أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ تَقَوَّلَهٗ‌ ۚ بَلْ لَّا يُؤۡمِنُوۡنَ‌ ۞

ترجمہ:

یا وہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی طرف سے قرآن کو گھڑ لیا ہے، بلکہ وہ ایمان نہیں لا رہے

” تقول ‘ کا معنی

الطور : ٣٣ میں فرمایا : وہ یہ کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی طرف سے قرآن کو گھڑ لیا ہے بلکہ وہ ایمان نہیں لا رہے۔

یعنی کفار نے جو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کاہن اور شاعر کہا تھا اس سے ان کا یہی مطلب تھا کہ آپ نے قرآن مجید کو اپنی طرف سے گھڑ لیا ہے، اس آیت میں ان کے اسی قول کا رد ہے۔

اس آیت میں ” تقولہ “ کا لفظ ہے، اس کا مصدر ” تقول “ ہے، اس کا معنی ہے : تکلف سے کوئی بات کہنا اور اس کا زیادہ استعمال جھوٹی بات کہنے میں ہوتا ہے، ” فلان تقول علیہ “ فلاں شخص نے اس پر جھوٹ باندھا۔

کفار اپنے کفر اور عناد کی وجہ سے آپ پر جھوٹ باندھنے کی تہمت لگا رہے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے قرآن مجید کے کلام اللہ ہونے کے ثبوت میں فرمایا تھا کہ اگر یہ قرآن کسی انسان کا کلام ہے تو تم بھی انسان ہو تم اس کی نظیر بنا کرلے آئو، اور تمام دنیائے عرب اس کی نظیر لانے سے عاجز رہی بلکہ پوری دنیا آج تک اس کی نظیر لانے سے عاجز ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 33