عمومی طور پر جو حضرت علیؓ سے منسوب کر کے بیان کیا جاتا ہے وہ باطل ہے

سب سے زیادہ کسی پر جھوٹ گھڑا گیا ہے تو وہ حضرت علیؓ ہیں

کبیر تابعین کی تصریحات

ازقلم: اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

بہت سے تفضیلی اور روافض کے چیلے جہاں حضرت امیر المومنین امیر معاویہؓ کی مدح یا انکے فضائل میں احادیث رسولﷺ دیکھتے ہیں تو انکو خارش اٹھنا شروع ہو جاتی ہے

تو انہوں نے ایک ناقد کو سگا ابو بنیا ہوا ہے اسحاق بن راھویہ کا مبھم قول اٹھا کر چپکا دیتے ہیں کہ جی حضرت امیر معاویہؓ کے بارے کوئی صحیح حدیث مروی نہیں

جبکہ یہ کم علمی اور نا اہلیت اسحاق بن راھویہ کی تھی کہ جسکو حضرت امیر معاویہؓ کی مدح میں کوئی صحیح حدیث نہ ملی تو اس نے کر دعویٰ کر دیا

اب جبکہ صحیح اور حسن متعدد احادیث رسولﷺ ثابت ہیں حضرت امیر معاویہؓ کے فضائل میں لیکن

تفضیلی چیلے اس بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں اور اسحاق بن راھویہ کے قول کو فریم کروا کر گلے میں لٹکائے پھرتے ہیں

ایک قول امام اہلسنت احمد بن حنبل شیبانی ؒ کا بھی ہے کہ وہ فرماتے ہیں جتنی فضائل کی روایات مولا علی ؓ کے فضائل میں مروی ہیں اتنی کسی اور صحابی رسولﷺ کے فضائل میں نہیں مروی ۔۔۔۔

اور میں یہ سوچتا تھا کہ حضرت مولا علی کے فضائل میں کثیر جو روایات عمومی طور پر مشہور ہیں اگر انکی تحقیق کی جائے تو زیادہ تر روایات میں تقیہ باز شیعہ بیٹھے ہیں یا پھر رافضی بیٹھے ہیں

خیر اس بات میں حقیقت بھی ہیں اور کبیر تابعین کا بھی یہی موقف تھا !!!

امام ابن عدیؒ اپنی کتاب الکامل فی ضعفاء میں اس باب میں دو روایات نقل کرتے ہیں :

پہلی روایت :

حدثنا عبد الله بن محمد بن عبد العزيز البغوي، حدثنا علي بن الجعد أخبرني أبو يوسف القاضي عن حصين عن الشعبي قال: ما كذب على أحد من هذه الأمة ما كذب على علي

امام شعبی فرماتے ہیں :

اس امت میں کسی ایک پر بھی اتنا جھوٹ نہیں گھڑ ا گیا جتنا حضرت علی ؓ پر گھڑا گیا ہے

دوسرا قول :

حدثنا عبد الله، حدثنا علي، حدثنا شعبة عن أيوب، قال: كان ابن سيرين يرى أن عامة ما يروون عن علي باطل..

امام ابن سیرین فرماتے ہیں عومی طور پر جو حضرت علیؓ سے منسوب کردہ بیان کیا جاتا ہے وہ سب باطل ہے

[الکامل فی ضعفاء الرجال جلد ۲، ص ۴۵۱]

دونوں روایات میں پہلے راوی

امام بغوی صاحب تصانیف ہیں اور ثقہ و صدوق ہیں

دوسرے راوی علی بن الجعد ہیں یہ مسند کوفہ کا درجہ رکھتےتھے اور متفہ علیہ ثقہ ہیں

یہ پہلے رافضیت کی طرف مائل تھے اور حضرت امیر معاویہ کی تکفیر تک کرتےتھے لیکن پھر یہ سنی بن گئے تھے انکی تصانیف اسکی گواہ ہیں جیسا کہ مسند الجعد میں انہوں نے حضرت امیر معاویہؓ کو صحابہ رسولﷺ میں شمار کیا ہے

اور مذکورہ روایت کے یہ راوی ہیں یہ بھی دلیل اس پر دال ہے

تیسرے راوی : امام ابی یوسف القاضی صاحب ابی حنیفہ ہیں مجتہد سید المحدثین و فقھاء اور متفقہ علیہ ثقہ ثبت امام ہیں

چوتھے راوی : امام حصین بن عبد الرحمن السلمی تابعی ہیں جو متفقہ علیہ ثقہ ہیں

پانچوے راوی امام شعبی جو کبیر تابعی ہیں اور ۵۰۰ صحابہ کے شاگرد ہیں اور بڑی شان والے ہیں ۔

جبکہ دوسری روایت کی سند علی بن الجعد کی ایک جیسی ہے

اگلا راوی امام شعبہ ہیں جو امیر المومنین فی حدیث اور کسی تعارف کے محتاج نہیں سید الناقدین ہیں

ان سے اگلا راوی امام ایوب السختیانی ہیں جو متفہ علیہ مجتہد ثبت امام اور کبیر تابعی ہیں اور بڑی شان والے ہیں

ان سے اگلے راوی امام ابن سیرین ہیں جو رجال کی معرفت رکھنے والے اور سید الفقھاء اور محدثین اور کثیر صحابہ کے شاگرد خاص ہیں

تو معلوم ہوا یہ اقوال کبیر اماموں کے طریق سے بیان ہوا ہے

جن میں امت کے امامت کا درجہ رکھنے والے راوی ہیں اب اس اصول کے مطابق یہ ثابت ہوا ک

کثیر روایات فضائل میں بیشک مولا علی کے فضائل میں ہیں لیکن سب سے زیادہ جھوٹ اور موضوع روایات بھی مولا علی کی شان میں گھڑی ہوئی ہیں

اعلی حضرت احمد رضا بریلویؓ لکھتے ہیں فتاویٰ رضویہ میں امام خلیلی کا قول کہ مولا علی کی شان میں شیعہ اور روافض نے تین لاکھ روایات گھڑی ہیں

تو ہم سنی مولا علی ؓ کے فضائل میں مروی روایات تو ہم مانتے ہیں لیکن ان ائمہ کے اقوال کو چسپا کر کے ہم فضائل مولا علیؓ کی روایات کو جھٹلاتے بھی نہیں

البتہ موضوع و منکر روایات کی نشاندہی ضرور کرتے ہیں کیونکہ سب سے زیادہ جھوٹ بھی مولا علی ؓ کی شان میں گھڑا گیا ہے

اور اسی طرح ہم اسحاق بن راھویہ کو بھی کوئی اہمیت نہیں دیتے انکے قول میں جب کہ صحیح الاسناد اور حسن الاسناد انکے فضائل میں روایات ثابت ہیں

ہم اہل بیت اور صحابہ کے غلام ہیں

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی