أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّاۤ اَنۡزَلۡنَاۤ اِلَيۡكَ الۡكِتٰبَ بِالۡحَقِّ فَاعۡبُدِ اللّٰهَ مُخۡلِصًا لَّهُ الدِّيۡنَ ۞

ترجمہ:

بیشک ہم نے (اس) کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل کیا ہے، سو آپ اللہ کی عبادت کرتے رہیے اخلاص کے ساتھ اس کی اطاعت کرتے ہوئے

الزمر : ٢ میں فرمایا : ” ہم نے (اس) کتاب کو آپ کی طرف حق کے ساتھ نازل کیا ہے۔ “

اس کا معنی ٰ ہے : اس کتاب میں جو ماضی اور مستقبل کی خبریں دی گئیں ہیں وہ سب حق اور صادق ہیں اور کتاب میں جو احکام شرعیہ بیان کیے گئے ہیں وہ سب حکمت اور مصلحت پر مبنی ہیں۔ اس کے بعد فرمایا : ” سو آپ اللہ کی عبادت کرتے رہیے، اخلاص کے ساتھ اس کی اطاعت کرتے ہوئے، سنو ! خالص اطاعت اللہ ہی کے لیے ہے۔ “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اخلاص کے ساتھ اپنی اطاعت اور عبادت کرنے کا حکم دیا ہے، ہم اس کی تفسیر میں اخلاص کا لغوی اور اصطلاحی معنی، اخلاص کی حقیقت، اخلاص کے متعلق احادیث اور اقوال علماء بیان کریں گے۔

اخلاص کا لغوی معنیٰ

جس چیز کو کاٹ چھانٹ کر اور تراش خراش کے بعد درست اور مہذب کرلیا جائے یا میل کچیل سے صاف کرلیا جائے یا جو چیز دوسری چیزوں کی آمیزش اور ملاوٹ سے مجرد ہو اس کو خالص کہتے ہیں۔

اخلاص کا اصطلاحی معنیٰ

دل کو ہر اس چیز کی آمیزش سے خالی رکھنا جو اس کو مکدرا اور میلا کرتی ہو، اخلاص ہے اور کسی چیز کو ہر اس چیز کی ملاوٹ سے محفوظ رکھنا جس کی اس میں ملاوٹ ہوسکتی ہو، اخلاص ہے۔ ایک قول ہے : نیت، قول اور عمل کو صاف رکھنا اخلاص ہے۔ (التوقیف علی مہمات التعاریف للمنادی ص ٤٢) علامہ جرجانی نے کہا : جب تم اپنے عمل پر اللہ کے سوا کسی اور کو گواہ نہ بنائو تو یہ اخلاص ہے۔ (التعریفات ص : ١٣)

اخلاص کی حقیقت

اللہ کے ماسوا اسے بری ہونا اخلاص ہے، دین میں اخلاص یہ ہے کہ یہود اور نصاریٰ نے جو الوہیت میں دوسروں کو ملا رکھا ہے اس سے برأت کا اظہار کیا جائے۔ یہودیوں نے حضرت عزیز کو اور عیسائیوں نے حضرت عیسیٰ کو الوہیت میں ملارکھا ہے اور اطاعت اور عبادت میں اخلاص یہ ہے کہ صرف اللہ کے لیے عمل کیا جائے، مخلوق کو دکھانے اور سنانے کے لیے عمل نہ کیا جائے، دنیا کی جن چیزوں کی طرف دل مائل ہوتا ہے اور دنیا کی جن چیزوں سے نفس کو راحت ملتی ہے، جس انسان کے کسی عمل میں ان چیزوں کی آمیزش ہوجاتی ہے تو اس سے اس عمل کی صفائی مکدر اور میلی ہوجاتی ہے اور اخلاص زائل ہوجاتا ہے اور انسان ایسی چیزوں کے اشتیاق اور حصول میں ڈوبا ہوا ہے اور اس کی اطاعت اور اس کی عبادت کے افعال اس قسم کی اغراض سے بہت کم خالی ہوتے ہیں، اسی لیے کہا گیا ہے کہ جس شخص کی پوری زندگی میں اللہ کے لیے اخلاص کا ایک لمحہ بھی نصیب ہوجائے اس کی نجات ہوجاتی ہے اور دل کو ان چیزوں کی آمیزش سے خالی کرنا بہت مشکل ہے اور اخلاص یہ ہے کہ دل میں اللہ عزوجل کے قرب کے سوا اور کسی چیز کی طلب نہ ہو۔ (احیاء العلوم ج ٤ ص ٣٣٠۔ ٣٢٩، دارلکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٩ ھ) خلاصہ یہ ہے کہ قول اور عمل کو دکھاوے اور شہرت کی آمیزش سے خالی کرنا اخلاص ہے، چہ جائیکہ اس پر کسی عوض کو طلب کیا جائے۔

اخلاص کی ترغیب اور ترہیب کے متعلق احادیث

حضرت ابو امامہ باہلی (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کیا : یہ بتائیے، ایک شخص نے اجرت اور شہرت کی طلب میں جہاد کیا ہو اس کو کیا ملے گا ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو کچھ نہیں ملے گا، اس نے تین مرتبہ سوال دہرایا، آپ نے ہر بار یہی جواب دیا، پھر آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ صرف اس عمل کو قبول فرماتا ہے جو خالص اس کے لیے کیا جائے اور اس عمل سے صرف اس کی رضا کو طلب کیا جائے۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ٣١٤٠، مسند احمد ج ٤ ص ٢٦، السنن الکبری للبیہقی ج ٩ ص ٢٨٢)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تبارک وتعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : میں تمام مشرکوں کے شرک سے مستغنی ہوں، جس نے کوئی ایسا عمل کیا جس میں میرے غیر کو شریک کیا میں اس کے عمل کو اور اس کے شرک کو ترک کردیتا ہوں، وہ عمل اس کے لیے ہے جس کو اس نے شریک کیا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٨٥، مسند احمد ج ٢ ص ٣٠١، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٩٣٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٩٥)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ تمہاری صورتوں اور تمہارے مالوں کی طرف نہیں دیکھتا لیکن وہ تمہارے دلوں اور تمہارے اعمال کی طرف دیکھتا ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥٦٤)

حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اعمال کا مدار نیات پر ہے اور ہر شخص کو وہی ملے گا جس کی اس نے نیت کی ہے، پس جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف محسوب ہوگی اور جس کی ہجرت اس دنیا کی طرف ہو جس کو وہ حال کرے یا کسی عورت کی طرف ہو جس سے وہ نکاح کرے تو اس کی ہجرت اسی کی طرف شمار کی جائے گی۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٠٧، جامع المسانید السنن مسند عمر بن الخطاب : ٣٩٤)

حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ ایک غزوہ میں تھے، آپ نے فرمایا : مدینہ میں کچھ ایسے لوگ ہیں کہ تم جس منزل پر پہنچے اور جس وادی میں بھی گئے وہ تمہارے ساتھ تھے، وہ کسی بیماری کی وجہ سے ہمارے ساتھ نہیں جاسکے تھے، ایک روایت میں ہے : وہ اجر میں تمہارے شریک ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٢٨٣٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩١١، جامع المسانید والسنن مسند جابر رقم الحدیث : ١١٩٧)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے کہا : یارسول اللہ ! ایک شخص اللہ کی راہ میں جہاد کرتا ہے اور وہ اس کے عوض دنیا کی کوئی چیز طلب کرتا ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اس کو کوئی اجر نہیں ملے گا، لوگوں پر یہ جواب بہت شاق گزرا، اس شخص نے دوبارہ پوچھا، آپ نے فرمایا : اس کو کوئی اجر نہیں ملے گا، حاکم اور ذہبی نے کہا : اس حدیث کی سندصحیح ہے۔ (المستدرک ج ٢ ص ٣٧١ قدیم، المستدرک رقم الحدیث : ٣٤٠٤)

حضرت ابو سعید بن ابی فضالہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب اللہ اولین اور آخرین کو قیامت کے اس دن جمع فرمائے گا جس دن کے تحقق میں کوئی شبہ نہیں ہے تو ایک منادی یہ نداء کرے گا : جس نے اللہ کے لیے کوئی عمل کیا اور اس میں کسی کو شریک کیا وہ اس کے ثواب کو اللہ کے غیر سے طلب کرے کیونکہ اللہ تمام شرکاء کے شرک سے مستغنی ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣١٥٤، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٠٣، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٤٠٤، المعجم الکبیر ج ٢٢، رقم الحدیث : ٧٧٨)

حضرت ابوسعید (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہمارے پاس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تشریف لائے، اس وقت ہم مسیح دجال کا ذکر کررہے تھے، آپ نے فرمایا : کیا میں تم کو اس چیز کی خبر نہ دوں جو تمہارے لیے مسیح دجال سے زیادہ خطرناک ہے ؟ ہم نے کہا : کیوں نہیں ! آپ نے فرمایا : وہ شرک خفی ہے، ایک شخص نماز پڑھتا ہے، پھر وہ دیکھتا ہے کہ کوئی شخص اس کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھ رہا ہے تو وہ زیادہ اچھی نماز پڑھنے لگتا ہے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٠٤، المسند الجامع ج ٦ ص ١٨٠، جامع المسانید والسنن مسند ابی سعیدالخدری رقم الحدیث : ٤٦٦)
حضرت شداد بن اوس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مجھے اپنی امت پر سب سے زیادہ خطرہ اللہ کے ساتھ شریک کرنے کا ہے اور میں یہ نہیں کہتا کہ وہ سورج یا چاند یا بت کی پرستش کریں گے لیکن وہ غیر اللہ کے لیے عمل کریں گے اور شہوت خفیہ (ریاکاری) کریں گے۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤٢٠٥، مسند احمد ج ٤ ص ١٢٣ )

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص لوگوں کو دکھانے کے لیے عمل کرتا ہے اللہ اس (کی سزا) کو دکھائے گا اور جو شخص لوگوکو سنانے کے لیے عمل کرتا ہے اللہ اس (کی سزا) کو سنائے گا۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٤٩٩، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٩٨٦، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٧٧٨، مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ١٥٢٤، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٠٦، شرح السنۃ رقم الحدیث : ٤١٣٤، جامع المسانید والسنن مسند ابی سعید الخدری رقم الحدیث : ٧٠٧)

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قیامت کے دن ایسے صحائف اعمال کو لایا جائے گا جن پر مہر لگی ہوگی، پس ان کو اللہ عزوجل کے سامنے رکھ دیا جائے گا، اللہ عزوجل فرشتوں سے فرمائے گا : ان صحائف کو پھینک دو اور ان کو قبول کرلو، فرشتے عرض کریں گے : تیری عزت کی قسم ! ہم نے تو سوا خیر کے اور کچھ نہیں دیکھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا اور وہ بہت جاننے والا ہے : یہ اعمال میرے غیر کے لیے کیے گئے تھے اور آج میں صرف اسی عمل کو قبول کروں گا جو میری رضا کی طلب کے لیے کیا گیا ہو۔ (سنن دار قطنی ج ١ ص ٥٠، رقم الحدیث : ١٢٩، کتاب اضعفاء للعقیلی ج ١ ص ٢١٨، جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٨٣١٥، اتحافات رقم الحدیث : ٣٠٤)

ضحاک بن قیس فہری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : میں سب سے بہتر شریک ہوں، جس نے کسی عمل میں میرے ساتھ کسی کو شریک کیا تو وہ عمل میرے شریک کے لیے ہے، اے لوگو ! اللہ عزوجل کے لیے اخلاص سے عمل کرو، کیونکہ اللہ اسی عمل کو قبول فرماتا ہے جو اس کے لیے اخلاص سے کیا گیا ہو اور یوں نہ کہا کرو کہ یہ عمل اللہ کے لیے ہے اور یہ رشتہ داروں کے لیے ہے، کیونکہ پھر وہ عمل رشتہ داروں ہی کے لیے ہوگا، اللہ کے لیے نہیں ہوگا اور نہ یوں کہا کرو کہ یہ عمل اللہ کے لیے ہے اور یہ تمہارے لیے ہے کیونکہ پھر وہ تمہارے ہی لیے ہوگا اور اللہ کے لیے بالکل نہیں ہوگا۔ (سنن دار قطنی ج ١ ص ٥٠، رقم الحدیث : ١٣٠)

شمر بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے دن ایک شخص کو حساب کے لیے لایا جائے گا اور اس کے صحیفہ اعمال میں پہاڑوں کے برابر نیکیاں ہوں گی، رب العزت فرمائے گا : تو نے فلاں دن نمازیں پڑھیں تاکہ یہ کہا جائے کہ یہ نمازی ہے، میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، میرے لیے صرف وہ عبادات ہیں جو خالص میرے لیے ہوں۔ تو نے فلاں فلاں روزے رکھے تاکہ یہ کہا جائے کہ یہ روزہ دار ہے، میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، میرے لیے صرف وہ عبادات ہیں جو خالص میرے لیے ہوں۔ تو نے فلاں فلاں صدقہ کیا تاکہ یہ کہا جائے کہ فلاں بندہ نے صدقہ کیا، میں اللہ ہوں، میرے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے، میرے لیے صرف وہ عبادات ہیں جو خالص میرے لیے ہوں، پھر وہ اس کے صحیفہ میں سے ایک کے بعد ایک عمل کو مٹاتا رہے گا، پھر اس سے فرشتہ کہے گا اے فلاں شخص ! تو اللہ کے غیر کے لیے عمل کرتا تھا۔ (جامع البیان جز ٢٣ ص ٢٢٧، رقم الحدیث : ٢٣١١٦)

اخلاص کے متعلق اقوال علماء

اللہ عزوجل نے یہ حکم دیا ہے کہ تذلل، عاجزی اور اخلاص کے ساتھ اس کی اطاعت اور عبادت کی جائے اور یہ آیت اعمال کے اخلاص اور ریاکاری سے برأت میں اصل ہے، حتیٰ کہ بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ جس شخص نے ٹھنڈک حاصل کرنے کے لیے غسل کیا یا وزن کم کرنے کے لیے روزے رکھے اور اس کے ساتھ عبادت کی بھی نیت کی تو جائز نہیں ہے کیونکہ اس نے عبادت میں دنیاوی فوائد کی نیت شامل کرلی ہے اور یہ اللہ کے لیے خالص عمل نہیں ہے جب کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

الا للہ الدین الخالص۔ (الزمر : ٣) وما امروا الا لیعبدوا اللہ مخلصین لہ الدین۔ (البیۃ : ٥)

سنو ! خالص اطاعت اللہ کے لیے ہے۔ اور انہیں صرف یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ اخلاص سے اطاعت کرتے ہوئے اللہ کی عبادت کریں۔

اسی طرح فقہاء نے یہ کہا ہے کہ جب امام رکوع میں ہو اور وہ کسی کے آنے کی آہٹ محسوس کرے تو اس کے جماعت میں شامل ہونے کے لیے اپنی مقررہ تسبیحات میں اضافہ نہ کرے، کیونکہ وہ زائد تسبیحات اللہ کے لیے نہیں ہوں گی، بلکہ اس شخص کو جماعت میں شامل کرنے کے لیے ہوں گی۔ سہل بن عبداللہ التستری (رض) نے کہا : ریا کی تین قسمیں ہیں :

(١) کوئی شخص اصل فعل کو غیر اللہ کے لیے کرے اور اس کا ارادہ یہ ہو کہ لوگ یہ سمجھیں کہ وہ یہ فعل اللہ کے لیے کررہا ہے، یہ نفاق کی ایک قسم ہے اور اس شخص کا ایمان مشکوک ہے۔

(٢) انسان کوئی نیک کام کرے اور جب لوگوں کو اس کی نیکی کا علم ہو تو وہ خوش ہو، اس کی توبہ یہ ہے کہ وہ اس عمل کو دہرائے۔

(٣) کسی شخص نے اخلاص کے ساتھ کوئی کام کیا، لوگوں کو اس کام کا علم ہوگیا اور انہوں نے اس کی تعریف اور تحسین کی اور وہ اس تعریف کو سن کر خاموش رہا تو یہ بھی ریا ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے منع کیا ہے۔ مؤخر الذکر ریا کی دونوں قسموں کی وضاحت اس حدیث سے ہوتی ہے : سلیمان بن یسار کہتے ہیں کہ جب لوگ حضرت ابوہریرہ (رض) کے پاس سے چھٹ گئے تو اہل شام میں سے ناتل نامی ایک شخص نے کہا : اے شیخ ! آپ مجھے وہ حدیث سنائیے جو آپ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنی ہو، آپ نے فرمایا : ہاں ! میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا ہے کہ قیامت کی دن سب سے پہلے جس شخص کے متعلق فیصلہ کیا جائے گا وہ شہید ہوگا، اس کو بلایا جائے گا اور اسے ان کی نعمتیں دکھائی جائیں گی، جب وہ ان نعمتوں کو پہچان لے گا تو (اللہ تعالیٰ ) فرمائے گا : تو نے ان نعمتوں سے کیا کام لیا ؟ وہ کہے گا : میں نے تیری راہ میں جہاد کیا حتیٰ کہ شہید ہوگیا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو جھوٹ بولتا ہے، بلکہ تو نے اس لیے قتال کیا تھا تاکہ تو بہادر کہلائے، سو تجھے بہادر کہا گیا، پھر اس کو منہ کے بل جہنم میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا، حتیٰ کہ اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور ایک شخص نے علم حاصل کیا اور لوگوں کو تعلیم دی اور قرآن مجید پڑھا، اس کو بلایا جائے گا اور اس کو اس کی نعمتیں دکھائیں جائیں گی، جب وہ ان نعمتوں کو پہچان لے گا تو (اللہ تعالیٰ ) اس سے فرمائے گا : تو نے ان نعمتوں سے کیا کام لیا ؟ وہ کہے گا : میں نے علم حاصل کیا اور اس علم کو سکھلایا اور تیرے لیے قرآن مجید پڑھا، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو جھوٹ بولتا ہے، تو نے اس لیے علم حاصل کیا تھا تاکہ تو عالم کہلائے اور تو نے قرآن پڑھا تاکہ تو قاری کہلائے، سو تجھے (عالم اور قاری) کہا گیا، پھر اس کو منہ کے بل جہنم میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا، حتیٰ کہ اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا اور ایک شخص پر اللہ نے وسعت کی اور اس کو ہر قسم کا مال عطا کیا، اس کو قیامت کے دن بلایا جائے گا اور وہ نعمتیں دکھائی جائیں گی اور جب وہ ان نعمتوں کو پہچان لے گا تو اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو نے ان نعمتوں سے کیا کام لیا ؟ وہ کہے گا : میں نے ہر اس راستہ میں خرچ کیا جس راستہ میں مال خرچ کرنا تجھ کو پسند ہے، اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تو جھوٹ بولتا ہے، تو نے یہ کام اس لیے کیے تاکہ تجھ کو سخی کہا جائے، سو تجھ کو سخی کہا گیا، پھر اس کے منہ کے بل جہنم میں ڈالنے کا حکم دیا جائے گا اور پھر اس کو آگ میں ڈال دیا جائے گا۔ امام ترمذی نے روایت کیا ہے کہ حضرت ابوہریرہ (رض) اس حدیث کو بیان کرنے سے پہلے تین بار خوف سے بےہوش ہوگئے تھے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٩٠٥، سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣٨٣، سنن النسائی رقم الحدیث : ٣١٣٧، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث ٢٤٨٢، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٤٠٨، شرح السنہ رقم الحدیث : ٤١٤٣، سنن کبری للبہیقی ج ٩ ص ١٦٨) حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب الحزن سے پناہ مانگا کرو، مسلمانوں نے کہا : یارسول اللہ ! جب الحزن کیا چیز ہے ؟ فرمایا : وہ جہنم میں ایک وادی ہے جس سے جہنم بھی ہر روز سو مرتبہ پناہ طلب کرتا ہے ؟ ہم نے عرض کیا : یارسول اللہ ! اس میں کون داخل ہوگا ؟ فرمایا : وہ قاری جو دکھانے کے لیے عمل کرتے ہیں۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٢٣٨٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٦٥٦، الکامل لابن عدی ج ٥ ص ١٧٢٧ )

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں : کسی آدمی کے نیک اعمال پر اس کی تعریف اور تحسین کی جائے اور وہ تعریف تحسین سن کر اس لیے خوش ہوتا کہ لوگوں کے دلوں میں اس کی قدر ومنزلت بیٹھ جائے اور وہ اس کو نیک اور بزرگ جانیں اور وہ ان سے دنیاوی مال ومتاع حاصل کرے تو اس کی یہ نیت مذموم ہے اور جو شخص یہ پسند نہ کرتا ہو کہ لوگ اس کے نیک کاموں پر مطلع ہوں اور اللہ اس کی نیکیوں پر لوگوں کو مطلع کردے، پھر وہ اس وجہ سے خوش ہو کہ یہ اس پر اللہ کا فضل اور انعام ہے، تو پھر اس کی یہ خوشی مستحسن اور محمود ہے، قرآن مجید میں ہے : قل بفضل اللّٰہ وبرحمتہ فبذلک فلیفر حواط ھو خیر مما یجمعون (یونس : ٥٨) آپ کہیے کہ اللہ کے فضل اور اس کی رحمت سے ہی لوگوں کو خوش ہونا چاہیے (اس کا فضل) اس سے بہت بہتر ہے جس کو وہ جمع کررہے ہیں اس مسئلہ کو پوری تفصیل سے محاسبی نے کتاب ” الرعایۃ “ میں لکھا ہے، ایک حدیث میں ہے : میں عمل کو مخفی رکھتا ہوں، پھر لوگ اس پر مطلع ہوتے ہیں تو مجھے خوشی ہوتی ہے، سہل نے اس حدیث کی تشریح میں کہا : خوش اس وجہ سے ہو کہ اللہ نے اپنی نعمت کو اس پر ظاہر کردیا۔ سہل بیان کرتے ہیں کہ لقمان نے اپنے بیٹے سے کہا : ریا یہ ہے کہ تم اپنے عمل کا ثواب دنیا میں طلب کرو اور لوگ اپنا عمل آخرت کے لیے کرتے ہیں، لقمان سے پوچھا گیا کہ ریا کو دوا کیا ہے ؟ انہوں نے کہا : اس کی دوا عمل چھپانا ہے، ان سے پوچھا گیا : عمل کس طرح چھپایا جائے ؟ انہوں نے کہا : تمہیں جس عمل کے اظہار کا مکلف کیا گیا ہے اس عمل کو اخلاص کے بغیر نہ کرو اور تم کو جس عمل کے اظہار کا مکلف نہیں کیا گیا اس میں یہ پسند کرو کہ اللہ کے سوا کوئی اس عمل پر مطلع نہ ہوسکے اور تمہارے جس عمل پر لوگ مطلع ہوجائیں اس کو اپنے اعمال میں شمار نہ کرو اور ایوب سختیانی نے کہا : جو شخص یہ پسند کرتا ہو کہ لوگ اس کے عمل کو جانیں وہ شخص صاحب عقل نہیں ہے۔ (الجامع لا حکام القرآن ملخصا وموضحاجز ٥ ص ١٥٩، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 2