زندگی اللہ تعالیٰ کا وہ عظیم عطیہ ہے کہ اگر اس کا ایک ایک لمحہ ربِ کریم کا شکر ادا کرنے کے لیے صرف کر دیا جائے اور ہر بن موصد ہزار زبانوں میں تبدیل ہو کر ربِ کریم کی حمد اور سپاس گزاری میں محو ہو جائے تو یکے از ہزار بھی ادا نہ ہو سکے۔

اس جہان رنگ و بو میں ہزاروں افراد پیدائش کے مرحلے سے گزرتے ہیں اور ہزاروں موت کی مہیب وادیوں میں اتر جاتے ہیں ۔ ان میں سے کتنے ہیں جو مقصد زندگی کو سمجھتے ہیں اور اسے پورا کرنے کے لیے اپنی سی جدوجہد کرتے ہیں ؟ کہنے والے نے سچ کہا ہے:

؎

عمر ہا باید کہ تا یک مرد حق پیدا شود

یا جنید اندر خراساں یا اویس اندر قرن

سرزمین پاک و ہندوہ مردم خیز خطہ ہے جہاں سے ہزاروں ایسے افراد پیدا ہوئے جو نہ صرف خود صراطِ مستقیم پر گامزن تھے‘ بلکہ اَن گنت بندگانِ خدا کے لیے نقوش کف پائے مصطفی (ﷺ)روشن کر گئے اور بہ قول شیخ سعدی ’’ویں جہدمی کند کہ بگیرد غریق را‘‘ کا مصداق ثابت ہوئے۔

ایسی ہی ایک شخصیت فقیہ اعظم ہند‘ حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی مدظلہ العالی ہیں ‘ جو بلاشبہہ نادر روزگار فقیہ اور پاک و ہند کی عظیم دینی درسگاہ جامعہ اشرفیہ‘ مبارک پور کے ناظم تعلیمات اور شعبہ افتاء کے صدر نشین ہیں ۔ان کے ماتحت متبحر فضلاء کی ایک جماعت ہے جو اُمت مسلمہ کو پیش آنے والے مسائل میں قرآن و حدیث اور فقہ حنفی کی روشنی میں راہنمائی فراہم کرتی ہے۔

حضرت مفتی صاحب مدظلہ العالی موجودہ دور کے پاک و ہند کے علماء اہل سنت و جماعت کی صف اوّل کے ممتاز ترین عالم اور جامع الصفات شخصیت ہیں ۔ وہ بہ یک وقت فقیہ بھی ہیں اور محدث بھی‘ مدرس بھی ہیں اور مناظر بھی۔ وہ خطیب بھی ہیں اور ادیب بھی۔ معقولات کے متبحر فاضل بھی ہیں اور منقولات کے بحر مواج بھی۔ غیرتِ ملّی کا پیکر بھی ہیں اور عشق خدا و رسول (جل جلالہ و ﷺ) کا مجسمہ بھی۔ انہیں بجاطور پر امام احمد رضا بریلوی قدس سرہ العزیز کے پیر خانے کے موجودہ سجادہ نشین حضرت پروفیسر ڈاکٹر سید امین میاں مدظلہ العالی نے ’’فقیہ اعظم ہند‘‘ ایسے پرشکوہ لقب سے نوازا ہے‘ جس پر ہندوستان کے اکابر علماء اہل سنت نے مہر تصدیق ثبت کی ہے۔ اس عظمت و جلالت کے ساتھ وہ اخلاقِ جمیلہ کابہترین نمونہ ہیں ۔ ان میں اسلاف کی سادگی اور اصاغر نوازی بہ درجہ اتم پائی جاتی ہے۔

حضرت مفتی صاحب مدظلہ ۱۳۴۰ھ/۱۹۲۱ء کو مردم خیز قصبہ گھوسی‘ ضلع اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا سلسلہ نسب چند واسطوں سے حضرت صدر الشریعہ مولانا محمد امجد علی اعظمی رحمہ اللہ تعالیٰ (صاحبِ بہارِ شریعت) کے ساتھ جا ملتا ہے۔ آپ کی ارجمندی ہے کہ آپ کو اس وقت کے متحدہ پاک و ہند کے اساطین علم و فضل اور مقتدایان رشد و ہدایت سے اکتسابِ فیض کا موقع ملا۔ ابتدائی عربی کتب سے لے کر صدرا‘ حمد اللہ‘ ہدایہ اور ترمذی شریف تک کتب درس نظامی‘ دارالعلوم اہل سنت مدرسہ اشرفیہ‘ مصباح العلوم‘ مبارک پور (جو اس وقت جامعہ اشرفیہ‘ مبارک پور کے نام سے شہرۂ آفاق ہے) میں پڑھنے کا موقع ملا اور جلالۃ العلم‘ حافظ ملت مولانا شاہ عبدالعزیز مرادآبادی کے فیض علم سے بہرہ ور ہوئے۔ شوال المکرم ۱۳۶۱ھ/۱۹۴۲ئء میں مدرسہ مظہر اسلام‘ مسجد بی بی جی‘ بریلی شریف میں محدث اعظم پاکستان مولانا محمد ابوالفضل محمد سردار احمد چشتی قادری کے پاس صحاح ستہ پڑھ کر دورۂ حدیث کی تکمیل کی۔ حضرت صدر الشریعہ کے یہ دو شاگرد حافظ ملت اور محدث اعظم پاکستان وہ ہیں جن کا علمی اور روحانی فیض نہ صرف پاک و ہند کے گوشے گوشے میں پہنچا ہوا ہے‘ بلکہ دنیا کے دیگرممالک میں بھی جلوہ گر ہے۔ مفتی صاحب ان دونوں کے فیض و برکت کے جامع ہیں ۔ ان کے علاوہ بھی متعدد اکابر کے فیض یافتہ ہیں ۔

حضرت مفتی صاحب مدظلہ العالی سلسلہ عالیہ قادریہ‘ برکاتیہ‘ رضویہ‘ امجدیہ میں نہ صرف حضرت صدر الشریعہ‘ بدرالطریقہ مولانا محمد امجدعلی اعظمی کے مرید ہیں بلکہ ان کے خلیفہ مجاز بھی ہیں ۔ حضرت مفتی اعظم مولانا مصطفی رضا خاں بریلوی اور احسن العلماء حضرت سید شاہ حسن حیدرمیاں ‘ سابق سجادہ نشین مارہرہ شریف نے بھی انہیں اجازت و خلافت سے نوازا۔ مختصر یہ کہ اکابر عصر کی عنایات اور نوازشات کا ایک ایسا مجموعہ تیار ہوا جسے آج دنیا شارح بخاری اور فقیہ اعظم ہند کے محترم القاب سے جانتی اور پہچانتی ہے۔

حضرت شارح بخاری کا خصوصی امتیاز یہ ہے کہ انہوں نے حضرت صدرالشریعہ مولانا محمد امجد علی اعظمی سے درس بخاری شریف لیا اور چودہ ماہ ان کی خدمت میں رہ کر کار افتاء کا تجربہ حاصل کیا۔ گیارہ سال دارالعلوم مظہر اسلام‘ بریلی شریف میں مدرس بھی رہے اور حضرت مفتی اعظم ہند مولانا مصطفی رضا خاں کی راہنمائی میں فتوے بھی لکھتے رہے۔ اس دور میں تقریباً پچیس ہزار فتوے آپ کے قلم سے لکھے گئے ہوں گے۔ افسوس کہ وہ فتوے محفوظ نہیں رہ سکے۔ اس کے علاوہ متعدد مدارس میں معقولات و منقولات کی آخری کتابیں اور دورۂ حدیث بھی پڑھاتے رہے۔ ۱۳۹۶ھ/۱۹۷۶ء سے شہرستان علم و فن الجامعۃ الاشرفیہ‘ مبارک پور میں تشریف فرما ہیں اور اس وقت صدر مفتی بھی ہیں اور ناظم تعلیمات بھی‘ جدید مسائل کی تحقیق کے لیے قائم ’’مجلس شرعی‘‘ کے سرپرست بھی ہیں ۔

حضرت فقیہ اعظم ہند نے تصانیف کا بھی اچھا ذخیرہ تیارکیا ہے۔ان میں سرفہرست ’’نزہۃ القاری شرح بخاری ‘‘ان کا عظیم الشان کارنامہ ہے‘ جس پر وہ بلاشبہہ ہدیۂ تبریک کے مستحق ہیں ‘ الحمد للہ! یہ شرح نوجلدوں میں مکمل ہو گئی ہے اور چھپ بھی گئی ہے۔ اس شرح کا آغاز مولانا علامہ یٰسین اختر مصباحی (دہلی) اور مولانا افتخار احمد قادری (مدینہ منورہ) کی تحریک پر ہوا۔ اختصار کے پیش نظر مکرر احادیث کا ذکر صرف ایک دفعہ کیا ہے اور بخاری شریف کے ابواب ذکر نہیں کیے ورنہ احادیث کو مکرر لانا ضروری ہوتا‘ البتہ اہم تراجم ابواب پر تفصیلی گفتگو کی گئی ہے اور ابواب کے ذکر کا فائدہ ’’احکام مستخرجہ‘‘ کا عنوان قائم کر کے پورا کر دیا گیا ہے۔ ہر حدیث کا نمبر لگا دیا گیا ہے اور اس کے اہم مضمون کو سامنے رکھ کر عنوان بھی قائم کر دیا ہے۔ یہ حوالہ بھی دے دیا گیا ہے کہ حدیث بخاری شریف اور صحاح ستہ کی دیگر کتب میں کہاں کہاں واقع ہے؟

مقدمہ میں دیگر ضروری معلومات کے علاوہ خاص طور پر تین عنوانوں پر بھی گفتگو کی گئی ہے:

(۱)مسامحاتِ بخاری (۲)امام اعظم کی مختصر سوانح اور(۳)فقہ حنفی کا تعارف۔ شرح بخاری میں حدیث کا صحیح ترجمہ اور صحیح مطلب بیان کرنے کے ساتھ ہی حضراتِ حنفیہ اور شافعیہ کے اختلاف کی نشاندہی بھی کی گئی ہے اور دلائل سے بتایا ہے کہ مذہب حنفی کو کیوں ترجیح ہے؟ اسی طرح اعتقادی مباحث میں مسلک اہل سنت و جماعت کی حقانیت اور برتری اس طرح بیان کی ہے کہ تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔

مختصر یہ کہ موجودہ دور میں اُردو میں لکھی گئی یہ مکمل اور بہترین شرح ہے جو علماء‘ وکلاء‘ مدرسین‘ طلبہ اور عوام و خواص کے لیے یکساں مفید ہے۔ اللہ تعالیٰ حضرت شارح بخاری کو دنیا اور آخرت میں اس کا بہترین اجر عطاء فرمائے اور اس شرح کو ملت اسلامیہ کے لیے مفید اور مقبول بنائے۔

۱۹۹۶ء میں شارح بخاری نے حضرت ڈاکٹر سید محمد امین میاں ‘ سجادہ نشین مارہرہ شریف کے ہمراہ زامبیا‘ زمبابوے‘ حرمین شریفین اور پاکستان کا سفر کیا۔ ۲۸/اگست کو حضرت شارح بخاری‘ جناب حاجی ابوبکرصاحب(کراچی) کے ہمراہ جامعہ نظامیہ رضویہ‘ لاہور تشریف لائے۔ حضرت مولانا مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی مدظلہ‘ راقم الحروف اور دیگر اساتذہ و طلبہ نے ان کا پرتپاک استقبال کیا۔ ان سے پوچھا گیا کہ آپ تصویر کو جائز قرار نہیں دیتے تو آپ کا پاسپورٹ کس طرح بن گیا؟ انہوں نے فرمایا: ہمارے ایک شاگرد نے ہمیں ناشتے کی دعوت دی‘ ان کے ہاں گئے تو ہماری تصویر بنا لی گئی۔ فلیش کی چمک دیکھ کر پوچھا کہ یہ کیا کیا؟ تو انہوں نے کہا کہ آپ کو بیرونی دورے پر بھجوانے کے لیے پاسپورٹ بنوانا ہے‘ اس کے لیے آپ کی تصویر لی گئی ہے۔

روانہ ہونے لگے تو مجھے فرمایا کہ آپ کے پاس وقت ہو تو ہمارے ساتھ چلیں ۔ مجھے کیا انکار ہو سکتا تھا؟ حاجی ابوبکر صاحب گاڑی چلا رہے تھے۔ پہلے حضرت پیرمکی رحمہ اللہ تعالیٰ کے مزار پر حاضری دی‘ پھر حضرت میراں حسین زنجانی کے مزار پر حاضری کے لیے روانہ ہوئے۔ دوموریہ پل کے پاس پہنچے تو بارشوں کی وجہ سے جل تھل کا سماں تھا۔ گاڑی وہیں چھوڑی اور ٹانگے پر سوار ہو کر حضرت میراں حسین زنجانی کے مزار پر پہنچے۔ مغرب کی نماز ادا کی‘ واپسی پر ڈیفنس کی ایک کوٹھی پر لے گئے جہاں کھانا بھی کھایا اور حضرت شارح بخاری سے گھڑی کے چین کے بارے میں گفتگو ہوتی رہی۔ حضرت سٹیل کے چین کو جائز قرار دیتے ہیں ۔ رات گئے واپسی ہوئی۔

۳۱‘اگست کو راقم الحروف کراچی میں حضرت سید محمد شاہ دولہا بخاری رحمہ اللہ تعالیٰ‘ کھارادر‘ کراچی کے عرس میں شریک ہوا۔ رات کے بارہ بجے راقم بعنوان ’’کرامات اولیاء اور بعد از وصال استمداد‘‘ مقالہ پیش کر رہا تھا کہ حضرت شارح بخاری‘ لاہور سے فیصل آباد اور ملتان ہوتے ہوئے کراچی تشریف لائے اور اسی وقت عرس کی محفل میں پہنچ گئے۔ راقم کے بعد حضرت نے پرمغز خطاب فرمایا اور ابتداء میں چند کلمات راقم کے بارے میں فرمائے‘ اگرچہ راقم اپنے آپ کو ان کا اہل نہیں سمجھتا‘ تاہم حضرت کے اخلاقِ کریمانہ اور اصاغر نوازی کی جھلک دکھانے کے لیے ذیل میں نقل کر رہا ہوں ۔ حضرت نے فرمایا:

مجھ سے پہلے رئیس القلم مولانا محمد عبدالحکیم شرف قادری تقریر کر رہے تھے‘ وہ تقریر کے بھی بادشاہ ہیں ‘ تحریر کے بھی بادشاہ ہیں ‘ تدریس کے بھی بادشاہ ہیں اور اللہ تعالیٰ نے چاہا تو روحانیت کے بھی بادشاہ ہوں گے۔ (او کماقال)

ایسے کلمات اپنے سے کم درجہ شخص کے لیے وہی کہہ سکتا ہے جس کے سینے میں سمندر کی سی وسعت ہو۔

راقم مقالہ پڑھ کر اپنی قیام گاہ پر چلا گیا۔ رات ڈیڑھ بجے کا وقت ہو گا کہ حضرت شارح بخاری نے ٹیلی فون کے ذریعے حکم دیا کہ میری قیام گاہ‘ حاجی ابوبکرصاحب برکاتی کی کوٹھی پر آ جائو۔ چنانچہ راقم رات کے دو بجے ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور رات وہیں گزاری۔

۱۹۹۸ء میں راقم انڈیا گیا تو ممبئی‘ دہلی‘ بریلی شریف سے ہوتا ہوا ‘ ۱۱نومبر کو ٹرین (کاشی) کے ذریعے چھ بجے صبح بنارس پہنچا۔ سربراہ جامعہ اشرفیہ مبارک پور‘ عزیز ملت حضرت مولانا عبدالحفیظ مدظلہ العالی کے ہونہار صاحبزادے مولانا نعیم الدین اور مولانا نفیس احمد استقبال کے لیے اسٹیشن پر موجود تھے۔ یہ حضرات اس فقیر کو لے کر گاڑی پر روانہ ہوئے۔ نو بجے صبح کا وقت ہو گا‘ جب ہم اہل سنت و جماعت کے ہندوستان میں سب سے بڑے ادارے الجامعۃ الاشرفیہ‘ مبارک پور پہنچے اور میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ طلباء راستے کے دونوں طرف قطاریں بنا کر کھڑے ہیں ۔ گاڑی سیدھی دارالحدیث کے عظیم الشان گنبد کے پاس جا کر کھڑی ہوئی‘ باہر نکلا تو سب سے پہلے حضرت شارح بخاری مدظلہ العالی سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے فرمایا کہ میں ممبئی کے پاس کوٹے جا رہا ہوں ۔ وہاں ایک مقدمے کا فیصلہ کرنا ہے‘ میں چاہتا تھا کہ آپ سے ملاقات کر کے روانہ ہوں …اللہ اکبر! یہ ہیں بڑے لوگوں کی بڑی باتیں ‘ اس کے بعد دیگر اساتذہ اور طلباء سے ملاقات ہوئی۔ الجامعۃ الاشرفیہ کی زیارت اور وہاں کے اساتذہ اور طلباء سے ملا قات کر کے جو مسرت ہوئی‘ اس کے بیان سے زبانِ قلم عاجز ہے۔ یاد رہے کہ دہلی سے روانگی کے بعد مفکر اسلام حضرت مولانا یٰسین اختر مصباحی صاحب مدظلہ نے ٹیلی فون کے ذریعے جامعہ اشرفیہ‘ مبارک پور فقیر کی آمد کی اطلاع دے دی تھی۔ اسی لیے مولانا نعیم الدین اور مولانا نفیس احمد بنارس کے اسٹیشن پر استقبال کے لیے تشریف فرما تھے۔

جامعہ اشرفیہ میں فقیر کے دیرینہ کرم فرما اور پیکر اخلاص مولانا محمد احمد مصباحی‘ محدث کبیر حصرت علامہ مولانا ضیاء المصطفیٰ (شیخ الحدیث) فاضل نوجوان اور محقق مولانا مفتی نظام الدین‘ ماہنامہ اشرفیہ کے مدیر مولانا مبارک حسین مصباحی‘ مولانا بدر عالم مصباحی‘ مولانا زاہد علی سلامی اور دیگر اساتذہ سے بھی ملاقات ہوئی جو فقیر کی یادوں کے البم کا قیمتی اثاثہ ہے۔

ہمارے ہاں یہ رسم ہے کہ کسی اہم شخصیت کی رحلت کے بعد ان کے عرس کا اہتمام کرتے ہیں ‘ ان کی سوانح اور خدمات پر کوئی کتابچہ یا کسی ماہنامے کا نمبر شائع کر دیتے ہیں ‘ اگرچہ یہ اہتمام بھی خال خال شخصیات کے لیے ہوتا ہے‘ لیکن زندگی میں اس بات پر توجہ نہیں دی جاتی کہ ان کی دینی‘ علمی اور روحانی خدمات پر خراجِ عقیدت پیش کیا جائے یا ان کے حالات اور علمی افادات قلم بند کیے جائیں ۔

الحمد للہ! اب کسی قدر سوچ میں تبدیلی آ رہی ہے۔ حضرت شارح بخاری مولانا مفتی شریف الحق امجدی اس اعتبار سے بھی خوش قسمت ہیں کہ اہل سنت کے اصحاب فکر و دانش نے ان کی حیاتِ مبارکہ میں انہیں خراجِ عقیدت پیش کرنے کا اہتمام کیا ہے۔

اس تبدیلی کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں جو اہل سنت وجماعت کو بیداری اور کارِخیر کی دعوت دیتی ہیں :

(۱) ۱۹۹۴ء میں جامعہ اشرفیہ‘ مبارک پور کے طلباء نے شارح بخاری سیمینار منعقد کیا جس کے لیے دو سو کے قریب مقالات شارح بخاری پر لکھے گئے۔

(۲) رضااکیڈمی‘ ممبئی نے جولائی ۱۹۹۱ء میں ایک سیمینار منعقد کیا‘ جس کا عنوان تھا: ’’امام احمد رضا کی قلمی خدمات‘‘ اس سیمینار میں علامہ یٰسین اختر مصباحی‘ بانی دارالقلم‘ دہلی کو ’’امام احمد رضا ایوارڈ‘‘ اور گیارہ ہزار روپے نقد پیش کیے گئے۔

(۳) رضااکیڈمی‘ ممبئی ہی نے ۷فروری ۱۹۹۸ء کو ایک سیمینار منعقد کیا اور پانچ جلیل القدر علماء کو ’’امام احمد رضاایوارڈ‘‘ اور پچیس ہزار روپے نقد پیش کیے۔ ان میں سرفہرست شارح بخاری مدظلہ العالی ہیں ۔ امام احمد رضا ایوارڈ (برائے ۱۹۹۸ء) باقی ارباب فضل

و کمال اور اصحابِ علم و قلم کے نام یہ ہیں :

ملک التحریر علامہ ارشد القادری مدظلہ العالی‘ امام احمد رضا ایوارڈ (برائے ۱۹۹۳ء)

بحرالعلوم مولانا مفتی عبدالمنان اعظمی مدظلہ العالی‘ امام احمد رضا ایوارڈ (برائے ۱۹۹۴ء)

مفتی اعظم مہاراشٹر حضرت مفتی غلام محمد خان ناگپوری‘ امام احمد رضا ایوارڈ (برائے ۱۹۹۵ء)

فقیہ ملت حضرت مولانا مفتی جلال الدین امجدی‘ امام احمد رضا ایوارڈ (برائے ۱۹۹۶ء)

ان حضرات کے حالات اور ان کی خدمات کے لیے ملاحظہ ہو ’’سوغاتِ رضا‘‘ مطبوعہ رضااکیڈمی‘ ممبئی۔

(۴) ۱۴۲۰ھ/۱۹۹۹ء میں علامہ یٰسین اختر مصباحی نے ’’شارح بخاری‘‘ کے نام سے ۲۸۸ صفحات پر مشتمل کتاب لکھی ہے‘ جسے دائرۃ البرکات‘ قصبہ گھوسی‘ ضلع مئو نے شائع کیا ہے۔

(۵) ۶نومبر ۱۹۹۹ء کو رضااکیڈمی‘ ممبئی کے زیراہتمام ’’جشن شارح بخاری‘‘ منایا گیا‘ جس میں شارح بخاری مدظلہ کو شرح بخاری کو مکمل کرنے پر ہدیۂ تبریک و تہنیت پیش کیا گیا۔

یاد رہے کہ رضااکیڈمی‘ ممبئی جواں سال‘ مجاہد سنیت جناب محمد سعید نوری اور جناب عبدالحق رضوی کی قیادت میں کام کر رہی ہے۔ رضا اکیڈمی‘ ممبئی نے اہل سنت و جماعت کی عام روش سے ہٹ کر لٹریچر کی اشاعت اور تقسیم پر توجہ دی ہے۔ اب تک اکیڈمی فتاویٰ رضویہ کی قدیم اشاعت کے عکس کے علاوہ امام احمد رضا بریلوی قدس سرہٗ کے ایک سو رسائل بیک وقت حسین و جمیل ٹائٹل کے ساتھ شائع کر چکی ہے۔ درس نظامی کی کثیر التعداد کتب بھی شائع کی ہیں اور ہر سال دیدہ زیب اور حیرت انگیز حد تک خوبصورت کیلنڈر بھی شائع کرتی ہے۔

(۶) ادارۂ تحقیقات امام احمد رضا‘ کراچی/اسلام آباد بھی کئی سال سے رضویات پر کام کرنے والے محققین کو امام احمد رضا ایوارڈ (طلائی تمغہ) دیتا ہے‘ جامعہ ازہر شریف اور جامعہ عین شمس‘ قاہرہ کے تین اساتذہ کو بھی ’’امام احمد رضا ایوارڈ‘‘ دے چکا ہے۔

(۱) بساتین الغفرا ن (امام احمد رضابریلوی کے عربی دیوان) کے مرتب و محقق‘ جناب شیخ سید حازم محمد احمد المحفوظ‘ استاذ کلیۃ اللغات والترجمہ‘ جامعہ ازہر۔

(۲) ساٹھ کتابوں کے مصنف اور ’’سلام رضا‘‘ کا منظوم عربی ترجمہ اور ایک سو پانچ صفحات کا مقدمہ لکھنے والے ڈاکٹر حسین مجیب مصری‘ استاذ کلیۃ الآداب‘ جامعہ عین شمس‘ قاہرہ۔

(۳) دکتور رزق مرسی ابوالعباس‘ استاذ اللغۃ العربیہ وآدابھا‘ کلیہ الدراسات الاسلامیہ والعربیہ‘ جامعہ الازھر‘ جن کی نگرانی میں فاضل نوجوان ممتاز احمد سدیدی فاضل جامعہ نظامیہ رضویہ‘ لاہور نے جامعہ ازھر میں پانچ سو چھتیس صفحات پر مشتمل مقالہ برائے ایم فل لکھا‘ جس کا عنوان ہے:

’’الامام احمد رضا خان البریلوی الہندی شاعرًا عربیًا‘‘اور بحمدہٖ تعالیٰ اس میں ’’بتقدیر ممتاز‘‘ کامیابی حاصل کی۔

یہ صورتِ حال یقینا خوش آئند ہے۔ اگر اربابِ تحقیق قلم کاروں کے اعزاز و تکریم کا یہ سلسلہ جاری رہا تو ان شاء اللہ تعالیٰ وہ دن دور نہیں ‘ جب ہمارے ہاں کسی قسم کے لٹریچر کی کمی نہیں ہو گی۔

اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بصد عجز و نیاز دعا ہے کہ حضرت شارح بخاری‘ فقیہ اعظم ہند حضرت علامہ مولانا مفتی محمد شریف الحق امجدی مدظلہ کا سایہ تادیر عزت و عافیت کے ساتھ سلامت رکھے‘ ان کے بہ کثرت جانشین پیدا فرمائے اور اہل سنت و جماعت کو لٹریچر کی قوت

اور اہمیت کا ہمہ گیر شعور عطاء فرمائے۔ آمین!

محمد عبدالحکیم شرف قادری

شیخ الحدیث جامعہ نظامیہ رضویہ‘ لاہور‘پاکستان

۲۱جنوری ۲۰۰۰ء/۱۳ شوال المکرم ۱۴۲۰ھ

…………………………….

؎۱ یہ مقالہ حضرت فقیہ اعظم ہند کی حیات میں لکھا گیا تھا‘ حضرت نے ملاحظہ بھی فرمایا اور ایک مکتوب میں پسندیدگی کا اظہار بھی فرمایا‘ افسوس کہ ۶صفر۱۴۲۱ھ بمطابق ۱۱مئی ۲۰۰۰ء بروزجمعرات صبح کی نماز کے بعد رحلت فرما گئے‘ رحمہ اللہ تعالیٰ۔ اناللہ وانا الیہ راجعون!