جید محدثین خشک اصحاب الحدیث کی مذمت کیوں کرتے ؟ فقیہ محدثین اور غیر فقیہ اصحاب الحدیث میں بنیادی فرق

تحقیق: اسد الطحاوی الحنفی

 

جمہور محدثین جن میں امام اعمش ، امام شعبہ ، امام ابن شبرمہ ، امام سفیان بن عینہ اور دیگر محدثین شامل ہیں جو غیر فقیہ اصحاب الحدیث کی مذمت کرتے تھے

 

سر فہرست ہم امام اعمش کو بیان کرتے ہیں

 

آپ نہایت دلیر اور اپنے شاگرد محدثین کی لتریشن کرنے میں بے باک تھے اور اصحاب الحدیث نما شاگردوں کی بہت اچھی چھترول کرتے زبان سے بھی اور ہاتھ سے بھی کیونکہ امام اعمشؓ کے شاگردوں میں امام ابو حنیفہ ؓاور امام ابو یوسف ؒجیسے فقھاء مجتہدین تھےجنکی بہت قدر تھی امام اعمش کی نظر میں ۔جو احادیث سے اجتہاد کرنے کی ایسی صلاحیتوں سے مالا مال تھے کے اپنے استاذ امام اعمش کی مشکلات کو بھی حل کر دیتے تھے جسکی مثال آگے آئے گی

 

امام اعمشؒ کے جو یہ اقوال مشہور ہیں

 

کہ میرے پاس کتے ہوتے تو وہ میں اصحاب الحدیث پر چھوڑ دیتا

 

[شرف اصحاب الحدیث وسندہ صحیح]

 

یا

 

انکا ایک یہ قول بھی مشہور ہے کہ اصحاب الحدیث دنیا کی سب سے فتنے باز قوم ہے

 

[شرف اصحاب الحدیث وسندہ صحیح]

 

اسکا سبب کیا تھا ؟ اسکا سبب یہ تھا کہ امام اعمش کا یہ مقصد تھا کہ لوگ حدیث دانی کے ساتھ فقاہت کو بھی پکڑیں یہ نہ ہو کہ حدیث رٹی ہوں اور ان احادیث سے حاصل کیا ہونا ہے اسکی پہچان نہ ہویہی ایک واحد علمی فرق تھا اہل کوفہ اور باقی کے محدثین کے درمیا ن جن میں بصرہ ، مدینہ ، مکہ ، شام وغیرہ کے اہل علم لوگ تھے

 

جیسا کہ امام ابو نعیم ایک روایت امام اعمش کی امام ابو داود کی زبانی نقل کرتے ہیں :

 

حدثنا سليمان بن أحمد، نا أحمد بن صدقة، نا محمد بن الحسن بن تسنيم، نا أبو داود، عن الأعمش قال: قال لي حبيب بن أبي ثابت: «أهل الحجاز وأهل مكة أعلم بالمناسك» قال: فقلت له: فأنت عنهم وأنا عن أصحابي، لا تأتي بحرف إلا جئتك فيه بحديث “

 

امام ابو داود فرماتے ہیں :امام اعمش فرماتے ہیں کہ ایک بار امام حبیب بن ابو ثابت نے مجھ سے کہا :

 

”اہل حجاز اور اہل مکہ سب سے زیادہ مسائل شریعہ کو جاننے والے ہیں ” امام اعمش فرماتے ہیں میں نے کہا : آپ انکی طرف سے ہو جائیے میں اپنے اصحاب (اہل کوفہ)کی طرف سے ہو جاتا ہوں ۔آپ جو بھی مسئلہ بیان کریں گے میں اس سے متعلق ایک حدیث سناؤنگا ۔

 

[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جلد5 ، ص 47]

 

 

 

اس سے معلوم ہوا کہ امام اعمش احادیث کے حافظ ہونے کے ساتھ ساتھ فقاہت میں بھی عمدہ درجے کے مجتہد تھے اورانکا تدبر و استقراء تھا کہ انکے حافظہ میں احادیث کن کن ابواب فقہ سے تعلق رکھتی ہیں یہی وجہ تھی کہ وہ کورے اصحا ب الحدیث جنکی سمجھ بوجھ میں فقہ لفظ نہیں سماتا تھا ان پر قہر بن کر نازل ہوتے تھے امام اعمش جیسا کہ انکے دو اقوال اوپر اصحاب الحدیث کے بارے گزر چکے ہیں جنکی اسناد کی تحقیق گزشتہ تحریرات میں گزر چکی ہیں

 

انکا یہ غصہ کوئی عامی طالب علموں پر نہیں چلتا تھا بلکہ قاضی کوفہ حفص بن غیاث کا سر پھوڑ دیا تھا جب انہوں نے ایک روایت کی سند کا مطالبہ کیا تھا امام اعمش نے اور امام اعمش نے جوابی طور پر اسکا سر دیوار میں مار کر کہا لو یہ رہی سند ۔ اور کوئی یہ بھی نہیں کہہ سکتا کہ امام اعمش کا سارا زور بس اپنے اصحاب پر چلتا تھا بلکہ امام اعمش ایسی شخصیت تھی جو اپنے وقت کے امیر کو بھی سبق سکھانے سےگریز نہ کرتی تھی۔ ایک واقعہ سے اس بات کا اندازہ لگا یا جا سکتاہے ۔

 

امام ابو نعیم ایک روایت بیان کرتے ہیں :

 

حدثنا سليمان بن أحمد قال: ثنا أحمد بن داود، قال: ثنا علي بن بحر، قال: ثنا عيسى بن يونس قال: بعث عيسى بن موسى بألف درهم إلى الأعمش، وصحيفة ليكتب له فيها حديثا، فأخذ الأعمش الألف درهم وكتب في الصحيفة: ” بسم الله الرحمن الرحيم قل هو الله أحد حتى ختمها وطوى الصحيفة وبعث بها إليه، فلما نظر فيها بعث إليه: يا ابن الفاعلة، ظننت أني لا أحسن كتاب الله، فكتب إليه الأعمش: «أفظننت أني أبيع الحديث، ولم يكتب له، وحبس المال لنفسه»

 

امام عیسیٰ بن یونس بیان کرتے ہیں امیر عیسی بن موسیٰ نے امام اعمش کے پاس ایک ہزار درہم اور ایک کاغذ بھیجا تتاکہ وہ حدیث لکھ کر دیں ۔ آپ نے درہم رکھ لیے اور ایک کاغذ پر بسم للہ اور سورہ اخلاص لکھ کر لپیٹ کر اسکی جانب روانہ کر دیا ۔ جب اس نے کاغذ کو دیکھا تو آپکی والدہ کے بارے میں نازیبا لفظ لکھ کر یہ مکتوب لکھا :

 

”کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ میں کتاب اللہ کو اچھی طرح نہیں سمجھتا ؟”تو امام اعمش نے اس ے جوابی مکتوب لکھا :کیا تم مجھے حدیث بیچنے والا سمجھتے ہو ؟ ”تو آپ (اعمش) نے پیسے بھی اپنے پاس رکھ لیے اور حدیث بھی لکھ کر نہ دی

 

[حلیہ الاولیاء وسندہ حسن]

 

اور یہی امام اعمش تھے جو طبیعت کے اعتبارے سے اتنے سخت تھے لیکن امام ابو حنیفہ اور امام ابو یوسف سے انکا تعلق مثالی تھا کیونکہ وہ انکے علم ک سبب انکی تعظیم کرتے تھے جیسا کہ صحیح الاسناد انکے اقوال اما م ابوحنیفہ کے بارے مشہور ہیں جن میں سے ایک ہےکہ ابو حنیفہ آپ لوگ طبیب ہیں اور ہم عطار ہیں اور امام ابو یوسف نے جب انہی سے حدیث سن کر ایک مسلے میں جب امام اعمش کا مسلہ حل کیا تو امام اعمش نےفرمایا کہ اس حدیث کو میں تب سے جانتا ہوں جب سے تمہارے والدین کی شادی بھی نہ ہوئی ہوگی لیکن اس روایت کا مطلب آج سمجھ آیا ۔۔ یعنی ہم خود کو اہل فقیہ سمجھنے کے باوجود بھی آپ (اصحاب ابی حنیفہ) ہم سے بڑھ کر ہیں ۔

 

امام اعمش کا موقف ایسے فقہ سے پیدل اصحاب الحدیث کے بہت سخت موقف تھا

 

جیسا کہ امام ذھبی سیر اعلام میں انکا ایک قول نقل کرتے ہیں :

 

وبه حدثني زياد بن أيوب, حدثنا أبو سفيان الحميري، عن سفيان بن حسين قال: خرج الأعمش إلى بعض السواد, فأتاه قوم فسألوه، عن الحديث قال: فقال له جلساؤه لو حدثت هؤلاء المساكين فقال: من يعلق الدر على الخنازير?

 

[سیر اعلام النبلاء جلد6 ، ص 346]

 

 

 

اسکو امام ابو نعیم نے اپنی تصنیف حلیہ الاولیا میں باسند صحیح مختلف اسناد سے نقل کیا ہے

 

حدثنا أبو حامد بن جبلة، ثنا محمد بن إسحاق، أنبأنا عبد الله بن هانئ، نا سعيد بن يحيى أبو سفيان الحذاء قال: أخذ الأعمش ناحية هذا السواد، فأتاه قوم منهم، فسألوه أن يحدثهم فأبى، فقال بعض جلسائه: يا أبا محمد، لو حدثت هؤلاء المساكين؟ فقال الأعمش: «من يعلق الدر على الخنازير؟»

 

امام سعید بن یحییٰ کہتے ہیں امام اعمش اپنی بستی کے کنارے رہا کرتے تھے ۔ بستی کے کچھ لوگ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حدیث بیان کرنے کی خواہش ظاہر کی تو آپ نے انکار کر دیا ۔ مجلس میں موجود ایک شخص نے کہا : ”ابو محمد! ان یے چاروں کو حدیث سنا دیتے ۔ تو امام اعمش نے فرمایا ”خنزیر کے گلے میں موتیوں کا ہار کون ڈالتا ہے ؟”

 

 

 

اور آگے امام ابو نعیم بیان کرتے ہیں :

 

حدثنا محمد بن علي، ثنا عبد الله بن محمد البغوي، ثنا أبو سعيد الأشج، ثنا حميد بن عبد الرحمن قال:سمعت الأعمش يقول: «انظروا أن لا، تنثروا هذه الدنانير على الكباش» – يعني الحديث – وقال حميد: وسمعت أبي يقول: سمعت الأعمش يقول: «لا تنثروا اللؤلؤ تحت أظلاف الخنازير»

 

امام حمید بن عبد الرحمن فرماتے ہیں :امام اعمش فرماتے کہ : ان دیناروں یعنی احادیث کو چو پائیوں پر نچھاور نہ کرنا اور حضرت حمید بن عبدالرحمن یہ بھی فرماتے تھےے کہ امام اعمش فرماتے :ان موتیوں کو خنزیروں کے پاوں تلے نہ بچھانا (یعنی نا اہل لوگوں کو حدیث بیان نہ کرنا جو انکی معرفت سے نابلد ہوں )

 

[حلية الأولياء وطبقات الأصفياء جلد 5، ص 52وسندہ صحیح[

 

 

 

اور اصحاب الحدیث جو فقہ سے پیدل تھے انکا رد فقط امام اعمش ہی نہیں کرتےتھے بلکہ دوسرے جید فقیہ محدثین بھی ایسے اصحاب الحدیث سے کراہت کرتےتھے ۔

 

جیسا کہ امام فضیل بن عیاض کوفہ کے مجتہدین محدثین میں آپکا ایک خاص مقام تھا اور آپ امام ابو حنیفہ کے مقدم اصحاب میں سے ایک تھے ۔ انکے بارے متعدد روایات اصحاب الحدیث غیر فقیہ گروہ کی مذمت میں آتی ہیں ۔

 

امام خطیب بغدادی اپنی سند سے روایت بیان کرتے ہیں :

 

أنا أبو الحسن علي بن القاسم بن الحسن الشاهد بالبصرة، نا علي بن إسحاق المادرائي، نا الترمذي، يعني محمد بن إسماعيل نا سويد، قال: ” كان الفضيل بن عياض إذا رأى أصحاب الحديث قد أقبلوا نحوه وضع يديه في صدره وحرك يديه، وقال: أعوذ بالله منكم

 

امام فضیل بن عیاض (شیخ الاسلام عابد اور شاگرد امام ابو حنیفہ) جب اہل حدیث کواپنی طرف آتے دیکھتے تواپنے دونوں ہاتھ اپنے سینے پر رکھ لیتے ہیں اوراپنے ہاتھوں کو حرکت کرتے ہوئے فرماتے کہ میں تم سے خداکی پناہ چاہتاہوں

 

[الجامع لأخلاق الراوي برقم: 408 وسندہ صحیح]

 

 

 

اس روایت کے سارے رجال ثقہ و صدوق ہیں لیکن صرف ایک علت ہے کہ سند میں سوید بن سعید مدلس ہے لیکن یہاں اسکی تدلیس علت نہیں کیونکہ اسی باب میں مذمت اصحاب الحدیث میں دوسری روایت بھی جید سند سے امام فضیل سے ثابت ہے

 

جیسا کہ جیسا کہ امام ابن عساکر نے اسکو اپنی سند جید سے نقل کیا ہے :

 

أخبرنا أبو عبد الله الحسين بن عبد الملك أنبأنا أبو طاهر بن محمود أنبأنا أبو بكر ابن المقرئ حدثنا أبو يعلى الموصلي حدثنا سعيد بن عبد الجبار أبو عثمان قال سمعت الفضيل بن عياض ولقيه جماعة من أصحاب الحديث فقال ما لكم لو أعلم أنه خير لكم لم أحدثكم ولو أعلم أنه خير لي أن لا أحدثكم ما حدثتكم وما شئ أحب إلي من أن لا أراكم ولا تروني

 

امام عبد الجبار ابو عثمان کہتے ہیں میں نے امام فضیل بن عیاض سے سنا کہ جب ان سے اصحاب الحدیث ملے تو انہوں (فضیل بن عیاض) نے ان سے کہا : تم کو کیا ہوا ہے کہ اگر میں جانتا وہ چیز جو تمہارے لیے بہتر ہے میں تم کو نہ بتاتا اور اگر میں یہ بات جانتا کہ وہ میرے لیے بہتر ہے تب بھی نہ بتاتا لیکن میں تم کو بتا چکا ہوں اور مجھے اس بات سے کوئی چیز محبوب نہیں کہ نہ میں تم (اصحاب الحدیث ) کو دیکھتا اور نہ ہی تم (اصحاب الحدیث) مجھے دیکھتے ۔

 

[تاریخ دمشق ابن عساکر 430/48 وسندہ صحیح]

 

 

 

اسی طرح علم رجال کی بنیاد رکھنے والوں میں سے جید محدث امام شعبہ بھی ایسے اصحاب الحدیث کا رد کرتے تھے ۔

 

امام خطیب بغدادی اپنی سند سے روایت لاتے ہیں :

 

أنا أبو الحسين محمد بن الحسين بن الفضل القطان، أنا دعلج بن أحمد، أنا أحمد بن علي الأبار، نا أبو الأزهر الخراساني، نا زيد بن الحباب، عن أبي خالد الأحمر، قال: قال شعبة لأصحاب الحديث: «قوموا عني، مجالسة اليهود والنصارى أحب إلي من مجالستكم، إنكم لتصدون عن ذكر الله وعن الصلاة»

 

امام شعبہ نے اصحاب الحدیث سے کہا یہاں سے دفع ہو جاو یہود اورنصاری کے ساتھ بیٹھنا تمہارے ساتھ بیٹھنے سے مجھے زیادہ محبوب ہے۔ تم لوگ اللہ کے ذکر اورنماز تک میں رکاوٹ بنتے ہو۔

 

[الجامع لأخلاق الراوي وآداب السامع برقم: 406 وسندہ صحیح]

 

امام اعمش کی اس سختی کے واضح دو اسباب تھے کہ اصحاب الحدیث ایک تو فقہ سے کوری ہے دوسری یہ زھد تقویٰ اور پرہیز گاری کو بھی ترک رکھتی ہے جسکے سبب یہی ہے کہ یہ اقوالات صحابہ اور احادیث رسولﷺ کو رٹ تو لیتے ہیں لیکن ان روایات پر تدبر نہیں کرتے اور نہ ہی سبق لیتے ہیں ۔جسکی وجہ سے یہ اپنے نفس محاسبہ نہیں کرپاتے۔

 

 

 

اسی طرح دوسرے جید فقیہ محدث امام مسعر بن کدام جو پہلے امام ابو حنیفہ سے انکی طرف منسوب باتوں سے متنفر تھے لیکن پھر وہ امام ابو حنیفہ کی فقاہت کے قائل ہو گئے اور خود بھی فقہ ماہر بنے ۔۔

 

یہ غیر فقیہ اصحاب الحدیث کے بارے فرماتے ہیں :

 

امام ابن عبدالبر بیان کرتے ہیں اپنی سند صحیح سے :

 

حدثنا خلف بن القاسم، نا الحسن بن رشيق، نا علي بن سعيد، نا محمد بن خلاد الباهلي، نا سفيان بن عيينة، قال: سمعت مسعرا، يقول: «من أبغضني جعله الله محدثا، ووددت أن هذا العلم كان حمل قوارير حملته على رأسي فوقع فتكسر فاسترحت من طلابه»

 

امام سفیان بن عیینہ فرماتے ہیں :امام مسعر دانت پستے اور کہتے خدایا ! جو میرا دشمن ہے اسکو محدث بنا دے !کاش یہ علم (حدیث) شیشے میں بند ہوتا اور شیشہ میرے سر پر لدا ہوتا ، پھر لڑھک کر چور چور ہو جاتا !اورمیں طلبان حدیث (اصحاب الحدیث) سے ہمیشہ کے لیے چھٹکارا حاصل کر لیتا !

 

[جامع بيان العلم وفضله برقم: 1965 وسندہ صحیح]

 

 

 

اور فقط حدیث کو یاد کرنا اور فقہ اور زھد کو مطلق نظر انداز کرنے سے تقویٰ اور عبادت سے دوری آجاتی تھی جسکے سب ائمہ نے کثرت حدیث کو روایت کرنے کو مکروہ جانا ہے یا کثرت حدیث کے ساتھ فقہ کا علوم کو لازمی قرار دیا ۔۔

 

اور فقط حدیث کثرت سے یا د کرنا اور سنانا اور باقی معاملات ترک کرنے کے جو نقصانات تھے اسکی روایات بھی ملتی ہیں جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ائمہ کی یہ شرائط باکل صحیح تھیں ۔

 

 

 

امام خطیب بغدادی اپنی سند سےروایت بیان کرتے ہیں :

 

أخبرنا محمد بن أحمد بن رزق، أخبرنا عثمان بن أحمد الدقاق، حدثنا عبد الملك بن محمد، قال: حدثني أبو بشر بن سليط، قال: سمعت عبد الله بن داود، يقول: سمعت الأعمش، يقول:: «لو خلا هذا الباب لأصحاب الحديث لسرقوا حديده»قال الشيخ أبو بكر: كان الأعمش سيء الخلق، جافي الطبع، بخيلا بالحديث،

 

امام اعمش کہتے ہیں اگر دروازہ اصحاب الحدیث کیلئے کھلا رکھا جائے (یعنی بغیر نگرانی کے)تووہ اس کے کڑیاں بھی چراکر لے جائیں گے۔

 

[[شرف أصحاب الحديث ص ۱۳۱]

 

اس روایت کے سارے رجال ثقہ صدوق ہیں سوائے ابو بشر بن سلیط کے لیکن اس روایت کو تقویت ایک اور صحیح الاسناد روایت دیتی ہے

 

جیسا کہ امام خطیب امام سعيد بن أوس بن ثابت أبو زيد کے ترجمہ میں روایت لاتے ہیں :

 

أخبرني أحمد بن محمد الوزان، قال: حدثني جدي، قال: حدثنا محمد بن يحيى النديم، قال: حدثنا أبو ذكوان، يعني: القاسم بن إسماعيل التوجي، قال: سرق أصحاب الحديث نعل أبي زيد فكان إذا جاء أصحاب الشعر والعربية والأخبار رمى بثيابه ولم يتفقدها، وإذا جاء أصحاب الحديث جمعها كلها وجعلها بين يديه

 

امام ابو زکوان کہتے ہیں :اصحاب الحدیث نے ابوزید کا جوتاچرالیا اس(واقعہ) کے بعد جب شعراء وغیرہ،لغت کے ماہرین ،اخباری(مورخین) وغیرہ آتے توان (محدثین) کے کپڑے ادھر ادھر بکھرے رہتے اوراس کی جانب دھیان نہ دیتے(محدثین) لیکن جب انکے پاس اصحاب الحدیث آتے تو(محدثین) اپنے تمام کپڑے اپنے آگے رکھ لیتے

 

[تاریخ بغداد وسند صحیح ، برقم:109/10]

 

یہ موقف فقط چند محدثین کا نہیں بلکہ متقدمین کے جمہور ائمہ حدیث کا یہی موقف تھا۔

 

جیسا کہ امام ابن عبدالبر ایک باب قائم کرتے ہیں :

 

باب ذكر من ذم الإكثار من الحديث دون التفهم له والتفقه فيه

 

کہ باب: جس میں بغیر تفقہ و سمجھ بوجھ کے کثرت حدیث (بیان کرنے ) کی مذمت

 

 

 

پھر امام ابن عبدالبر امام ابن شبرمہ کا ایک قو ل نقل کرتے ہیں :

 

خالد بن عبد الله يقول سمعت ابن شبرمة يقول: «أقلل الرواية تفقه»

 

امام خالد بن عبداللہ کہتے ہیں میں نے امام ابن شبرمہ کو کہتے سنا : روایت حدیث میں کمی کروگے تو تفقہ حاصل ہوگا

 

 

 

حماد بن زيد، قال: قال لي سفيان، «يا أبا إسماعيل، لو كان هذا الحديث خيرا لنقص كما ينقص الخير»

 

امام سفیان بن عیینہ کہتے ہیں :حدیث (کثرت سے روایت ) کرنے میں بھلائی ہوتی تو اتنی بہت نہ ہو جاتی کیونکہ بھلائی کم ہی ہوا کرتی ہے

 

 

 

ان اقوال کو نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :

 

قال أبو عمر: «أما طلب الحديث على ما يطلبه كثير من أهل عصرنا اليوم دون تفقه فيه ولا تدبر لمعانيه فمكروه عند جماعة أهل العلم»

 

ابن عبدالبر فرماتے ہیں : ہمارے زمانے میں اکثر لوگ علم حدث حاصل تو کرتے ہیں مگر تفقہ و تدبر سے کام نہیں رکھتے

 

اور یہ علماء کے نزدیک مکروہ و مذموم فعل ہے

 

 

 

اور متقدمین میں فقھا کثرت حدیث کو بغیر تفقہ و سمجھ بوجھ کے بس رٹ کر بیان کرنے کو کتنا برا فعل سمجھتے تھے اسکا اندازہ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں جو امام ابن عبدالبر نے امام یحییٰ بن معین کےطریق سے امام مغیرہ کا قول نقل کیا ہے

 

 

 

يحيى بن معين يقول: سمعت أبا بكر بن عياش يقول: سمعت مغيرة الضبي يقول: «والله لأنا أشد خوفا منهم مني من الفساق» يعني أصحاب الحديث

 

امام مغیرہ الضبی فرماتے تھے :اللہ کی قسم میں تم میں سے زیادہ ڈرتاہوں ان اصحاب الحدیث سے کہ جن میں فسق ہے

 

 

 

یعنی اصحاب الحدیث کا بس بغیر کی تدبر کے کثر ت حدیث کو بیان کرنے کو امام مغیرہ الضبی نے فسق سے تعبیر کیا ہے

 

امام یحییٰ بن معین سے یہ قول امام الدوری بھی بیان کرتے ہیں :

 

سَمِعت يحيى يَقُول حَدثنَا أَبُو بكر بن عَيَّاش قَالَ سَمِعت مُغيرَة يَقُول وَالله لأَنا مِنْكُم أخوف مني من الْفُسَّاق أَصْحَاب الحَدِيث

 

[التاریخ ابن معین برقم: 3064 ایضا]

 

 

 

امام یحییٰ بن سعید القطان سے امام شعبہ کا یہ قول نقل کرتے ہیں :

 

يحيى بن سعيد القطان قال: سمعت شعبة يقول: «إن هذا الحديث يصدكم عن ذكر الله وعن الصلاة فهل أنتم منتهون

 

امام یحییٰ بن سعید القطان امام شعبہ کا یہ قول بیان کرتے تھے :یہ (کثرت)حدیث تمہیں ذکر الہیٰ اور نماز سے باز رکھتی ہے ۔ کیا تم اس سے باز نہیں آو گے ؟ یہ سن کر بعض اہل علم نے کہا : اگر حدیث نہ ہوتی تو کیا شعبہ ہوتے ؟

 

 

 

اسکو نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :

 

قال أبو عمر: إنما عابوا الإكثار خوفا من أن يرتفع التدبر والتفهم، ألا ترى ما حكاه

 

امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں : کثرت حدیث کی علماء نے اسی خیال سے مذمت کی ہے کہ آدمی غور فکر فہم و تدبر سے ہٹ کر بس روایت کرنے کے فعل میں ہی نہ مشغول ہو جائے

 

 

 

ان اقوالات کو نقل کرنے کے بعد امام ابن عبدالبر اس چیز کو بیان کرتے ہیں کہ حدیث کو یاد کر لینا ہی فقط اتنی بڑی خیر نہیں بلکہ اس حدیث کو یاد رکھنے کے ساتھ اس پر غور فکر بھی کیا جائے کہ اس ایک ہی روایت سے کتنے مسائل کا استنباد ہو سکتا ہے

 

اسکو ثابت کرتے ہوئے امام ابن عبدالبر پھر امام ابی یوسف اور امام ابو حنیفہ کو بطور دلیل پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

 

 

 

بشر بن الوليد، عن أبي يوسف قال: سألني الأعمش عن مسألة، وأنا وهو لا غير، فأجبته، فقال لي: من أين قلت هذا يا يعقوب؟ فقلت: بالحديث الذي حدثتني أنت، ثم حدثته، فقال لي: «يا يعقوب إني لأحفظ هذا الحديث من قبل أن يجتمع أبواك ما عرفت تأويله إلا الآن» .

 

امام ابی یوسف فرماتے ہیں کہ امام الاعمش نے مجھ سے ایک مسلہ تنہائی میں پوچھا میں نے اسکا جواب دیا تو امام اعمش خوش ہو کر پوچھا کہ یہ کیسے جواب دیا ؟ میں نے کہا اس روایت سے جو آپ نے مجھے بیان کی تھی تو امام الاعمش فرماتے ہیں اے یعقوب!واللہ میں اس حدیث کو تب سے جانتا ہوں جب تمہارے والدین کی شادی بھی نہ ہوئی تھی لیکن اس حدیث کا معنی آج (تمہارے وسیلے) سے سمجھ آیا

 

[جامع بیان العلم برقم: 1970]

 

– وروي نحو هذا أنه جرى بين الأعمش وأبي يوسف وأبي حنيفة فكان من قول الأعمش: «أنتم الأطباء ونحن الصيادلة» ،

 

پھر امام الاعمش امام ابو حنیفہ (جو کہ علم حدیث میں امام الاعمش کے تلامذہ میں سے تھے) کو فرمایا کرتے تھے

 

کہ بیشک آپ ابو حنیفہ طبیب ہیں اور ہم دواساز ہیں

 

[ایضا برقم: 1971[

 

 

 

یعنی ہم تو حدیث حفظ کر لیتے ہیں لیکن اس حدیث سے ثابت کیا ہوتا ہے یہ علم و فضل ابو حنیفہ میں ہے

 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

 

 

ان سب روایات کو بیان کرنے کا مقصدیہ ہے کہ جس طرح اھل رائے اہلسنت کے مقابل قدری جہمی و معتزلہ فرقہ پیدا ہوئے انہوں نے اجتہاد کے اصول کے سبب صحیح احادیث متواترہ کو رد کرنا شروع کیا تو اھل رائے قرار پائے جبکہ انکی وجہ سے امام ابو حنیفہ اور اہل کوفہ کہ دیگر مجتہدین بھی بدنام ہوئے جو اھل رائے میں سے تھے لیکن منہج اہلسنت پر تھے۔

 

بالکل اسی طرح اصحاب الحدیث کا ایک ایسا غالی گروہ جو فقہ اور تدبر سے بالکل پیدل تھا انکے سبب جید محدثین جو فقہ میں ماہر تھے وہ بھی بدنام ہوئے اس لیے اھل رائے نے باوجود اھل رائے فقہ میں مہارت کے سبب نہ ہی رائے کو رد کیا بلکہ اسکے ساتھ بدعتی گروہ مرجئ، معتزلہ اور قدریہ کا رد بھی کیابالکل ویسے جیسے محدثین اصحاب الحدیث اہل فقہ نے غیر فقیہ غالی اصحاب الحدیث کا رد کیا جنہوں نے فقہ اور رائے کو ایک قرار دیکر اجتہاد کا راستہ بند کر دیا ۔۔۔

 

اوراعتدال کا راستہ وہی ہے جیسا اہلسنت نے اپنایا نہ ہی اصحاب الحدیث مطلق غلط نہ ہی اھل رائے مطلق غلط ۔۔

 

بلکہ جنہوں نے ان دو اصول میں غلو کیا اور دوسرے علم کا مطلق انکار کیا وہ بدعتی بنے ۔

 

اس لیے نہ ہی اہل تشیع اصحاب الحدیث کے بارے ایسی روایات جو اوپر بیان کی گئی ہیں ان سے محدثین اہلسنت پر استدلال کر کے انکو مجروح کر سکتے ہیں اور نہ ہی سلفی اھل رائے جنکے بارے کلام ہے اسکی بنیادپر اہلسنت فقہاء یعنی اہل رائے پر قیاس کرکے انکو مجروح کر سکتے ہیں ۔بلکہ جمہور اہل رائے اور اصحاب الحدیث اہلسنت کے منہج پر قائم تھے ۔ سوائے ان چند غالی و بدعتی گروہ کے ۔

 

تحقیق: دعاگو اسد الطحاوی الحنفی البریلوی

 

مزید تحاریر کے مطالعہ کے لیے وزت کریں : AsadTahawi.com