أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُكُمۡ يُوۡحٰٓى اِلَىَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمۡ اِلٰـهٌ وَّاحِدٌ فَاسۡتَقِيۡمُوۡۤا اِلَيۡهِ وَاسۡتَغۡفِرُوۡهُ‌ ؕ وَوَيۡلٌ لِّلۡمُشۡرِكِيۡنَ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے میں محض تمہاری مثل بشر ہوں، میری طرف یہ وحی کی جاتی ہے کہ بیشک تمہارا معبود واحد معبود ہے، تم اسی کی طرف مستقیم رہو اور اسی سے استغفار کرو اور مشرکین کے لیے ہلاکت ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

آپ کہیے میں محض تمہاری مثل بشر ہوں، میری طرف یہ وحی کی جاتی ہے کہ بیشک تمہارا معبود واحد معبود ہے، تم اسی کی طرف مستقیم رہو اور اسی سے استغفار کرو اور مشرکین کے لیے ہلاکت ہے جو زکوٰۃ (خیرات) ادا نہیں کرتے اور آخرت کا انکار کرنے والے ہیں بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک عمل کیے ان کے لیے ایسا اجر ہے جو ختم نہیں ہوگا (حٰم ٓ السجدۃ :6-8)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بشر ہونے کی تحقیق

امام فخرالدین محمد بن عمررازی شافعی متوفی ٦٠٦ ھ حٰم ٓ السجدۃ : ٦ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

آپ یوں فرمائیں کہ میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ میں تم کو جبر اور قہر سے ایمان کے ساتھ متصف کروں کیونکہ میں تمہاری مثل بشر ہوں اور میرے اور تمہارے درمیان صرف یہ امتیاز ہے کہ اللہ عزوجل نے میری طرف وحی نازل فرمائی ہے اور تمہاری طرف وحی نازل نہیں کی، پھر اگر اللہ تم کو توحید پر ایمان لانے کی توفیق دے تو تم ایمان لائو اور اگر وہ تم کو اس توفیق سے محروم رکھے تو تم اس پر ایمان لانے کو رد کردو۔ (تفسیر کبیر ج ٩ ص ٥٤١، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

علامہ ابوعبداللہ محمد بن احمد مالکی قرطبی متوفی ٦٦٨ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

میں فرشتہ نہیں ہوں اولاد آدم سے ہوں۔ حسن بصری نے کہا : اللہ تعالیٰ نے اس قول سے آپ کو تواضع کی تعلیم دی۔ (الجامع لاحکام القرآن جز ١٥ ص ٣٠٤، دارالفکر، بیروت، ١٤١٥ ھ)

قاضی عبداللہ بن عمر بیضاوی شافعی متوفی ٦٨٥ ھ لکھتے ہیں :

میں فرشتہ یا جن نہیں ہوں کہ تمہارے لیے مجھ سے استفادہ کرنا ممکن نہ ہو اور نہ میں تمہیں کسی ایسی چیز کی دعوت دیتا ہوں جس میں عقل اور کان متنفر ہوں، میں تو تم کو صرف توحید کی اور نیک عمل کی دعوت دیتا ہوں، جن کی صحت پر عل دلالت کرتی ہے اور نقل بھی اس کے درست ہونے پر شاہد ہے۔ (تفسیر بیضاوی مع ابخفاجی ج ٨ ص ٢٩٣۔ ٢٩٢۔ دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٥١٧ ھ)

علامہ سید محمد ود آلوسی نے علامہ بیضاوی کی اس عبارت کو نقل کردیا ہے۔ (روح المعانی جز ٢٤ ص ١٤٩، دارالفکر، بیروت، ١٤١٧ ھ)

علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ لکھتے ہیں :

میں دیکھا بھی جاتا ہوں اور میری بات سنی بھی جاتی ہے اور میرے اور تمہارے درمیان بظاہر کوئی جنسی مغائرت بھی نہیں ہے، تو تمہارا یہ کہنا کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ میری بات نہ تمہاری بات نہ تمہارے دل تک پہنچے، نہ تمہارے سننے میں آئے اور میرے اور تمہارے درمیان کوئی روک ہو، بجائے میرے کوئی غیر جنس جن یا فرشتہ آتا تو تم کہہ سکتے تھے کہ نہ وہ ہمارے دیکھنے میں آئیں نہ ان کی بات سننے میں آئے، نہ ہم ان کے کلام کو سمجھ سکیں، ہمارے اور ان کے درمیان تو جنسی مخالفت ہی بڑی روک ہے، لیکن یہاں تو ایسا نہیں کیونکہ میں بشری صورت میں جلوہ نما ہوا، تو تمہیں مجھ سے مانوس ہونا چاہیے اور میرے کلام کو سمجھنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی بہت کوشش کرنی چاہیے کیونکہ میرا مرتبہ بہت بلند ہے اور میرا کلام بہت عالی ہے، اس لیے کہ میں وہی کہتا جو مجھے وحی ہوتی ہے۔

فائدہ : سیدعالم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بلحاظ ظاہر ” انا بشرمثلکم “ فرمانا حکمت ہدایت و ارشاد کے لیے بطریق تواضع ہے اور جو کلمات تواضع کے لیے کہے جائیں وہ تواضع کرنے والے کے علومنصب کی دلیل ہوتے ہیں، چھوٹوں کا ان کلمات کو اس کی شان میں کہنا یا اس سے برابری ڈھونڈنا، ترک ادب اور گستاخی ہوتا ہے تو کسی امتی کو روا نہیں کہ وہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے مماثل ہونے کا دعویٰ کرے، یہ بھی ملحوظ رہنا چاہیے کہ آپ کی بشریت بھی سب سے اعلیٰ ہے، ہماری بشریت کو اس سے کچھ نسبت نہیں۔ (خزائن العرفان برکنز الایمان ص ٧٥٩، تاج کمپنی لمیٹڈ، کراچی)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بشر ہونا بھی ایک معرکۃ الآراء مسئلہ ہے اور اس میں بہت تفریط کی گئی ہے۔ بعض لوگ اس میں غلو کرتے ہیں اور آپ کو نورمحض مانتے ہیں اور آپ کے بشر ہونے کا انکار کرتے ہیں اور بعض اس مسئلہ میں تفریط کرتے ہیں اور آپ کو ابنا سا بشر کہتے ہیں۔ تحقیق یہ ہے کہ آپ بشر ضرور ہیں لیکن افضل البشر ہیں اور آپ کے کسی وصف میں آپ کا کوئی مماثل نہیں ہے۔

صدر الشریعہ علامہ امجد علی متوفی ١٣٧٦ ھ لکھتے ہیں :

عقیدہ : نبی اس بشر کو کہتے ہیں جسے اللہ تعالیٰ نے ہدایت کے لیے وحی بھیجی ہو اور رسول بشر کے ساتھ ہی خاص نہیں بلکہ ملائکہ بھی رسول ہیں۔

عقیدہ : انبیاء سب بشر تھے اور مرد، نہ کوئی جن نبی ہوا نہ عورت۔ (بہارِ شریعت ج ١ ص ٩، مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز، لاہور)

صدر الافاضل علامہ سید محمد نعیم الدین مراد آبادی متوفی ١٣٦٧ ھ لکھتے ہیں :

ابنیاء وہ بشر ہیں جن کے پاس اللہ تعالیٰ کی طرف سے وحی آتی ہے وہ وحی کبھی فرشتہ کی معرفت آتی ہے کبھی بےواسطہ۔ (کتاب العقائد ص ٨ مطبوعہ مدینہ پبلشنگ کمپنی کراچی)

ان حوالہ جات سے یہ واضح ہوگیا کہ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقیقت بشر اور انسان ہے اور آپ کا مادہ خلقت چاند اور سورج کی طرح حسی نور نہیں ہے، آپ نور ہدایت ہیں اور نور ہدایت ہی حسی نور سے افضل ہے، ہاں بعض اوقات آپ کے دانتوں کی جھریوں سے حسی نور کی شعائیں نظر آتی تھیں، آپ بشر ہیں اور بےمثل بشر ہیں، قرآن مجید میں جو ہے : ” آپ کہیے : میں تمہاری مثل بشر ہوں “۔ تو یہ مماثلت کسی وجود وصف میں نہیں ہے، یہ مماثلت صرف عدمی وصف میں ہے یعنی آپ صرف اس چیز میں ہماری مثل ہیں کہ نہ ہم خدا ہیں نہ آپ خدا ہیں اور پوری کائنات میں وجودی وصف میں کوئی آپ کا مماثل نہیں ہے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا بشر ہونا بھی ایک اہم مسئلہ ہے، ہمارے زمانہ میں بعض واعظین نے یہ مشہور کررکھا کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی حقیقت نور تھی اور بشریت آپ کا لباس تھی، جب کہ اس کے برخلاف قرآن مجید کی متعدد نصوص میں تصریح ہے کہ آپ بشر تھے اور نوع انسان سے تھے، اگر آپ کی حقیقت بشر اور انسان نہ ہوتی تو آپ انسانوں کے لیے اسوہ اور نمونہ نہ ہوتے اور آپ کے اعمال انسانوں سر حجت نہ ہوتے اور انسانوں کے لیے آپ سے استفادہ کرنا ممکن نہ ہوتا۔

استقامت کا معنی اور اس کی اہمیت

اس کے بعد فرمایا : ” تم اسی کی طرف مستقیم رہو اور اسی سے استغفار کرو “۔

اس آیت میں ہے : ” تم اسی کی طرف مستقیم رہو “۔ استقامت کا معنی ہے : متوسط طریقہ پر دائم اور مستمر رہنا یعنی تم عقیدہ توحید اور نیک اعمال پر مستقیم رہو اور اس سے سر موانحراف نہ کرو، استقامت کے متعلق یہ حدیث ہے :

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : استقامت پر رہو اور تم ہرگز نہ رہ سکوگے اور یاد رکھو تمہارا سب سے اچھا عمل نماز ہے اور وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرسکتا ہے (اس حدیث کی سند صحیح ہے) ۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٢٧٧، مسند احمد ج ٥ ص ٢٧٧ طبع قدیم، مسند احمد ج ٣٧ ص ٠، مصنف ابن ابی شبیہ ج ١ ص ٦۔ ٥، سنن دارمی رقم الحدیث : ٦٥٥، المستدرک ج ١١ ص ١٣٠، سنن کبریٰ للبیہقی ج ١ ص ٨٢، الممعجم الکبیر للطبرانی رقم الحدیث : ٦٢٧٠، کتاب الضعفاء ج ٤ ص ١٦٨، الجامع الصغیر رقم الحدیث : ٩٩٤، جمع الجوامع رقم الحدیث : ٢٩٦٥ )

علامہ شمس الدین محمد عبدالرئوف مناوی ١٠٣١ ھ استقامت کی شرح میں لکھتے ہیں :

قاضی نے کہا : استقامت سے مراد ہے حق کی اتباع کرنا، نیک کام کرنا اور سیدھے راستے کو لازم رکھنا اور یہ بہت مشکل کام ہے، اس کو وہی شخص کرسکتا ہے جس کا قلب کدورات بشریہ اور ظلمان نفسانیہ سے صاف ہو اور تجلیات قدسیہ سے روشن ہو، اللہ تعالیٰ نے اپنے پاس سے اس کی تائید کی ہو اور اس کو شیطان کی تحریکات، تحریصات اور ترغیبات سے محفوظ رکھا ہو۔

علامہ طیبی نے کہا ہے کہ کامل استقامت کا صرف وہی شخص متصف ہوسکتا ہے جس کا بہت ارفع اور بلند مقام ہو اور یہ انبیاء (علیہم السلام) کا مقام ہے۔ استقامت کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے تمام احکام پر عمل کرے اور لوگوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آئے، لوگوں سے خندہ پیشانی سے اور مسکراتے ہوئے ملاقات کرے اور ان کے ساتھ ایسے سلوک کے ساتھ پیش آئے جیسے سلوک کو وہ اپنے ساتھ پسند کرتا ہو، علامہ طیبی نے کہا ہے کہ استقامت کی دو قسمیں ہیں : ایک اللہ تعالیٰ کے ساتھ استقامت ہے یعنی اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرے اور دوسری بندوں کے ساتھ استقامت ہے یعنی بندوں کے ساتھ اچھے اخلاق کے ساتھ پیش آنا۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : استقامت پر رہو اور تم ہرگز نہ رہ سکوگے، اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ استقامت کا حق ادا کرنا بہت مشکل ہے اور تم یہ حق ادا نہیں کرسکوگے، کیونکہ اس کا حق ادا کرنا بہت مشکل ہے اور تم اپنی پوری طاقت خرچ کرنے کے بعد بھی اس کا حق ادا نہیں کرسکتے، پس تم حتی الوسع نیک کام کرتے رہو اور نیکی کرنے کے قریب رہو، کیونکہ تم تمام نیک اعمال کا احاطہ نہیں کرسکتے اور مخلوق سے کوئی نہ کوئی تقصیر اور کوتاہی ضرور ہوتی ہے جس پر اسے بعد میں ملال ہوتا ہے اور اس سے آپ کا مقصد اس پر تنبیہ کرنا ہے کہ پوری کوشش کرنے کے باوجود تم سے کوئی نہ کوئی تقصیر ضرور ہوگی۔

قاضی نے کا : آپ نے یہ اس لیے فرمایا ہے تاکہ تم اس سے غافل نہ ہو اور نیکی کے حصول میں حد سے زیادہ مشقت میں نہ پڑو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، تم اپنے عجز اور قصور کی بناء پر جو نہیں کرسکتے اللہ تعالیٰ اس سے درگزر فرمائے گا۔

علامہ طیبی نے کہا : آپ نے جو فرمایا ہے : تم ہرگز نہ کرسکوں گے، یہ اس لیے ہے کہ اگر استقامت پر رہنا تمہارے لیے دشوار ہو تو سنو ! اللہ تعالیٰ کی جو تم پر شفقت اور رحمت ہے وہ بےحساب ہے، جیسے اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ فرمایا تھا :

اتقوا اللہ حق تقتہ۔ (آل عمران :102) اللہ سے اس طرح ڈرو جس طرح ڈرنے کا حق ہے۔

یعنی کما حقہ، تقویٰ حاصل کرنا اور قما حقہ، اس سے ڈرنا واجب ہے، پھر اس پر تنبیہ فرمائی کہ عام مسلمانوں کے لیے اس مرتبہ کو حاصل کرنا مشکل اور دشوار ہے، اس لیے ان پر آسانی کرتے ہوئے فرمایا :

فاتقوا اللہ ما استطعتم۔ (التغابن :12) تو تم اپنی طاقت کے مطابق اللہ سے ڈرو اور تقویٰ حاصل کرو۔

اسی طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : استقامت پر رہو اور چونکہ ہر چیز میں استقامت پر رہنا امت کے لیے مشکل اور دشوار تھا۔ اس لیے فرمایا : اور تم ہرگز نہ رہ سکوگے (اور امت کے لیے آسان حکم بیان فرمایا) اور یاد رکھو تمہارے لیے سب سے اچھا عمل نماز ہے، یعنی اگر ہر معاملہ میں تمہارے لیے استقامت پر رہنا دشوار ہو تو تم بعض کاموں میں استقامت کو لازم کرلو اور وہ کام نماز ہے جو عبادت کی تمام انواع کی جامع ہے، اس میں قرآن مجید کی تلاوت ہے، تسبیح تکبیر اور تہلیل ہے اور لوگوں سے بات چیت سے اپنے آپ کو روکنا ہے (نماز کے دوران کھانے پینے اور خواہش نفس سے رکنا اور یہ روزہ کا ذائقہ ہے، پاکیزہ کپڑوں کے حصول کے لیے مال خرچ کرنا ہے اور یہ زکوٰۃ کی جھلک ہے، بیت اللہ کی طرف منہ کرنا ہے اور یہ حج کا نمونہ ہے، آرام، کاروبار اور دوستوں اور بیوی بچوں کی مجلس چھوڑ کر مسجد میں آنا ہے اور یہ نفس سے جہاد اور جہاد اکبر ہے) اور یہ مؤمنوں کی معراج ہے اور اللہ کی بارگاہ اقدس کی طرف قریب کرنے والی ہے اور نماز کی حفاظت وہی کرسکتا ہے جس کا تقویٰ میں قدم راسخ ہو، سو تم نماز کو لازم رکھو اور اس کی حدود کو قائم کرو، خصوصاً نماز کے مقدمہ کو جو کہ وضو ہے اور نصف ایمان ہے اور آپ نے فرمایا : وضو کی حفاظت صرف مومن ہی کرسکتا ہے، ظاہر طہارت تو اعضاء وضو کو دھونا ہے اور باطنی طہارت ناجائز خواہشوں سے اپنے دل کو پاک رکھنا ہے اور اغیار کی محبت سے دل کو صاف رکھنا ہے اور استقامت کے حصول میں کوشش کبھی غالب ہوتی ہے اور کبھی مغلوب ہوتی ہے، یعنی اپنے باطن کو گناہوں کے میل کچیل سے صاف رکھنے کی کوشش اور اس میں استقامت کا کما حقہ حصول تمہارے لیے بہت مشکل اور دشوار ہے لیکن تم اپنے باطن کو صاف رکھنے کے لیے بار بار کوشش کرتے رہو جیسے تمہارا وضو ٹوٹ جاتا ہے تو تم پھر دوبارہ وضو کرتے ہو اسی طرح نیکی اور پاکیزگی کے حصول میں اگر تم سے لغزش ہوجائے تو پھر دوبارہ عزم صمیم سے اٹھ کھڑے ہو، پھر سہ بارہ کوشش کرو اور ہمت نہ ہارو اور شیطان سے شکست کو قبول نہ کرو اور استقامت کے حصول میں تادم مرگ لگے رہو، کیونکہ تم استقامت کے معاملہ میں بشر یت کے عجز اور ربوبیت کی اعانت کے درمیان ہو اور غفلت اور تقصیر اور کوشش اور محنت کے مابین ہو جیسا کہ تم ہمیشہ باوضو رہنے کی لگن کے باوجود وضو توڑنے اور وضو کرنے کے درمیان رہتے ہو۔

علامہ ذہبی نے کہا : امام ابن ماجہ کی سند میں منصور اور سالم کے درمیان انقطاع ہے، حافظ عراقی نے کہا : اس کی سند کے راوی ثقہ ہیں، حافظ مغلطائی نے کہا : اس کی سند میں کوئی خاص نہیں، علامہ دمیری نے کہا : اس کی سند ثابت ہے، اس حدیث کو جوامع الکلم سے شمار کیا گیا ہے۔ (فیض القدیر ج ٢ ص ٩٧٨۔ ٩٧٦، مکتبہ نزار مصطفیٰ الباز، مکہ مکرمہ، ١٤١٨ ھ)

استقامت کو استغفار پر مقدم کرنے کی توجیہ

اس کے بعد فرمایا : اور اسی سے استغفار کرو، پہلے فرمایا : تم اسی کی طرف مستقیم رہو یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت دائما کرتے رہو، پھر فرمایا : اور اسی سے استغفار کرو، یعنی اسی سے اپنے گناہوں کی معافی چاہو، قاعدہ یہ ہے کہ انسان پہلے رزائل سے خالی ہوتا ہے پھر فضائل سے متصف ہوتا ہے، اس لیے بظاہر پہلے استغفار کا حکم دینا چاہیے تھے پھر مستقیم رہنے کا حکم دینا چاہیے تھا اور یہاں خلاف ظاہر اس لیے ہے کہ بندہ کو استقامت کا حکم دیا لیکن چونکہ استقامت پر رہنا بہت مشکل اور دشوار ہے اس لیے استقامت پر رہنے میں کوئی نہ کوئی خطا اور تقصیر ضرور ہوگی اس لیے یہ ہدایت دی کہ اگر استقامت پر رہنے میں تم سے کوئی کمی یا کوتاہی ہوجائے تو تم اس پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کرو، اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل کرنے کے لیے ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) خود بھی بہت استغفار کرتے تھے، ہرچند کہ آپ ہر نوع کی تقصیر سے مبرا اور منزہ تھے۔ حدیث میں ہے :

حضرت اغرمزنی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : (بعض مباح کاموں میں مشغول ہونے کی وجہ سے) میرے قلب پر حجاب چھا جاتا ہے اور میں ہر روز اللہ سے سو مرتبہ استغفار کرتا ہوں۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ١٥١٥، صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٧٠٢)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 6