أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ذٰلِكَ جَزَآءُ اَعۡدَآءِ اللّٰهِ النَّارُ‌ ۚ لَهُمۡ فِيۡهَا دَارُ الۡخُـلۡدِ‌ ؕ جَزَآءًۢ بِمَا كَانُوۡا بِاٰيٰتِنَا يَجۡحَدُوۡنَ ۞

ترجمہ:

یہ ہے اللہ کے دشمنوں کی سزا (جو) دوزخ کی آگ ہے، اس میں ان کے لیے ہمیشہ رہنے کا گھر ہے، یہ اس چیز کی سزا ہے کہ یہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے

تفسیر:

حٰم ٓ السجدۃ : ٢٨ میں فرمایا : ” یہ ہے اللہ کے دشمنوں کی سزا (جو) دوزخ کی آگ ہے، اس میں ان کے لیے ہمیشہ رہنے کا گھر ہے، یہ اس چیز کی سزا ہے کہ یہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے “

اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ ان کو ان کے برے کاموں کی سزا دی جائے گی، اس آیت میں اس سزا کا بیان ہے کہ وہ سزا دوزخ کی آگ ہے اور فرمایا : ” اس میں ان کے لیے ہمیشہ رہنے کا گھر ہے “ یعنی دوزخ میں ایک مخصوص طبقہ ہے جس میں ان لوگوں کو ہمیشہ عذاب دیا جائے گا، کیونکہ بعض فساق موْمنین کو بھی تطہیر کے لیے دوزخ میں رکھا جائے گا، لیکن ان کا دوزخ میں عارضی قیام ہوگا، بعد میں ان کو دوزخ سے نکال کر جنت میں داخل کردیا جائے گا، اس کے برخلاف کفار کے لیے دوزخ میں دائمی عذاب کا گھر بنایا جائے گا۔

نیز فرمایا، ” یہ اس چیز کی سزا ہے کہ یہ ہماری آیتوں کا انکار کرتے تھے “ اس سے مراد یہ ہے کہ یہ لوگ قرآن مجید کی قرأت کے وقت بلند آواز سے لغو باتیں کرتے تھے، اس کو جحود اور انکار سے اس لیے تعبیر فرمایا کیونکہ ان کو یقین تھا کہ قرآن مجید معجزکلام ہے اور ان کو خطرہ تھا کہ جب لوگ اس کلام کو سن لیں گے تو اس پر ایمان لے آئیں گے، پس وہ جانتے تھے کہ قرآن مجید معجز کلام ہے لیکن وہ حسد، بغض اور عناد سے اس کے کلام اللہ ہونے کا انکار کرتے تھے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 41 فصلت آیت نمبر 28