أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَقَدۡ نَجَّيۡنَا بَنِىۡۤ اِسۡرَآءِيۡلَ مِنَ الۡعَذَابِ الۡمُهِيۡنِۙ ۞

ترجمہ:

اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت والے عذاب سے نجات دی تھی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

اور بیشک ہم نے بنی اسرائیل کو ذلت والے عذاب سے نجات دی تھی (وہ عذاب) فرعون کی جانب سے تھا، بیشک وہ متکبر اور حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے تھا اور ہم نے بنی اسرائیل کو دانستہ (اس وقت) تمام جہانوں پر فضیلت عطا کی تھی اور ہم نے ان کو ایسی نشانیاں دی تھیں جن میں صریح آزمائش تھی (الدخان :30-33)

بنی اسرائیل کی فضیلت اور ان کی آزمائش

فرعون کے حکم سے قبطی بنی اسرائیل کے بیٹوں کو قتل کردیتے تھے اور ان کی بیٹیوں کو زندہ رہنے دیتے تھے اور ان سے نہایت مشقت اور ذلت والے کام کراتے تھے، پھر اللہ تعالیٰ نے ان قبطیوں اور فرعون دونوں سے نجات دے دی اور فرعون بہت ظالم اور سرکش تھا، وہ مشرکین میں سے تھا بلکہ خود خدائی کا دعویٰ دار تھا اور حد سے تجاوز کرنے والوں میں سے تھا۔

اللہ کو چونکہ علم تھا کہ بنی اسرائیل سے کثیر نبیوں کو اس نے مبعوث کرنا ہے، اس لیے اس نے اسرائیل کو ان کے زمانہ کے لوگوں پر فضیلت دی، ان کے زمانہ کی قید اس لیے ہے کہ اس زمانہ میں میں ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت سب سے افضل ہے، قرآن مجید میں ہے : کنتم خیر امۃ اخرجت للناس۔ (آل عمران :110)

تم سب سے بہتریٰ امت ہو جس کو لوگوں کے لیے نکالا گیا ہے۔ اور بنو اسرائیل کے بعد سب سے افضل سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی امت ہے۔

اور اللہ نے بنو اسرائیل کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات سے سرفراز کیا، وہ معجزات یہ ہیں : بنو اسرائیل کو فرعون سے نجات دینا اور ان کے لیے سمندر کو چیر کر ان کے لیے اس میں بارہ راستے بنادینا، میدان تیہ میں ان پر بادل کا سایہ کرنا اور ان پر من اور سلویٰ نازل کرنا، حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو لاٹھی اور یدبیضاء عطا کرنا اور اس طرح کے اور بہت معجزات عطا فرمائے جو بنی اسرائیل کے لیے باعث فخر اور فضیلت تھے اور ان میں ان کے لیے صریح آزمائش تھی، کیونکہ ہر نعمت میں آزمائش ہوتی ہے، بندو اگر نعمتوں کا شکر ادا کرے اور نعمتیں جس لیے دی گئی ہیں ان مصارف میں ان نعمتوں کو خرچ کرے تو اللہ سبحانہ ‘ ان نعمتوں میں اور اضافہ فرماتا ہے اور اگر ان نعمتوں کی ناشکری اور ان کو بےمحل میں خرچ کرے تو اللہ تعالیٰ نہ صرف یہ کہ ان نعمتوں کو واپس لے لیتا ہے بلکہ مزید عذاب میں مبتلا کرتا ہے۔

مسلمانوں نے جب حصول پاکستان کے لیے جدوجہد کی تو یہ نعرہ لگایا تھا : پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ اور یہ کہا تھا کہ ہمیں اسلام کے احکام نافذ کرنے کے لیے ایک الگ ریاست چاہیے، اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک الگ ریاست دے دی، لیکن جب تیئس سال گزرنے کے بعد بھی انہوں نے اسلامی احکام نافذ نہیں کیے تو آدھا پاکستان ان کے ہاتھ سے جاتا رہا اور باقی ماندہ پاکستان کی بقا بھی خطرہ میں ہے۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 44 الدخان آیت نمبر 30