*مہنگائی کے اس طوفان میں اجتماعی طور پر رویوں کو بدلنا ہوگا*

از قلم مفتی علی اصغر

3 ذی قعدہ شب 1443

2 جون 2022

 

ایک ہفتے میں پیٹرول کا دو بار مہنگا ہو کر 60 روپے کا اضافہ ہو کر200 سے اوپر فی لیٹر چلا جانا، گھی پر 100 روپے لیٹر سے زیادہ اضافہ چاول پر بھی فی کلو 50 روپے اضافے کی اطلاع ہے

نا جانے کیا کیا چیز مہنگی ہونی ہے ۔لیکن ایک متوسط آدمی کی تنخواہ وہی 25 سے 50 ہزار کے درمیان ہے

اس ہوش ربا مہنگائی کا مقابلہ آپ صرف اور صرف لائف اسٹائل بدل کر ہی کر سکتے ہیں۔بچت کرنا اور اسراف سے بچنا واحد حل ہے ۔

لیکن اصل سوال تو یہ ہے کہ جس کی تنخواہ ضروری امور میں ہی پوری نہیں ہو رہی وہ اسراف کا تو سوچتا بھی نہیں ہے ۔اس کا حل یہ ہے کہ ہماری پوری سوسائٹی کو بدلنا ہوگا۔ ٹھیک ہے ہم نے بیرون ملک سے اشیائے پر تعیش پر تو پابندی لگا دی ہے لیکن کیا ٹی وی اور فلموں میں پر تعیش زندگی دکھانے پر بھی کوئی پابندی لگائی ہے کسی نے ؟

ہم نے اس میڈیا نحوست کے ذریعے نہ جانے کس کس چیز کو اپنے رہن سہن کا حصہ بنا لیا ہے آپ کے ذہن میں یہ بات کس نے ڈالی ہے کہ خوب کھانے کے بعد بوتل بھی پینا ہےاور ایک بوتل میں تقریبا 7 چمچ چینی شامل ہوتی ہے یہ بات ٹی وی پر چلنے والے اشتہارات میں تھوڑی بتائی جاتی ہے وہاں تو ایک کلچر کی ترغیب ہوتی ہے یہی وجہ ہے کہ کولڈ ڈرنک ہمارے ثقافت میں تو کہیں بھی نہیں تھی یہ کہاں سےآیا ہے میڈیا سے آیا ہےٹی وی اشہارات سے آیا ہے

اور بھی نا جانے کیا کیا چیزیں ہیں جو بیان کی جا سکتی ہیں

اگر ہمیں معاشرے کو بدلنا ہے تو خود کو بدلنا ہوگا اور ہمیں باہمی تعاون سے اضافی اخراجات کم کرنا ہوں گے مثلا

شادی بیاہ کے اخراجات

جہیز پر بے جا خرچہ اور مطالبہ

مہمان داری کے تکلفات

بے جا سفر

اور دیگر ان چیزوں سے بچنا ہوگا جہاں سے پیسہ بے جا خرچ ہوتا ہو

رشتہ دار مٹھائی کا ڈبا نا لائے تو منہ بن جاتا ہے اب پانچ سو ہزار کی وہ مٹھائی لائے 2 ہزار ٹیکسی میں دے کیا ہم اس کا خرچہ بچانے میں رسومات ختم کر کے تعاون نہیں کر سکتے ؟

بڑا دل ،خندہ پیشانی اور ایک دوسرے کی تکلیف سمجھ کر احساس کر کے جینا سیکھیں

جائز بات پر طعن نہیں بنتا لیکن قومی مشکلات پر امیر لوگوں کو بھی اپنی عادات و اطوار بدلنا چاہیے۔ایک طرف گلی گلی میں ہوٹل و ریسٹونیٹ پر مرغ مسلم کھائے جا رہے ہوں دوسری طرف غریب آدمی کے گھر میں آٹے کے پیسے بھی نا ہو تو معاشرے میں کتنا عدم توازن پیدا ہوگا

غرباء کے لئے اگرچہ کہ بہت سارے ہسپتال سہولیات دیتے ہیں لیکن اب فوڈ بینک بڑھانے کی حاجت ہے اور مزدور اور کم تنخواہ داروں کے لئے کاش کوئی ادارہ ایسا کارڈ جاری کرے کہ جس سے کم تنخواہ پر نوکری اور کام پر جانے والوں کا کرایہ ادا ہو سکے بے شک انکوائری کے ذریعے ہو اور قید ہو کہ اس گاڑی میں اس کارڈ ہولڈر کے علاوہ دیگر لوگ نہیں بیٹھیں گے

دیگر ملکوں میں لیبر کو اے سی گاڑی میں لانا چھورنا کمپنی کی ذمہ داری ہوتی ہے لیکن یہاں ایک مزدور روز ٹھیک ٹھاک سفر کر کے بسوں میں مرغا بن کر سفر کرتا ہے دبئی میں عرب شریف میں میں نے دیکھا ہے کہ کمپنی لیبر کو گاڑی دینے کی پابند ہوتی ہے

ہمارے یہاں بھی ایسا ہو سکتا ہے بہت ساری جگہوں پر ایسا ہوتا بھی ہے اگر کمپنی چھوٹی ہے تو کئی کمپنیاں مل کر لیبر کو ٹرانسپورٹ دے سکتی ہیں

موٹر سائیکل کلچر بڑے شہروں کے لئے سب سے بڑی مصیبت ہے

اگر اندرون شہر بہتر سفری سہولت ہو تو کوئی بھی موٹر سائیکل پر آنا جانا نہ کرے ۔ترکیہ کے شہر استنبول میں میں نے دیکھا کہ 4 طرح سفری سہولیات دستیاب ہیں

ٹرام

میٹرو بس

زیر زمین میٹرو ٹرین

سمندری سفر کے لئے فیری

ایک آدمی کو جو سہولت ہو وہ سستی ٹرانسپورٹ پکڑ لیتا ہے

موٹر سائیکل کلچر یا ذاتی گاڑی پر آنے جانے کے درج ذیل نقصانات معاشرے کو پہنچ رہے ہیں

1۔۔پیٹرول زیادہ خرچ ہو رہا ہے بائیک پر جانے والے کو اچھی ٹرانسپورٹ ملے تو وہ کیوں بائیک گھسیٹے گا ۔ذاتی گاڑی پر جانے والا تنہا کار میں جا رہا ہوتا ہے اچھی ٹرانسپورٹ ملے تو یہ کیوں اتنا خرچہ کرے گا۔

2۔۔کراچی ہو یا لاہور بلکہ ان دونوں شہروں سے زیادہ ٹریفک جام کا مسئلہ میں نے پشاور اور کوئٹہ میں دیکھا ہے جب ہر بندہ ذاتی گاڑی اور بائیک پر آئے گا تو پارک بھی پھر روڑ پر کرتا ہے جو کہ ٹریفک جام کا بڑا سبب ہے

3۔۔بائیک پر ایکسیڈنٹ کا تناسب سب سے زیادہ ہے پھر موسم کا اپ ڈاون الگ مسئلہ پیدا کرتا ہے دھواں اور فضائی آلودگی الگ نقصان پہنچاتی ہے ۔ایکسیڈنٹ کا ریشو کیا ہے کوئی شخص جناح ہسپتال کے دماغ کی ایمرجنسی کے گیٹ پر جا کر دیکھ لے کہ روز کتنے درجن ایکسیڈنٹ صرف بائیک کے ہو رہے ہوتے ہیں

4۔۔۔۔ترکیہ یعنی ترکی کے لوگوں کی اوسط عمر 90 سال ہے میں نے اپنے 2021 کے سفر میں وہاں کے 12 شہروں کا سفر کیا میں نے ایک مسجد میں بھی وہاں کرسی نہیں دیکھی بوڑھے لوگ بھی کھڑے ہو کر نماز پڑھتے ہیں ۔جہاں اس کی ایک بنیادی وجہ وہاں کا پر فضا موسم یا مورثی اسباب ہو سکتے ہیں وہیں لائف اسٹائل بھی ایک اہم عنصر ہے کیوں کہ ایک بندے کو بس میں یا پبلک ٹرانسپورٹ پر جانا ہے تو تھوڑا سا وہ گاڑی پکڑنے کے لئے چلتا ہے اور تھوڑا سا اتر کر چلتا ہے یوں ایک روٹین کی واک ہو جاتی ہے

خلاصہ کی طرف آتے ہیں

خلاصہ یہ ہے کہ مشکلات تو بظاہر کم ہونے کا نام نہیں لیں گی لیکن ہمیں مشکلات کاانفرادی اور اجمتاعی حل کیسے نکالنا ہے حل نکالتے ہوئے زندگی گزارنا ہوگی محض مایوس ہونا مسائل کا حل نہیں ہوتا بلکہ متبادل کیا ہوگا یہ اہم چیز ہے ۔

یہ بھی ایک بد قسمتی ہے کہ ہمارے ملک میں مہنگائی ہونے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ حکومتیں جو قرضہ لیتی لیں ان کا سود کہاں سے ادا ہوگا اس کے لئے قرضہ دینے والے عالمی ادارے منہگائی کہ شرط مقرر کرواتے ہیں تا کہ ان کا پیسہ بمع سود انہیں واپس مل سکے۔

اللہ پاک سود کی نحوست سے بھی ہمیں نجات عطا فرمائے