أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اُولٰٓئِكَ الَّذِيۡنَ لَعَنَهُمُ اللّٰهُ فَاَصَمَّهُمۡ وَاَعۡمٰٓى اَبۡصَارَهُمۡ ۞

ترجمہ:

یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی تو ان کو بہرا بنادیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا

محمد : ٢٣ میں فرمایا : یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی تو ان کو بہرا بنادیا اور ان کی آنکھوں کو اندھا کردیا۔

اس آیت میں منافقین کے متعلق پچھلے مضمون کی یاددہانی فرمائی، چونکہ منافقین عمل کرنے کے لئے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ارشادات نہیں سنتے تھے، اس لئے ان کو بہرا فرمایا اور جب ان کو جہاد کا حکم دیا جاتا تو وہ یہ کہتے تھے کہ جہاد اور قتال سے زمین میں فساد پھیلے گا اور اس سے رشتے منقطع ہوں گے اس لئیوہ جہاد کے حکم پر عمل نہیں کرتے تھے اور چونکہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے چہرہ انور کو محبت اور عقیدت سے نہیں دیکھتے تھے اور اللہ کی آیات اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات کو غور سے نہیں دیکھتے تھے اس لئے ان کو اندھا قرار دیا۔

لعنت کی اقسام میں علامہ شامی کی تحقیق

نیز اس آیت میں فرمایا ہے : یہ وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت کی۔

علامہ علاء الدین حصکفی حنفی نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ جس عورت کو تین طلاقتیں دی گئی ہوں اس سے کوئی شخص اس شرط کے ساتھ نکاح کرے کہ وہ صحبت کرنے کے بعد اس کو طلاق دے دے گا تاکہ وہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے تو یہ نکاح مکروہ تحریمی ہے، کیونکہ حدیث میں ہے :

حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حلالہ کرنے والے اور جس کے لئے حلالہ کیا گیا (دونوں پر) لعنت فرماتا ہے۔ (سنن ابو دائود رقم الحدیث : ٢٠٧٦، سنن ترمذی رقم الحدیث : ١١١٩، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : ١٩٣٥، سنن بیہقی ج ٧ ص ٢٠٨)

ہر چند کہ یہ نکاح صحیح ہوگا لیکن یہ شرط باطل ہوگی اور دوسرے شوہر کو صحبت کے بعد طلاق دینے پر مجبور نہیں کیا جائے گا، ہاں ! اگر عورت نکاح کے وقت تفویض طلاق کی شرط رکھ لے اور صحبت کے بعد خود پر طلاق نافذ کردے تو اس شوہر کی عدت گزارنے کے بعد وہ پہلے شوہر کے لئے حلال ہوجائے گی۔ (درمختار مع رد المحتار ج ٥ ص ٤١۔ ٤٠، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

علامہ سید محمد امین ابن عابدین شامی متوفی ١٢٥٢ ھ اس عبارت کی شرح میں لعنت پر تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

لعنت کی حقیقت اللہ کی رحمت سے دور کرنا ہے اور یہ صرف کافر پر کی جاتی ہے، اس لئے جس معین شخص کی کفر پر موت کا دلیل سے علم نہ ہو اس پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے، خواہ وہ مشہور فاسق پر لعنت کرنا جائز ہے اور غیر معین شخص پر بہ طور وصف لعنت کرنا جائز ہے نہیں ہے، اس کے برخلاف ابلیس، ابو لہب اور بو جہل پر لعنت کرنا جائز ہے اور غیر معین شخص پر بہ طور وصف لعنت کرنا جائز ہے جیسے جھوٹوں پر لعنت ہو اور ظالموں پر لعنت ہو، یعنی یہ کافروں کا وصف ہے اس سے مسلمانوں کو اجتناب کرنا چاہیے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ اس وصف پر لعنت کی جائے جو گناہ کبیرہ ہو، کیونکہ گناہ کبیرہ کے علاوہ گناہ صغیرہ اور مکروہ تنزیہی پر بھی لعنت کی گئی ہے، جیسے تصویر بنانے والوں پر اور اس شخص پر جو لوگوں کی کراہت کے باوجود ان کی امامت کرے اور جو شخص راستہ میں قضاء ہے، جیسے تصویر بنانے والوں پر اور اس شخص پر جو لوگوں کی کراہت کے باوجود ان کی امامت کرے اور جو شخص راستہ پر قضاء حاجت کرے اور جو عورت اپنے ہاتھوں پر مہندی نہ لگائے اور جو عورت خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے اور مشت زن پر اور قبروں کی زیارت کرنے والیوں پر، وغیرھا۔ لیکن جو کہتے ہیں کہ معین شخص پر لعنت کرنا جائز نہیں ہے، ان پر یہ اشکال وارد ہوگا کہ قرآن مجید میں ہے کہ جو شخص اپنی بیوی پر زنا کی تہمت لگائے اور اس کے پاس اپنے علاوہ اور کوئی گواہ نہ ہو وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھاکر کہے کہ وہ سچوں میں سے ہے اور پانچویں بار کہے :

……(النور : ٧) اگر وہ جھوٹوں میں سے ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے۔

یہ لعنت مشروع کی گئی ہے اور یہ معین شخص پر لعنت ہے، اس کا یہ جواب دیا گیا ہے کہ یہ اس کے جھوٹے ہونے کی سورت میں اس پر لعنت ہے، لیکن یہ جواب اس لئے صحیح نہیں ہے کہ بہرحال یہ معین شخص پر لعنت ہے۔

پھر میں نے علامہ قہستانی کی بحث لعان میں دیکھا کہ لعن کا معنی لغت میں دور کرنا ہے اور اصطلاح شرع میں اس کا معنی ہے : کفار کو اللہ کی رحمت سے دور کرنا اور مؤمنین کے حق میں اس کا معنی ہے : درجہ ابرار سے ان کو ساقط کرنا۔

” البحر الرائق “ کی لعان کی بحث میں مذکور ہے، اگر تم یہ پوچھو کہ ا ایا کاذب معین پر لعنت کرنا مشروع ہے ؟ تو میں کہوں گا کہ ” غایۃ البیان “ کی عدت کی بحث میں لکھا ہے کہ حضرت ابن مسعود (رض) نے فرمایا : میں جس سے چاہوں مباہلہ کرسکتا ہوں اور مباہلہ کا معنی ہے : ایک دوسرے پر لعنت کرنا اور ان کا جب کسی سے اختلاف ہوتا تھا تو وہ کہتے تھے : ہم میں سے جو جھوٹا ہے اس پر اللہ کی لعنت ہو اور انہوں نے کہا : یہ ہمارے زمانہ میں بھی جائز ہے اور اس بحث میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایسی صورتوں میں لعنت سے مراد ہے : ابرار یعنی نیک لوگوں کے درجہ سے دور کرنا نہ کہ اللہ عزوجل کی رحمت سے دور کرنا، اور ایک قول یہ ہے کہ یہاں پر لعنت کی حقیقت مراد نہیں، بلکہ اس سے مقصود حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے کی خساست کو ظاہر کرنا ہے۔ پھر قہستانی نے یہ کہا ہے کہ اس جواب پر یہ اعتراض ہے کہ حلالہ کرنے والے پر لعنت کرنے سے اگر صرف اس کے فعل کی خساست کو ظاہر کرنا مقصود ہوتا تو پھر اس کے فعل کو مکروہ تحریمی کہنے کی کیا وجہ تھی ؟ (رد المحتار ج ٥ ص ٤٢، دار احیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٩ ھ)

لعنت کی اقسام میں مصنف کی تحقیق

میں کہتا ہوں کہ علامہ قہستانی، علامہ زین الدین ابن نجیم اور علامہ شامی کی عبارت سے مسلمان شخص معین پر لعنت کی تنقیح نہیں ہوسکی اور لعان میں جو بیوی پر تہمت لگانے والا مسلمان شخص معین یہ کہتا ہے کہ اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو اس کی توجیہ نہیں ہوسکی، اس لئے میں اللہ کی توفیق اور اس کی تائید سے لعنت کی اقسام اور ان کے حکام بیان کرتا ہوں :

(١) اللہ تعالیٰ کی رحمت سے بالکلیہ دور کرنے کی دعا کرنا، یہ صرف اس معین شخص پر جائز ہے جس کی کفر پر موت کا دلیل قطعی سے علم ہو اور اس کے سوا کسی معین مسلمان پر اسی درجہ کی لعنت کرنا جائز ہے۔ جیسے ابلیس، ابو لہب اور ابو جہل وغیر ہم پر لعنت کرنا۔

(٢) اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے دور کرنے کی دعا کرنا جس کا تقاضا ہے کہ کسی معین مسلمان کو بغیر عذاب کے جنت میں داخل کردیا جائے، یہ لعنت صرف ان مسلمانوں پر کرنا جائز ہے جو کسی گناہ کبیرہ کے مرتکب ہوں اور اس پر توبہ نہ کریں جیسا کہ النور : ٧ میں لعان کی آیت ہے، ایک مسلمان شخص یہ کہے : اگر میں جھوٹا ہوں تو مجھ پر اللہ کی لعنت ہو یا جس طرح رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت کی یا جس طرح آپ نے سود کھانے والے، سود کھلانے والے اور اس کی معاونت کرنے والوں پر لعنت کی اور جو شخص اس سے کم درجہ کی برائی میں ملوث ہو، اس پر اس درجہ کی لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔

(٣) اللہ تعالیٰ کی اس رحمت سے دعر کرنے کی دعا کرنا، جس کا تقاضا یہ ہے کہ کسی معین مسلمان کو اللہ تعالیٰ کا قرب خاص اور اس کی رضا حاصل نہ ہو، خواہ اس کو عذاب سے نجات حاصل ہوجائے، اس درجہ کی لعنت صرف ان مسلمانوں پر کرنا جائز ہے جو حرام اور مکروہ تحریمی سیکم درجہ کی برائی میں ملوث ہوں، جیسا کہ حدیث میں ان لوگوں پر لعنت کی گئی ہے : جو شخص لوگوں کی کراہت کے باوجود امامت کرائے، جو شخص راستہ میں قضاء حاجت کرے، جو عورت اپنے ہاتھوں پر مہندی نہ لگائے اور جو عورت خاوند کی اجازت کے بغیر گھر سے نکلے وغیرھا، اس قسم کے افراد کے علاوہ اس درجہ کی لعنت کرنا جائز نہیں ہے۔

یہ لعنت کی وہ اقسام ہیں جو شخص معین پر کی جاتی ہیں اور چوتھی قسم وہ ہے جو افراد پر علی العموم کی جاتی ہے :

(٤) جو لوگ کسی ایس صفت کے حامل ہوں جو شریعت میں مذموم ہے، سو ایسی صفات کے حاملین پر عموم اور اطلاق کے لحاظ سے لعنت کرنا جائز ہے، اس کا ثبوت قرآن اور حدیث میں بہت ہے جیسے ”……“ وغیرھا۔ میں نے قرآن مجید کی آیات، احادیث اور عباراتِ فقہاء میں بہت غور و فکر کے بعد لعنت کی یہ اقسام، ان کی تعریفات اور ان کے احکان بیان کیے ہیں، اگر یہ حق ہیں تو یہ اللہ اور اس کے رسول کی جانب سے ہیں ورنہ اللہ اور اس کا رسول ان سے بری ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 47 محمد آیت نمبر 23