أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَسَخَّرۡنَا لَهُ الرِّيۡحَ تَجۡرِىۡ بِاَمۡرِهٖ رُخَآءً حَيۡثُ اَصَابَۙ ۞

ترجمہ:

سو ہم نے ان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا، وہ جس جگہ کا ارادہ کرتے تھے وہ ان کے حکم کے مطابق نرمی سے چلتی تھی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

سو ہم نے ان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا، وہ جس جگہ کا ارادہ کرتے تھے وہ ان کے حکم کے مطابق نرمی سے چلتی تھی اور قوی جنات کو بھی ان کے تابع کردیا، ہر معمار اور غوطہ خور کو اور دوسرے جنات کو بھی جو زنجیروں میں جکڑے ہوئے رہتے تھے یہ ہمارا عطیہ ہے، آپ (جس کو چاہیں) بہ طور احسان عطا کریں یا (جس سے چاہیں) روک لیں، آپ سے کوئی حساب نہیں ہوگا اور بیشک ان کے لیے ضرور ہمارا قرب ہے اور بہترین ٹھکانا ہے (ص ٓ: ٤٠۔ ٣٦)

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے جو ہوائیں مسخر کی گئی تھیں وہ نرم اور ملائم تھیں یا تندوتیز ؟

ص ٓ: ٣٦ میں ” رخساء “ کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے نرمی اور ملائمت، یعنی حضرت سلیمان (علیہ السلام) ہوا کو جب کسی جگہ جانے کا حکم دیتے تھے تو وہ بہت نرمی اور آسانی سے چلتی ہوئی ان کے حکم کی تعمیل کرتی تھی۔

اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ دوسری آیت میں فرمایا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے بہت تیز ہوا کو مسخر کردیا تھا۔ وہ آیت یہ ہے :

ولسلیمن الریح عاصفۃ تجری بامرہ الی الارض التی برکنا فیھا۔ (الانبیاء : ٨١) ہم نے سلیمان کے لیے تیز اور تند ہوا کو مسخر کردیا تھا جو ان کے حکم کے مطابق اس زمین کی طرف چلتی تھی جس میں ہم نے برکت دے رکھی تھی۔ اور اس طرح ان دونوں آیتوں میں بہ ظاہر تعارض معلوم ہوتا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے جس ہوا کو نرمی اور ملائمت سے مسخر کیا ہوا تھا وہ قوت اور طاقت میں تند اور تیز ہوا کے برابر تھی، اس کا دوسرا جواب یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی منشاء کے مطابق کبھی وہ ہوا نرمی اور ملائمت سے چلتی تھی اور کبھی تیزی اور تندی سے چلتی تھی۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 36