أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَقَالَ اِنِّىۡۤ اَحۡبَبۡتُ حُبَّ الۡخَيۡرِ عَنۡ ذِكۡرِ رَبِّىۡ‌ۚ حَتّٰى تَوَارَتۡ بِالۡحِجَابِ ۞

ترجمہ:

تو اس نے کہا : بیشک میں نے نیک مال کی محبت اپنے رب کے ذکر کی وجہ سے اختیار کی ہے حتیٰ کہ جب وہ گھوڑے نگاہ سے اوجھل ہوگئے

تفسیر:

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی گھوڑوں کے ساتھ مشغولیت کی توجیہ

ص ٓ: ٣٢ میں ہے : (حضرت سلیمان نے کہا :) ” بیشک میں نے خیر (نیک مال) کی محبت اپنے رب کے ذکر کی وجہ سے اختیار کی ہے۔ “ اس آیت میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے گھوڑوں پر خیر کا اطلاق فرمایا ہے، اس کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی گھوڑوں پر خیر کا اطلاق فرمایا ہے :

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گھوڑوں کی پیشانیوں میں قیامت تک خیر ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٤٤، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٦٩٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ٢٥٧٢، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧٨٧)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : گھوڑوں کی پیشانیوں میں خیر رکھی دی گئی ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٣٦٤٥، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣٥٧١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٧٤) حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا منشاء یہ تھا کہ چونکہ گھوڑوں پر سوار ہو کر دشمنانِ اسلام کے خلاف جہاد کیا جاتا ہے اور گھوڑوں کے ذریعہ اللہ تعالیٰ کا دین سربلند ہوتا ہے اس لیے میں گھوڑوں سے محبت رکھتا ہوں۔ ص ٓ: ٣٣۔ ٣٢ میں ہے : ” حتیٰ کہ جب وہ گھوڑے نگاہ سے اوجھل ہوگئے تو اس نے حکم دیا کہ ان (گھوڑوں) کو دوبارہ میرے سامنے لائو، پھر وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے “ علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا ایک گول میدان تھا جس میں وہ گھوڑوں کا مقابلہ کرایا کرتے تھے، حتیٰ کہ جب وہ گھوڑے دور نکل کر ان کی آنکھوں سے اوجھل ہوگئے اور اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ سورج غائب ہوگیا اور ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا، کیونکہ اس آیت میں پہلے سورج کا ذکر نہیں ہے کہ اس کی طرف ضمیر لوٹائی جائے، البتہ گھوڑوں کا ذکر ہے، اس لیے اس کا معنی یہ ہے کہ وہ گھوڑے ان کی نظر سے غائب اور اوجھل ہوگئے اور نحاس نے یہ ذکر کیا کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نماز پڑھ رہے تھے تو ان کے پاس مال غنیمت سے حاصل شدہ گھوڑے لائے گئے تاکہ وہ ان کا معائنہ کریں، حضرت سلیمان (علیہ السلام) اس وقت نماز پڑھ رہے تھے، انہوں نے اشارہ کیا کہ ان گھوڑوں کو ان کے اصطبلوں میں پہنچا دیا جائے، حتیٰ کہ وہ گھوڑے ان کی نظر سے اوجھل ہوگئے اور جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نماز سے فارغ ہوگئے تو آپ نے فرمایا : ان گھوڑوں کو دوبارہ میرے پاس لائو، پھر آپ ان کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرنے لگے اور آپ کا ان کی گردنوں پر ہاتھ پھیرنا ان کے اکرام کے لیے تھا۔ تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوجائے کہ اگر کوئی بڑا اور باوقار آدمی گھوڑوں کی گردنوں اور پنڈلیوں پر ہاتھ پھیرے تو یہ کام اس کے مقام اور وقار کے خلاف نہیں ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن جز ١٥ ص ٧٥، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ) امام فخر الدین محمد بن عمررازی متوفی ٦٠٦ ھ نے بھی اسی تفسیر کو راجح قرار دیا ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٣٩٠)

جمہور مفسرین کی بیان کی ہوئی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی گھوڑوں کے ساتھ مشغولیت

زیادہ تر مفسرین نے یہ لکھا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) گھوڑوں کے معائنہ میں اس قدر مشغول ہوئے کہ سورج غروب ہوگیا اور آپ کی نماز قضاء ہوگئی، پھر اس کے غم اور غصہ میں آپ نے گھوڑوں کی گردنوں اور پنڈلیوں کو کاٹ ڈالا۔ امام عبدالرحمن بن علی بن محمد الجوزی المتوفی ٥٩٧ ھ لکھتے ہیں : مفسرین نے کہا ہے کہ : حضرت سلیمان (علیہ السلام) کو گھوڑے دکھائے جاتے رہے اور وہ ان کے معائنہ میں اس قدر منہمک ہوئے کہ سورج غروب ہوگیا اور ان کی عصر کی نماز قضاء ہوگئی اور ان کی لوگوں پر اس قدر ہیبت تھی کہ کوئی شخص یہ جرأت نہ کرسکا کہ ان کو عصر کی نماز یاد دلاتا، پس حضرت سلیمان (علیہ السلام) بھول گئے اور جب سورج غروب ہوگیا تو ان کو یاد آیا کہ انہوں نے عصر کی نماز نہیں پڑھی اور اس وقت انہوں نے یہ کہا : بیشک میں نے نیک مال (یعنی گھوڑوں) کی محبت کو اپنے رب کے ذکر پر ترجیح دی، حتیٰ کہ جب سورج ان کی نگاہ سے اوجھل ہوگیا تو انہوں نے حکم دیا کہ ان گھوڑوں کو دوبارہ ان کے سامنے لائو، پھر وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر تلوار سے ہاتھ مارنے لگے۔ مذکور الصدر تفسیر سعید بن جبیر، ضحاک، قتادہ، زجاج اور سدی سے مروی ہے، مفسرین نے کہا ہے کہ اپنے رب کے ذکر سے ان کی مراد عصر کی نماز ہے، حضرت علی (رض) ، حضرت ابن مسعود اور قتادہ وغیرہم کا یہی قول ہے، زجاج نے کہا : مجھے معلوم نہیں کہ عصر کی نماز ان پر فرض تھی یا نہیں، مگر یہ کہ جس وقت ان گھوڑے پیش کیے گئے تھے اس وقت وہ اپنے رب کا ذکر کیا کرتے تھے۔ اور قرآن مجید میں جو مذکور ہے ” حتی توارت بالحجاب “ اس سے مراد ہے کہ سورج ان کی نظروں سے چھپ گیا، ہرچند کہ اس سے پہلے اس آیت میں سورج کا ذکر نہیں حتیٰ کہ اس کی طرف ” توارت “ کی ضمیر مستتر لوٹائی جائے، مگر سورج کے ذکر پر اس آیت میں قرینہ ہے کیونکہ ص ٓ: ٣١ میں ہے : اذعرض علیہ بالعشی الصفئت الجیاد (ص ٓ: ٣١) جب اس کے سامنے ڈھلے سدھے ہوئے تیز رفتار گھوڑے پیش کیے گئے زوال کے بعد سے غروب آفتاب تک کے وقت کو العشی کہا جاتا ہے، اس کا معنی ہے : غروب آفتاب تک ان کو گھوڑے دکھائے جاتے رہے، اس کے بعد جس کے متعلق فرمایا ہے : ” وہ چھپ گیا “ تو ظاہر ہے وہ سورج ہی ہوسکتا ہے، پس سورج کا ذکر اس سے پہلے العشی کے ضمن میں موجود ہے۔ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے فرمایا تھا : ” ان گھوڑوں کو دوبارہ میرے سامنے لائو۔ “ مفسرین نے اس کی تفسیر میں کہا ہے کہ گھوڑوں کے معائنہ میں مشغول ہونے کی وجہ سے ان کی نماز قضا ہوگئی اور انہوں نے وقت گزارنے کے بعد نماز پڑھی، اس پر غم اور غصہ کی وجہ سے انہوں نے کہا : کہ گھوڑوں کو دوبارہ میرے سامنے لائو، پھر وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ مارنے لگے اور اس کی تفسیر میں تین قول ہیں :

(١) حضرت ابی بن کعب (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے روایت کیا ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر تلوار سے وار کیے اور ان کی پنڈلیوں اور گردنوں کو کاٹ ڈالا۔ (المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٦٩٩٣، مجمع الزوائد، ج ٧ ص ٩٩) امام الحسین بن مسعود البغوی المتوفی ٥٠٦ ھ نے لکھا ہے :

الحسن البصر بیان کرتے ہیں کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے لیے سمندر سے پروں والے گھوڑے نکالے گئے، وہ ظہر کی نماز پڑھنے کے بعد اپنے تخت پر بیٹھ گئے اور ان کا معائنہ کرنے لگے حتیٰ کہ سورج غروب ہوگیا اور ان کی عصر کی نماز فوت ہوگئی، ان کی ہیبت اور ان کے رعب کی وجہ سے کسی نے ان کو عصر کی نماز پر متنبہ نہیں کیا، جب نماز قضا ہوگئی تو انہوں نے دوبارہ گھوڑوں کو منگوایا اور اللہ عزوجل کا قرب اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لیے ان گھوڑوں کی پنڈلیوں اور ان کی گردنوں کو تلوار سے کاٹ ڈالا کیونکہ ان میں مشغول ہونے کی وجہ سے ان کی عصر کی نماز رہ گئی تھی اور گھوڑوں کو کاٹنا ان کے لیے مباح تھا، اگرچہ ہم پر حرام ہے۔ جیسا کہ ہمارے لیے جانوروں کو ذبح کرنا مباح ہے۔ (معالم التنزیل ج ٤ ص ٦٧، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٠ ھ)

امام ابواسحاق احمد بن ابراہیم ثعلبی متوفی ٤٢٧ ھ، علامہ ابوالحسن علی بن محمد الماوردی المتوفی ٤٥٠ ھ، علامہ ابوبکر بن العربی المتوفی ٥٤٣ ھ، علامہ ابن عطیہ اندلسی متوفی ٥٤٦ ھ، حافظ ابن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ، علامہ عبدالرحمن بن محمد الثعالبی المالکی المتوفی ٥٧٥ ھ، علامہ سیوطی متوفی ٩١١ ھ، علامہ اسماعیل حقی متوفی ١١٣٧ ھ، علامہ آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ وغیرھم نے اس آیت کی تفسیر میں اسی تفسیر کو اختیار کیا ہے۔

(٢) اس کی تفسیر میں دوسرا قول یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) گھوڑوں کی محبت کی وجہ سے ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر پیار سے ہاتھ پھیر رہے تھے۔ یہ علی بن ابی طلحہ، حضرت ابن عباس (رض) ، مجاہد، امام ابن جریر اور ابویعلیٰ کا قول ہے۔

(٣) حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے لوہے کو گرم کرکے ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر داغ لگایا، اس قول کو ثعلبی نے نقل کیا ہے۔

مفسرین نے اوّل قول پر اعتماد کیا ہے، انہوں نے کہا کہ گھوڑوں کے معائنہ کی مشغولیت کی وجہ سے نماز قضا ہونے اور بعد میں ان ہی گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر پیار سے ہاتھ پھیرنے میں کیا مناسبت ہے ؟

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ پہلا قول اس لیے فاسد ہے کہ جانوروں کا کیا قصور ہے، پھر ان کو قتل کرکے سزا دینے اور اپنا غم اور غصہ دور کرنے کی کیا توجیہ ہے اور یہ فعل تو جابر بادشاہوں کے حال کے مناسب ہے، انبیاء (علیہم السلام) کی سیرت کے مناسب نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے یہ فعل اس وجہ سے کیا تھا کہ اس کا کرنا ان کے لیے مباح تھا اور یہ ہوسکتا ہے کہ ایک فعل ان کی شریعت میں جائز ہو اور وہ فعل ہماری شریعت میں جائز نہ ہو، علاوہ ازیں یہ بھی ہوسکتا ہے کہ انہوں نے ان گھوڑوں کا گوشت کھانے کے لیے ان کو ذبح کیا ہو اور گھوڑوں کا گوشت کھانا جائز ہے، پس حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا یہ فعل قابل اعتراض نہیں ہے، وہب بن منبہ نے کہا : جب حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے گھوڑوں کی پنڈلیوں اور گردنوں پر وار کیے تو اللہ تعالیٰ نے ان کے اس فعل کو مشکور فرمایا اور گھوڑوں کے بدلہ میں ان کے لیے ہوا کو مسخر کردیا اور ہوا گھوڑوں کی بہ نسبت زیادہ تیز رفتار تھی اور اس کے ذریعہ سفر کرنا زیادہ باعث تعجب تھا۔ (زادالمسیر ج ٧ ص ١٣٢۔ ١٢٩، مکتب اسلامی، بیروت، ١٤٠٧ ھ)

جمہور مفسرین کی بیان کی ہوئی حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی گھوڑوں کے ساتھ مشغولیت پر امام رازی کا رد

جیسا کہ ہم نے اس سے پہلے ذکر کیا کہ جمہور مفسرین نے اس تفسیر کو اختیار کیا ہے، لیکن امام رازی نے اس تفسیر کو حسب ذیل وجوہ سے رد کردیا ہے :

(١) یہ تفسیر اس پر مبنی ہے کہ ” تورات بالحجاب “ کی ضمیر مستتر سورج کی طرف لوٹائی جائے اور اس سے پہلے اس آیت میں سورج کا ذکر نہیں ہے بلکہ سدھے ہوئے تیز رفتار گھوڑوں کا ذکر ہے اور اگر کوئی بعید تاویل کرکے سورج کی طرف ضمیر لوٹائی جائے تو اس سے بہتر ہے کہ بغیر تاویل کے گھوڑوں کی طرف ضمیر لوٹائی جائے، یعنی جب وہ گھوڑے ان کی نظر سے اوجھل ہوگئے تو انہوں نے ان کو دوبارہ بلوایا۔

(٢) اس آیت میں مذکور ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے کہا : میں نے اپنے رب کے ذکر کی وجہ سے خیر (گھوڑوں) سے محبت کی ہے کیونکہ یہ گھوڑے جہاد میں استعمال ہوتے ہیں تو جب ان کی گھوڑوں سے محبت اللہ کے ذکر کی وجہ سے تھی تو پھر یہ روایت صحیح نہیں ہے کہ وہ گھوڑوں کے معائنہ میں مشغول ہونے کی وجہ سے نماز کو بھول گئے یا اللہ کے ذکر کو بھول گئے کیونکہ گھوڑوں کا معائنہ کرنا بھی تو اللہ کے ذکر سے محبت کی وجہ سے تھا، تو وہ معائنہ کے وقت بھی اللہ کے ذکر میں مشغول تھے، لہٰذا یہ روایت صحیح نہیں ہے۔

(٣) اس روایت کے مطابق حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے جب کہا : ” ردوھا “ تو اس کا معنی تھا کہ آپ نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ سورج کو لوٹا دیں، اس پر یہ اعتراض ہے کہ اگر حضرت سلیمان (علیہ السلام) سے نماز عصر قضا ہوگئی تھی تو ان پر لازم تھا کہ وہ توبہ اور استغفار کرتے اور اللہ کی بارگاہ میں روتے اور گڑگڑاتے اور اظہار ندامت کرتے، جیسا کہ انبیاء (علیہم السلام) کا طریقہ ہے کہ اگر ان سے بھولے سے بھی کوئی لغزش ہوجائے تو وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ اور استغفار کرتے ہیں نہ کہ وہ اپنی شان دکھانے کے لیے فرشتوں پر حکم چلاتے اور ان سے کہتے کہ سورج کو دوبارہ لوٹائوتا کہ میں عصر کی قضا نماز پڑھ لوں۔

(٤) قرآن مجید میں ہے :” فطفق مسحا بالسوق والاعناق “ اس روایت میں اس کا معنی یہ بیان کیا گیا ہے کہ حضرت سلیمان نے تلوار سے گھوڑوں کی پنڈلیاں اور گردنیں کاٹ ڈالیں، جب کہ مسح کا معنی ہاتھ پھیرنا ہے نہ کہ تلوار سے کاٹنا، ورنہ لازم آئے گا کہ ” وامسحو برء ئوسکم وارجلکم “ (المائدہ : ٦) کا معنی ہوگا کہ تلوار سے اپنے سروں اور اپنے پیروں کو کاٹ دو اور کوئی عاقل بھی ایسا نہیں کہہ سکتا۔

(٥) جو لوگ اس معنی اور اس روایت کے قائل ہیں انہوں نے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی طرف متعدد افعال مذمومہ کی نسبت کی ہے (١) نماز کو ترک کرنا (٢) ان پر دنیاوی مال کی محبت اس قدر غالب تھی کہ اس کی محبت میں وہ نماز پڑھنا بھول گئے، حالانکہ حدیث میں ہے، حسن بصری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :

وقالوا ربنا عجل لنا قطنا قبل یوم الحساب (ص ٓ: ١٦) اور انہوں نے کہا : اے ہمارے رب ! ہمارا حصہ تو ہمیں روز حساب سے پہلے ہی جلد دے دے جب کافروں نے ایسی جہالت کی بات کی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان کی جہالت پر صبر کیجئے اور ہمارے بندے دائود کو یاد کیجئے، پھر حضرت دائود (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کیا اور پھر اس کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کا قصہ ذکر کیا اور گویا کہ یوں فرمایا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! ان کافروں کی جاہلانہ باتوں پر صبر کیجئے اور ہمارے بندے سلیمان کو یاد کیجئے اور یہ کلام اس وقت مناسب ہوگا جب اس کے بعد حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے اعمال صالحہ اور اخلاق حسنہ ذکر فرمائے ہوں او یہ ذکر فرمایا ہو کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی مشقت پر صبر کیا اور دنیاوی لذتوں سے اعراض کیا اور اگر اس قصہ سے مقصود یہ ہو کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے گھوڑوں کی محبت میں مشغول ہو کر نماز کو ترک کردیا اور پھر فرشتوں کو حکم دیا کہ سورج کو لوٹائیں اور اپنا غصہ گھوڑوں پر نکالا اور ان کی گردنیں اور پنڈلیاں کاٹ ڈالیں تو پھر یہ قصہ اس جگہ ذکر کرنے کے لائق نہیں ہے، کیونکہ اس قصہ میں حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی سیرت میں مخالفین کی ایذاء رسانیوں پر صبر کرنے یا عبادت کی مشقت پر صبر کرنے کا کوئی پہلو نہیں ہے، حتیٰ کہ اس قصہ سے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو صبر کرنے پر ترغیب دی جائے کہ آپ اس طرح صبر کیجئے جس طرح حضرت سلیمان نے صبر کیا تھا۔

حضرت سلیمان (علیہ السلام) کی گھوڑوں کے ساتھ مشغولیت کی صحیح توجیہ

اس لیے اس قصہ کی توجیہ صرف اس طرح صحیح ہے کہ گھوڑوں کو پالنا اور ان کو اصطبل میں رکھنا اس کے دین میں اس طرح پسندیدہ تھا جس طرح ہمارے دین میں گھوڑوں کو جہاد کے لیے رکھنا پسندیدہ ہے، پھر حضرت سلیمان (علیہ السلام) جب جہاد کے لیے جانے لگے تو وہ ایک مجلس میں بیٹھے اور گھوڑوں کو حاضر کرنے کا حکم دیا اور گھوڑوں کی مشق کرانے کے لیے ان کو دوڑانے کا حکم دیا اور یہ فرمایا کہ میں دنیا کی وجہ سے ان گھوڑوں سے محبت نہیں کرتا، بلکہ میں اللہ کے ذکر کی اشاعت اور اس کے دین کی سر بلندی کے لیے گھوڑوں سے محبت کرتا ہوں، کیونکہ جہاد میں ان پر سواری کی جاتی ہے، پھر آپ نے جب گھوڑوں کو دوڑانے کا حکم دیا اور وہ آپ کی نظروں سے اوجھل ہوگئے تو آپ نے ان کو حکم دیا جو گھوڑوں کو مشق کرا رہے تھے کہ وہ گھوڑوں کو واپس لائیں اور جب وہ گھوڑے واپس آگئے تو آپ شفقت سے ان گھوڑوں کی پنڈلیوں اور ان کی گردنوں پر ہاتھ پھیرنے لگے اور ان پر ہاتھ پھیرنے سے حسب ذیل امور مطلوب تھے :

(١) گھوڑوں کی تکریم کرنا اور ان کی قدرومنزلت کو واضح کرنا کیونکہ دشمنان اسلام سے جنگ کرنے میں گھوڑوں کا بہت بڑا حصہ ہے۔

(٢) حضرت سلیمان (علیہ السلام) گھوڑوں کے احوال، ان کی بیماریوں اور ان کے عیوب کو دوسروں کی بہ نسبت خود سب سے زیادہ جانتے تھے، اس لیے وہ ان کی پنڈلیوں اور گردنوں پر ہاتھ پھیر کر یہ جانچ رہے تھے کہ ان میں کوئی عیب یا مرض تو نہیں ہے۔ قرآن مجید کی ان آیتوں کی یہ تفسیر جو ہم نے ذکر کی ہے، یہ قرآن مجید کے الفاظ کے بالکل مطابق اور موافق ہے اور اس تفسیر پر ان اعتراضات میں سے کوئی اعتراض لازم نہیں آتا جو اکثر مفسرین کی تفسیر پر لازم آتے ہیں اور مجھے اس پر سخت تعجب ہوتا ہے کہ ان مفسرین نے ان کمزور وجوہ اور اس روایت کو کیسے قبول کرلیا جب کہ اس روایت کی تائید میں ان کے پاس کوئی شبہ بھی نہیں ہے چہ جائیکہ کوئی دلیل ہو۔ اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ جمہور علماء اور مفسرین نے اس تفسیر کو اختیار کیا ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی عصمت پر یہ بہ کثرت دلائل قائم ہیں اور ان حکایات کی صحت پر کوئی دلیل نہیں ہے اور اگر خبر واحد صحیح بھی ہو تو وہ دلائل قطعیہ سے مزاحم ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتی تو اس ضعیف روایت میں کب اتنا دم ہے کہ وہ عصمت انبیاء کے دلائل قطعیہ کے مزاحم ہو سکے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٣٩٢۔ ٣٩٠، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 38 ص آیت نمبر 32