أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّكَ مَيِّتٌ وَّاِنَّهُمۡ مَّيِّتُوۡنَ ۞

ترجمہ:

بیشک آپ پر موت آنی ہے اور بیشک یہ بھی مرنے والے ہیں

تفسیر:

الزمر : ٣٠ میں فرمایا : ” بیشک آپ پر موت آئی ہے اور بیشک یہ بھی مرنے والے ہیں “

ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت اور کفار کی موت کا فرق

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ قرآن مجید نے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور کفار دونوں کو موت بیان کی ہے اور دونوں جگہ موت کا ایک جیسا صیغہ استعمال فرمایا ہے اور دونوں کو میت فرمایا ہے تو پھر تم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو زندہ اور کفار کو مردہ کیوں کہتے ہو ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ” انک میست “ میں میت نکرہ ہے اور ” انھم میتون “ میں بھی میت نکرہ ہے اور اصول فقہ میں یہ قاعدہ مقرر ہے کہ جب نکرہ کا دوبارہ ذکر کیا جائے تو دوسرا نکرہ پہلے نکرہ کا غیر ہوتا ہے۔ سو کفار پر جو موت آئے گی وہ اس موت کی غیر ہے جو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر آئی تھی۔ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک آن کے لیے موت آئی، پھر آپ کو حیات جاودانی عطا فرمادی گئی اور شرعی تقاضوں کو پورا کرنے کے لیے آپ کو غسل دیا گیا، کفن پہنایا گیا، آپ کی نماز جنازہ پڑھی گئی اور آپ کو آپ کے حجرہ مبارکہ میں دفن کیا گیا اور قبر میں آپ کو حقیقی اور جسمانی حیات عطا کی گئی اور کفار بالکل مردہ ہوتے ہیں، صرف عذاب قبر پہنچانے کے لیے ان کو ایک نوع کی بزرخی حیات عطا کی جاتی ہے۔ ہم پہلے اس آیت کی تفسیر میں متقدمین کی تفاسیر کو نقل کریں گے، پھر انبیاء (علیہم السلام) کی حیات پر عموماً اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات پر خصوصاً دلائل کو پیش کریں گے۔

فنقول وباللہ التوفیق وبہ الاستعانۃ یلیق۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کے متلق دیگر مفسرین کی تقاریر

امام فخر الدین محمد بن عمررازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : یعنی آپ اور کفار ہرچند کہ اب زندہ ہیں لیکن آپ کا اور ان کا شمار موتی (مُردوں) میں ہے، کیونکہ ہر وہ چیز جو آنے والی ہے وہ آنے والی ہے۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٤٥١، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت کی اور کفار کی موت کی خبر دی ہے اور اس کی پانچ توجیہات ہیں :

(١) اس آیت میں آخرت سے خبردار کیا

(٢) اس آیت میں آپ کو عمل پر ابھارا ہے

(٣) موت کی تمہید کے لیے اس کو یاد دلایا ہے

(٤) آپ کی موت کا اس لیے ذکر فرمایا تاکہ مسلمان آپ کی موت میں اس طرح اختلاف نہ کریں جیسے پچھلی امتوں نے اپنے نبیوں کی موت میں اختلاف کیا تھا، حتیٰ کہ جب حضرت عمر (رض) نے آپ کی موت کا انکار کیا تو حضرت ابوبکر (رض) نے اس آیت سے آپ کی موت پر استدلال فرمایا

(٥) اللہ تعالیٰ نے آپ کی موت کو خبر دے کر یہ بتایا ہے کہ ہرچند کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے لیکن موت میں تمام مخلوق برابر ہے۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص ٢٢٧۔ ٢٢٦، دارالفکر بیروت، ١٤١٥ ھ) علامہ اسماعیل حقی حنفی متوفی ١١٣٧ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

موت صف وجود یہ ہے جو حیات کی ضد ہے، ا المفردات میں مذکور ہے : قوت حساسیہ حیوانیہ کے زوال کا نام موت ہے اور جسم کے روح سے الگ ہوجانے کو بھی موت کہتے ہیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فراق قریب آپہنچا تو ہم سب حضرت عائشہ (رض) کے حجرہ میں جمع ہوئے، آپ نے ہماری طرف دیکھا، پھر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے، آپ نے فرمایا : تم کو خوش آمدید ہو، اللہ تعالیٰ تم کو زندہرکھے اور اللہ تم پر رحم فرمائے، میں تم کو اللہ سے ڈرنے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں۔ اب فراق قریب آگیا ہے اور یہ وقت ہے اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کا اور سدرۃ المنتہیٰ اور جنت الماویٰ کی طرف جانے کا، میرے گھر کے لوگ مجھے غسل دیں گے اور مجھے کفن ان کپڑوں میں پہنائیں اگر وہ چاہیں یا حلہ یمانیہ میں، پس جب تم مجھے غسل دے چکو اور کفن پہنا چکو تو مجھے میرے اس تخت پر میرے حجرے میں رکھ دینا میری لحد کے کنارے پر، پھر کچھ دیر کے لیے میرے اس حجرے سے نکل جانا، سب سے پہلے میرے حبیب جبریل میری نماز جنازہ پڑھیں گے، پھر حضرت میکائیل، پھر حضرت اسرافیل، پھر ملک الموت اپنے لشکر کے ساتھ میری نماز جنازہ پڑھیں گے۔ پھر تم گروہ در گروہ آکر مری نماز جنازہ پڑھنا، مسلمانوں نے جب آپ کے فراق کا سنا تو روہ رونے لگے اور کہنے لگے : یارسول اللہ ! آپ ہمارے رب کے رسول ہیں اور ہماری جماعت کی شمع ہیں اور ہمارے معاملات کی برھان ہیں، جب آپ چلے جائیں گے تو ہم اپنے معاملات میں کس کی طرف رجوع کریں گے ؟ آپ نے فرمایا : میں نے تم کو صاف اور شفاف راستے پر چھوڑا ہے، جس کی رات بھی اپنے ظہور میں دن کی طرح ہے اور اس راہنمائی کیب عد وہی شخص گمراہ ہوگا جو ہلاک ہونے والا ہو اور میں نے تمہارے لیے نصیحت کرنے والے چھوڑے ہیں، ایک ناطق ہے اور دوسرا ساکت ہے، رہا ناطق تو وہ قرآن کریم ہے اور رہا ساکت تو وہ موت ہے، پس جب تم کو کئی مشکل پیش آئے تو تم قرآن اور سنت کی طرف رجوع کرنا اور جب تمہارے دل سخت ہوجائیں تو تم مردوں کے احوال پر غور کرنا، پھر اس دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیمار ہوئے اور آپ کو درد سر کا عارضہ ہوا، آپ اٹھارہ روز تک بیمار رہے اور مسلمان آپ کی عیادت کرتے رہے، پھر پیر کے دن آپ کا وصال ہوگیا اور اسی دن آپ کی بعثت ہوئی تھی، پھر حضرت علی (رض) اور حضرت فضل بن عباس (رض) نے آپ کو غسل دیا اور بدھ کی شب جب نصف گزر چکی تھی آپ کو دفن کردیا گیا اور ایک قول یہ ہے کہ منگل کی شب آپ کو دفن کیا گیا۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص ١٩٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٩٩٦، دارالکتب العلمیہ، مسند البزار رقم الحدیث : ٨٤٧)

حضرت سابط (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب کسی شخص پر کوئی مصیبت آئے تو وہ میری مصیبت کو یاد کرے کیونکہ وہ سب سے بڑی مصیبت تھی۔ (المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٦٧١٨) (روح البیان ج ٨ ص ١٤٣، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

صدر الا فاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : کفار تو زندگی میں بھی مرے ہوئے ہیں اور انبیاء کی موت ایک آن کے لیے ہوتی ہے، پھر انہیں حیات عطا فرمائی جاتی ہے، اس پر بہت سی شرعی برہانیں قائم ہیں۔ (عائشیہ کنزالایمان مسمی بہ خزائن العرفان ص ٧٣٧، مطبوعہ تاج کمپنی لاہور)

مفتی احمد یار خان متوفی ١٣٩١ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : حقیقتاً ایک آن کے لیے نہ کہ ہمیشہ کے لیے، ورنہ قرآن کریم شہداء کے بارے میں فرماتا ہے :“ بل احیاء ولکن تشعرون “

خیال رہے کہ موت کی دو صورتیں ہیں : روح کا جسم سے الگ ہونا اور روح کا جسم میں تصرف چھوڑ دینا، پرورش ختم کردینا، انبیاء کی موت پہلے معنی میں ہے یعنی خروج روح عن الجسم اور عوام کی موت پہلے دوسرے دونوں معنی میں ہے، لہٰذا نبی کی روح جسم سے علیحدہ ہوجاتی ہے جس بناء پر ان کا دفن، کفن وغیرہ سب کچھ ہوتا ہے مگر ان کی روح ان کے جسم کی پرورش کرتی رہتی ہے، اس لیے ان کے جسم گلتے نہیں اور زائرین کو پہچانتے ہیں، اس کا سلام سنتے ہیں، ان کی فریاد اور مشکل کشائی کرتے ہیں۔ (حاشیہ کنزالایمان مسمی بہ نور العرفان ص ٧٣٦، مطبوعہ ادارہ کتب اسلامیہ، گجرات)

اس پر دلائل کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی موت آنی ہے، یعنی قلیل وقت کے لیے

ہم نے جو کہا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایک آن کے لیے موت آئی، اس کی تقریر اس طرح ہے کہ ہر مومن کی روح اس کے جسم سے ایک قلیل وقت کے لیے نکالی جاتی ہے، پھر اس کی روح علیین کی طرف لے جایا جاتا ہے، پھر حکم دیا جاتا ہے کہ اس کی روح کو پھر اس کے جسم میں داخل کردو، سو اس کی روح کو اس کے جسم میں داخل کردیا جاتا ہے اور یوں ہر مومن کو قبر میں برزخی حیات حاصل ہوتی ہے اور ہمارے نبی سیدنا محمد سید المرسلین (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح کو اقل قلیل وقت کے لیے آپ کے جسم مکرم سے نکالا گیا تھا اور اس بہت کم وقت کو آن سے تعبیر کیا جاتا ہے اور آپ کو آپ کے مرتبہ کے لحاظ سے پھر جسمانی حیات عطا کردی گئی تھی ہر مومن کی روح کو قلیل وقت کے لیے نکالنے پر دلیل یہ حدیث ہے : امام احمد حنبل متوفی ٢٤١ ھ اپن سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابراء بن عازب (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہم ایک انصاری کے جنازہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ گئے، ہم قبر تک پہنچے، اس کی لحد بنائی جارہی تھی، پس رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھ گئے اور ہم بھی آپ کے گرد اس طرح بیٹھ گئے گویا کہ ہمارے سروں پر پرندے ہیں، آپ کے ہاتھ میں ایک لکڑی تھی جس سے آپ زمین کرید رہے تھے، آپ نے اپنا سر اٹھا کر فرمایا : عذاب قبر سے اللہ کی پناہ طلب کرو، یہ آپ نے دو یا تین بار فرمایا، اس کے بعد آپ نے فرمایا : جب مسلمان بندہ دنیا سے آخرت کی طرف روانہ ہوتا ہے تو اس کے پاس آسمان سے فرشتے نازل ہوتے ہیں، ان کے چہرے آفات کی طرح سفید ہوتے ہیں اور ان کے پاس جنت کے کفنوں میں سے ایک کفن ہوتا ہے اور جنت کی خوشبوئوں میں ساک خوشبو ہوتی ہے، حتیٰ کہ وہ منتہائے بصر تک بیٹھ جاتے ہیں، پھر ملک الموت (علیہ السلام) آتے ہیں، حتیٰ کہ وہ اس کے سرھانے آکر بیٹھ جاتے ہیں، پھر کہتے ہیں : اے پاکیزہ روح ! اللہ کی مغفرت اور رضا کی طرف روانہ ہو، پھر اس کی روح اس کے جسم سے اس قدر آسانی سے نکلتی ہے جس طرح آسانی سے مشک کے منہ سے پانی کا قطرہ نکلتا ہے، روح نکلنے کے بعد وہ پلک جھپکنے میں اس روح کو پکڑ کر اس جنتی کفن میں رکھ دیتے ہیں اور اس میں روئے زمین کی سب سے زیادہ اچھی مشک سے بھی اچھی خوشبو ہوتی ہے، وہ اس روح کو لے کر آسمانوں کی طرف رواتہ ہوتے ہیں۔ ان کو فرشتوں کی جو جماعت بھی ملتی ہے وہ پوچھتی ہے : یہ پاکیزہ روح کون ہے ؟ فرشتے کہتے ہیں : یہ فلاں بن فلاں ہے اور دنیا میں جو اس کا سب سے اچھانام ہو وہ بتاتے ہیں، حتیٰ کہ آسمان دنیا پر پہنچتے ہیں، ان کے لیے وہ آسمان کھول دیا جاتا ہے، پھر ساتویں آسمان تک ہر آسمان کے فرشتے اس کا استقبال کرتے ہیں، پھر اللہ عزوجل فرماتا ہے : میرے اس بندہ کا صحیفہ اعمال علیین میں لکھ دو اور اس کو زمین کی طرف لوٹا دو ، کیونکہ میں نے اس کو زمین سے ہی پیدا کیا ہے اور میں اس کو زمین میں ہی لوٹائوں گا اور میں اس کو دوبارہ زمین سے ہی نکالوں گا، آپ نے فرمایا : پھر اس کی روح اس کے جسم میں لوٹا دی جائے گی، پھر اس کے پاس دو فرشتے آئیں گے، وہ اس سے کہیں گے : تیرا رب کون ہے ؟ وہ کہے گا : میرا رب اللہ ہے، پھر وہ کہیں گے : تیرا دین کیا ہے ؟ وہ کہے گا : میرا دین اسلام ہے، پھر وہ اس سے کہیں گے؍ وہ کوس شخص ہے جو تم میں بھیجا گیا تھا ؟ وہ کہے گا : وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہیں، وہ کہیں گے : تمہیں ان کا کیسے علم ہوا ؟ وہ کہے گا : میں نے اللہ کی کتاب پڑھی، سو میں اس پر ایمان لایا اور اس کی تصدیق کی۔ پھر ایک ندا کرنے والا آسمان میں ندا کرے گا : میرے بندہ نے سچ کہا : اس کے لیے جنت سے فرش بچھا دو اور اس کو جنت سے لباس تہنا دو اور اس کے لیے جنت کی کھڑکی کھول دو ، آپ نے فرمایا : پھر اس کے پاس جنت کی ہوا اور اس کی خوشبو آئے گی اور منتہائے بصر تک اس کی قبر میں وسعت کردی جائے گی، آپ نے فرمایا : پھر اس کے پاس ایک خوبصورت شخص، خوب صورت لباس میں، عمدہ خوش بو کے ساتھ آئے گا، وہ اس سے کہے گا : تمہیں اس چیز کی بشارت ہو جس سے تم خوش ہوگے۔ یہ وہ دن ہے جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا، وہ کہے گا : تم کون ہو ؟ تمہارا چہرہ بہت حسین ہے جو خیر کے ساتھ آیا ہے، وہ کہے گا : اے میرے رب ! تو قیامت کو قائم کردے حتیٰ کہ میں اپنے اہل اور مال کی طرف لوٹ جائوں۔ الحدیث۔ اس حدیث کی سند صحیح ہے۔

(مسند احمد ج ٤ ص ٢٨٧ طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٠ ص ٥٠١۔ ٤٩٩ رقم الحدیث : ١٨٣٤، مؤسستہ الرسالۃ، بیروت، ١٤١٩ ھ، مصنف ابن ابی شبیہ ج ١٠ ص ١٩٤، ج ٣ ص ٣٨٢۔ ٣٨٠۔ ٣٧٤، ٣١٠، سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٤٧٥٣، المستدرک ج ١ ص ٣٨۔ ٣٧، شعب الا یمان رقم الحدیث : ٣٩٥، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥٤٩، مجمع الزوائد ج ٣ ص ٤٩،

حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے) اس صحیح حدیث سے یہ واضح ہوگیا کہ ہر مومن کی روح کو بہت قلیل وقت کے لیے اس کے جسم سے نکالا جاتا ہے خ پھر اس کو برزخی حیات عطا کردی جاتی ہے اور شہداء کو جسمانی حیات عطا کی جاتی ہے، اسی طرح انبیاء (علیہم السلام) کو بھی جسمانی حیات عطا کی جاتی ہے اور ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سید الشہداء اور سید الانبیاء والمرسلین ہیں، اس لیے آپ کو سب سے افضل جسمانی حیات عطا کی گئی اور نہایت قلیل وقت کے لیے ان کے جسم سے جو روح قبض کی جاتی ہے وہ اس لیے ہے کہ ان کے اوپر غسل، کفن، فن اور نماز جنازہ کے احکام پر عمل کیا جاسکے۔ بانی مدرسہ دیوبند شیخ محمد قاسم نانوتوی متوفی ٢١٩٧ ھ لکھتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور مؤمنین کی موت میں بھی مثل حیات فرق ہے، ہاں فرق ذاتیت وعرضیت متصور نہیں، وجہ اس فرق کی وہی تفاوت حیات ہے، یعنی حیات نبوی بوجہ ذاتیت قابل زوال نہیں اور حیات مؤمنین بوجہ عرضیت قابل زوال ہے، اس لیے وقت موت حیات نبوی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) زائل نہ ہوگی، ہاں مستور ہوجائے گی اور حیات مؤمنین ساری یا آدھی زائل ہوجاوے گی۔ سودرصورت تقابل عدم ومل کہ اس استتار حیات میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو تو مثل آفتا سمجھئے کہ وقت کسوف قمر بےاوٹ میں حسب مزعوم حکماء اس کا نور مستور ہوجاتا ہے، زائل نہیں ہوتا، یا مثل شمع چراغ خیال فرمائیے کہ جس اس کو کسی ہنڈیا یا مٹکے میں رکھ کر اور پر سے سر پوش رکھ دیجئے تو اس کا نور بالبداہت مستور ہوجاتا ہے، زائل نہیں ہوجاتا اور دوبارہ زوال حیات مومنین کو مثل قمر خیال فرمائیے کہ وقت خسوف اس کا نور زائل ہوجاتا ہے یا مثل چراغ سمجھئے کہ گل ہوجانے کے بعد اس میں نور بالکل نہیں رہتا۔ (آب حیات ص ١٨٥۔ ١٨٤، مطبوعہ ادارہ مطبوعہ ادارہ تالیفات اشرفیہ، ملتان، ١٤١٣ ھ)

اس عبارت کا خلاصہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر موت آنے سے آپ کی حیات زائل نہیں ہوئی، لوگوں کی نگاہوں سے چھپ گئی تھی اور عام مسلمانوں پر موت آنے سے ان کی حیات ساری یا آدھی زائل ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد ہم نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات پر احادیث، آثار، اور اقوال علماء سے دلائل پیش کریں گے اور پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز جنازہ اور نماز جنازہ کے بعد دعا کے ثبوت کو تفصیل سے بیان کریں گے، انشاء اللہ العزیز !

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات کے ثبوت میں احادیث

امام ابو یعلیٰ نے اپنی ” مسند “ میں اور امام بیہقی نے کتاب ” حیات الانبیاء “ میں حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور نماز پڑھ رہے ہیں۔ (مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٣٤٢٥، حیاۃ الانبیاء للبیہقی ص ٣، سلسلۃ الاحادیث الصحیحہ للالبانی رقم الحدیث : ٦٢١، مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢١١، المطالب العالیہ رقم الحدیث : ٣٤٥٢، تاریخ دمشق الکبیر ج ١٥ ص ١٥٩، رقم الحدیث : ٣٥١١، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢١ ھ)

ابونعیم نے ” حلیہ “ میں روایت کیا ہے کہ ثابت بنانی نے حمید الطویل سے پوچھا : کیا تمہیں یہ علم ہے کہ انبیاء کے سوا بھی کوئی اپنی قبروں میں نماز پڑھتا ہے ؟ انہوں نے کہا : نہیں۔ (حلیۃ الاولیاء رقم الحدیث : ٢٥٦٧ طبع جدید، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ) امام ابودائود اور امام بیہقی نے حضرت اوس بن اوس ثقفی (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا تمہارے تمام دنوں میں سب سے افضل جمعہ کا دن ہے، تم اس دن میں مجھ پر بکثرت صلوٰۃ پڑھا کرو، کیونکہ تمہاری صلوٰۃ (درود شریف) مجھ پر پیش کی جاتی ہے، صحابہ نے کہا : یارسول اللہ ! آپ پر ہماری صلوٰۃ کیسے پیش کی جائے گی حالانکہ آپ کی ہڈیاں بوسیدہ ہوچکی ہوں گی ؟ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے زمین پر انبیاء (علیہم السلام) کے اجسام کے کھانے کو حرام کردیا ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٠٤٧، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٣٧٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٠٨٥، مسند احمد ج ٤ ص ٨، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٣ ص ٢٤٩، المستدرک ج ٤ ص ٥٦٠، کنزالعمال رقم الحدیث : ٢٣٣٠١، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٢٤٨، دارالفکر، بیروت ١٤١٨ ھ، سنن ابن ماجہ اور البدایہ والنہایہ میں اس حدیث کے بعد یہ بھی مذکور ہے : اللہ کا نبی زندہ ہوتا ہے اور اس کو رزق دیا جاتا ہے۔ سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٦٣٧، البدایہ ج ٤ ص ٢٥٨)

حضرت عمار بن یاسر (رض) بیان کرتے ہیں کہ (نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :) اللہ تعالیٰ نے ایک فرشتہ کو تمام مخلوق کی سماعت عطا فرمائی ہے، وہ میری قبر پر کھڑا ہوا ہے۔ (التاریخ الکبیر للبخاری رقم الحدیث : ٨٩٠٢)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس شخص نے جمعہ کے دن یا جمعہ کی رات کو مجھ پر سو مرتبہ درود پڑھا، اللہ تعالیٰ اس کی سو حاجات پوری کرتا ہے، ستر آخرت کی حاجتیں اور تیس دنیا کی حاجتیں اور اللہ تعالیٰ اس کی وجہ سے ایک فرشتہ مقرر کرتا ہے جو اس درود کو میری قبر میں داخل کرتا ہے جیسے تمہارے پاس ہدیے اور تحفے داخل ہوتے ہیں اور میری وفات کے بعد ھبی میرا علم اسی طرح ہے جس طرح میری حیات میں تھا۔ (کنزالعمال رقم الحدیث : ٢٢٤٢، جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٢٣٥٥، اتحاف السادۃ المتقین ج ٣ ص ٢٤١)

حضرت انس (رض) بیان کرتے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : انبیاء (علیہم السلام) کو چالیس راتوں کے بعد ان کی قبروں میں نہیں چھوڑا جاتا لیکن وہ اللہ سبحانہ کے سامنے نماز پھڑتے ہیں حتیٰ کہ صور پھونکا جائے۔ (جمع الجوامع رقم الحدیث : ٤٩٩٠، کنزالعمال رقم الحدیث : ٣٢٢٣٠)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں ابوالقاسم کی جان ہے، عیسیٰ بن مریم ضرور نازل ہوں گے، درآں حالیکہ وہ امام عادل ہوں گے، وہ ضرور صلیب کو توڑ دیں گے اور وہ ضرور خنزیر کو قتل کریں گے اور وہ ضرور لڑنے والوں کے درمیان صلح کرائیں گے اور وہ ضرور کینہ اور بغض کو دور کریں گے اور ضرور ان پر مال پیش کیا جائے گا سو وہ اس کو قبول نہیں کریں گے، پھر اگر وہ میری قبر سے کھڑے ہو کر پکاریں : یا محمد تو میں ان کو ضرور جواب دوں گا۔ (مسند ابو یعلیٰ رقم الحدیث : ٦٥٨٤، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے، مجمع الزوائد ج ٨ ص ٥، المطالب العالیہ ج ٤ ص ٢٤، رقم الحدیث : ٤٥٧٤)

سعید بن عبدالعزیز بیان کرتے ہیں کہ ایام حرہ میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مسجد میں تین دن تک اذان نہیں دی گئی اور نہ جماعت کھڑی ہوئی اور سعید بن المسیب مسجد سے نہیں نکلے اور انہیں نماز کے وقت کا صرف اس آواز سے پتا چلتا تھا جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قبر سے آتی ہے۔ (سنن الدارمی رقم الحدیث : ٩٤، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٥٩٥١ )

حافظ سیوطی فرماتے ہیں : یہ احادیث نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات پر دلالت کرتی ہیں اور باقی انبیاء علہیم السلام کی حیات پر بھی، اور اللہ تعالیٰ نے شہداء کے متعلق قرآن مجید میں فرمایا ہے :

ولا تحسبن الذین فتلوا فی سبیل اللہ امواتاط بل احیاء عندربھم یرزقون (آل عمران : ١٦٩ )

اور جو لوگ اللہ کی راہ میں شہید کیے گئے ہیں ان کو مردہ گمان مت کرو بلکہ وہ زندہ ہیں، ان کو ان کے رب کے پاس سے روزی دی جاتی ہے۔

اور جب شہداء زندہ ہیں تو انبیاء (علیہم السلام) جو ان سے بہت افضل اور اجل ہیں وہ بہ طریق اولیٰ زندہ ہیں اور بہت کم کوئی نبی ایسا ہوگا جس میں وصف شہادت نہ ہو، لہٰذا شہادء کی حیات کے عموم میں وہ بھی داخل ہیں۔ حضرت ابن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ اگر میں نوبار یہ قسم کھائوں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو قتل کیا گیا تو میرے نزدیک اس سے بہتر یہ ہے کہ میں ایک بار یہ قسم کھائوں کہ آپ کو قتل نہیں کیا گیا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نبی بنایا اور شہید بنایا ہے۔ (مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٥٢٠٧، مجمع الزوائد ج ٨ ص ٥۔ ٤، مسند احمد ج ١ ص ٣٨١، المستدرک ج ٣ ص ٥٨، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٦١١)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جس بیماری میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وفات پاگئے تھے اس میں آپ فرما رہے تھے : اے عائشہ ! میں ہمیشہ اس کھانے کا درج محسوس کرتا رہا ہوں جو میں نے خیبر میں کھایا تھا۔ (اس طعام میں زہرملا ہوا تھا) اور اس زہر کی وجہ سے اب میری رگ حیات کے منقطع ہونے کا وقت آگیا ہے۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ٤٤٢٨، جامع المسانید اولسنن مسند عائشہ رقم الحدیث : ١٥٠٣)

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حیات کے متعلق مستند علماء کی تصریحات اور مزید احادیث

حافظ سیوطی فرماتے ہیں : پس قرآن مجید کی صریح عبارت یا مفہوم موافق سے یہ ثابت ہوگیا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قہم میں زندہ ہیں۔ امام بیہقی نے ” کتاب الاعتقاد “ میں کہا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی روحوں کو قبض کرنے کے بعد ان کی روحوں کو لوٹا دیا جاتا ہے، پس وہ اپنے رب کے سامنے شہداء کی طرح زندہ ہیں۔

علامہ ابوعبداللہ قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ نے اپنے شیخ احمد بن عمر قرطبی متوفی ٦٥٦ ھ سے نقل کرکے کہا ہے کہ موت عدم محض نہیں ہے، وہ صرف ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونا ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ شہداء اپنے قتل ہونے اور اپنی موت کے بعد زندہ ہوتے ہیں اور وہ خوش وخرم ہوتے ہیں اور یہ دنیا میں زندوں کی صفت ہے اور جب شہداء کو حیات حاصل ہے تو انبیاء علہیم السلام تو ان سے زیادہ حیات کے حق دار ہیں اور صحیح حدیث میں ہے کہ زمین انبیاء (علیہم السلام) کے اجسام کو نہیں کھاتی اور معراج کی شب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تمام انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ مسجد اقصیٰ میں جمع ہوئے اور آپ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی بر میں کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ خبر بھی دی ہے کہ جو شخص بھی آپ کو سلام کرتا ہے آپ اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ اور احادیث بھی ہیں اور ان تمام احادیث کے مجموعہ سے یہ قطعی یقین حاصل ہوتا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی موت کا یہ معنیٰ ہے کہ وہ ہماری نظروں سے غائب ہیں، ہرچند کہ وہ زندہ ہیں اور موجودہ ہیں اور ان کا حال فرشتوں کی طرح ہے، وہ بھی زندہ اور موجود ہیں اور ہماری نوع انسان میں سے کوئی شخص ان کو نہیں دیکھتا ماسوا اولیاء اللہ کے، جن کو اللہ تعالیٰ نے کرامت کے ساتھ مخصوص کیا ہے۔ (التذکرہ ج ١ ص ٢٦٥۔ ٢٦٤، مطبوعہ دارالبخاری، ١٤١٧ ھ)

علامہ ابو عبداللہ محمد بن ابی بکر قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ کے شیخ علامہ ابوالعباس احمد بن عمر قرطبی متوفی ٦٥٦ ھ ہیں اور ان کی یہ مذکور الصدر عبارت ” المفہم شرح مسلم “ ج ٦ ص ٢٣٤۔ ٢٣٣، مطبوعہ دارابن کثیر، بیروت، ١٤١٧ ھ میں موجود ہے۔ اس کے بعد حافظ سیوطی لکھتے ہیں : ہمارے اصحاب میں سے متکلمین اور محققین یہ کہتے ہیں کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی وفات کے بعد زندہ ہیں اور آپ اپنی امت کی عبادات سے خوش ہوتے ہیں اور ان کے گناہوں سے ناخوش ہوتے ہیں اور آپ کی امت میں سے جو شخص آپ پر درود پڑھتا ہے، آپ اس کو سنتے ہیں اور انبیاء علہیم السلام کا جسم بوسیدہ نہیں ہوتا اور زمین اس میں سے کسی چیز کو نہیں کھاتی اور ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے معراج کی شب حضرت موسیٰ کو اپنی قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور آپ نے پہلے آسمان میں حضرت آدم ( علیہ السلام) کو، دوسرے آسمان میں حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ کو اور تیسرے آسمان میں حضرت یوسف کو اور چوتھے آسمان میں حضرت ادریس کو اور پانچویں آسمان میں حضرت ہارون کو اور چھٹے آسمان میں حضرت موسیٰ کو اور ساتویں آسمان میں حضرت ابراہیم (علیہم السلام) کو دیکھا۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٦٤)

ان وجوہ سے ہمارے لیے یہ کہنا صحیح ہے کہ ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اپنی وفات کے بعد زندہ ہے۔ اور اصحاب نے جو یہ کہا ہے کہ آپ اپنی امت کی عبادت سے خوش ہوتے ہیں اور ان کے گناہوں سے رنجیدہ ہوتے ہیں، اس کی اصل یہ احادیث ہیں : بکر بن عبداللہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری حیات تمہارے لیے بہتر ہے، تم باتیں کرتے ہو اور تمہارے لیے حدیث بیان کی جاتی ہے اور جب میں وفات پاجائوں گا تو میری وفات تمہارے لیے بہتر ہوگی، مجھ پر تمہارے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، جب میں نیک عمل دیکھتا ہوں تو اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں اور جب بُرا عمل دیکھتا ہوں تو تمہارے لیے استغفار کرتا ہوں۔ (الطبقات الکبریٰ ج ٢ ص ١٩٤، دار اصادر، بیروت، ١٣٨٨ ھ، المطالب العالیہ ج ٤ ص ٢٣۔ ٢٢، کنز العمال ج ١١ ص ٤٠٧، الجامع الصغیر ج ١ ص ٥٨٢، البدایہ والنہایہ ج ٤ ص ٢٥٧، دارالفکر، بیروت، ١٤١٨ ھ، مسند احمد رقم الحدیث : ٣٦٦٦، دارالفکر، مسند البزار رقم الحدیث : ٨٤٥، حافظ الہیثمی نے کہا : مسند البزار کی سند صحیح ہے، مجمع الزوائد ج ٩ ص ٢٤)

خراش بن عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری حیات تمہارے لیے بہتر ہے اور میری وفات تمہارے لیے بہتر ہے، حیات اس لیے بہتر ہے کہ میں تم سے حدیث بیان کرتا ہوں اور میری وفات اس لیے بہتر ہے کہ ہر پیر اور جمعرات کو تمہارے اعمال مجھ پر پیش کیے جاتے ہیں، سو جو نیک عمل ہوتے ہیں میں ان پر اللہ تعالیٰ کی حمد کرتا ہوں اور جو برے عمل ہوتے ہیں تو میں تمہارے لیے استغفار کرتا ہوں۔ (الکامل فی ضعفاء الرجال ج ٣ ص ٩٤٥، دارالفکر، الوفاء لابن الجوزی ص ٨١٠، مطبوعہ مصر، ١٣٢٩ ھ)

حافظ سیوطی لکھتے ہیں : حافظ ابوبکر بیہقی نے ” کتاب الا عتقاد “ میں کہا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) روحوں کے قبض کیے جانے کے بعد اپنے رب کے پاس شہداء کی طرح زندہ ہوتے ہیں، ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انبیاء کی ایک جماعت کو دیکھا ہے اور ان کی امامت کی ہے اور آپ نے یہ خبر دی ہے کہ ہمارا درود اور اسلام ان تک پہنچایا جاتا ہے اور آپ کی خبر صادق ہے۔ (انباء الاذکر ص ٧)

حافظ بیہقی نے جو کہا ہے کہ ہمارا درود اور سلام آپ کو پہنچایا جاتا ہے اس کے متعلق یہ احادیث ہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ کے کچھ زمین میں سیاحت کرنے والے فرشتے ہیں تاکہ وہ میری امت کا سلام مجھے پہنچائیں۔ (سنن النسائی رقم الحدیث : ١٢٨١، مسند احمد ج ٢ رقم الحدیث : ٤٢١٠، دارالفکر، البدایہ والنہایہ ج ١ ص ٩٢، دارالفکر، ١٤١٨ ھ، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٩٩)

حضرت ابوالدرداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جمعہ کے دن مجھ پر کثرت کے ساتھ درود پڑھا کرو کیونکہ یہ وہ دن ہے جس میں مجھ پر فرشتے پیش کیے جاتے ہیں اور جو بندہ بھی مجھ پر درود پڑھتا ہے اس کی آواز مجھ تک پہنچتی ہے خواہ وہ کہیں بھی ہو، ہم نے پوچھا : آپ کی وفات کے بعد بھی ؟ آپ نے فرمایا : میری وفات کے بعد بھی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انبیاء کے اجسام کے کھانے کو زمین پر حرام کردیا ہے۔ (جلاء الافہام ص ٦٤، مطبوعہ دارالکتاب العربی، بیروت، ١٤١٧ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مامن احد یسلم علی الارد اللہ علی روحی حتی ارد (علیہ السلام) ۔

جو شخص بھی مجھ پر سلام عرض کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ میری روح کو مجھ پر لوٹا دیتا ہے تاکہ میں اس کے سلام کا جواب دوں۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٢٠٤١، مسند احمد ج ٢ ص ٥٢٧، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٥ ص ٢٤٥، مجمع الزوائد ج ١٠ ص ١٦٢، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٩٦٥ الترغیب ورالترہیب ج ٢ ص ٤٩٩، کنزالعمال رقم الحدیث : ٢٢٠٠٠)

سلام کے وقت آپ کی روح کو لوٹانے کی حدیث کے اشکال کے جوابات

حافظ سیوطی فرماتے ہیں : اس حدیث سے بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ جب بھی آپ کسی سلام کرنے والے کو سلام کا جواب دیتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے بدن میں روح کو لوٹا دیتا ہے اور پھر روح کو نکال لیا جاتا ہے اور چونکہ آپ کو بار بار سلام کیا جاتا ہے تو گویا بار بار آپ کے جسم سے روح نکالی جاتی ہے اور بار بار داخل کی جاتی ہے اور یہ عمل آپ کے لیے شدید تکلیف کا موجت ہے اور روح کا نکالنا موت کے معنیٰ میں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو بار بار موت آتی ہے اور یہ ان احادیث کے خلاف ہے جن سے آپ کی حیات مستمرثابت ہوے، جن کو ہم اس سے پہلے ذکر چکے ہیں، اس اشکال کے اللہ تعالیٰ نے مجھ پر حسب ذیل جوابات منکشف کیے ہیں :

(١) ” الارد اللہ علی روحی “ جملہ حالیہ ہے اور عربی قواعد کے مطابق اس سے پہلے ” قد “ کا لفظ محذوف ہے، جیسے قرآن مجید میں ہے : ” حصرت صدورھم “ (النساء : ٩٠) سے پہلے بھی لفظ ” قد “ محذوف ہے اور اس کا معنی ہے ” یا وہ تمہارے پاس اس حال میں آئیں کہ تم سے لڑنے کے لیے بھی ان کے دل تنگ ہوں “ اسی طرح اس حدیث کا بھی معنی ہے : جو شخص بھی مجھے سلام کرتا ہے وہ اس حال میں سلام کرتا ہے کہ مجھ پر اللہ روح لوٹا چکا ہوتا ہے۔ اور اب یہاں پر ” رد اللہ “ کا جملہ ماضی کے معنیٰ میں ہے کیونکہ اشکال اس وقت ہوتا جب ” رد اللہ “ حال یا استقبال کے معنی میں ہوتا اور اس سے بار بار روح کا لوٹانا لازم آتا، اس سے ایک تو یہ لازم آتا کہ جسم سے بار بار روح کے نکلنے سے آپ کو بار بار درد ہوتا اور یہ آپ کی تکریم کے خلاف ہے، نیز یہ حیات شہداء کے خلاف ہے، کیونکہ شہداء کی حیات مستمر ہے تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کے زیادہ لائق ہیں کہ آپ کی حیات مستمر ہو اور تیسری خرابی یہ ہے کہ یہ معنی قرآن مجید کے خلاف ہے کیونکہ قرآن مجید سے ثابت ہے کہ صرف دو بار موت اور دو بار حیات ہے اور اس صورت میں بکثرت موتیں اور حیاتیں لازم آئیں گی اور چوتھی خرابی یہ ہے کہ یہ معنیٰ ان احادیث صحیحہ متواترہ کے خلاف ہے جن سے آپ کی حیات مستمر ثابت ہے اور جو معنی قرآن مجید اور احادیث متواترہ کے خلاف ہو اس کی تاویل کرنا واجب ہے۔

(٢) اس حدیث میں لفظ ” رد “ ” صیرورۃ “ کے معنیٰ میں ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے : قدافترینا علی اللہ کذبا ان عدنا فی ملتکم “ (الاعراف : ٨٩) ” عدنا “ کا لفظ عود سے بنا ہے اور عود کا معنی ہے : لوٹنا، اگر یہاں عود اپنے معنی میں ہو تو اس کا معنی ہوگا کہ حضرت شعیب (علیہ السلام) نے کفار سے فرمایا : اگر ہم تمہارے دین میں لوٹ جائیں تو ہم اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنے والے ہوجائیں گے اور کفار کے دین میں لوٹ جانا اس کو مستلزم ہے کہ حضرت شعیب پہلے بھی ان کے دین میں تھے اور یہ معنی باطل ہے، اس لیے اس آیت میں ” عدنا “ کا لفظ ” صرنا “ کے معنی میں ہے یعنی الر ہم تمہارے دین میں ہوجائیں تو پھر ہم اللہ پر بہتان باندھنے والے ہوجائیں گے، اسی طرح اس حدیث کا معنی ہے : جب کوئی شخص مجھ کو سلام کرتا ہے تو اس وقت میری روح مجھ میں ہوتی ہے۔

(٣) روح کو لوٹانے سے مراد یہ ہے کہ آپ کی روح کو سلام کے جواب کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) احوال برخ کی طرف متوجہ ہوتے ہیں اور اپنے رب کے مشاہدہ میں مستفرق ہوتے ہیں تو آپ کو سلام کرنے والے کے جواب کی طرف متوجہ کردیا جاتا ہے۔

(٤) روح کو لوٹانا آپ کی حیات کیدوام اور استمرار سے کنایہ ہے کیونکہ دنیا میں ہر وقت کسی نہ کسی جگہ سے کوئی نہ کوئی شخص آپ کو سلام عرض کررہا ہوتا ہے تو آپ ہر وقت کسی نہ کسی کے سلام کا جواب دیتے ہیں تو ہر وقت آپ کو حیات حاصل ہوتی ہے۔

(٥) رد روح سے مراد یہ ہے کہ سلام کے وقت اللہ تعالیٰ آپ کے نطق کو اس کے جواب کی طرف متوجہ کردیتا ہے۔

(٦) رد روح سے مراد یہ ہے کہ جب کوئی آپ کو سلام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کو غیر معمولی سماعت عطا فرماتا ہے اور کوئی شخص کہیں سے بھی سلام کرے آپ اس کے سلام کا جواب دیتے ہیں۔

(٧) رد روح سے مراد یہ ہے کہ آپ عالم ملکوت کے مشاہدہ میں مشغول ہوتے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو اس کے جواب کی طرف فارغ کردیتا ہے۔

(٨) روح سے خوشی اور فرحت مراد ہے جیسے قرآن مجید میں ہے : ” فروح وریحان “ (الواقعہ : ٨٩) یعنی جو شخص مقرت ہو اس کے لیے راحت اور خوشی ہے، اسی طرح اس حدیث کا معنی ہے : جب کوئی شخص آپ کو سلام کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ آپ کی فرحت اور راحت کو تازہ کردیتا ہے۔

(٩) رد روح سے مراد ہے : صلوٰۃ کے ثواب کو آپ کی طرف لوٹانا یعنی اللہ تعالیٰ اپنی رحمت اور انعامات کو آپ پر لوٹاتا رہتا ہے۔

(١٠) امام راغب نے ” رد “ کا ایک معنی تفویض بھی لکھا ہے، اس صورت میں حدیث کا معنی یہ ہے : اللہ تعالیٰ نے سلام کے جواب کو آپ کی طرف مفوض کردیا ہے یعنی اس کی طرف رحمت کے لوٹانے کو، جیسا کہ حدیث میں ہے : جو شخص مجھ پر ایک صلوٰۃ بھیجتا ہے اللہ اس پر دس صلوات بھیجتا ہے، یعنی اس پر دس رحمتیں بھیجنے کو اللہ تعالیٰ نے آپ کی طرف مفوض کردیا ہے اور آپ اس پر رحمت یہ ہے کہ آپ اس کی شفاعت فرمائیں۔

(١١) روح سے مراد وہ رحمت ہے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دل میں آپ کی امت کے لیے ہے، یعنی آپ کو آپ کی اس رحمت کی طرف متوجہ کردیتا ہے۔

(١٢) رد روح سے مراد یہ ہے کہ آپ اعمال برزخ میں مشغول ہوتے ہیں، مثلاً اعمال امت کا ملاحظہ فرماتے ہیں، ان کے نیک اعمال پر اللہ کی حمد کرتے ہیں اور ان کے برے اعمال پر استغفار فرماتے ہیں، ان سے مصائب دور ہونے کی دعا کرتے ہیں، اطراف زمین میں برکت پہنچانے کے لیے آمدورفت جاری رکھتے ہیں اور امت کے جو صالحین فوت ہوجاتے ہیں ان کے جنازوں پر تشریف لے جاتے ہیں، یہ تمام امور اشغال برزخ سے ہیں جو احادیث صحیحہ سے ثابت ہیں، تو اللہ تعالیٰ آپ کو ان اشغال برزخ سے ہٹا کر سلام کی جواب دینے کی طرف متوجہ کردیتا ہے۔

(انباء الاذکیاء ص ١٣، حافظ سیوطی کی ترتیب سے اس جواب کا نمبر دس ہے ہم نے تخلیص کی سہولت سے جوابات کی ترتیب بدل دی ہے)

(١٣) روح سے مراد وہ فرشتہ ہے جو اللہ تعالیٰ نے آپ کی قبر انور پر مقرر کردیا ہے جو امت کا سلام آپ تک پہنچاتا ہے۔

(١٤) ہوسکتا ہے کہ آپ کو ابتداء میں یہی بتایا گیا ہو کہ جواب کے وقت آپ کی روح جسد میں لوٹائی جائے گی، بعد میں اللہ تعالیٰ نے آپ کے درجات میں ترقی فرمائی اور آپ پر وحی فرمائی کہ آپ کو حیات ہمیشہ حاصل رہے گی۔

حافظ سیوطی نے پندرہ جوابات ذکر فرمائے ہیں، ان میں سے پہلے جواب کو انہوں نے بہت کمزور قرار دیا تھا، یعنی راویوں کو اس حدیث کی عبادت میں وہم ہوا ہے، ہم نے اس جواب کا ذکر نہیں کیا اور دوسرے جواب سے ابتداء کی، اس لیے چودہ جواب ذکر کیے ہیں اور جوابات کی ترتیب بھی ہم نے اپنی سہولت سے قائم کی ہے اور یہ جوابات ” انباء ذ کیا فی حیاۃ الانبیاء “ میں ص ٨۔ ١٦ میں درج ہیں۔ واضح رہے کہ یہ حافظ سیوطی کی عبادت کا ترجمہ نہیں ہے، بلکہ ان کی عبارت کا خلاصہ ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد آپ کی حیات کا مظاہر

علامہ سید محمود آلوسی متوفی ١٢٧٠ ھ لکھتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد اس امت کے ایک سے زیادہ کاملین نے آپ کی زیارت کی ہے اور آپ سے بیداری میں فیض حاصل کیا ہے، شیخ سراج الدین بن الملقن نے ” طبقات الاولیا “ میں لکھا ہے کہ شیخ عبدالقارد جیلانی قدس سرہ العزیز نے بیان کیا ہے کہ میں نے ظہر سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کی، آپ نے فرمایا : اے میرے بیٹے ! تم خطاب کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے کہا : یارسول اللہ ! میں عجمی شخص ہوں، فصحاء بغداد کے سامنے کیسے کلام کروں ؟ آپ نے فرمایا : اپنا منہ کھولو، میں نے اپنا منہ کھولا تو آپ نے اس میں سات مرتبہ لعاب دہن ڈالا اور آپ نے فرمایا : لوگوں سے کلام کرو اور انہیں حکمت اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اپنے رب کے دین کی دعوت دو ، پھر میں ظہر کی نماز پڑھ کر لوگوں کے سامنے بیٹھ گیا، میرے پاس بہت مخلوق آئی اور مجھ پر کلام ملتبس ہوگیا، پھر میں نے حضرت علی کرم اللہ وجہ الکریم کی زیارت کی جو میرے سامنے مجلس میں کھڑے ہوئے تھے، آپ نے مجھ سے فرمایا : اے میرے بیٹے ! کلام کیوں نہیں کرتے ؟ میں نے کہا : اے میرے والد گرامی ! مجھ پر کلام ملتبس ہوگیا، آپ نے فرمایا : اپنا منہ کھولو، میں نے منہ کھولا تو آپ نے میرے منہ میں چھ مرتبہ لعاب دہن ڈالا، میں نے کہا : آپ نے سات بار مکمل کیوں نہیں کیا ؟ حضرت علی نے فرمایا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ادب کی وجہ سے، پھر وہ مجھ سے غائب ہوگئے۔ نیز شیخ سراج الدین نے لکھا ہے کہ شیخ خلیفہ بن موسیٰ النہر ملکی، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نیند اور بیداری میں بکثرت زیارت کرتے تھے اور انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے نیند اور بیداری میں اکثر افعال حاصل کیے اور ایک بار انہوں نے ایک رات میں آپ کی سترہ مرتبہ زیارت کی، ان باریوں میں سے ایک بار میں آپ نے فرمایا : اے خلیفہ ! میری زیارت کے لیے بےقرار نہ ہوا کرو، کیونکہ بہت سے اولیاء میری زیارت کی حسرت میں فوت ہوگئے اور شیخ تاج الدین بن عطاء اللہ نے ” لطائف المنن “ میں لکھا ہے کہ ایک شخص نے شیخ ابوالعباسی مرسی سے کہا : اپنے اس ہاتھ سے میرے ساتھ مصافحہ کیجئے، انہوں نے کہا : میں نے اس ہاتھ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سوا اور کسی سے مصافحہ نہیں کیا اور شیخ مرسی نے کہا : اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پلک جھپکنے کی مقدار بھی میری نظروں سے اوجھل ہوں تو میں اپنے آپ کو مسلمان شمار نہیں کرتا، اس قول مثل اور بہت سے اولیاء سے منقول ہے۔ بکثرت متقدمین اور متاخرین سے منقول ہے کہ انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نیند میں زیارت کی اور اس کے بعد بیداری میں زیارت کی اور انہوں نے اس حدیث کی تصدیق کی اور جن چیزوں کے متعلق وہ متشوش تھے انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے ان چیزوں کے متعلق سوال کیا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دو مسئلہ اس طرح بیان کیا جس سے ان کی تشویش اور پریشانی دور ہوگئی۔ علامہ سیوطی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رؤیت کے سلسہ میں تمام احادیث، آثار اور نقول ذکر کرنے کے بعد لکھا ہے کہ خلاصہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے جسم اور روح کے ساتھ زندہ ہیں اور آپ اطراف ارض میں جب چاہیں، جہاں چاہیں تصرف کرتے ہیں اور تشریف لے جاتے ہیں اور عالم ملکوت میں آپ اپنی ہیئت کے ساتھ ہیں جس ہئیت میں آپ وفات سے پہلے تھے، اس میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی اور آپ آنکھوں سے اسی طرح غائب ہیں جس طرح فرشتے غائب ہیں، حالانکہ وہ اپنے اجسام کے ساتھ زندہ ہیں اور جب اللہ تعالیٰ کسی شخص کے اعزاز اور اکرام کا ارادہ فرماتا ہے تو اسکے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے درمیان جو حجابات ہیں ان کو اٹھا دیتا ہے اور وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس ہیئت پر دیکھتا ہے، اس سے کوئی چیز مانع نہیں ہے اور جسم مثالی تخصیص کا کوئی باعت نہیں ہے۔ (علامہ سیوطی کی عبارت ختم ہوئی) علامہ سیوطی (رح) کا تمام انبیاء علہیم السلام کے متعلق یہی موقف ہے، انہوں نے کہا : انبیاء (علیہم السلام) زندہ ہیں اور وفات کے بعد ان کی روحیں لوٹا دی گئیں اور ان کو قبروں سے نکلنے اور تمام علوی اور سفلی ملکوت میں تصرف کرنے کی اجازت دی گئی، اپنے اس موقف پر علامہ سیوطی نے بکثرت احادیث سے استشباد کیا ہے۔ بعض ازاں یہ ہیں :

(١) امام ابن حبان نے اپنی تاریخ میں، امام طبرانی نے معجم کبیر میں اور امام ابونعیم نے حلیہ میں حضرت انس (رض) سے روایت کیا ہے کہ ہر نبی فوت ہونے کے بعدصرف چالیس دن اپنی قبر میں رہتا ہے۔

(٢) امام عبدالرزاق نے سعید بن المسیب سے روایت کیا ہے : کوئی نبی فوت ہونے کے بعد چالیس دن سے زیادہ قبر میں نہیں رہتا۔

(٣) امام الحرمین نے نہایہ میں اور علامہ رافعی نے اس کی طرح میں لکھا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میں اپنے رب کے نزدیک اس سے زیادہ مکرم ہوں کہ وہ مجھے تین دن کے بعد بھی قبر میں رکھے، امام الحرمین نے کہا : یہ بھی مروی ہے کہ دو دن سے زیادہ قبر میں رکھے۔

علامہ سیوطی کا موقف یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) قبروں میں نہیں ہوتے، عالم ملکوت میں ہوتے ہیں، جن احادیث سے علامہ سیوطی نے استدلال کیا ہے، علامہ ابن جوزی نے ان کو موضوع قرار دیا ہے، نیز احادیث صحیحہ صریحہ سے یہ ثابت ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اپنی قبروں میں ہوتے ہیں، صحیح یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) اپنی قبروں میں زندہ ہیں اور جب چاہیں، جہاں چاہیں روئے زمین میں تشریف لے جاتے ہیں اور تصرف کرتے ہیں، علامہ آلوسی لکھتے ہیں : میرا ظن غالب یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت بصر سے اس طرح نہیں ہوتی جس طرح ہم دوسری متعارف چیزوں کو دیکھتے ہیں، یہ ایک حالت برزخی اور امروجدانی ہے، اس کو مکمل طور پر وہی جان سکتا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اس نعمت سے بہرہ مند کیا ہے اور چونکہ یہ رؤیت، رؤیت بصری کے بہت زیادہ مشابہ ہوتی ہے، اس لیے دیکھنے والا یہ گمان کرتا ہے کہ اس نے اپنی آنکھوں سے اس طرح دیکھا ہے جیسے وہ متعارف چیزیں دیکھتا ہے، حالانکہ ایسا نہیں ہے، یہ رؤیت قلبی ہے جو رؤیت بصری سے بہت زیادہ مشابہ ہے۔

جو شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زیارت کرتا ہے یا تو وہ آپ کی روح کو دیکھتا ہے جو صورت مرئیہ میں (یعنی انسانی پیکر میں) ظاہر ہوتی ہے اور اس روح کا تعلق آپ کے جسم اطہر کے ساتھ قائم رہتا ہے جو آپ کی قبر انور میں موجود ہے، جیسا کہ حضرت جبرائیل حضرت وحیہ کلبی (رض) کی صورت میں یا کسی اور صورت میں آتے تھے، اس کے باوجود سدرۃ المنتہیٰ پر موجود ہوتے تھے۔ یا زیارت کرنے والا شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جسم مثالی کو دیکھتا ہے جس کے ساتھ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح مقدس متعلق ہوتی ہے اور جسم مثالی کی تعدد سے کوئی چیز مانع نہیں ہے، یہ ہوسکتا ہے کہ آپ کے بہت سے اجسام مثالیہ ہوں (اور بیک وقت بہت سے لوگ آپ کی زیارت کریں) اور ان اجسام مثالیہ میں سے ہر ہر جسم کے ساتھ آپ کی روح کریم متعلق ہو، اس کی نظیر یہ ہے جیسے انسان کی ایک روح اس کے بدن کے ہر ہر عضو کے ساتھ متعلق ہوتی ہے، ہماری اس تقریر سے شیخ ابو العباس طبخی کے اس قول کی توجیہ ہوجاتی ہے کہ آسمان، زمین، عرش اور کرسی سب جگہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نظر آرہے تھے (یعنی ہر جگہ آپ کا جسم مثالی تھا اور آپ کی روح کا اس سے تعلق تھا) اور یہ اشکال بھی حل ہوجاتا ہے کہ متعدد دیکھنے والوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ایک معین وقت میں مختلف مقامات پر دیکھا (یعنی انہوں نے آپ کے اسجاد مثالیہ دیکھے جن کے ساتھ آپ کی روح متعلق تھی) ۔ پھر قبر میں انبیاء (علیہم السلام) کو جو حات حاصل ہوتی ہے ہرچند کی اس حیات پر وہ امور مرتب ہوتے ہیں جو دنیا میں مرتب ہوتے تھے، مثلاً وہ نماز پڑھتے ہیں، اذان اور اقامت پڑھتے ہیں، جو سلام سنتے ہیں اس کا جواب دیتے ہیں اور اس کی مثل دوسرے امور ہیں لیکن اس حیات میں وہ تمام امور مرتب نہیں ہوتے جو دنیا کی معروف حیات میں مرتب ہوتے ہیں اور اس حیات کو ہر شخص محسوس کرسکتا ہے نہ اس کا ادراک کرسکتا ہے اور اگر بالفرض تمام انبیاء (علیہم السلام) کی قبریں منکشف ہوجائیں تو عام لوگ قبروں میں انبیاء (علیہم السلام) کو اس طرح دیکھیں گے جس طرح باقی ان اجسام کو دیکھتے ہیں جن کو زمین نہیں کھاتی، ورنہ احادیث میں تعارض لازم آئے گا، کیونکہ احادیث میں یہ بھی مذکور ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) قبروں میں زندہ ہوتے ہیں اور مسند ابو یعلیٰ میں حدیث مرفوع ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قبر کو مصر میں منتقل کیا۔ (روح المعانی جز ٢٢ ص ٥٥۔ ٥١، ملخصا، دارالفکر، بیروت ١٤١٧ ھ)

شیخ انور شاہ کشمیری متوفی ١٣٥٢ ھ لکھتے ہیں : اور میرے نزدیک رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیداری میں زیارت کرنا ممکن ہے، جس شخص کو اللہ تعالیٰ یہ نعمت عطا فرمائے (اس کو زیارت ہوجاتی ہے) کیونکہ منقول ہے کہ علامہ سیوطی نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بائیس مرتہ بیداری میں زیارت کی (علامہ عبدالوہاب شعرانی نے خود علامہ سیوطی کے حوالے سے لکھا ہے کہ میں نے پچھتر مرتبہ بیداری میں زیارت کی اور بالمشافہ ملاقات کی ہے۔ میزان الشریعۃ الکبری ج ١ ص ٤٤، الواقح الانوار القدسیہ ص ١٧، سعیدی غفرلہٗ )

اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے بعض احادیث کے متعلق سوال کیا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تصحیح کے بعد ان کو صحیح قرار دیا، (الی قولہ) امام شعرانی (رح) نے بھی یہی لکھا ہے کہ انہوں نے بھی نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بیداری میں زیارت کی ہے اور آٹھ رفقاء کے ساتھ آپ سے صحیح بخاری پڑھی، پھر امام شعرانینے ان میں سے ہر ایک کا نام بھی لیا، ان میں سے ایک حنفی تھا، اخیر میں شیخ کشمیری نے کہا : بیداری میں آپ کی زیارت محقق ہے اور اس کا انکار کرنا جہالت ہے۔ (فیض الباری ج ١ ص ٢٠٤، مطبع حجازی، مصر، ١٣٥٧ ھ) ( ” جس نے مجھے نیند میں دیکھا وہ عنقریب مجھے بیداری میں دیکھے گا “ اس حدیث کی مزید شرح ہم نے شرح صحیح مسلم جلد سادس میں بیان کردی ہے) ۔

اجسام مثالیہ کا تعدد

صوفیاء اور فقہا جو اجساد مثالیہ کے تعدد کے قائل ہیں، اس کی اصل یہ حدیث ہے۔ امام احمد اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : حضرت قرہ مزنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوتا تھا اور اس کے ساتھ اس کا بیٹا بھی ہوتا تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس شخص سے پوچھا : کیا تم اس سے محبت کرتے ہو ؟ اس نے کہا : اللہ (بھی) آپ سے اتنی محبت کرے جتنی میں اس سے محبت کرتا ہوں، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے بیٹے کو نہیں دیکھا، آپ نے پوچھا : فلاں شخص کے بیٹے کو کیا ہو ؟ صحابہ نے عرض کیا : وہ فوت ہوگیا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے باپ سے فرمایا : کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ تم جنت کے جس دروازہ سے بھی داخل ہو تمہارا بیٹا اس دروازہ پر (پہلے سے) موجود تمہارا انتظار کررہا ہو ؟ ایک شخص نے پوچھا : یارسول اللہ ! آیا یہ بشارت اس شخص کے لیے خاص ہے یا ہم سب کے لیے ہے ؟ آپ نے فرمایا : بلکہ تم سب کے لیے ہے۔ (مسند احمد ج ٣ ص ٤٣٦، مکتبہ اسلامیہ، بیروت) ملا علی قاری اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

فیہ اشارۃ الی خرق العادۃ من تعدد الاجساد المکتسبۃ حیث ان الولد موجود فی کل باب من ابواب الجنۃ۔

اس حدیث میں یہ اشارہ ہے کہ بطور خرق عادت اجساد مثالیہ متعدد ہوتے ہیں، کیونکہ وہ بچہ (بیک وقت) جنت کے ہر دروازہ پر موجود ہوگا۔

(مرقات ج ٤ ص ١٠٩، مکتبہ امدادیہ، ملتان)

نیز ملا علی قاری لکھتے ہیں :

ولا تباعد من الاولیاء حیث طویت لھم الارض وحصل تھم ابدان مکتبۃ متعدۃ وجدوھا فی اماکن مختلفۃ فی آن واحد۔

جب اولیاء اللہ کے لیے زمین لپیٹ دی جاتی ہے تو ان کے لیے ایسے اجساد مثالیہ کی تعدد بعید نہیں ہے جو آن واحد میں مختلف مقامات پر موجود ہوتے ہیں۔ (مرقات ج ٤ ص ٣١، مکتبہ امدادیہ، ملتان)

انبیاء اور اولیاء کا آن واحد میں متعدد جگہ موجود ہونا

شیخ عبدالحق محدث دہلوی متوفی ١٠٥٢ ھ لکھتے ہیں : بعض محققین ابدال کی وجہ تسمیہ میں بیان کرتے ہیں کہ انہیں جب کسی جگہ جانا مقصود ہوتا ہے تو وہ پہلی جگہ اپنے بدلے میں اپنی مثال چھوڑ کر چلے جاتے ہیں اور سادات صوفیہ کے نزدیک عالم اجسام اور ارواح کے درمیان ایک عالم مثال بھی ثابت ہے جو عالم اجسام سے لطیف اور عالم ارواح سے کثیف ہوتا ہے اور روحوں کا مختلف صورتوں میں متمثل ہونا اسی عالم مثال پر مبنی ہے اور حرضت جبرائیل (علیہ السلام) کا حضرت دحیہ کلبی (رض) کی صورت میں اور حضرت مریم کے پاس بشر سومی کی صورت میں متمثل ہونا اسی عالم مثال کے قبیل سے ہے اور اسی وجہ سے جائز ہے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) چھٹے آسمان پر بھی موجود ہوں اور اسی وقت اپنی قبر میں بھی جسم مثالی کے ساتھ موجود ہوں اور حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو دونوں جگہ دیکھا ہو۔

اور حاجی امداد اللہ مہاجر مکی متوفی ١٣١٧ ھ لکھتے ہیں : رہا یہ شبہ کہ آپ کو کیسے علم ہوا یا کئی جگہ کیسے ایک وقت میں تشریف فرما ہوئے یہ ضعیف شبہ ہے، آپ کے علم وروحانیت کی نسبت جو دلائل نقلیہ وکشفیہ سے ثابت ہے اس کے آگے یہ ایک اولیٰ سی بات ہے، علاوہ اس کے اللہ کی قدرت تو محل کلام نہیں۔ (فیصلہ ہفت مسئلہ ص ٧، مدنی کتب خانہ، لاہور)

شیخ اشرف علی تھانوی متوفی ١٣٦٢ ھ لکھتے ہیں : محمد بن الحضری مجذوب نے ایک دفعہ تیس شہروں میں خطبہ اور نماز جمعہ بیک وقت پڑھائے اور کئی کئی شہروں میں ایک ہی شب میں شب باش ہوتے تھے۔ (جمال الاولیاء ص ١٨٨، مکتبہ اسلامیہ، لاہور)

نیز شیخ تھانوی لکھتے ہیں : امام شعرانی فرماتے ہیں کہ شیخ محمد الشر بینی کی اولاد کچھ تو ملک مغرب میں مراکش کے بادشاہ کی بیٹی تھی اور کچھ اولاد بلادعجم میں تھی اور کچھ بلاد ہند میں اور کچھ بلاد تکرود میں تھی، آپ ایک ہی وقت میں ان تمام شہروں میں اپنے اہل و عیال کے پاس ہو آتے اور ان کی ضرورتیں پوری فرمادیتے اور ہر شہر والے یہ سمجھتے تھے کہ وہ انہی کے پاس قیام رکھتے ہیں۔ (جمال الاولیاء ص ٢٠٢)

شیخ شبیر احمد عثمانی متوفی ١٣٦٩ ھ لکھتے ہیں :

انسانی روحیں جب پاکیزہ ہوں تو وہ ابدان سے الگ ہوجاتی ہیں اور اپنے بدن کی صورتوں میں یا کسی اور صورت میں متمثل ہو کر چلی جاتی ہیں جیسے حضرت جبرائیل (علیہ السلام) حضرت دحیہ کلبی کی صورت میں یا کسی اعرابی کی صورت میں متمثل ہو کر جہاں اللہ تعالیٰ چاہتا چلے جاتے ہیں اس کے باوجود ان کا اپنے ابدان اصلیہ سے تعلق برقرار رہتا ہے، جیسا کہ احادیث صحیحہ میں وارد ہے اور جس طرف بعض اولیاء سے منقول ہے کہ وہ ایک وقت میں متعدد جگہوں پر دکھائی دیتے ہیں اور ان سے افعال صادر ہوتے ہیں، اس کا انکار کرنا ہٹ دھرمی ہے، جو صرف کسی جاہل اور معاندے سے یہ متصور ہوسکتا ہے اور علامہ ابن قیم نے دعویٰ کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ایک وقت میں متعدد جگہ زیارت کی جاتی ہے حالانکہ اس وقت آپ اپنی قبر انور میں نماز پڑھ رہے ہوتے ہیں، اس پر تفصیلی بحث ہوچکی ہے اور حدیث صحیح میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو کثیب احمر کے پاس ان کی قبر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھا اور ان کو آسمان میں بھی دیکھا اور آپ کے اور حضرت موسیٰ کے درمیان فرض نمازوں کے معاملہ میں مکالمہ ہوا، شب معراج نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرے انبیاء کی ایک جماعت کو بھی آسمانوں پر دیکھا حالانکہ ان کی قبریں زمین پر ہیں اور کسی نے یہ قول نہیں کیا کہ وہ اپنی قبروں سے آسمانوں کی طرف منتقل ہوگئے تھے۔ (فلح الملہم ج ١ ص ٣٠٦۔ ٣٠٥، مطبع الحجاز کراچی)

علامہ جلال الدین سیوطی، علامہ سید آلوسی، علامہ ابن حجر ہیثمی مکی، علامہ عبدالوہاب شعرانی، ملا علی قاری، شیخ عبدالحق محدث دہلوی، حاجی امداد اللہ مہاجر مکی، شیخ اشرف علی تھانوی اور شیخ شبیر احمد عثمانی کی صریح عبارات سے یہ واضح ہوگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنی قبر مبارک میں زندہ ہیں اور کائنات کا ملاحظہ اور اعمال امت کا مشاہدہ فرما رہے ہیں اور احوال برزخ میں مشغول ہیں اور جب چاہیں جہاں چاہیں تشریف لے جاتے ہیں، حتیٰ کہ ایک وقت میں متعدد جگہ بھی تشریف لے جاتے ہیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حاضر وناظر ہونے سے ہماری یہی مراد ہے۔ ایک سوال یہ کیا جاتا ہے کہ اگر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک وقت میں متعدد جگہ موجود ہوں تو اگر ہر جگہ آپ بعینہٖ موجود ہیں تو یہ تکڑ جزی ہے اور وہ محال ہے اور اگر دوسری جگہ پر آپ کی مثال ہے تو مثل شی غیر شی ہوتی ہے، سو اس جگہ آپ نہ ہوئے بلکہ آپ کا غیر ہوا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ احساد مثالیہ میں اشارہ حسیہ کے لحاظ سے بہرحال تغایر ہے، اس لیے یہ تکثر جزی نہیں ہے اور چونکہ ان تمام اجساد مثالیہ میں روح واحد متصرف ہے اس لیے یہ اجسام آپ کا غیر نہیں ہیں۔ الحمدللہ علیٰ احسانہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حاضر وناظر ہونے کے تمام اصولی مباحث کا میں نے بار حوالہ اور بادلائل ذکر کردیا ہے، اللہ تعالیٰ میری اس تحریر کو میرے لیے توشہ آخرت، موافقین کے لیے موجب استقامت اور مخالفین کے لیے سبب ہدایت بنادے۔ ماشاء اللہ ولا قوۃ الا باللہ العلی العظیم۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نماز جنازہ پڑھنے کی کیفیت

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی اپنی سند کے ساتھ ایک حدیث روایت کرتے ہیں، اس کے آخر میں ہے : صحابہ کرام نے حضرت ابوبکر (رض) سے کہا : اے صاحب رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فوت ہوگئے۔ آپ نے فرمایا : پس انہوں نے آپ کے صدق کو جان لیا۔ پھر پوچھا : کیا ہم رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر نماز جنازہ پڑھیں ؟ آپ نے فرمایا : ہاں۔ انہوں نے پوچھا : کیسے ؟ آپ نے فرمایا : ایک جماعت داخل ہو کر تکبیر پڑھئے دعا مانگے اور درود شریف پڑھے، پھر وہ چلے جائیں، پھر ایک جماعت داخل ہو کر تکبیر پڑھے، درود پڑھے اور دعا مانگے، پھر وہ چلے جائیں۔ (شمائل ترمذی رقم الحدیث : ٣٩٧، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٢٣٤، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ١٦٢٤۔ ١٥٤١، المجم الکبیر رقم الحدیث : ٦٣٦٧، حلیۃ الاولیاء ج ١ ص ٣٧١، دلائل النبوۃ للبیہقی ج ٧ ص ٢٥٩ )

نماز جنازہ میں اصل اور فرض قیام اور تکبیرات اربعہ ہیں، باقی ثناء، صلوٰۃ اور دعا وغیرہ ثانوی حیثیت اور استحباب کا درجہ رکھتی ہیں۔ اس حدیث صحیح میں تکبیرات کا ذکر موجود ہے اور وہی نماز جنازہ کی اصل ہیں۔ باقی دعا اور صلوٰۃ کا بھی ذکر ہے اور یہ واضح رہے کہ دعا سے مراد یہاں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں کلمات طیبات کا عرض کرنا ہے۔ علامہ ابوالحسن علی بن بکر الفرغانی المتوفی ٥٩٣ ھ لکھتے ہیں :

اگر ولی اور حاکم اسلام کے سوا اور لوگ نماز جنازہ پڑھ لیں تو ولی کو اعادہ کا اختیار ہے کہ حق اولیاء کا ہے اور اگر ولی نے نماز جنازہ پڑھ لی تو اب دوبارہ کسی شخص کو نماز جنازہ پڑھنے کا اختیار نہیں ہے۔ کیونکہ فرض تو پہلی نماز سے ادا ہوچکا اور یہ نماز بطور نفل پڑھنا مشروع نہیں ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مزار اقدس پر تمام جہان کے مسلمانوں نے نماز جنازہ پڑھنی چھوڑ دی حالانکہ حضور آج بھی ویسے ہی (زندہ اور تروتازہ) ہیں جیسے اس دن تھے جب آپ کی قبر مبارک میں رکھا گیا تھا۔ (ہدایہ اولین ص ١٨٠، مطبوعہ شرکۃ علمیہ، ملتان) اگر نماز جنازہ کی تکرار مشروع ہوتی تو مزار اقدس پر نماز پڑھنے سے تمام جہان اعراض نہ کرتا جس میں علماء وصلحاء اور وہ حضرات ہیں جو طرح طرح سے حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بارگاہ میں تقرب حاصل کرنے کی رغبت رکھتے ہیں تو سلف سے لے کر خلف تک تمام مسلمانوں کا حضور کی قبر انور پر نماز جنازہ نہ پڑھنا نماز جنازہ کے تکرار کے عدم جواز کی کھلی ہوئی دلیل ہے اور اس کا اعتبار کرنا واجب ہے۔ (فتح القدیر ج ٢ ص ١٢٣، مطبوعہ دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٥ ھ)

ہدایہ اور فتح القدیر کی عبارت سے ظاہر ہوگیا کہ وہ نماز جنازہ کے عدم تکرار کی مشروعیت اس بنیاد پر رکھتے ہیں کہ کل جہاں کے مسلمان، علماء اور صلحاء آپ کی قبر انور پر نماز جنازہ پڑھتے اور یہ استدلال اسی وقت صحیح ہوسکتا ہے کہ نماز جنازہ سے مراد معروف نماز جنازہ ہو اور اگر اس سے مراد محض صلوٰۃ وسلام پڑھنا ہو تو وہ آج تک قبر انور پر پڑھا جاتا ہے۔ اس صورت میں احناف کثر ہم اللہ تعالیٰ کا یہ استدلال کس طرح صحیح ہوگا۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا فاضل بریلوی متوفی ١٣٤٠ ھ درج ذیل سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں : مسئلہ ٨٤ : از شہر چانگام موضع چربا کلیہ مکان روشن علی مستری مرسلہ منشی محمد اسماعیل ١٣ شوال ١٣٣٠ ھ۔ کیا فرماتے ہیں علمائے دین کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے جنازہ کی نماز کتنی مرتبہ پڑھی گئی اور اوّل کس شخص نے پڑھائی تھی ؟ بینوا توجروا

الجواب : صلی اللہ تعالیٰ علی حبیبہ والہ وبارک وسلم، مسائل کو جواب مسئلہ سے زیادہ نافع یہ بات ہے کہ درود شریف کی جگہ جو عوام وجہال صلعم یا ع یا م یا ص یا صللم لکھا کرتے ہیں، محض مہمل و جہالت ہے۔ القلم احدی اللسانین (قلم دو زبانوں میں سے ایک ہے۔ ) جیسے زبان سے درود شریف کے عوض یہ مہمل کلمات کہنا درود کو ادا نہ کرے گا یوں ہی ان مہملات کا لکھنا درود لکھنے کا کام نہ دے گا، ایسی کوتاہ قلمی سخت محرومی ہے۔ میں خوف کرتا ہوں کہ کہیں ایسے لوگ ” فبدل الذین ظلموا قولا غیر الذی قیل لھم “ (تو ظالموں نے بدل ڈالی وہ بات جو ان سے کہی گئی تھی۔ ) میں نہ داخل ہوں۔ نام پاک کے ساتھ ہمیشہ پورا درود لکھا جائے گا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ جنازہ اقدس پر نماز کے باب مختلف ہیں۔ ایک کے نزدیک یہ نماز معروف نہ ہوئی بلکہ لوگ گروہ در گروہ حاضر ہوتے اور صلوٰۃ وسلام عرض کرتے، بعض احادیث بھی اس کی مؤید ہیں کما بیناھا فی رسالتنا النھی الحاجز عن تکرار صلوۃ الجنائز (جیسا کہ انہیں ہم نے اپنے راسلہ ” النھی الحاجز عن تکرار صلوۃ الجنائز “ میں بیان کیا ہے۔ ) اور بہت علماء یہی نماز معروف مانتے ہیں، امام قاضی عیاض نے اس کی تصحیح فرمائی کما فی شرح الموطا للزر قانی (جیسا کہ علامہ زرقانی کی شرح موطا میں ہے۔ ) سیدنا صدیق اکبر (رض) تسکینِ فتن وانتظام امت میں مشغول، جب تک ان کے دست حق پرست پر بیعت نہ ہوئی تھی، لوگ فوج فوج آتے اور جنازہ انور پر نماز پڑھتے جاتے، جب بعیت ہولی، ولی شرعی صدیق ہوئے، انہوں نے جنازہ مقدس پر نماز پڑھی، پھر کسی نے نہ پڑھی کہ بعد صلوٰۃ ولی پھر اعادہ نماز جنازہ کا اختیار نہیں۔ ان تمام مطالب کی تفصیلِ قلیل، فقیر کے رسالہ مذکورہ میں ہے۔ مبسوط امام شمس الائمہ سرخسی میں ہے : ان ابابکر (رض) کان مشغولا بتسویۃ الامورو تسکین الفتنۃ فکانوا یصلون علیہ قبل حضور ہ وکان الحق لہ لا نہ ھو الخلیفۃ فلما فرخ صلی علیہ ثم لم یصل احد بعدہ علیہ۔

حضرت ابوبکر صدیق (رض) معاملات درست کرنے اور فتنہ فرو کرنے میں مشغول تھے، لوگ ان کی آمد سے پہلے آکر صلوٰۃ پڑھتے جاتے اور حق ان کا تھا اس لیے کہ وہ خلیفہ تھے، تو جب فارغ ہوئے نماز پڑھی، پھر اس کے بعد نماز نہ پڑھی گئی۔ (ت) (مبسوط ج ٢ ص ٦٧، دارالمعرفۃ) بزار وحاکم وابن منیع و بیہقی اور طبرانی معجم اوسط میں حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے راوی ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اذا غسلتمونی وکفنتمونی فضعونی علی سریری ثم اخر جو اعنی فان اول من یصلی علی جبریل ثم میکائیل ثم اسرافیل ملک الموت مع جنودہ من الملائکۃ باجمعھم ثم ادخلوا اعلی فوجا بعد فوج فضلوا علی وسلم وا تسلیما۔ واللہ سبحنہ وتعالیٰ اعلم۔ (المستدرک ج ٣ ص ٦) جب میرے غسل وکفن سے فارغ ہو مجھے نعش مبارک پر رکھ کر باہر چلے جائو۔ سب سے پہلے جبریل مجھ پر صلوٰۃ کریں گے، پھر میکائیل، پھر اسرافیل، پھر ملک الموت اپنے سارے لشکروں کے ساتھ، پھر گروہ گروہ میرے پاس حاضر ہو کر مجھ پر درود وسلام عرض کرتے جائو۔ (فتاویٰ رضویہ ج ٩ ص ٣١٥، ٣١٤، رضا فائونڈیشن لاہور، ١٩٩٦ ء)

عام مسلمانوں کی نماز جنازہ پڑھنے کی کیفیت

علامہ علاء الدین ابوبکر بن مسعود کا سانی حنفی متوفی ٥٨٧ ھ لکھتے ہیں : مسلمانوں کا اس پر اجمال ہے کہ نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں اور اجماع حجت ہے اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بھی نماز جنازہ میں چار تکبیریں پڑھی ہیں اور ہر تکبیر ایک رکعت کے قائم مقام ہے اور فرض نمازیں چار رکعات سے زیادہ نہیں ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو آخری نماز جنازہ پڑھی اس میں چار تکبیریں تھیں، حضرت ابوبکر (رض) نے حضرت فاطمہ کی نماز جنازہ میں چار تکبیریں پڑھیں، حضرت عمر نے حضرت ابوبکر کی نماز جنازہ میں چار تکبیریں پڑھیں۔

پہلی تکبیر کے بعد اللہ عزوجل جل کی ثناء پڑھے اور وہ یہ ہے : ” سبحانک اللھم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالیٰ جدک ولا الہ غیرک “ اور دوسری تکبیر کے بعد نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر صلوٰۃ (درود) پڑھے اور وہ معروف درود شریف ہے ” اللھم صلی علی محمد وعلی آل محمد…انک حمید مجید “ تک اور تیسری تکبیر کے بعد میت کے لیے استغفار کرے اور ان کے لیے شفاعت کرکے کیونکہ نماز جنازہ میت کے لیے دعا ہے اور چوتھی تکبیر کے بعددونوں طرف سلام پھیر دے۔ (بدائع الصنائع ج ٢ ص ٣٤١، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)

نماز جنازہ میں چار تکبیریں پڑھنے کی اصل یہ حدیث ہے : عن جابر (رض) ان النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) صلی علی اصحمۃ النجاشی فکبر اربعا۔

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اصحمہ النجاشی کی نماز جنازہ پڑھائی اور چار تکبیریں پڑھیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : ١٣٣٤، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٩٧٠) اور نماز جنازہ میں پہلی تکبیر کے بعد ثناہ اور دوسری تکبیر کے بعد درود شریف اور تیسری تکبیر کے بعد دعا کرنے کی اصل حدیثیں ہیں :

امام ابو عیسیٰ محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں : وعن فضالۃ بن عبید، قال بینما رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) قاعد اذ دخل رجل فصلی، فقال اللھم اغفرلی وارحمنی فقال رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) عجلت ایھا الصلی ! اذا صلیت فقعدت، فاحمد اللہ بما ھواھلہ، وصل علی، ثم ادع قال ثم ادعہ قال ثم ادعہ قال ثم صلی رجل اخر

حضرت فاضلہ بن عبید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک شخص آیا اور اس نے بیٹھ کر یہدعا کی : اے اللہ ! میری مغفرت کر اور مجھ پر رحم فرما تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے نمازی ! تم نے جلدی کی۔ جب تم نماز پڑھ کر بیٹھ جائو تو اللہ کی شان کے لائق حمد کرو۔ پھر مجھ پر درود پڑھو، پھر اللہ سے دعا کرو، پھر اس کے بعد اور شخص آیا اس نے اللہ کی حمد کی اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود پڑھا تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اے نمازی ! اب تم دعا کرو، تمہاری دعا قبول ہوگی۔

بعد ذلک فحمد اللہ، وصلی علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فقال لہ النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایھا المصلی ! اد تحب

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٤٧٦، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٤٨١، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٢٨٣، صحیح ابن خزیمہ رقم الحدیث : ٧٠٩، مسند احمد ج ٦ ص ١٨، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ١٩٦٠، المعجم الکبیر ج ١٨، رقم الحدیث : ٧٩٤۔ ٧٩٣۔ ٧٩١، المستدرک ج ١ ص ٢٣٠، سنن کبریٰ ج ٢ ص ١٤٨۔ ١٤٧)

وعن عبداللہ بن مسعود، قال کنت اصلی والنبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) وابوبکر وعمر معہ، فلما جلست بذات بالثناء علی اللہ (تعالی) ثم الصلوۃ علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، ثم دعوت لنفسی فقال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ۔ سل تعطہ، سل تعطہ۔

حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نماز پڑھ رہا تھا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور حضرت ابوبکر اور حضرت عمر میرے ساتھ تھے، جب میں بیٹھ گیا تو میں نے پہلے اللہ تعالیٰ کی ثناء کی۔ پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درودپڑھا۔ پھر اپنے لیے دعا کی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم سوال کرو، تمہیں دیا جائے گا، تم سوال کرو تمہیں دیا جائے گا۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٥٩٣، شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٤٠١، جامع المسانید والسنن مسند ابن مسعود رقم الحدیث : ٨٧٠) امام عبدالرزاق بن ھمام متوفی ٢١١ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : عبدالرزاق عن الثوری عن ابی ہاشم عن الشعبی قال التکبیرۃ الاولی علی المیت ثناء علی اللہ، والثانیۃ صلوۃ علی النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ، والثالئۃ دعاء لمیت، والرابعۃ تسلیم۔

امام شعبی نے کہا : پہلی تکبیر میں میت پر ثناء ہے، دوسری تکبیر میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود ہے اور تیسری تکبیر میں میت کے لیے دعا ہے اور چوتھی تکبیر میں سلام پھیرنا ہے۔ (مصنف عبدالرزاق ج ٣ ص ٣١٦، رقم الحدیث : ٦٤٦٢، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

علامہ علاء الدین محمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی متوفی ١٠٨٨ ھ لکھتے ہیں :

نماز جنازہ میں فرض دو چیزیں ہیں : پہلی چیز چار تکبیریں ہیں اور دوسری چیز قیام ہے، علامہ شامی متوفی ١٢٥٢ ھ نے لکھا ہے : اس میں سنت تین چیزیں ہیں (١) اللہ تعالیٰ کی حمدوثناء (٢) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود اور میت کے لیے دعا۔

صدر الشریعہ مولانا امجد علی حنفی متوفی ١٣٧٦ ھ لکھتے ہیں :

مسئلہ : نماز جنازہ میں دو رکن ہیں : چار بار اللہ اکبر کہنا، قیام، بغیر عذر بیٹھ کر یا سواری پر نماز جنازہ پڑھی، نہ ہوئی اور اگر ولی یا امام بیمار تھا، اس نے بیٹھ کر پڑھائی اور متقدیوں نے کھڑے ہو کر پڑھی، ہوگئی۔ (درمختار والمختار) مسئلہ : نماز جنازہ میں تین چیزیں سنت مؤکدہ ہیں : (١) اللہ عزوجل کی حمدوثناء (٢) نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود (٣) میت کے لیے دعا۔ نماز جنازہ کا طریقہ یہ ہے کہ کان تک ہاتھ اٹھا کر اللہ اکبر کہتا ہوا ہاتھ نیچے لائے اور ناف کے نیچے حسب دستور باندھ لے اور ثناء پڑھے، یعنی : ” سبحنک اللھم وبحمدک و تبارک اسمک وتعالیٰ جدک وجل ثناوک ولا الہ غیرک “ پھر ہاتھ بغیر اٹھائے اللہ اکبر کہے اور درود شریف پڑھے، بہتر وہ درود ہے جو نماز میں پڑھا جاتا ہے اور کوئی دوسرا پڑھا جب بھی حرج نہیں، پھر اللہ اکبر کہہ کر اپنے اور میت اور تمام مؤمنین ومؤمنات کے لیے دعا کرے اور بہتر یہ ہے کہ وہ دعا پڑھے جو احادیث میں وارد ہے اور ماثور دعائیں اگر اچھی طرح نہ پڑھ سکے تو جو دعا چاہے، پڑھے مگر وہ دعا ایسی ہو کہ امور آخرت سے متعلق ہو۔ (جو ہرہ نیرہ عالمگیری درمختار وغیرہا) بعض ماثور دعائیں یہ ہیں :

اللھم اغفر لحینا ومیتنا وشاھدنا وغائبنا وصغیرنا وکبیرنا وذکر نا وانشانا اللھم من احییتہ منا فاحیہ علی الا سلام ومن توفیتہ منا فتوفہ علی الایمان اللھم لا تحرمنا اجر (ہ ھا) ولا تفتنا بعد (ہ ھا) اللھم اغفر (لہ لھا) وارحمہ (ھا) وعافہ (ھا) واعف عنہ (عنھا) واکرم نزلہ (ھا) و وسع مدخلہ (ھا) واغسلہ (ھا) بالماء والثلج والبرد ونقہ (ھا) من الخطایا کما نقیت الثوب الابیض من الدنس وابدلہ (ھا) دارا خیر امن دار (ھ ھا) ۔ (بہار شریعت حصہ چہارم ص ٨١، ضیاء القرآن پبلی کیشنز لاہور)

نماز جنازہ کے بعد صفیں توڑ کر دعا کرنے کا جواز اور استحسان

اہل سنت کا معمول ہے کہ نماز جنازہ پڑھنے کے بعد صفیں توڑ لیتے ہیں اور لوگ منتشر ہوجاتے ہیں، اس کے بعد امام ایک بار سورة فاتحہ اور تین بار سورة اخلاص پڑھتا ہے اور لوگوں سے بھی پڑھنے کے لیے کہتا ہے، پھر اس کا میت کے لیے ایصال ثواب کرتا ہے اور مغفرت کے لیے دعا کرتا ہے اور لوگ اس پر آمین کہتے ہیں، علماء دیوبند اس عمل سے منع کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ بدعت ہے۔ نماز جنازہ میں میت کے لیے دعا کی جاچکی ہے، اب اس دعا کے تکرار کی کیا ضرورت ہے، نیز اس دعا سے نماز جنازہ میں زیادتی کا وہم پیدا ہوتا ہے، وغیرہ وغیرہ۔

ہم کہتے ہیں کہ قرآن مجید اور احادیث میں مطلقاً دعا کرنے کا حکم ہے اور اس کی فضیلت کا ذکر ہے، ہم اختصار کے پیش نظر صرف دو آیتیں اور تین حدیثوں کا ذکر کررہے ہیں۔

فادعوا اللہ مخلصین لہ الدین ولوکرہ الکفرون (المومن : ١٤) پس تم اللہ سے دعا کرو اخلاص سے اس کی اطاعت کرتے ہوئے خواہ کافروں کو ناگوار ہو

وقال ربکم ادعونی استجب لکم۔ (المومن : ٦٠) اور تمہارے رب نے فرمایا : تم مجھ سے دعا کرو میں تمہاری دعا کو قبول کروں گا۔

دعا کے اس عمومی حکم میں نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا بھی شامل ہے اور قرآن مجید کی کسی آیت میں اور کسی حدیث صحیح میں نماز جنازہ کے بعد دعا پڑھنے سے منع نہیں کیا گیا۔ پھر بغیر کسی شرعی ممانعت کے نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے سے منع کرنا صحیح نہیں ہے اور اپنی طرف سے شریعت وضع کرنے کے مترادف ہے اور اللہ کے ذکر سے روکنے اور منع کرنے کی جسارت ہے اور اس کی قرآن اور حدیث میں سخت مذمت ہے۔

دعا کرنے کے عموم اور اطلاق میں حسب ذیل احادیث ہیں :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : دعا عبادت کا مغز ہے۔

(سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٧١، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٢٢٠، مشکوٰۃ رقم الحدیث : ٢٢٣١، کنزالعمال رقم الحدیث : ٣١١٤، جامع المسانید والسنن مسند انس رقم الحدیث : ٢)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کے نزدیک دعا ہے بڑھ کر کوئی مکرم چیز نہیں ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٧٠، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٢٩، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٨٧٠، المعجم الاوسط رقم الحدیث : ٣٧١٨۔ ٢٥٤٤، مسند احمد ج ٢ ص ٣٦٤، الادب المفردرقم الحدیث : ٧١٢، کتاب الضعفاء للعقیلی ج ٣ ص ٣٠١، المستدرک ج ١ ص ٤٩٠، شرح السنۃ رقم الحدیث : ١٣٨٨)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اللہ سے سوال نہیں کرتا، اللہ تعالیٰ اس پر غضب ناک ہوتا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : ٣٣٧٣، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٣٨٢٧، مصنف ابن ابی شیبہ ج ١٠ ص ٢٠٠، مسند احمد ج ٢ ص ٤٧٧۔ ٤٤٣۔ ٤٤٢، الادب المفردرقم الحدیث : ٦٥٨، مسند ابویعلیٰ رقم الحدیث : ٦٦٥٥، المستدرک ج ١ ص ٤٩١)

ان احادیث میں بھی عموم اور اطلاق کے ساتھ دعا کرنے کا حکم ہے اور نماز جنازہ پڑھنے کے بعد جس صفیں ٹوٹ جائیں اور لوگ منتشر ہوجائیں یا جنازہ کے گرد جمع ہوجائیں اس وقت میت کے لیے دعا کرنا بھی ان اوقات کے عموم اور اطلاق میں داخل ہے اور کسی حدیث میں اس وقت میت کے لیے دعا کرنے سے ممانعت نہیں ہے، سو بغیر کسی شرعی دلیل کے محض ہوائے نفس سے نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے سے منع کرنا بدعت اور گمراہی کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے، جب کہ خصوصیت کے ساتھ نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے کے سلسلہ میں احادیث اور آثار بھی وارد ہیں جن کو ہم پیش کررہے ہیں۔

نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے کے ثبوت میں خصوصی احادیث اور آثار

عن ابی ہریرہ قال سمعت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یقول اذ صلیتم علی المیت فاخلصوالہ الدعا۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب تم میت پر نماز (جنازہ) پڑھ لو تو اخلاص کے ساتھ اس کے لیے دعا کرو۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣١١٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٤٩٧، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٠٧٦، سنن کبریٰ للبیہقی ج ٤ ص ٤٠ )

اس حدیث میں ” فاخلصوا “ پر ” فا “ ہے اور یہ تعقیب علی الفور کے لیے آتی ہے، اس کا معنی ہے : میت پر نماز جنازہ پڑھنے کے فوراً بعد اس کے لیے اخلاص سے دعام کرو۔

مانعین اور مخالفین اس استدلال پر یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قرآن مجید میں ہے :

فاذاقرات القراٰن فاستعذ باللہ من الشیطن الرجیم (النحل : 98) پس جب تم قرآن پڑھو تو شیطان مردود سے اللہ کی پناہ طلب کرو۔

اس آیت میں بھی ” فاستعذ “ پر ” فا “ جو تعقیب علی الفور کے لیے آتی ہے اور اس صورت میں اس کا معنیٰ ہوگا : جب تم قرآن مجید پڑھو تو اس کے فوراً بعد اعوذ باللہ من الشیطن الرجیم پڑھو، حالانکہ اعوذ باللہ قرآن مجید پڑھنے سے پہلے پڑھی جاتی ہے۔ اس کا جواب یہ ہے کہ چونکہ اس آیت کا ظاہر معنی متعذر ہے، اس لیے اس میں مجاز بالحذف ہے اور تقدیر عبارت اس طرح ہے ” اذاردت ان تقرالقران “ جب تم قرآن پڑھنے کا ارادہ کرو تو اعوذ لاللہ من الشیطن الرجیم پڑھو، اس کے برخلاف جس حدیث سے ہم نے استدلال کیا ہے اس کے معنی میں کوئی تعذر نہیں ہے اور اس کو کسی مجاز پر محمول کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

اس سلسلہ میں دوسری صحیح حدیث یہ ہے :

عن عبداللہ بن ابی اوفی وکان من اصحاب الشجرۃ فماتت ابنۃ لہ وکان یتبع جمناز تھا علی بغلۃ خلفھا، فجعل النساء یبکین، فقال لا ترثین، فان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نھی عن المراثی، فتفیض احدا کن من عبر تھا ماشائت، ثم کبر علیھا اربعا، ثم قام بعد الرابعۃ قدر مابین التکبیر تین یدعو، ثم قال کان رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یصنع فی الجنازۃ ھکذا۔

حضرت عبداللہ بن ابی اوفیٰ (رض) جو اصحاب شجرہ میں سے ہیں وہ بیان کرتے ہیں کہ ان کی بیٹی فوت ہوگئی، وہ اس کے جنازہ میں خچر پر سوار ہو کر جارہے تھے کہ عورتوں نے رونا شرع کردیا۔ حضرت عبداللہ نے کہا : تم مرثیہ مت پڑھو، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مرثیہ پڑھنے سے منع فرمایا ہے، تم میں سے کوئی عورت اپنی آنکھ سے جس قدر چاہے آنسو بہائے، پھر انہوں نے جنازہ پر چار تکبیریں پڑھیں، پھر اتنا وقفہ کیا جتنا دو تکبیروں کے درمیان وفقہ ہوتا ہے اور اس وقفہ میں دعا کرتے رہے۔ پھر کہا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نماز جنازہ میں اسی طرح کرتے تھے۔

(مسند احمد ج ٤ ص ٣٥٦ قدیم، مسند احمد ج ٣١ ص ٤٨٠، رقم الحدیث : ١٩١٤٠، مؤسستہ الرسالۃ، بیروت، ١٤٢٠ ھ، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث : ٦٤٠٤، مسند الحمیدی رقم الحدیث : ٧١٨، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٥٠٣، مصنف ابن ابی شیبہ ٣ ص ٣٠٢، المعجم الصغیر رقم الحدیث : ٢٦٨، المستدرک ج ١ ص ٣٦٠۔ ٣٥٩، سنن بیہقی ج ٤ ص ٤٣۔ ٤٢ )

اس حدیث میں یہ تصریح ہے کہ حضرت ابن ابی اوفیٰ نے چوتھی تکبیر کے بعد دعا کی اور نماز جنازہ کے اندر جو دعا کی تھی وہ تیسری تکبیر کے بعد کی جاتی ہے اور حضرت ابن ابی اوفیٰ نے بتایا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھی اسی طرح کرتے تھے اور یہ نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے کا و اضح ثبوت ہے، باقی رہا یہ کہ یہ چوتھی تکبیر کے بعد سلام پڑھا جاتا ہے اور اس حدیث میں اس کا ذکر نہیں ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ راوی سلام کا ذکر کرنا بھول گیا ہو یا اس نے یہ سوچ کر اسکا ذکر ترک کردیا کہ یہ تو ویسے ہی معروف اور مشہور ہے۔

نماز جنازہ کے بعد دعا کے ثبوت میں یہ حدیث بھی اس کی مثل ہے :

یزید بن رکانہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب میت پر نماز جنازہ پڑھتے تو چار تکبیریں پڑھتے، پھر یہ دعا کرتے : اے اللہ ! تیرا بندہ اور تیری بندی کا بیٹا تیری رحمت کا محتاج ہے اور تو اس کو عذاب دینے سے غنی ہے، پس اگر یہ نیک ہے تو تو اس کی نیکی میں زیادہ کر اور اگر یہ بُرا ہے تو اس کی برائی سے درگزر فرما، پھر جو اللہ چاہتا آپ اس کے لیے وہ دعا کرتے۔ (المعجم الکبیر ج ٢٢ ص ٢٤٩، رقم الحدیث : ٦٤٧، حافظ الہیثمی نے کہا : اس حدیث کی سند میں ایک راوی یعقوب بن حمید ہے، اس میں کلام کیا گیا ہے۔ مجمع الزوائد ج ٣ ص ٣٤)

اس حدیث میں بھی چار تکبیروں کے بعد دعا کا ذکر ہے، اس لیے اس دعا سے مراد بھی وہ دعا ہے جو نماز جنازہ کے بعد پڑھی جاتی ہے کیونکہ جو دعا نماز جنازہ کے اندر پڑھی جاتی ہے وہ تین تکبیروں کے بعد پڑھی جاتی ہے اور اس حدیث میں اور اس سے پہلی حدیث میں یہ تصریح ہے کہ یہ دعا چار تکبیروں کے بعد پڑھی گئی ہے اور اگر کوئی مخالف اس پر اصرار کرے کہ چار تکبیروں کے بعدیہ دعا نماز جنازہ کے اندر پڑھی گئی تھی اور اس کے بعد سلام پڑھا گیا تو لازماً سلام سے پہلے بھی ایک تکبیر پڑھی جائے گی اور اس طرح نماز جنازہ میں پانچ تکبیریں ہوجائیں گی اور یہ اجماع کے خلاف ہے۔ ہم اس سے پہلے بدائہ الصنائع ج ٢ ص ٣٤١ کے حوالے سے لکھ چکے ہیں کہ اس پر مسلمانوں کا اجماع ہے کہ نماز جنازہ میں چار تکبیریں ہیں، رہا یہ کہ ان دونوں حدیثوں میں چار تکبیروں کے بعد سلام کا ذکر نہیں ہے تو ہوسکتا ہے کہ راوی نے اس کا ذکر اس لیے نہ کیا ہو کہ چار تکبیروں کے بعد سلام کا پڑھنا مسلمانوں میں بالکل ظاہر اور معروف تھا، اس لیے اس نے اس کا ذکر نہیں کیا۔ بہرحال چار تکبیروں کے بعد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کا دعا کرنا ہمارے مطلوب پر بہت واضح دلیل ہے۔

اور یہ حدیث بھی ہمارے مطلبوب پر بہت واضح اور صریح دلیل ہے :

عن جبیر بن نفیر سمعہ یقول سمعت عوف بن مالک یقول صلی رسول اللہ اللہ علیہ وسلم علی جنازۃ فحفظت من دعائہ وھو یقول اللھم اغفرلہ وارحمہ وعافہ واعف عنہ واکرم نزلہ ووسع مدخلہ واغسلہ بالماء والثلج والبرد ونقہ من الخطایا کما نقیت الثوب الا بیض من الدنس واید لہ داراخیرامن دارہ واھلا خیر امن اھلہ وزجا خیرا من زوجہ وادخلہ الجنۃ واعذہ من عذاب القبرومن عذاب النار قال حتی تمنیث ان اکون انا ذلک المیت۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٩٦٣، سنن الترمذی رقم الحدیث : ١٠٢٥، سنن النسائی رقم الحدیث : ١٩٨٤)

حضرت عوف بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جنازے کی نماز پڑھی، میں نے اس جنازے میں آپ کی دعا کے الفاظ یادرکھے، وہ یہ ہیں (ترجمہ) اے اللہ ! اس کی مغفرت فرما، اس پر رحم فرما، اس کو عافیت میں رکھ اور اس کو معاف فرما، اس کی عزت کے ساتھ مہمانی کر، اس کے مدخل کو وسیع کر، اس کو پانی، برف اور اولوں سے دھوڈال، اس کو گناہوں سے اس طرح صاف کردے جس طرح تو نے سفید کپڑے کو میل سے صاف کردیا ہے۔ اس کے (دنیاوی) گھر کے بدلہ میں اس سے بہتر گھر عطا فرما، اس کے (دنیاوی) گھر والوں کے بدلہ میں بہتر گھر والے عطا فرما۔ اس کو (دنیاوی) گھر والوں کے بدلہ میں بہتر گھر والے عطا فرما۔ اس کی (دنیاوی) بیوی کے بدلہ میں اس سے بہتر بیوی عطا فرما، اس کو جنت میں داخل فرما، اس کو عذاب قبر اور عذاب نار سے محفوظ رکھ۔ حضرت عوف کہتے ہیں کہ اس وقت میں نے یہ تمنا کی کہ کاش ! وہ کرنے والا میں ہوتا (تاکہ یہ دعا مجھے مل جاتی)

نمازِ جنازہ کے ادر جو دعا ہو اس کو سراً (آہستہ) پڑھا جاتا ہے اور اس دعا کو حضرت عوف بن مالک نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر یاد کیا تھا، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ نے یہ دعا جہراً پڑھی تھی اور جہراً دعا نماز جنازہ کے بعد پڑھی جاتی ہے، لہٰذا یہ وہ دعا ہے جو نماز جنازہ کے بعد پڑھی گئی، اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ محدثین نے اس دعا کو نماز جنازہ میں پڑھی جانے والی دعا کے باب میں ذکر کیا ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ اس حدیث میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جو اس پر دلالت کرتا ہو کہ یہ وہ دعا ہے جو نماز جنازہ کے اندر پڑھی جاتی ہے۔ بلکہ حضرت عوف بن مالک کا اس دعا کو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سن کر یاد کرنا اس پر ظاہر اور واضح قرینہ ہے کہ یہ دعا نماز جنازہ کے بعد پڑھی گئی تھی اور محدثین کا اس دعا کو نماز جنازہ کے اندر پڑھنے پر محمول کرنا محض ان کی رائے ہے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تو ان کو نہیں فرمایا تھا کہ تم اس حدیث کو اس باب میں درج کرو۔ نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے کے ثبوت میں احادیث کا ذکر کرنے کے بعد اب ہم آثار صحابہ کا ذکر کررہے ہیں :

امام ابوبکر عبداللہ بن ابی شیبہ متوفی ٢٣٥ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

عن عمیر بن سعید قال صلیت مع علی علی یزید بن المکفف فکبر علیہ اربعا ثم مشی حتی اتاہ فقال اللھم عبدک ابن عبدک نزل بک الیوم فاغفرلہ ذنبہ ووسع علیہ مدخلہ ثم مشی حتی اتاہ وقال اللھم عبدک ابن عبدک نزل بک الیوم فاغفرلہ ذنبہ ووسع علیہ مدخلہ فاتا لانعلم منہ الاخیرا وانت اعلم بہ۔ (مصنف ابن ابی شبیہ ج ٣ ص ٣٣١، مطبوعہ ادارۃ القرآن کراچی، ١٤٠٦ ھ)

عمیر بن سعید بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رض) کے ساتھ یزید بن المکفف کی نماز جنازہ پڑھی، انہوں نے اس پر چار تکبیریں پڑھیں، پھر کچھ چلے حتیٰ کہ جنازہ کے پاس آئے اور یہ، دعا کی : اے اللہ ! یہ تیرا بندہ ہے اور تیرے بندہ کا بیٹا ہے، آج اس پر موت طاری ہوئی ہے تو اس کے گناہ بخش دے اور اس کی قبر کو کشادہ کردے، پھر کچھ چل کر اس کے پاس آئے اور دعا کی اے اللہ ! یہ تیرا بندہ ہے اور تیرے بندہ کا بیٹا ہے، آج اس پر موت طاری ہوئی ہے تو اس کے گناہ کو بخش دے اور اس کی قبر کو کشادہ کردے کیونکہ ہمیں اس کے متعلق خیر کے سوا اور کچھ علم نہیں ہے اور اس کا خوب علم تجھ کو ہی ہے۔

شمس الائمہ محمد بن احمد سرخسی متوفی ٤٨٣ ھ بیان کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن عمر (رض) سے ایک نماز جنازہ رہ گئی، جب وہ اس جنازہ پر آئے تو انہوں نے میت پر صرف استغفار کیا اور حضرت عبداللہ بن سلام (رض) سے حضرت (رض) کی نماز جنازہ رہ گئی، جب وہ ان کے جنازہ پر آئے تو کہا : اگر تم نے نماز جنازہ پڑھنے میں مجھ پر سبقت کرلی ہے تو ان کے لیے دعا کرنے میں تو مجھ سر سبقت نہ کرو۔

(المبسوط ج ٢ ص ١٠٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤٢١ ھ)

ہماری دلیل یہ ہے کہ روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک جنازہ پر نماز پڑھائی، جب آپ نماز جنازہ پڑھ چکے تو حضرت عمر (رض) کچھ لوگوں کے ساتھ آئے اور یہ ارادہ کیا کہ ان پر نماز جنازہ پڑھیں تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نماز جنازہ دوبارہ نہیں پڑھی جاتی۔ لیکن تم میت کے لیے دعا کرو اور استغفار کرو اور یہ حدیث اس باب میں نص (صریح) ہے اور رایت ہے کہ حضرت ابن عباس اور حضرت ابن عمر (رض) سے ایک جنازہ پر نماز رہ گئی، جب وہ آئے تو انہوں نے میت کے لیے صرف استغفار کیا اور حضرت عبداللہ بن سلام (رض) سے حضرت عمر (رض) کی نماز جنازہ رہ گئی، جب وہ آئے تو انہوں نے کہا : اگر تم نے ان کی نماز جنازہ میں مجھ پر سبقت کرلی ہے تو ان کے لیے دعا کرنے میں مجھ پر سبقت نہ کرو۔ (بدائع الصنائع ج ٢ ص ٣٣٨۔ ٣٣٧، دارالکتب العلمیہ، بیروت ١٤١٨ ھ)

علامہ محمود بن احمد البخاری المتوفی ٦١٦ ھ نے بھی اس حدیث کا ذکر کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نماز جنازہ دوبارہ نہیں پڑھی جاتی لیکن تم میت کے لیے دعا کرو اور استغفار کرو۔ (المحیط البرھانی ج ٢ ص ٣٣٣، داراحیاء التراث اعلربی، بیروت، ١٤٢٤ ھ)

ان احادیث اور آثار سے یہ واضح ہوگیا کہ نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا عہد رسالت اور عہد صحابہ میں معمول اور مشروع تھا۔ اس تفصیل اور تحقیق کے بعد ہم فقہاء کی ان عبارات کی تنقیح کرنا چاہتے ہیں جن سے مخالفین نماز جنازہ کے بعد دعا کرنے کے عدم جواز پر استدلال کرتے ہیں۔

نماز جنازہ کے بعد دعا سے ممانعت کے دلائل اور ان کے جوابات

ملا علی بن سلطان محمد القاری متوفی ١٠١٤ ھ لکھتے ہیں :

نماز جنازہ کے بعد میت کے لیے دعا نہ کرے کیونکہ اس سے نماز جنازہ میں زیادتی کا شبہ پیدا ہوتا ہے۔

(مرقاۃ المفاتیح ج ٤ ص ١٧٠، مکتبہ حقانیہ، پشاور)

ہم نے نماز جنازہ کے بعد دعا کو احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ سے ثابت کیا ہے اور ملا علی قاری کی یہ عبارت نہ قرآن کی آیت ہے، نہ حدیث ہے، نہ اثر ہے تو اس میں اتنی قوت کہاں سے آگئی کہ یہ احادیث صحیحہ کے مزاحم ہوسکے، تاہم اس کی توجیہ یہ ہے کہ ملا علی قاری نے نماز جنازہ کے بعد دعا کو اس لیے منع کیا ہے کہ اس سے نماز جنازہ میں زیادتی کا شبہ پیدا ہوتا ہے اور زیادتی کا شبہ اس وقت ہوگا جب سلام پھیرنے کے بعد اسی طرح صفیں قائم رہیں اور لوگ اسی طرح اپنی جگہوں پر ہاتھ باندھے کھڑے رہیں، پھر اسی حال میں میت کے لیے دعا کریں تو یہ شبہ ہوگا کہ یہ دعا بھی نماز جنازہ کا جز ہے۔ لیکن جب سلام پھیرنے کے بعد صفیں ٹوٹ جائیں اور لوگ منتشر ہو کر جنازہ کے گرد جمع ہوں اور ایک بار سورة فاتحہ اور تین بار سورة اخلاص پڑھ کر میت کے لیے ایصال ثواب کریں اور ہاتھ اٹھا کر میت کے لیے دعا کریں تو پھر کوئی عقل وخرد سے عاری شخص ہی ہوگا جو یہ سمجھے گا کہ یہ دعا نماز جنازہ کا جز ہے۔

اسی طرح بعض فقہاء نے یہ کہا ہے کہ ظاہر الروایہ میں ہے کہ نماز جنازہ کے بعد دعا نہ کرے اور نوادر میں ہے : یہ دعا جائز ہے۔

علامہ محمود بن احمد البخاری متوفی ٦١٦ ھ لکھتے ہیں :

نماز جنازہ کے بعد کوئی شخص دعا کے لیے کھڑا نہ ہو کیونکہ وہ ایک مرتبہ دعا کرچکا ہے اور نماز جنازہ کا اکثر حصہ دعا ہے اور نوادر کی روایت میں ہے کہ دعا جائز ہے۔ (المحیط البرھانی ج ٢ ص ٣٣٨، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤٢٤ ھ)

علامہ زین الدین ابن نجیم متوفی ٩٧٠ ھ لکھتے ہیں :

نماز جنازہ سلام پھیرنے کے بعد دعا نہ کرے، اسی طرح خلاصۃ الفتاوی (ج ٢ ص ٢٢٥) میں ہے امام فضلی نے کہا کہ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ (البحر الرائق ج ٢ ص ١٨٣، مطبوعہ مکتبہ ماجدیہ، کوئٹہ)

علامہ سراج الدین عمر بن ابراہیم بن نجیم حنفی متوفی ١٠٠٥ ھ لکھتے ہیں :

نماز جنازہ میں سلام پھیرنے کے بعد کوئی دعا نہ کرے یہ ظاہر مذہب ہے اور بعض مشائخ نے کہا ہے کہ یہ دعا کرے :

” ربنا اتنا فی الدنیا حسنۃ وفی الاخرۃ حسنۃ “ اور بعض نے کہا : یہ دعا کرے :

” اللھم لا تحرمنا اجرہ ولا تفتن بعدہ واغفرلنا ولہ “

اور بعض نے کہا : یہ دعا کرے : ربنا لاتزغ قلوبنا……الی اخرہ “

(النہر الفائق ج ١ ص ٣٩٤، قدیمی کتب خانہ، کراچی)

علامہ ابراہیم حلبی متوفی ٩٥٦ ھ اور علامہ شیخی زادہ داماد آفندی متوفی ٢٠٧٨ ھ نے بھی اسی طرح لکھا ہے۔

(غنیۃ المستملی ص ٥٨٦۔ ٥٨٥، سہیل اکیڈمی، لاہور، مجمع الانہر ج ١ ص ٢٧١، مکتبہ غفاریہ، کوئٹہ)

فقہاء کی ان عبارات سے واضح ہوا ہے کہ اگر نماز جنازہ کے سلام پھیرنے کے متصل بعد وہیں کھڑے کھڑے صفیں توڑے بغیر میت کے لیے دعا کی تو یہ ظاہر الروایہ میں ممنوع ہے لیکن نوادر کی عبارات میں، امام فضلی اور دیگر متاخرین کی عبارات میں مذکور ہے کہ اس کیفیت سے بھی نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا جائز ہے اور اگر نماز جنازہ کے بعد صفیں توڑ کر میت کے لیے دعا کی جائے جیسا کہ مروجہ طریقہ ہے تو پھر یہ کسی کے اعتبار سم ممنوع نہیں ہے اور اس کے جواز اور استحسان میں کوئی کلام نہیں ہے۔

مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ نے نماز جنازہ کے بعد دعا کی ممانعت میں لکھا ہے :

سوال (٣٠٧): نماز جنازہ کے بعد جماعت کے ساتھ وہیں ٹھہر کر دعا کرنا کیسا ہے ؟

الجواب : درست نہیں

لمافی البزازیہ لا یقوم بالدعا بعد صلوۃ الجنازۃ لانہ دعا مرۃ لان اکثر ھا دعا۔

(بزاز یہ علی ھامش العالمگیریہ ج ٤ ص ٩٠) ، (فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ج ٢ (اعداد المفتین کامل) ص ٤٤٤، دارالاشاعت، کراچی، ١٩٧٧ ء)

دراصل بزازیہ کی یہ عبارت عالمگیر ج ٤ ص ٨٠ پر ہے، اس کا ترجمہ یہ ہے : نماز جنازہ کے بعد دعا کے لیے کھڑا نہ رہے کیونکہ وہ ایک مرتبہ دعا کرچکا ہے اور نماز جنازہ کا اکثر حصہ دعا پر مشتمل ہے۔

اس ممانعت کا بھی وہی محمل ہے کہ نماز جنازہ کے بعد اسی جگہ صفیں توڑے بغیر دعا نہ کرے، صفیں توڑنے اور لوگوں کے منتشر ہونے کے بعد ممانعت نہیں ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر فصل کیے بغیر اس جگہ دعا کرے گا تو اس سے نماز جنازہ میں زیادتی کا شبہ ہوگا۔

نماز جنازہ کے متصل بعد اسی حال میں میت کے لیے مزید دعا کی ممانعت کی نظیر وہ احادیث ہیں جن میں فرض نماز کے متصل بعد بغیر فصل کیے ہوئے نفل نماز پڑھنے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منع فرمایا ہے۔

نافع بن جبیر نے ایک شخص کو سائب کے پاس بھیجا اور ان سے ان چیز کے بارے میں دریافت کیا جس کو حضرت معاویہ نے لاۃ میں دیکھا تھا، سائب نے کہا : ہاں ! میں نے ان کے ساتھ المقصورۃ میں جمعہ پڑھا تھا، جب امام نے سلام پھیرا تو میں اسی جگہ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا، حضرت معاویہ نے مجھے بلوا کر فرمایا، تم نے جو کیا ہے دوبارہ ایسا نہ کرنا، جب تم جمعہ کی نماز پڑھ لو تو اس وقت تک دوسری نماز نہ پڑھو، حتیٰ کہ تم کسی سے بات کرلو، یا وہاں سے چلے جائو، کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہمیں اس طرح کرنے حکم دیا ہے کہ ایک نماز کو دوسری نماز کے ساتھ نہ ملایا جائے، حتیٰ کہ ہم کسی سے بات کرلیں یا اس جگہ سے چلے جائیں۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٨٨٣، سنن ابودائود رقم الحدیث : ١١٢٩ )

نماز جنازہ میں اصل چیز میت کے لیے دعا ہے، سو نماز جنازہ کی دعا کے بعد بغیرفصل کے دوسری دعا نہ کی جائے، ہاں کسی سے باتیں کرکے یا اس جگہ سے فصل کرکے دوبارہ دعا کی جائے تو پھر جائز ہے جیسے فرض نماز کے بعد فصل کرکے نفل نماز پڑھنا جائز ہے اور متصلاً پڑھنا ممنوع ہے۔

اسی طرح امام ابودائود سلیمان بن اشعت متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :

ازرق بن قیس بیان کرتے ہیں کہ ہم کو ایک امام نے نماز پڑھائی جس کی کنیت ابورمثہ تھی، ابورمثہ نے کہا : میں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی دائیں جانب تھے اور ایک شخص نماز میں پہلی تکبیر کے ساتھ موجود تھا، نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دائیں جانب اور بائیں جانب سلام پھیرا، حتیٰ کہ ہم نے آپ کے رخساروں کی سفیدی دیکھی، پھر جس شخص نے پہلی تکبیر کے ساتھ نماز پڑھی تھی وہ اٹھ کر فوراً دو رکعت نماز پھڑنے لگا، حضرت عمر (رض) اس کی طرف لپکے اور اس کے دونوں کندھوں کو پکڑ کر جھنجوڑا، پھر کہا : بیٹھ جائو، کیونکہ سابقہ اہل کتاب صرف اسی وجہ سے ہلاک ہوئے ہیں کہ وہ اپنی نمازوں میں فصل نہیں کرتے تھے، پھر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نظر اٹھا کر حضرت عمر کو دیکھا اور فرمایا : اے ابن الخطاب ! اللہ تم کو صواب پر برقرار رکھے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٠٠٧)

ان حدیثوں سے معلوم ہوا کہ فرض نماز اور نفل نماز میں کوئی فصل ہونا چاہیے، خواہ کوئی بات کرلی جائے یا جگہ بدل لی جائے اور نماز جنازہ کے متصل بعد اگر اسی جگہ دوبارہ میت کے لیے دعا کی جائے تو وہ بھی اسی حکم میں ہے، لہٰذا جن فقہاء نے نماز جنازہ کے متصل بعد اگر اسی جگہ دوبارہ میت کے لیے دعا کی جائے تو وہ بھی اسی حکم میں ہے، لہٰذا جن فقہاء نے نماز جنازہ کے متصل بعد میت کے لیے دعا کرنے سے منع کیا ہے اس کی بھی یہی وجہ ہے اور یہ وجہ بھی ہے کہ اس سے نماز جنازہ میں زیادتی کا شبہ ہوگا اور جب صفیں ٹوٹنے اور نمازیوں کے جگہ بدلنے کے بعد دعا کی جائے گی تو پھر نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا بہرحال مستحسن ہوگا۔

دارا العلوم دیوبند کے مفتی اوّل مفتی عزیز الرحمن لکھتے ہیں :

سوال (٣١٣٤): بعد نماز جنازہ قبل دفن چند مصلیوں (نمازیوں) کا ایصال ثواب کے لیے سورة فاتحہ ایک بار اور سورة اخلاص تین بار آہستہ آواز سے پڑھنا یا کسی نیک آدمی کا دونوں ہاتھ اٹھا کر مختصر دعا کرنا شرعاً درست ہے یا نہیں۔

الجواب : اس میں کچھ حرج نہیں ہے لیکن اس کو رسم کرلینا اور التزام کرنا مثل واجبات کے اس کو بدعت بنادے گا کما صرح بہ الفقھاء فقط۔ (فتاویٰ دارالعلوم دیو بند مدلل مکمل ج ٥ ص ٤٣٥۔ ٤٣٤، دارالاشاعت، کراچی)

اس فتویٰ سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ کے بعد کچھ فصل کرکے دعا کرنا جائز ہے بلکہ مستحب اور مسنون ہے۔ مثلا واجبات کے التزام کرنا ہمارے نزدیک بھی صحیح نہیں ہے۔ لیکن مثل واجبات کے التزام کا معنی یہ ہے کہ نہ کرنے والے کو ملامت اور مذمت کی جائے اور اس کو کبھی بھی ترک نہ کیا جائے اور کبھی ترک ہوجائے تو اس کی قضاء کی جائے اور اہل سنت اس طرح نہیں کرتے۔

مجھ سے بعض احباب نے فرمائش کی تھی کہ میں نماز جنازہ کے بعد دعا کے مسئلہ پر لکھو، شرح صحیح مسلم اور بتیان القرآن کی سابقہ جلدوں میں یہ مسئلہ نہیں لکھ سکا تھا۔ اب ” انک میت “ کی تفسیر میں اس مسئلہ کی ایک گونہ مناسبت تھی سو حسب مقدور لکھ دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ (آمین)

 

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 39 الزمر آیت نمبر 30