أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَمۡ يَقُوۡلُوۡنَ شَاعِرٌ نَّتَـرَبَّصُ بِهٖ رَيۡبَ الۡمَنُوۡنِ ۞

ترجمہ:

یا وہ ( کفار) کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں ہم ان پر مصائب زمانہ ( یعنی موت) کا انتظار کررہے ہیں

” ریب المنون “ کا معنی ہے، حوادث روزگار یا موت۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : سورة الطور کی اس آیت کے سوا قرآن میں ہر جگہ ” ریب “ کا معنی شک ہے اور اس آیت میں ” ریب المنون “ کا معنی موت ہے اور ان کا دوسرا قول یہ ہے کہ ” ریب المنون “ کا معنی حوادث روزگار ہے۔ اصمعی نے کہا : ” المنون “ کا معنی ہے : رات اور دن، کیونکہ رات اور دن یعنی وقت کا گزرنا عمر کو کم کرتا ہے اور اجل کو قریب لاتا ہے۔ ابو عبیدہ نے کہا : دہر کو منون کہتے ہیں، کیونکہ وہر صفت لانے والا ہے اور ” منون “ کا معنی ضعیف ہے، کمزورسی کو ” حبل منین “ کہتے ہیں۔

نیز اس آیت میں فرمایا ہے کہ کفار آپ کو کہتے ہیں کہ یہ شاعر ہیں، وہ آپ کو شاعر اس لیے کہتے تھے کہ عرب شعر کی ایذاء سے پرہیز کرتے تھے اور اپنی زبانوں کو اشعار کہنے سے بچاتے تھے کیونکہ ان کے نزدیک شعر دائما باقی رہتے تھے، وہ کہتے تھے کہ ہم ان سے معارضہ نہیں کرتے، کہیں وہ شعر کی قوت سے ہم پر غالب نہ آجائیں، ہمارا طریقہ یہ ہے کہ ہم صبر کرتے ہیں اور ان کی موت کا انتظار کرتے ہیں۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) یہ فرماتے تھے کہ اللہ تعالیٰ کا دین برحق ہے اور میں جس شریعت کو لے کر آیا ہوں وہ قیامت تک باقی رہے گی، کفار نے کہا : اس طرح نہیں ہے یہ تو صرف شاعر ہیں اور ہمارے بتوں کی مذمت میں یہ جو کچھ کہتے ہیں وہ محض اشعار ہیں اور ان کا کوئی حامی و ناصر نہیں ہے اور ہمارے بتوں کو برا کہنے کی وجہ سے عنقریب ان پر مصائب ٹوٹ پڑیں گے، سو ہم ان پر آنے والے مصائب کا انتظار کر رہے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 30