أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ تَرَبَّصُوۡا فَاِنِّىۡ مَعَكُمۡ مِّنَ الۡمُتَـرَبِّصِيۡنَ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے : تم انتظار کرتے رہو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں

الطور : ٣١ میں فرمایا : آپ کہیے کہ تم انتظار کرتے رہو، میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں۔

کافروں کو آپ کی موت کا انتظار کرنے کا حکم دینے کی توجیہ

آپ کی موت کا انتظار کرنا یا آپ پر مصائب آنے کا انتظار کرنا حرام ہے اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے انہیں آپ کی موت یا آپ پر مصائب کے انتظار کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو حرام کام کرنے کا حکم دیا ہے۔ اس کا یہ حکم اس لیے نہیں ہے کہ وہ اس پر عمل کریں بلکہ یہ حکم زجر و توبیخ اور تہدید کے لیے ہے، جیسے مالک اپنے ملازم سے غضب ناک ہو کر کہے : تو جو دل چاہے کر، میں تجھ سے غافل نہیں ہوں اور یہ امر توہین کرنے کے لیے ہے جیسے کوئی شخص کسی سے کہے کہ میں فلاں شخص سے تمہاری شکایت کردوں گا، تو وہ جواب میں کہے : جا ! جا کر کر دے شکایت۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ اس کو شکایت کرنے کا حکم دے رہا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میں اس فلاں شخص کو کیا سمجھتا ہوں، وہ میرا کیا بگاڑ سکتا ہے اور اس کلام سے اس کا مقصد اس فلاں شخص کی تحقیر اور توہین کرنا ہے۔

اس کے بعد فرمایا : میں بھی تمہارے ساتھ انتظار کرنے والوں میں سے ہوں، اس کا معنی یہ ہے کہ میں بھی تمہارے لاک ہونے کا انتظار کر رہا ہوں اور کفار اور مشرکین جنگ بدر اور دیگر غزوات میں ہلاک کردیئے گئے۔ اور اس کا معنی یہ بھی ہوسکتا ہے کہ تم میری موت کا انتظار کرتے رہو اور میں تم پر عذاب آنے کا انتظار کر رہا ہوں اور اگر ” ریب المنون “ کا معنی حوادث زمانہ ہو تو اس کا معنی یہ ہے کہ تم مجھ پر حوادث کے آنے کے انتظار کرتے رہو اور میں تمہاری توقع پوری نہ ہونے کا انتظار کر رہا ہوں کیونکہ میرا اعتقاد ہے کہ دھر اور زمانہ کے حوادث میں کوئی تاثیر نہیں ہے اور موثر صرف اللہ عزوجل ہے اور اس کے سوا کوئی موثر نہیں ہے۔

القرآن – سورۃ نمبر 52 الطور آیت نمبر 31