پیروں کے عرسوں اور درباروں پر لاکھوں روپے خرچ کرنے والوں کے لیے ایک نصیحت!!!

 

امام ابن عدی اپنی مشہور تصنیف الکامل کے خطبہ میں ایک روایت نقل کرتے ہیں :

 

قَالَ الشَّيْخُ: وَأَخْبَرَنِي شَيْخٌ كَاتِبٌ بِبَغْدَادَ فِي حَلْقَةِ أَبِي عِمْرَانَ بْنِ الأَشْيَبِ ذَكَرَ أَنَّهُ ابْنُ عَمٍّ لِيَحْيَى بْنِ مَعِين، قَال: كَانَ مَعِيْنُ عَلَى خَرَاجِ الرَّيِّ، فَمَاتَ فَخَلَفَ لابْنِهِ يَحْيى أَلْفَ أَلْفِ دِرْهَمٍ وَخَمْسِينَ أَلْفَ دِرْهَمٍ، فَأَنْفَقَهُ كُلَّهُ عَلَى الْحَدِيثِ، حَتَّى لَمْ يَبْقَ لَهُ نَعْلٌ يَلْبِسُهُ.

 

امام اب ابن عدی فرماتے ہیں :

مجھے میرے شیخ کاتب نے خبر دی جو کہ بغداد میں ابی عمران بن الاشیب کے حلقہ میں تھے اور امام یحییٰ بن معین کے ایک کزن نے کہا :

 

امام یحییٰ بن معین کے والد ماجد نے ترکہ میں ۱۰ لاکھ ۵۰ ہزار درہم کا کثیر مال چھوڑا تھا ۔

آپؒ نے سارے کا سارا مال علم حدیث کے حصول میں خرچ کر دیا یہاں تک کے انکے پاس پہننے کے لیے جوتا بھی نہ تھا

 

(الکامل فی ضعفاء الرجال جلد ۱، ص ۲۱۹)

 

اہل سنت کے اہل علم حلقوں کو چاہیے کہ پیسوں کو پیروں کے عرس ، اور مستحب اعمال پر مشتمل محافل پر خرچ کرنے کی بجائے ایسے مدرسے بنانے چاہیے کہ ایسے شیوخ کا احتمام کریں جو علوم حدیث میں مہارت تامہ رکھتے ہوں

جو آنے والے وقت میں ہزاروں محدث پیدا کریں

اور انکی تنخوائیں اتنی اچھی مقرر ہوں کہ انکو اپنی روزی کے لیے اور کوئی زریعہ تلاش کرنے کی ضرورت نہ پڑے تاکہ ساری توجہ اصول حدیث اور علم رجال کو سمجھنے اور سمجھانے میں صرف ہو

 

دعاگو : اسد الطحاوی الحنفی