أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاعۡبُدُوۡا مَا شِئۡتُمۡ مِّنۡ دُوۡنِهٖ‌ ؕ قُلۡ اِنَّ الۡخٰسِرِيۡنَ الَّذِيۡنَ خَسِرُوۡۤا اَنۡـفُسَهُمۡ وَ اَهۡلِيۡهِمۡ يَوۡمَ الۡقِيٰمَةِ‌ ؕ اَلَا ذٰ لِكَ هُوَ الۡخُسۡرَانُ الۡمُبِيۡنُ ۞

ترجمہ:

پس تم اس کے سوا جس کی عبادت کرتے ہو کرتے رہو، آپ کہیے : بیشک نقصان اٹھانے والے تو وہی لوگ ہیں جو خود اور ان کے اہل و عیال قیامت کے دن نقصان اٹھائیں گے، سو یہی کھلا ہوا نقصان ہے

الزمر : ١٥ میں فرمایا : پس تم اس کے سوا جس کی عبادت کرتے ہو، کرتے رہو۔ “ اس سے مراد یہ نہیں ہے کہ مشرکین کو غیر اللہ کی عبادت کرنے کا حکم دیا جارہا ہے، بلکہ اس سے مراد ان کو زجر وتوبیخ اور ڈانٹ ڈپٹ اور لعنت ملامت کرنا ہے، جیسے کوئی شخص کسی کو بار بار سمجھائے اور وہ پھر بھی نہ مانے تو وہ کہتا ہے : اچھا جو تمہارا دل چاہے کرو۔ اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اس کے بعد فرمایا : آپ کہیے : ” بیشک نقصان اٹھانے والے تو وہی لوگ ہیں جو اور ان کے اہل و عیال قیامت کے دن نقصان اٹھائیں گے، سنو یہی کھلا ہوا نقصان ہے “ مشرکین کو اور ان کے اہل و عیال کو جو نقصان ہوگا اس کے متعلق حسب ذیل اقوال ہیں :

(١) مجاہد اور ابن زید نے کہا : ان کا اپنا نقصان یہ ہے کہ وہ دوزخ میں ہوں گے اور ان کے اہل کا نقصان یہ ہے کہ جس طرح دنیا میں ان کے اہل و عیال تھے اس طرح دوزخ میں ان کے اہل و عیال ہوں گے۔

(٢) حسن اور قتادہ نے کہا : ان کا اپنا نقصان یہ ہے کہ وہ جنت سے محروم ہوگئے اور اہل کا نقصان یہ ہے کہ ان کو جنت میں حوریں ملتیں وہ ان سے محروم ہوگئے۔

(٣) ان کا اپنا نقصان یہ ہے کہ وہ اپنے کفر کی وجہ سے دوزخ میں گئے اور اہل کا نقصان یہ ہے کہ اگر بالفرض ان کے اہل ایمان لے آئے تو وہ جنت میں ہوں گے اور یہ دوزخ میں ہوں گے۔ (النکت والعیون ج ٥ ص ١١٩، زادالمسیر ج ٧ ص ١٦٩)

آخرت میں کفار کے نقصان کے متعلق حسب ذیل احادیث ہیں : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کوئی شخص اس وقت تک جنت میں داخل نہیں ہوگا حتیٰ کہ دوزخ میں اپنا ٹھکانہ نہ دیکھ لے، تاکہ وہ زیادہ شکرادا کرے اور کوئی شخص اس وقت تک دوزخ میں نہیں داخل ہوگا حتیٰ کہ جنت میں اپنا ٹھکانہ نہ دیکھ لے، اگر وہ (اسلام لاکر) نیک عمل کرتا تو جنت میں داخل ہوتا۔ تاکہ اس کی حسرت زیادہ ہو۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٦٥٦٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٧٤٥١، مسند احمد ج ٢ ص ٥٤٠ ھ، البعث والنشور رقم الحدیث : ٢٤٤)

امام ابواسحق الثعلبی المتوفی ٤٢٧ ھ اور امام الحسین بن مسعود البغوی المتوفی ٥١٦ ھ نے اس حدیث کو تعلیقاً روایت کیا ہے۔ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کے لیے جنت میں گھر اور اہل بنائے ہیں۔ پس جو شخص اللہ عزوجل کی اطاعت کرتا ہے اس کو وہ گھر اور اہل مل جاتے ہیں اور جو شخص اللہ تعالیٰ کا کفر اور نافرمانی کرتا ہے اس کو اللہ تعالیٰ پکڑ کر دوزخ میں ڈال دیتا ہے اور جنت میں اس کا جو گھر ہوتا ہے وہ مومن کو بطور میراث دے دیا جاتا ہے اور یہ اس کا کھلا ہوا نقصان ہے۔ (الکشف والبیان ج ٨ ص ٢٢٧، معالم التنزیل ج ٤ ص ٨٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت)

کفار کے نقصان زدہ ہونے کی عقلی وجوہ

کفار کے نقصان کی عقلی وجوہ یہ ہیں کہ :

(١) اللہ تعالیٰ نے انسان کو حیات اور عقل عطا کی ہے اور اس کو عقل کے ساتھ اپنے اعضاء پر تصرف کرنے کی قدرت عطا کی ہے تاکہ وہ اس زندگی میں ایمان لائے اور نیک کام کرے اور آخرت میں اس کا اجر وثواب حاصل ہو، پھر جب اس نے اپنی عقل سے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل نہیں کی اور نہ اس نے نیک کام کیے تو اس کو کمائی کرنے کے لیے جو پونجی ملی تھی وہ اس نے ضائع کردی۔

(٢) بعض اوقات انسان اپنی جمع پونچی سے کوئی نفع تو حاصل نہیں کرپاتا لیکن وہ نقصان سے محفوظ رہتا ہے اور آفات وبلیات سے بچا رہتا ہے، انسان کا نفع جنت ہے اور اس کا نقصان دوزخ ہے اور یہ کفار نہ صرف یہ کہ جنت سے محروم رہے بلکہ دوزخ کا ایندھن بنے اور یہ ان کا کھلا ہوا نقصان ہے۔

(٣) انہوں نے اپنی گمراہی پر جمے رہنے کے لیے بہت مشکلات اٹھائیں اور جب سے دنیا بنی ہے انہوں نے اپنے باطل خدائوں کی حمایت میں متعدد جنگیں لڑیں اور ہر جنگ میں یہ قید ہوئے اور مارے گئے اور اب تک یہ اپنے باطل مذہب کی حمایت اور مدافعت میں قید وبند کی صعوبتیں برداشت کررہے ہیں اور مر رہے ہیں اور ان کی یہ جسمانی قربانیاں بالکل بےسود اور رائیگاں ہیں اور یہ ان کا کھلا ہوا نقصان ہے۔

(٤) جیسے ہی فرشتے ان کی روح قبض کرتے ہیں ان کی اصل پونچی ان کے ہاتھوں سے جاتی رہتی ہے اور اس کے مقابلہ میں ان کے ہاتھ کچھ نہیں آتا۔

القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 15