوں کو زندہ کرنے میں کوئی تاثیر ہے ؟ تو اس کا جواب یہ ہے کہ پہلے صور کی آواز سے سب زندہ لوگ مرجائیں گے اور دوسرے صور کی آواز سے سب مردے زندہ ہوجائیں گے ‘ نہ پہلے صور کی موت میں کوئی تاثیر ہے نہ دوسرے صور کی حیات میں کوئی تاثیر ہے۔ بلکہ موت اور حیات کا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے۔

اَلَّذِیْ خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیٰوۃَ. (الملک : ٢) وہ ذات جس نے موت اور حیات کو پیدا کیا

ایک سوال یہ ہے کہ یہ چیخ فرشتوں کی آواز ہوگی یا اس آواز کو اللہ تعالیٰ ابتداء َ پیدا فرمائے گا ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ دونوں صورتیں ہوسکتی ہیں۔ بعض روایات میں ہے کہ حضرت اسرفیل اللہ تعالیٰ کے حکم سے یہ ندا کریں گے کہ اے بوسیدہ اجسام ! اور اے گلی سڑی ہڈیوں اور اے منتشر اجزاء اللہ تعالیٰ کے حکم سے مجمتع ہوجاؤ۔

القرآن – سورۃ نمبر 37 الصافات آیت نمبر 19