أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

مَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ حَرۡثَ الۡاٰخِرَةِ نَزِدۡ لَهٗ فِىۡ حَرۡثِهٖ‌ۚ وَمَنۡ كَانَ يُرِيۡدُ حَرۡثَ الدُّنۡيَا نُؤۡتِهٖ مِنۡهَا وَمَا لَهٗ فِى الۡاٰخِرَةِ مِنۡ نَّصِيۡبٍ ۞

ترجمہ:

جو شخص آخرت کی کھیتی کا ارادہ کرتا ہے ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کردیتے ہیں اور جو شخص دنیا کی کھیتی کا ارادہ کرتا ہے ہم اس کو اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

جو شخص آخرت کی کھیتی کا ارادہ کرتا ہے ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کردیتے ہیں اور جو شخص دنیا کی کھیتی کا ارادہ کرتا ہے ہم اس کو اس میں سے کچھ دے دیتے ہیں اور اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں کیا ان کے لیے کچھ ایسے شریک ہیں جنہوں نے ان کے لیے دین کا ایسا راستہ مقرر کردیا ہے جس کی اللہ نے اجازت نہیں دی اور اگر (قیامت کا) فیصلہ مقرر نہ ہوچکا ہوتا تو ان کا فیصلہ ہوچکا ہوتا اور بیشک ظالموں کے لیے درد ناک عذاب ہے آپ دیکھیں گے کہ ظالم اپنے کرتوتوں سے خوف زدہ ہوں گے اور ان کے کرتوتوں کا وبال ان پر نازل ہوگا اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کیے وہ جنتوں کے باغات میں ہوں گے، ان کے لیے ان کے رب کے پاس ہر وہ چیز ہوگی جس کی وہ خواہش کریں گے، یہی بہت بڑا فضل ہے (الشوریٰ :20-22)

حرث کا معنی

الشوریٰ : ٢٠ میں ” حرث “ کا لفظ ہے جس کا ترجمہ ہم نے کھیتی کیا ہے، علامہ محمد بن مکرم بن منظور افریقی متوفی ٧١١ ھ لکھتے ہیں : حرث کا معنی ہے : زمین میں اگانے کا عمل کرنا یعنی زمین میں بیج ڈالنا اور فصل اگانے کی تیاری کرنا اور اس کا اطلاق فصل اور کھیت پر بھی ہوتا ہے، قرآن مجید میں ہے :

واذا تو الی سعی فی الارض لیفسد فیھا ویھلک الحرث والنسل۔ (البقرہ :205)

اور جب وہ پیٹھ پھیر کرجاتا ہے تو وہ زمین میں فساد کرنے اور کھیت اور نسل کو برباد کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

واذا تو الی سعی فی الارض لیفسدفیھا ویھلک الحرث والنسل۔ (البقرہ :208)

اور جب وہ پیٹھ پھیر کرجاتا ہے تو وہ زمین میں فساد کرنے اور کھیت اور نسل کو برباد کرنے کی کوشش میں لگا رہتا ہے۔

اور حرث کا معنی کسب کرنا بھی ہے یعنی کوئی کام کرنا اور حارث کا معنی کا سب ہے، علامہ ابن منظور نے حرث کے اور بھی کئی معانی ذکر کیے ہیں۔ (لسان العرب ج ٤ ص ٧٣، دارصادر، بیروت، ٢٠٠٣ ء)

علامہ المبارک بن محمد ابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں : حدیث میں ہے :

” احرث لدنیا کانک تعیش ابدا، واعمل لاخر تک کا نک تموت غدا “ دنیا میں اس طرح کھیتی باڑی کرو گویا کہ تم دنیا میں ہمیشہ زندہ رہوگے اور آخرت کے لیے اس طرح عمل کرو جیسے تم کل مرجائو گے۔ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر برانگیختہ کیا ہے کہ دنیا کو آباد کیا جائے اور لوگ اس میں باقی رہیں اور جو لوگ تمہارے بعد دنیا میں آئیں وہ تمہاری خدمت سے اس طرح استفادہ کریں جس طرح تم اپنے سے پہلے لوگوں کی خدمات سے استفادہ کررہے ہو، کیونکہ جب انسان کو یہ معلوم ہوگا کہ اس کی زندگی طویل ہے تو وہ دنیا کی تعمیر میں حریص ہوگا اور آخرت کے معاملہ میں آپ نے اعمال میں اخلاص کی ترغیب دی اور زیادہ سے زیادہ نیک اعمال پر ابھارا، کیونکہ جب انسان کو یہ معلوم ہوگا کہ اس نے کل مرجانا ہے تو وہ زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی کوشش کرے گا۔ بعض علماء نے کہا : اس حدیث کا یہ معنی نہیں ہے، کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے زیادہ تر دنیا سے زہد اور بےرغبتی کی ترغیب دی ہے اور اس حدیث کا بھی یہی معنی ہے کیونکہ جب انسان کو یہ علم ہوگا کہ اس نے دنیا میں ہمیشہ رہنا ہے تو اس کو دنیا کی حرص نہیں ہوگی وہ سوچے گا کہ دنیا کی فلاں چیز مجھے اگر آج نہیں ملی تو کل مل جائے گی، میں کون سا ابھی مررہا ہوں اور آخرت کے لیے اس طرح عمل کرو جیسے کل مرجانا ہے سو نیک اعمال پر زیادہ سے زیادہ حرص کرو۔ (العنایۃ ج ١ ص ٣٤٧۔ ٣٤٦، دارالکتب العلمیہ، بیروت، ١٤١٨ ھ)

دنیا کے طالب اور آخرت سے طالب کا فرق

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ بتایا تھا کہ وہ اپنے بندوں پر لطیف ہے اور ان پر بہت زیادہ احسان کرنے والا ہے، اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ بندوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ وہ نیک کاموں کی طلب میں بہت کوشش کریں اور برے کاموں سے بچنے کی کوشش کریں، اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے آخرت کے طالب اور دنیا کے طالب میں حسب ذیل وجوہ سے فرق کیا ہے۔

(١) آخرت کے طالب کو دنیا کے طالب پر مقدم فرمایا۔

(٢) آخرت کے طالب کے متعلق فرمایا : ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے اور دنیا کے طالب کے متعلق فرمایا ہم اس کی کھیتی میں سے اس کو کچھ حصہ دیں گے۔

(٣) آخرت کے طالب کے متعلق یہ نہیں بتایا کہ اس کو دنیا میں سے کچھ دیں گے یا نہیں، ہوسکتا ہے کہ اس کو دنیا میں سے کچھ حصہ دیا جائے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ اس کو دنیا میں سے کچھ بھی نہ دیا جائے اور دنیا کے طالب کے متعلق فرمایا کہ اس کے لیے آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔

(٤) دنیا کا حصہ نقد ہے اور آخرت کا حصہ ادھار ہے لیکن آخر کے حصہ میں زیادتی اور دوام ہے اور دنیا کے حصہ میں نقصان اور بطلان ہے۔

(٥) کھیتی سے جو حصہ حاصل ہوتا ہے اس میں مشقت کرنی پڑتی ہے، پہلے انسان زمین میں ہل چلاتا ہے، پھر اس میں بیج ڈالتا ہے، پھر پانی لگاتا ہے، پھر فصل پکنے کے بعد دانے کو بھوسے سے الگ کرتا ہے اور جو آخرت کی کھیتی میں مشقت کرتا ہے اس کو بقا حاصل ہوتی ہے اور جو دنیا کی کھیتی میں مشقت کرتا ہے اس کو فنا حاصل ہوتی ہے، قرآن مجید میں ہے :

والبقیت الصلحت خیر عندربک ثوابا وغیراملا (الکہف :46)

اور باقی رہنے والی نیکیاں آپ کے رب کے نزدیک ثواب اور نیک توقع کے لحاظ سے بہتر ہیں

اللہ تعالیٰ نے جو فرمایا ہے : ” ہم اس کی کھیتی میں اضافہ کریں گے “ اس کے دو معنی ہیں : (١) ہم اس کو نیک کاموں کی زیادہ توفیق دیں گے (٢) ہم اس کے اجر وثواب میں اضافہ کریں گے، قرآن مجید میں ہے :

لیوفیھم اجورھم ویزید ھم من فضلہ۔ (فاطر :30)

تاکہ ہم ان کو پورے اجر دیں اور ان کو اپنے فضل سے اور زیادہ دیں۔

اس آیت میں دنیا کے حصول کے لیے مشقت اٹھانے کی مذمت کی ہے اور آخرت کے حصول کے لیے مشقت اٹھانے کی مدح فرمائی ہے، حسب ذیل احادیث میں بھی اس معنی کی تائید ہے۔

دنیا سے بےرغبتی اور آخرت کے متعلق احادیث

حضرت زید بن ثابت (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : جو شخص (صرف) دنیا کی فکر میں رہتا ہے، اللہ تعالیٰ اس کے معاملہ کو پراگندہ کردیتا ہے اور اس کی آنکھوں کے سامنے فقر اور تنگ دستی کردیتا ہے اور اس کو دنیا سے صرف اتنا ہی حصہ ملتا ہے جتنا حصہ اس کے لیے پہلے سے مقدر کردیا گیا ہے اور جو آخرت کا قصد کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے معاملہ کو مجتمع کردیتا ہے اور اس کے دل میں غناء رکھ دیتا ہے اور دنیا اس کے پاس خام آلودہ ہو کر آتی ہے۔ (سنن ابودائود رقم الحدیث : ٣٦٦٠، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٥٦٥٦، مسند احمد ج ٥ ص ١٨٣، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٦٧، سنن دارمی رقم الحدیث : ٢٣٥، المعجم الکبیر رقم الحدیث : ٤٨٩١۔ ٤٨٩٠)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : اے ابن آدم ! میری عبادت کے لیے فارغ ہوجا میں تیرے دل کو غناء سے بھردوں گا اور اگر تو ایسا نہیں کرے گا تو میں تیرے دل کو مشغولیات سے بھردوں گا اور تیرے فقر کو دور نہیں کروں گا۔ (سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ٤١٠٧، سنن ترمذی رقم الحدیث : ٢٤٦٦، صحیح ابن حبان رقم الحدیث : ٣٩٣، مسند احمد ج ٢ ص ٣٥٨، المستدرک ج ٢ ص ٤٤٣ ص ٣٢٦ )

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 42 الشورى آیت نمبر 20