أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ الۡمُتَّقِيۡنَ فِىۡ جَنّٰتٍ وَّعُيُوۡنٍۙ ۞

ترجمہ:

بیشک متقین جنتوں اور چشموں میں ہوں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیشک متقین جنتوں اور چشموں میں ہوں گے۔ وہ ان کو لینے والے ہوں گے جو ان کا رب انہیں عطا فرمائے گا۔ بیشک اس سے پہلے (دنیا میں) وہ نیک کام کرنے والے تھے۔ وہ رات کو کم سوتے تھے۔ اور رات کے پچھلے پہر مغفرت طلب کرتے تھے۔ اور ان کے مالوں میں سائلوں اور محروموں کا حق ثابت تھا۔ (الذریت : ١٩۔ ١٥)

متقین کے آخرت میں احوال

اس سے پہلی آیات میں کفار کے اخروی انجام کا ذکر فرمایا تھا اور اب ان آیات میں مسلمانوں کے اخروی انجام کا ذکر فرما رہا ہے۔

الذریت : ١٥ میں متقین ‘ جنتوں اور چشموں کا ذکر ہے۔

متقی کی چار قسمیں ہیں : (١) وہ مومن جو شرک اور کفر سے مجتنب ہو (٢) وہ مومن جو شرک ‘ کفر اور گناہ کبیرہ سے مجتنب ہو (٣) وہ مومن جو شرک ‘ کفر گناہ کبیرہ اور گناہ صغیرہ سے مجتنب ہو ( ٤) وہ مومن جو شرک ‘ کفر ‘ گناہ کبیرہ ‘ گناہ صغیرہ اور خلاف سنت اور خلاف اولیٰ سے بھی مجتنب ہو ‘ جو مومن ہر قسم کی معصیت سے مجتنب ہو ‘ اس کے متعلق ظن غالب ہے کہ وہ ابتداء بلا حساب و کتاب جنت میں چلا جائے گا ‘ اور جو مومن گناہ ہائے کبیرہ کا مرتکب ہو اور بغیر توبہ کے مرجائے اس کے متعلق توقع ہے کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شفاعت سے جنت میں چلا جائے گا یا اللہ تعالیٰ کے فضل محض سے جنت میں چلا جائے گا یا اپنی سزا کو بھگت کر جنت میں چلا جائے گا۔

جنت کے معنی باغ ہیں ‘ اس کو جنت اس لیے فرمایا ہے کہ اس میں انواع و اقسام کے پھل دار درخت ہوں گے جن کے نیچے سے دریا بہہ رہے ہوں گے اور فرمایا ہے کہ جنتی چشموں میں ہوں گے ‘ اس پر اعتراض ہے کہ کسی انسان کا پانی میں ہونا تو اس کے لیے کوئی لذت اندوز چیز نہیں ‘ اس کا جواب یہ ہے کہ متقی ایسی پر فضا جگہ میں ہوں گے جس کے ارد گرد چشمے اور درخت ہوں گے اور وہ بہت خوش نما منظر ہوگا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 51 الذاريات آیت نمبر 15