6- باب

7- حدثنا أبو اليمان الحكم بن نافع قال أخبرنا شعیب عـن الـزهري قال أخبرني عبيد الله بن عبدالله بن عتبة بن مسعود أن عبدالله بن عباس أخبره أن أبا سفيان بن حرب أخبره أن هرقل أرسل إليـه فـي ركـب مـن قريش، وكانوا تجارا بالشام في المدة التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم ماد فيها أبـا سـفيـان وكفار قريش فـاتـوه وهم بإيلياء ، فدعاهم في مجلسه وحوله عظماء الروم ثم دعاهم ودعا بترجمانه، فقال ایـكـم أقرب نسبـا بهذا الرجل الذي يزعم أنه نبى؟ فقال أبو سفيان قلت أنا أقربهم نسباً فقال ادنوه منی، وقربوا أصحابه فاجعلوهم عند ظهره ثم قال لترجمانہ قل لهم إني سائل هذا عن هذا الرجل ، فإن كذبني، فكذبوه، فوالله لولا الحياء من أن يأثروا على كذبا لكذبت عليه ، ثم كان أول ما سالني عنه أن قال كيف نسبه فيكم ؟ قلت هو فينا ذو نسب، قال فهل قال هذا القول منكم أحد قط قبله قلت لا، قال فهل كان من ابـائه مـن مـلك؟ قلت لا ، قال فأشراف النّاس يتبعونه أم ضعفا وهم؟ فقلت بل ضعفاؤهم قال ايزيدون ام ينقصون، قلت بل يزيدون، قال فهل یرتد أحد منهم سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه؟ قلت لا ، قال فهل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال؟ قلت لا ، قال فهل يغدر قلت لا ونحن منه في مدة لا ندري ما هو فاعل فيها . قال ولم يمكنى كلمة أدخل فيها شيئا غير هذه الكلمة، قال فهل قاتلتموه؟ قلت نعم قال فكيف كان قتالكم إياه قلت الحرب بيننا وبينه سجال ينال منا، وننال منه، قال ماذا يأمركم؟ قلت يقول اعبدوا الله وحده ولا تشركوا به شيئا واتركوا ما يقول ابـاؤكم ويامرنا بالصلوة والصدق والعفاف والصلة، فقال للترجمان قل له سالتك عن نسبه فذكرت انه فيكم ذو نسب، فكذلك الرسل تبعث في نسب قومها، وسالتك هل قال احد منكم هذا القول؟ فذكرت أن لا ، فقلت لو كان أحـد قـال هـذا الـقـول قبلہ لقلت رجل يتاسى بقول قيل قبله وسالتك هل كان من ابائه من ملك؟ فذكرت أن لا قلت فلو كان من ابائه من ملك قلت رجل يطلب ملك أبيه، وسالتك هل كنتم تتهمونه بالكذب قبل أن يقول ما قال؟ فذكرت أن لا فقد اعرف انه لم يكن ليذر الكذب على الناس، ويكذب على الله وسالتك أشراف النّاس اتّبعوه أم ضعفا وهم؟ فذكرت أن ضعفاء هم اتبعوه وهم أتباع الرسل، وسالتك ايزيدون ام ينقصون؟ فذكرت انهم يزيدون ، وكذلك أمر الإيـمـان حتى يتم وسالتك ايرتد احد سخطة لدينه بعد أن يدخل فيه؟ فذكرت أن لا ، وكذلك الإيـمـان حيـن تـخـالـط بشاشته القلوب، وسالـتـك هـل يغدر فذكرت أن لا وكذلك الـرسـل لا تغدر، وسالتك بما يأمركم؟ فذكرت أنه يأمركم أن تعبدوا الله ولا تشركوا به شيئا وينهاكم عن عبادة الأوثان، ويأمركم بالصلوة والصدق والعفاف، فإن كان ما تقول حقا فسيـمـلك موضع قدمي هاتين، وقد كنتُ اعـلـم انه خارج لم اكن اظن انه منكم فلو اني أعلم أنى أخلص إليه لتجشمت لقاءہ، ولوكنت عنده لغسلت عن قدميه ثم دعا بكتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي بعث به دحية إلى عظیم بصری، فدفعه إلى هرقل فقراة فإذا فيه.

بسم الله الرحمن الرحيم

من محمد عبد الله ورسوله إلى هرقل عظيم الروم سلام على من اتبع الهدى. أما بعد فإني أدعوك بدعاية الإسلام أسلم تسلم يوتك الله أجرك مرتين، فإن توليت ، فإن عليك إثم الأريسيين و«يا أهـل الـكـتـاب تعالوا إلى كلمة سواء بيننا وبينكم ان لا نعبد إلا الله ولا نشرك به شيئا ولا يتخذ بعضنا بعضا أربابا من دون الله فإن تولوا فقولوا اشهدوا بأنا مسلمون﴾. (آل عمران: ٦٤)

قال أبو سفيان فلمّا قال ما قال وفرع من قراءة الكتاب، كثـر عـنـده الصخب وارتفعت الأصـوات، وأخرجنا فقلت لاصحابی حین أخرجنا لقد امر امر ابن أبي كبشة ، إنه يخافه ملك بني الأصفر فما زلت موقنا انه سيظهر حتى ادخل الله على الإسلام وكان ابن الناطور صاحب إيلياء ، وهرقل سقفا على نصارى الشام يحدث أن هـرقـل حيـن قـدم إيلياء أصبح يوما خبيث النفس، فقال بعض بطارقته قد استنكرنا هيئتك ، قال ابن الناطور وكان هرقل حزاء ينظرفي النجوم فقال لهم حين سألوه إنى رايت الليلة حين نظرت في النجوم ملك الختان قد ظهر فمن يختتن من هذه الأمة؟ قالوا ليس يختتن إلا اليهود فلا يهـمنـك شـانهم واكتب إلى مدائن ملكك فيقتلوا من فيهم من اليهود، فبينما هم عـلـى أمـرهـم أتى هرقل برجل أرسل به ملك غسان يخبر عن خبر رسول الله صلى الله عليه وسلم ، فلما استخبرة هرقل ، قال اذهبوا فانظروا امختتن ھو أم لا؟ فنظروا إليه فحدثوه انه مختيـن وسأله عن العرب ، فقال هم يختتنون؟ فـقـال هـر قـل هـذا ملك هذه الأمة قد ظهر ثم كتب هرقل إلى صاحب لـه برومية، وكان نظيرة في العلم ، وسار هرقل إلى حـمـص فلـم يـرم حمص حتى أتاه كتاب من صاحبه يوافق رأى هـر قـل عـلى خروج النبي صلى الله عليه وسلم وانه نبى فاذن هرقل لعظماء الروم في دسكرة له بحمص، ثم أمر بابوابها فغلقت، ثم اطلع فقال يا معشر الروم هل لكم في الفلاح والرشد وان يثبت ملككم فتبايعوا هذا النبي؟ فخاصوا حيصة حمر الوحش إلى الأبواب، فوجدوها قد غلقت فلما راى هرقل نفرتهم وأيـس مـن الإيمان، قال ردوهم على ، وقال إني قلت مقالتي إنها أختبر بها شدّتكم على دينكم فقد رايت فسجدوا له ورضوا عنه فكان ذلك اخرشان هرقل.

رواه صالح بن كيسان، ويونس، ومعمر عن الزهري

باب

امام بخاری نے کہا کہ ہمیں ابوالیمان الحکم بن نافع نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا کہ ہمیں شعیب نے خبر دی از زہری انہوں نے کہا کہ مجھے عبیداللہ بن عبداللہ بن عتبہ بن مسعود نے خبر دی کہ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے انہیں خبر دی کہ ابوسفیان بن حرب نے انہیں خبر دی کہ ھرقل نے ان کو قریش کی جماعت کے ساتھ بلایا، یہ لوگ اس مدت میں شام تجارت کرنے گئے تھے جس مدت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان اور قریش سے عارضی صلح کی ہوئی تھی، پس قریش اس کے پاس آۓ اور وہ ایلیاء( بیت المقدس) میں تھے ھرقل نے ان کو اپنی مجلس میں بلایا اور اس کے گرد روم کے سردار تھے پھر اس نے قریش کو اور اپنے مترجم کو بلایا پھر کہا تم میں سے اس شخص کا قریبی رشتہ دار کون ہے جس کا یہ دعوی ہے کہ وہ نبی ہے؟ ابوسفیان نے کہا: میں اس شخص کا قریبی رشتہ دار ہوں ھرقل نے کہا: اس کو میرے نزدیک کردو اور اس کے اصحاب کو بھی اس کے نزدیک کردو اور ان کو اس کی پیٹھ کے پیچھے کھڑا کردو پھر اس نے اپنے مترجم سے کہا: ان لوگوں سے کہو کہ میں اس شخص کے متعلق سوال کروں گا، اگر یہ مجھ سے جھوٹ بولے تو تم اس کو جھٹلا دینا، ابوسفیان نے کہا: پس اللہ کی قسم ! اگر مجھے اس بات پر شرم نہ آتی کہ لوگ مجھے جھوٹا کہیں گے تو میں ضرور آپ کے متعلق جھوٹ بولتا پھر ھرقل نے مجھ سے سب سے پہلا سوال جو کیا وہ یہ تھا: تم لوگوں میں اس شخص کا نسب کیسا ہے؟ میں نے کہا: وہ ہم میں بہت عمدہ و نسب والے ہیں اس نے کہا: کیا یہ دعوی اس سے پہلے تم میں سے کسی اور نے بھی کیا تھا؟ میں نے کہا نہیں اس نے کہا: کیا اس کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ تھا؟ میں نے کہا: نہیں اس نے کہا: آیا مقتدر لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں یا پس ماندہ ، لوگ؟ میں نے کہا: بلکہ پس ماندہ لوگ اس نے کہا: آیا وہ زیادہ ہو رہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ میں نے کہا: بلکہ زیادہ ہور ہے ہیں اس نے کہا: کیا ان میں سے کوئی شخص اس کے دین میں داخل ہونے کے بعد اس کے دین سے ناراض ہو کر اس سے پلٹ جاتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں اس نے کہا: کیا اس کے دعوی نبوت کر نے سے پہلے تم اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ میں نے کہا: نہیں اس نے کہا: کیا وہ عہد شکنی کرتا ہے؟ میں نے کہا: نہیں تاہم ہمارا ان سے ایک مدت تک معاہدہ ہے ہم نہیں جانتے کہ وہ اس دوران کیا کرنے والے ہیں ابوسفیان نے کہا: اس بات کے سوا مجھے آپ کے خلاف کوئی اور بات کہنے کی گنجائش نہیں ملی، اس نے کہا: کیا تم نے اس کے ساتھ جنگ کی؟ میں نے کہا: ہاں اس نے کہا: تمہاری اس کے ساتھ جنگ کیسی رہی؟ میں نے کہا: ہمارے اور اس کے درمیان جنگ کنویں کے ڈول کی طرح تھی، کبھی اس ڈول کو وہ حاصل کر لیتا اور کبھی ہم اس نے کہا: وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتا ہے؟ میں نے کہا: وہ کہتا ہے: صرف اللہ وحدہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور تمہارے باپ دادا جو کہتے تھے اس کو چھوڑ دو اور وہ ہمیں نماز پڑھنے کا سچ بولنے کا پاک دامن رہنے کا اور رشتہ داروں سے ملنے جلنے کا حکم دیتا ہے پھر ہرقل نے مترجم سے کہا: اس کو بتاؤ کہ میں نے تم سے اس کے نسب کے متعلق سوال کیا تو تم نے بتایا کہ وہ تم میں عمدہ نسب والا ہے اور اسی طرح رسول اپنی قوم کے عمدہ نسب میں بھیجے جاتے ہیں اور میں نے تم سے سوال کیا کہ کیا تم میں سے کسی نے پہلے یہ دعوی کیا تھا؟ تو تم نے کہا: نہیں میں نے دل میں کہا: اگر تم میں سے کسی نے پہلے یہ دعوی کیا ہوتا تو میں کہتا: یہ شخص اس دعوئی کی پیروی کر رہا ہے جو اس سے پہلے کیا گیا تھا اور میں نے تم سے سوال کیا کہ کیا اس شخص کے باپ دادا میں سے کوئی شخص بادشاہ تھا؟ تو تم نے بتایا کہ نہیں میں نے دل میں کہا: اگر اس کے باپ دادا میں سے کوئی بادشاہ ہوتا تو میں کہتا کہ یہ شخص اپنے باپ کے ملک کو طلب کر رہا ہے اور میں نے تم سے سوال کیا کہ آیا تم اس کے دعوی نبوت سے پہلے اس پر جھوٹ کی تہمت لگاتے تھے؟ تم نے بتایا کہ نہیں پس میں نے پہچان لیا کہ جو شخص لوگوں پر جھوٹ نہیں باندھتا وہ اللہ پر کیسے جھوٹ باندھنے گا اور میں نے تم سے سوال کیا کہ مقتدر لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں یا پس ماندہ لوگ؟ تو تم نے بتایا کہ پس ماندہ لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں اور وہی لوگ رسولوں کے پیروکار ہوتے ہیں اور میں نے تم سے سوال کیا کہ وہ لوگ زیادہ ہور ہے ہیں یا کم ہو رہے ہیں؟ تو تم نے بتایا کہ وہ زیادہ ہور ہے ہیں اور اسی طرح ایمان کا معاملہ ہوتا ہے حتی کہ وہ مکمل ہو جاۓ اور میں نے تم سے سوال کیا کہ ان میں سے کوئی شخص دین میں داخل ہونے کے بعد دین کو ناپسند کر کے اس سے پلٹتا تو نہیں؟ تو تم نے بتایا کہ نہیں اور جب ایمان کی بشاشت دلوں میں رچ جاۓ توپھر اسی طرح ہوتا ہے اور میں نے تم سے سوال کیا کہ بھی اس نے عہد شکنی کی ؟ تو تم نے بتایا کہ نہیں اور اسی طرح رسول عہد شکنی نہیں کرتے اور میں نے تم سے سوال کیا کہ وہ تمہیں کس چیز کا حکم دیتے ہیں؟ تو تم نے بتایا کہ وہ تمہیں حکم دیتے ہیں کہ تم اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور وہ تمہیں بتوں کی عبادت کرنے سے منع کرتے ہیں اور وہ تم کو نماز پڑھنے سچ بولنے پاک دامن رہنے کا حکم دیتے ہیں اگر تم نے جو کچھ کہا ہے وہ برحق ہے تو وہ عنقریب میرے ان قدموں کی جگہ کے مالک ہو جائیں گے اور میں یہ جانتا تھا کہ ان کا ظہور ہونے والا ہے لیکن مجھے یہ گمان نہیں تھا کہ وہ تم میں سے ہوں گے سو اگر مجھے یہ یقین ہو جائے کہ میں ان تک پہنچ جاؤں گا تو میں ضرور ان سے ملاقات کرنے کی مشقت اٹھاؤں گا اور اگر میں ان کے پاس ہوتا تو میں ضرور ان کے پیر کو دھوتا پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مکتوب کو منگوایا ، جس کو آپ نے حضرت دحیہ کے ذریعہ بصری کے حاکم کے پاس بھیجا تھا اس نے وہ مکتوب ھرقل کو دے دیا ھرقل نے پڑھا تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا:

اللہ ہی کے نام سے( شروع کرتا ہوں) جو نہایت رحم فرمانے والا بہت مہربان ہے

محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول کی طرف سے ھرقل عظیم الروم کی طرف جو ہدایت کی پیروی کرے اس پر سلام ہو بہر حال بسم اللہ کے بعد پس بے شک میں تم کو اسلام کی دعوت دیتا ہوں اسلام قبول کرلو تم سلامت رہو گے اللہ تعالی تم کو دگنا اجر عطا فرمائے گا اور اگر تم نے اعراض کیا تو تمہارے متبعین کا گناہ بھی تم پر ہو گا ۔ اسے اہل کتاب! ایسی بات کی طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمیان برابر ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ قرار دیں اور ہم میں سے کوئی اللہ کو چھوڑ کر ایک دوسرے کو رب نہ قرار دے پھر اگر وہ روگردانی کریں تو تم کہہ دو: لوگو! تم گواہ ہوجاؤ کہ ہم مسلمان ہیں ( آل عمران : 64)

ابوسفیان نے کہا: جب ھرقل نے جو کہا وہ کہا اور وہ اس مکتوب کو پڑھنے سے فارغ ہو گیا تو اس کے پاس بہت شور ہوگیا اور آوازیں بلند ہو گئیں اور ہم کو نکال دیا گیا جب ہم کو نکال دیا گیا تو میں نے اپنے اصحاب سے کہا: ابو کبشہ کے بیٹے کا( یعنی نبی صلی اللہ علیہ وسلم ) کا معاملہ بہت عظیم ہوگیا اس سے سفید فام قوم کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے ،پھر مجھے ہمیشہ یہ یقین رہا کہ وہ عنقریب غالب ہوجائیں گے، حتی کہ اللہ نے میرے دل میں اسلام داخل کر دیا اور ابن الناطور جو بیت القدس کا امیر ( گورنر) تھا ھرقل کا مصاحب اور شام کے عیسائیوں کا سردار ( بڑا پادری ) تھا وہ بیان کرتا ہے کہ ایک دن ھرقل بیت المقدس میں بہت پریشان حال اٹھا، اس کے درباریوں نے کہا: آج آپ کی حالت بہت بدلی ہوئی ہے ابن الناطور نے کہا: ھرقل نجومی تھا اور ستاروں میں غور وفکر کرتا تھا۔ اس نے ان لوگوں کے سوال کے جواب میں کہا: آج رات جب میں نے ستاروں میں غور کیا تو میں نے دیکھا ختنہ کرنے والی قوم کا بادشاہ غالب آچکا ہے پس اس زمانہ کے لوگوں میں سے کون ختنہ کرتا ہے؟ انہوں نے کہا: صرف یہود ختنہ کرتے ہیں سو آپ ان کی وجہ سے پریشان نہ ہوں اور آپ اپنے ملک کے تمام شہروں کو لکھ لکھ کر بھیج دیں کہ وہاں جو بھی یہود ہیں، ان کوقتل کردیا جاۓ پس وہ لوگ ان ہی معاملات میں مشغول تھے کہ ھرقل کے پاس ایک شخص کو لایا گیا، جس کو غسان کے بادشاہ نے بھیجا تھا، اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور کی خبر دی جب ھرقل نے اس سے پوری خبر معلوم کر لی تو کہا: جاؤ معلوم کرو وہ ختنہ کے قائل ہیں یا نہیں؟ اس نے آپ کے حالات معلوم کیے تو لوگوں نے بتایا کہ وہ فتنہ کے قائل ہیں اور ھرقل نے اس شخص سے عربوں کے متعلق سوال کیا تو اس نے کہا: عرب ختنہ کرتے ہیں پھر ھرقل نے کہا: یہی اس امت کے بادشاہ ہیں جو ظاہر ہو چکے ہیں ھرقل کا ایک گورنر رومیہ میں تھا، جو علم میں اس کی ٹکر کا تھا ھرقل نے اس کو خط لکھ کر معلوم کیا اور خود ھرقل حمص کے لیے روانہ ہوا ابھی حمص نہیں پہنا تھا کہ اس کے پاس اس کے دوست کا خط آ گیا اس کی راۓ بھی ھرقل کے موافق تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہو چکا ہے اور آپ برحق نبی ہیں، تب ھرقل نے روم کے سرداروں کو اپنے حمص کے محل میں بلایا اور دروازوں کو بند کرنے کا حکم دیا سو دروازے بند کر دیے گئے پھر وہ ان کے سامنے آیا پھر کہا: اے روم کی جماعت! دائمی کامیابی اور ہدایت کے حصول کے متعلق اور اپنے ملک کی بقا کے متعلق تمہاری کیا رائے ہے؟ سوتم اس نبی کی بیعت کرلو، یہ سنتے ہی وہ وحشی گدھوں کی طرح دروازوں کی طرف دوڑے لیکن دروازے تو بند کیے جا چکے تھے بالآخر جب ھرقل نے ان کی اس وحشت کو دیکھا اور ان کے ایمان سے مایوس ہو گیا تو کہا: ان کو میرے پاس واپس لاؤ اور کہا: میں نے جو ابھی تجویز پیش کی تھی تو اس سے میں تمہاری دین میں شدت کو آزمارہا تھا سو مجھے معلوم ہو گیا ، پھر ان سب سرداروں نے ھرقل کو سجدہ کیا اور اس سے راضی ہو گئے اور یہی ھرقل کا آخری امر تھا۔

امام بخاری کہتے ہیں : اس حدیث کو صالح بن کیسان اور یونس اور معمر نے زہری سے روایت کیا ہے ۔

ٌٌ(اطراف الحدیث: ۵۱-2681۔ ۲۸۰۴۔۲۹۴۱-۲۹۷۸۔ ۳۱۷۴۔ 3174-۵۹۸۰ -6260 |  صحیح مسلم: ۱۷۷۳،سنن ابوداؤد:۲ 5136 سنن ترمذی: 2717 السنن الکبری للنسائی : 11064 )

حدیث مذکور کے رجال کا تعارف خصوصاً حضرت ابوسفیان رضی اللہ عنہ کا تعارف

اس حدیث کی سند میں چھ رحال ہیں جن میں زہری‘ عبید اللہ بن عبداللہ اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کا تعارف پہلے ہو چکا ہے

اور بقیہ تین رجال کا تعارف حسب ذیل ہے:

( (۱) ابوالیمان ان کا نام الحکم بن نافع الحمصى البحرانی ہے انہوں نے اسماعیل بن عیاش اور دیگر سے احادیث روایت کی ہیں اور ان سے امام احمد، یحیی بن معین ابو حاتم الذھلی اور بہت سے محدثین نے احادیث روایت کی ہیں یہ ۱۳۸ھ میں پیدا ہوۓ اور 221ھ سے یا ۲۲۲ھ میں فوت ہوۓ صحاح ستہ میں ان کے علاوہ اورکسی کا نام الحکم بن نافع نہیں ہے

(۲) شعیب بن ابی حمزہ ابو بشر الحمصی انہوں نے زہری اور بہت سے تابعین سے حدیث کا سماع کیا ہے یہ ثقہ حافظ تھے ستر سے زیادہ سال کی عمر گزار کر 162ھ یا ۱۶۳ ھ میں فوت ہو گئے۔ شعیب بن ابی حمزہ نام کا صحاح ستہ میں اور کوئی راوی نہیں ہے۔

( ۳) ابوسفیان ان کا نام صخر بن حرب بن امیہ بن عبد شمس بن عبد مناف بن قصی القرشی الاموی المکی ہے یا ابرھہ کے ہاتھیوں کی پسپائی کے واقعہ سے دس سال پہلے پیدا ہوئے اور فتح مکہ کی شب میں اسلام لاۓ یہ غزوہ طائف اور حنین میں حاضر رہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حنین کی غنیمتوں میں سے ایک سواونٹ اور چالیس اوقیہ عطا فرماۓ غزوہ طائف میں ان کی ایک آنکھ شہید ہوگئی تھی اور دوسری آنکھ جنگ یرموک میں شہید ہوگئی جب میں اپنے بیٹے یزید بن ابی سفیان کے جھنڈے کے نیچےلڑ رہے تھے پھر یہ مدینہ آۓ اور ۳۱ھ یا ۳۴ھ میں فوت ہو گئے اس وقت ان کی عمر ۸۸ سال تھی حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ان سے حضرت ابن عباس اور ان کے بیٹے حضرت معاویہ نے احادیث روایت کی ہیں صحابہ میں ابوسفیان نام کے کئی صحابی ہیں لیکن ابوسفیان بن حرب نام کے یہ واحد صحابی ہیں ۔ امام بخاری نے ابوسفیان کی صرف ایک حدیث روایت کی ہے ۔ ( کشف المشکل ج۱ص ۳۴) ( عمدة القاری ج۱ ص ۷ ۱۳ دار الکتب العلمیہ بیروت۱۴۲۱ھ )

اس حدیث کی شرح شرح صحیح مسلم : ۴۴۹۴ ۔ ج ۵ ص 506 ۔ ۵۰۴ میں مذکور ہے وہاں ہم نے اس حدیث کے ۱۶ فوائد ذکر کیسے ہیں یہاں اس کی شرح میں ہم ان امور کا ذکر کر یں گے جن کا ذکر وہاں نہیں کیا گیا اب یہاں پر اس حدیث میں مذکور اسماء اور اعلام کی تشریح کر رہے ہیں اور سب سے پہلے ھرقل کا ذکر کر رہے ہیں ۔

ھرقل کی مختصر سوانح

علامہ بدرالدین محمود بن احمد عینی متوفی ۸۵۵ ھ لکھتے ہیں :

ھرقل کا تلفظ دوطرح ہے: ھرقل ‘‘ ( ھ کے نیچے زیر،ر پر زبر اور ق پر جزم) اور ھرقل‘‘( ھ کے نیچے زیر،ر پر جزم اور ق کے نیچے زیر) اس نے ۳۱ سال حکومت کی اس کی حکومت کے دوران ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا وصال ہوا تھا۔ اس کی حکومت روم کے شہروں میں تھی، روم کے بادشاہوں کا لقب قیصر تھا، سو اس کا لقب بھی قیصر تھا جیسے ایران کے بادشاہوں کا لقب کسری ہے اور ترک کے بادشاہوں کا لقب خاقان ہے اور حبشہ کے بادشاہ کا لقب نجاشی ہے اور القبط کے بادشاہ کا لقب فرعون سے اور مصر کے بادشاہ کا لقب عزیز ہے اور چین کے بادشاہ کا لقب فغفور ہے اور یونان کے بادشاہ کا لقب بطلمیوس ہے اور بربر کے بادشاہ کا لقب جالوت ہے اور صابئہ کے بادشاہ کا لقب نمرود ہے اور یمن کے بادشاہ کا لقب تبع ہے خوارزم کے بادشاہ کا لقب خوارزم شاہ اور جرجان ہے اور اسکندریہ کے بادشاہ کا لقب ملک مقوقس ہے ۔صحیح حدیث میں ہے:

حضرت جابر بن سمرہ رضی للہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب کسری ہلاک ہو جاۓ گا تو اس کے بعد کوئی کسری نہیں ہو گا اور جب قیصر ہلاک ہو جاۓ گا تو اس کے بعد کوئی قیصر نہیں ہو گا اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! تم ضرور ان کے خزانوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے ۔ ( صحیح البخاری 3121 صحیح مسلم :۲۹۱۹ سنن ترمذی:2216 مسند احمد ج ۲ ص ۱۳ ۳)

اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ قیصر کے بعد شام میں کوئی قیصر نہیں ہو گا اور کسری کے بعد عراق میں کوئی کسری نہیں ہو گا اس حدیث کا سبب یہ ہے کہ زمانہ جاہلیت میں قریش شام اور عراق میں تجارت کے لیے بہت زیادہ جایا کرتے تھے پھر جب قریش مسلمان ہو گئے تو ان کو یہ خوف ہوا کہ اب وہ شام اور عراق میں سفر نہیں کر سکیں گے کیونکہ اسلام کی وجہ سے شام اور عراق والے ان کے مخالف ہو گئےتھے تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان ملکوں میں ان کی ہلاکت کے بعد کوئی قیصر اور کسری نہیں ہو گا اور تمہیں کوئی نقصان نہیں ہوگا، پھر شام میں کوئی قیصر نہیں ہوا اور عراق میں کوئی کسری نہیں ہوا قیصر کا لغوی معنی ہے : کاٹنا اس نام کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ اس کی ماں وضع حمل سے پہلے مرگئی تھی تو اس کو ماں کا پیٹ کاٹ کر نکالا گیا تھا اور قیصر اس پر فخر کرتا تھا کہ اس کی پیدائش فرج کے راستہ سے نہیں ہوئی بلکہ اس کو پیٹ سے نکالا گیا ہے ۔ (عمدۃ القاری ج ۱ ص ۱۳۸ – ۷ ۱۳ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۱ھ )

سید قاسم محمود لکھتے ہیں:

ہرقل شاہان روم کا لقب تھا نیز زمانہ قدیم میں اس نام کا ایک معبد بھی تھا اس کے ایک بادشاہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک خط لکھا تھا کہ اسلام لے آۓ یہ اسلام کو دل سے چاہتا تھا مگر عیسائی پادریوں نے ایسا کرنے سے باز رکھا ہر قلہ کا شہر اس نے آباد کیاتھا۔ جنگ تبوک و یرموک اس سے لڑی گئیں یرموک میں شکست کھا کر یہ انکا کیہ چھوڑ گیا اس نے اپنے ملک میں سکے رائج کیے تھے جن کے ایک طرف اس کی مورت تھی اور دوسری طرف کوئی عبارت تھی ۔ جب خسرو پرویز نے عیسائیوں سے سلطنت شام چھین لی تو یہ فورا ان کی مدد کو پہنچا اور حکومت چھین کر انہیں واپس کر دی ۔ ( اسلامی انسائیکلو پیڈ یاس 1429 شاہ کار بک فاؤنڈیشن کراچی )

حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی مختصر سوانح

اس حدیث میں حضرت دحیہ کلبی کا بھی نام آیا ہے ان کے متعلق حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی 852ھ لکھتے ہیں: ان کا نام ہے: دحیہ بن خلیفہ بن فروہ بن زید بن امرء القیس الخزرجی۔ یہ مشہور صحابی ہیں، بدر میں حاضر نہ ہو سکے، ان کا پہلا مشاہدہ الخندق ہے اور ایک قول ہے کہ احد ہے یہ بہت حسین تھے حسن میں ان کی مثال دی جاتی تھی حضرت ام سلمہ اور حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضرت جبریل علیہ السلام ان کی صورت میں نازل ہوتے تھے۔

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جبریل میرے پاس دحیہ کلبی کی صورت میں آتے تھے ۔ (مسند احمدج ۲ ص ۱۰۷)

حضرت دحیہ کلبی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب لے کر قیصر کے پاس گئے تھے اور 6ھ یا7 ھ کے اول میں حمص میں اس سے ملے تھے۔

امام ترمذی نے حضرت مغیرہ سے روایت کیا ہے کہ حضرت دحیہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دو موزے ہدیہ کیے تھے جن کو آپ نے پہنا تھا۔

’’ سنن ابوداؤد‘ میں حضرت دحیہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کچھ قبطی کنیزیں پیش کی گئی تھیں، آپ نے ان میں سے ایک کنیز مجھے عطا کی تھی ۔

امام احمد نے حضرت دحیہ سے روایت کیا ہے کہ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ ! کیا میں آپ کے لیے ایک گدھے کو گھوڑی پر نہ چڑھاؤں، پھر اس سے ایک خچر پیدا ہو جس پر آپ سواری کریں؟ آپ نے فرمایا: ایسا کام وہ لوگ کرتے ہیں جو بے علم ہوں ۔

( سنن ابوداؤد : 2565 مسند احمد ج۱ ص 98 مصنف ابن ابی شیبہ ج ۱۲ ص۵۴۰ سفلنن بیہقی ج۱۰ص ۲۳، مسند احمد ج۱ ص ۹۸)

 

حضرت دحیہ جنگ یرموک میں گئے تھے دمشق میں بھی رہے ہیں اور حضرت معاویہ کی خلافت تک زندہ رہے ہیں ۔

( الاصابہ ج ۲ ص 323 – ۳۲۲ دار العلمیہ بیروت ۵۱۴۱۵)

ابو کبشہ کا تعارف

اس حدیث میں ہے کہ جب ابوسفیان اور ان کے دیگر ساتھیوں کو ہرقل کے دربار سے نکال دیا گیا تو ابوسفیان نے کہا کہ ابوکبشہ کے بیٹے کا معاملہ بہت عظیم ہو گیا اس سے سفید فام قوم کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے ۔

ابو کبشہ خزاعہ کا شخص تھا جو شعری نام کے ستارے کی عبادت کرتا تھا اس کا نام وجز بن غالب تھا ابولحسن الجر جانی نے کہا ہے کہ قریش نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت کی وجہ سے آپ کے نسب معروف کے بجاۓ آپ کی نسبت ابوکبشہ کی طرف کرتے تھے یا اس وجہ سے کہ جس طرح ابوکبشی بت پرستی کے بجاۓ ستارہ پرست تھے اسی طرح آپ بھی بت پرستی کے بجاۓ توحید پرست تھے یا اس وجہ سے کہ آپ کے نانا ابو کبشہ تھے کیونکہ وہب بن عبد مناف بن زہرہ جوسیدہ آمنہ کے دادا تھے ان کی کنیت ابو کبشہ بھی اسی طرح عمرو بن زید بن اسدالبخاری جوعبد المطلب کی ماں سلمی کے باپ تھے وہ ابو کبشہ کہلاتے تھے اس وجہ سے وہ آپ کو ابو کبشہ کا بیٹا کہتے تھے ۔

(عمدۃ القاری ج۱ ص ۱۳۹ دار الکتب العلمیہ بیروت ۱۴۲۱ھ )

کلیسا کا نظام پاپائیت

اس حدیث میں یہ آ گیا ہے کہ حرقل نے ابن الناطور کو پادریوں کا سردار بنا دیا تھا اس کی مکمل وضاحت کے لیے کلیسا کے نظام پاپائیت اور پوپ کے منصب کو سمجھنا ضروری ہے جس کو ہم تفصیل سے بیان کر رہے ہیں:

پاپائیت : یورپ کے زیر نتظام پوپ کا طریق کار پوپ کی حکومت جب قسطنطین اعظم نے عیسائیت کو روما کا سرکاری مذہب قرار دیا تو رومی حکومت مقدس حکومت بن گئی اور کلیسا کا انتظام پانچ پادریوں ( پٹیری آرچ ) کے ہاتھ میں آ گیا جنہیں پوپ کہا گیا۔ مغرب میں روم اور مشرق میں قسطنطنیہ (استنبول) کا پوپ اہم تھے۔ ان کے درمیان اختلافات کی خلیج وسیع تر ہوگئی تو ۱۰۵۴ ، میں دونوں کلیسا سے الگ ہو گئے ۔ مغرب میں رومن کیتھولک اور مشرق میں یونانی کلیسا دو الگ اداروں کی حیثیت سے وجود میں آۓ ۔

پوپ گریگوری اول( ۶۵۴۰ تا ۲۰۹ ء) نے رومی کلیسا کو مستحکم بنیادوں پر استوار کر نے کے بعد پاپائی نظام کو اور زیادہ مستحکم کردیا۔ پورا یورپ پوپ کے دائرہ کار میں آ گیا اور اسے دینی و دنیاوی امور میں غیر محدود اختیارات حاصل ہو گئے ۔ اس کی نافرمانی کو نا قابل معافی جرم قرار دیا گیا۔ اس کا ہر لفظ قانون کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ڈیوڈ فادر انگھم لکھتا ہے کہ پاپائیت کلیسا پر بری طرح چھائی ہوئی تھی اور سیاست پر جا گیرداروں کا قبضہ تھا دونوں آزادی اور حریت کے جانی دشمن تھے ظاہر دونوں میں زبردست مشابہت تھی عوام کی کوئی حیثیت نہ تھی ان کے سروں پر مذہبی عہد یداروں کا ایک لمبا سلسلہ مسلط تھا جو علاقائی اسقف سے لے کر پوپ تک جا پہنچتا تھا۔ پوپ خود کو پطرس کا جانشین اور حضرت عیسی کا نائب کہتا تھا اس کا اقتدار ربانی تسلیم کیا جاتا ہے ۔

پاپائیت کے مظالم کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ عوام نے پوپ کی مخالفت کرنا شروع کر دی۔ کچھ نے تو مذہبی ٹیکس دینے سے انکار کیا اور تعلیم یافتہ طبقے نے ان کتابوں کا مطالعہ شروع کر دیا جن کا مطالعہ پوپ نے ممنوع قرار دے رکھا تھا ۔ پوپ نے انہیں باغی قرار دے کر انہیں دردناک سزائیں دیں ۔ اس سے کلیسا کے خلاف نفرت اور بھی بھڑک اٹھی ۔

سب سے زیادہ مخالفت پوپ لوئی دہم کے جاری کردہ معافی ناموں کی خرید وفروخت کے سلسلے میں ہوئی ۔لوئی دہم ایک عالیشان گرجا بنانا چاہتا تھا، جس کے لیے زرخطیر کی ضرورت تھی اس رقم کے جمع کرنے کے لیے اس نے معافی ناموں کی فروخت کا طریقہ رائج کیا۔ ان معافی ناموں کو نہ صرف پادری فروخت کرتے تھے بلکہ تاجروں نے باقاعدہ طور پر ان کی ایجنسیاں قائم کر رکھی تھیں ۔ گناہوں کے نرخنامے بھی مقرر تھے ۔مختلف گناہوں کی معافی کے لیے الگ الگ قیمتیں مقرر تھیں مثلا استقاط حمل کے لیے ۱/۲ ۳ شلنگ عدالت میں جھوٹی گواہی کے لیے 9 شلنگ چوری ۱۲ شلنگ، عصمت دری کرنے پر 9 شلنگ زنا اور قتل پر 1/2 ۷ شلنگ لونڈی رکھنے پر 10 1/2شلنگ ۔

معافی نامے میں جو عبارت درج ہوئی تھی وہ بڑی دلچسپ ہے ان میں لکھا ہوتا تھا :

” تم پر خداوند یسوع مسیح کی رحمت ہو اور وہ اپنے مقدس رحم سے تمہیں آزاد کر دے ۔ میں اس کی اور اس کے بابرکت شاگرد پطرس پولوس اور مقدس پوپ کی اس سند کی رو سے جو انہوں نے مجھے عطا فرمائی ہے تمہیں آزاد کرتا ہوں اور سب سے پہلے کلیسا کی تمام ملامتوں سے خواہ وہ کسی شکل میں ہوں پھر تمہارے ہر ایک گناہ حدودشکنی اور زیادتی سے خواہ وہ کیسے ہی مہیب اور شدید کیوں نہ ہوں میں تم سے وہ سزا اٹھالیتا ہوں جوتمہیں تمہارے گناہوں کی پاداش میں جہنم میں ملنے والی تھی تا کہ تم جب مروتو جہنم کے دروازے تم پر بند ہوں اور جنت کی راہیں کشادہ ہوں باپ بیٹے اور روح القدس کے نام پر‘‘۔

پاپائیت کی رو سے پادری تمام عمر کنوارے رہتے ہیں انہیں شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی ، آج بھی رومن کیتھولک چرچ میں یہی رسم جاری ہے ۔

پاپائیت کا خاتمہ کرنے کے لیے جہاں سیاست دانوں اور اہل علم نے بے انتہا کوششیں کیں وہاں خود اہل مذہب بھی مخالفت پر اتر آۓ ۔ کلیسا کے اقتدار کو ختم کرنے کے لیے کئی مصلحین میدان میں آۓ ۔ ان میں بارہویں صدی کا پیٹروالدو چودھویں صدی کے جان ٹولر اور جان وائی کلف اور سولہویں صدی کا مارٹن لوتھر قابل ذکر ہیں ۔ مارٹن لوتھر ان سب میں نمایاں اور امتیازی حیثیت کا مالک ہے ۱۵۱۱ ء میں وہ روم گیا اور اس نے پوپ کی زندگی کا مطالعہ بہت قریب سے کیا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچا کہ پوپ روحانی قوت کا مالک نہیں چنانچہ واپس آنے پر اس نے پوپ کی زبردست مخالفت شروع کر دی ۔ ۱۵۱۷ء میں اس نے پوپ کے معافی نامے دینے کے اختیار پر شدید نکتہ چینی کی ۔ ۱۵۱۸ ، تک پورا یورپ لوتھر کے خیالات سے واقف ہو چکا تھا۔ اس سے ایک تہلکہ مچ گیا پاپائیت کے حامیوں نے لوتھر کو قید کر دیا، رہائی کے بعد اس نے رہبانیت ترک کر کے شادی کر لی اور اس طرح جرمنی میں ایک نیا کلیسا پروٹسٹنٹ وجود میں آ گیا جو پاپائیت اور رومن کیتھولک کا زبردست مخالف تھا۔

عوام تو پہلے ہی پاپائیت سے نالاں تھے چنانچہ بہت جلد رومن کیتھولک کی جڑیں اکھڑنے لگیں جسے دیکھتے ہوۓ اس فرقے میں بھی اصلاح کی کوششیں کی جانے لگیں نتیجے پاپائیت کمزور پڑتی چلی گئی ۔

لوتھر کے بعد دیگر مصلحین میں سوئٹزرلینڈ کے بل رچ زونگلی اور فرانس کے جان کالون کا تذکرہ ضروری ہے ۔کالون کے عقائد نے تو انسانی اختیار کو بالکل ختم کر دیا اس کا کلیسا’’ اصلاح یافتہ‘‘ کہلاتا ہے ۔اسی طرح سکاٹ لینڈ اور انگلستان میں بھی اصلاح و ترامیم کی بہت کی کوششیں ہوئیں جس سے بہت سے کلیسا وجود میں آۓ ۔ جن کی وجہ سے عیسائیت میں قدیم پاپائی نظام تقریبا مفلوج ہوکر رہ گیا۔

پادری:

فادر باپ بڑا بزرگ عیسائیوں کا مذہبی پیشوا کلیسائی نظام میں بشپ کا ماتحت ہوتا ہے ۔ اس کے فرائض میں عبادات انجیل مقدس کی تبلیغ اور مذہبی رسومات کی ادائیگی شامل ہوتی ہے وہ دیگر سماجی تقاریب میں کلیسا کے نمائندے کی حیثیت سے شریک ہوتا ہے ۔ رومن کیتھولک کلیسا میں پادری عمر بھر کنوارا رہتا ہے اس کے لیے شادی کرنے کی اجازت نہیں ہوتی جب کہ مشرقی کلیسا میں پادری پر شادی لازمی ہوتی ہے لیکن آرتھوڈکس اور قدامت پسند کلیساؤں میں پادری رنڈوا ہونے پر دوسری شادی نہیں کر سکتا۔

( اسلامی انسائیکلو پیڈیاس ۴۲۲-۴۲۱ طبع کراچی )

 

کلیسا میں پوپ کا منصب

پوپ:

لاطینی لفظ ہے جس کے معنی باپ کے ہیں ۔ چوتھی اور پانچو میں صدی عیسوی میں پوپ کا خطاب کسی بھی پادری کے لیے استعمال کرلیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں یہ لقب روم کے بشپ کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا۔ اہل برطانیہ میں عیسائیت کی ترویج کے فرائض روم کے عیسائی پادریوں نے سرانجام دیئے تھے چنانچہ جوں جوں برطانیہ میں عیسائیت کو غلبہ حاصل ہوتا گیا۔ ایسے ہی ان پادریوں کو بھی عوام میں مقبولیت حاصل ہوتی چلی گئی اور ان کا تقدس بڑھتا چلا گیا۔ پاپاۓ روم اہل برطانیہ کا سب سے بڑا روحانی پیشوا بن گیا اور جب روم میں کلیسا نے سیاسی اقتدار حاصل کر لیا تو برطانیہ میں بھی پاپاۓ اعظم کی دھاک بیٹھ گئی ۔

قرون وسطی میں ایک دور وہ بھی آیا کہ پوپ کی قوت بادشاہوں سے بھی زیادہ ہوگئی ۔

ایک طرف تو سیاسی قوت تھی اور دوسری طرف مذہبی اثر اور دولت ان چیزوں نے کلیسا کو وقت کا اہم ترین ادارہ بنادیا اور ہر شخص نہ صرف کلیسا کا محتاج اور اس کے رحم و کرم پر تھا بلکہ شاہی دربار کے احکام و قوانین بھی کلیسا ہی کی وساطت سے لے پاتے تھے نیزجب بہت سی وحشی اقوام مثلا گوتھ ہنس گال فریک وغیرہ نے روی پوپ کے ذریعے عیسائیت قبول کی تو اس سے پوپ کی قوت میں خاصہ اضافہ ہوا۔ پورا یورپ پوپ کے زیراثر آ گیا۔ دینی اور دنیوی طاقت کا منبع پوپ ہی کی ذات تھی ۔ اس لیے اسے غیر محدود اختیارات حاصل ہو گئے اس کی نافرمانی کو ناقابل معافی جرم قرار دیا گیا۔ پوپ کی ہر بات قانون کی حیثیت رکھتی تھی اور جو اس کی حکم عدولی کرتا تھا اسے سخت سزائیں دی جاتی تھیں لیکن پوپ نے اس قوت دولت اور اثر کا زیادہ بہتر استعمال نہ کیا وہ حضرت مسیح کی سادہ اور بے تکلف زندگی مچوڑ کر عیش وعشرت میں گھر گئے ۔ دولت حاصل کرنے کے لیے ہر طرح کے ذرائع اختیار کیے یہاں تک کہ پوپ نے جنت کے سرٹیفیکیٹ بیچنے شروع کر دیئے ۔

پوپ کی قوت کا استعمال صرف یہ رہ گیا کہ ایک دوسرے پر کفر کے فتوے لگائیں اور ان اختلافات میں اس درجہ بڑھ گئے کہ معمولی سا اختلاف رکھنے والوں کو موت کی سزا دے دی جاتی تھی ۔اس مقصد کے لیے خاص عدالتیں قائم کی گئیں، جنہیں احتسابی عدالت کہا جاتا تھا ۔ ایک اندازے کے مطابق ۱۴۸۱ء سے ۱۸۰۸ء تک ان عدالتوں نے تقریبا تین لاکھ چالیس ہزار افراد کو مختلف سزائیں دیں ۔ ان میں صرف ۲۲ ہزار وہ تھے جنہیں دہکتی آگ میں ڈالا گیا۔ جن لوگوں کو سزائیں دی گئیں ان میں گلیلو جیسے ماہر سائنسدان بھی شامل تھے۔

عوام پر مظالم کے پہاڑ توڑے گئے تو ان میں پوپ کے خلاف نفرت نے جنم لیا اور ایسے لوگ پیدا ہوۓ جنہوں نے پوپ کے اقتدار کو ختم کرنے کی تحریکیں چلائیں ۔ ان لوگوں میں پیٹر والڈو، جان ٹولر، مارٹن لوتھر جیسے افراد تھے جنہوں نے عوام کو لوپ کے اقتدار سے نجات دلائی ۔ ( اسلامی انسائیکلو پیڈیاص ۴۴۳ شاہ کار بک فاؤنڈیشن طبع کراچی )

 

مشکل الفاظ کے معانی

اس حدیث میں’ بطارقۃ‘‘ کا لفظ ہے یہ’ بطریق‘‘ کی جمع ہے اس کا معنی ہے : بادشاہ کی حکومت کے خاص ارکان اور’’ دسکرۃ‘‘ کا لفظ ہے اس کا معنی محل ہے جس کے گردمکان ہوں اور’’ سقف ‘‘ کا لفظ ہے اس کا معنی ہے : رئیس یا بڑا پادری‘ ’’رومیه ‘‘ کامعنی ہے: روم کا شہر’ الا ریسین ‘‘ کا معنی ہے :متبعین‘’ صاحب ایلیاء‘‘ کا معنی ہے: بیت المقدس کا گورنر‘’’ دعایة الاسلام‘‘ کا معنی ہے : اسلام کی دعوت ۔

جب ھرقل کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے صدق کا یقین ہو گیا تو پھر وہ اسلام کیوں نہیں لایا ؟

اس حدیث میں مذکور ہے کہ جب ھرقل ابوسفیان سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوالات کر چکا تو اس نے کہا: اگر تم نے جو کچھ کہا وہ برحق ہے تو وہ نبی عنقریب اس جگہ کا مالک ہو جاۓ گا جہاں میرے یہ دو قدم میں اور مجھے معلوم تھا کہ اس نبی کا ظہور ہونے والا ہے مگر میرا یہ گمان نہیں تھا کہ وہ تم میں سے ہوگا اور اگر مجھے یہ یقین ہوتا کہ میں اس تک پہنچ جاؤں گا تو میں ضرور اس سے ملاقات کرنے کے لیے مشقت اٹھاتا اور اگر میں اس کے پاس ہوتا تو اس کے پاؤں کو دھوتا ۔

حافظ احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ ھ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :

ھرقل کے اس کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کو یقین تھا کہ اگر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف ہجرت کی تو اس کوقتل کر دیا جاۓ گا اور یہ اس کو تجربہ سے معلوم ہوا کیونکہ ضغاطر نے اپنے مسلمان ہونے کو ظاہر کیا تھا تو اس کو عیسائیوں نے قتل کر دیا اور امام طبرانی نے ضعیف سند کے ساتھ اس قصہ کو روایت کیا ہے پس قیصر نے کہا: مجھے معلوم ہے کہ وہ برحق نبی ہیں لیکن میں اپنے اسلام کو ظاہر کر نے کی طاقت نہیں رکھتا۔ اگر میں نے ایسا کیا تو میری حکومت جاتی رہے گی اور رومی مجھے قتل کر دیں گے اور امام ابن اسحاق کی ایک مرسل روایت میں ہے : ھرقل نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے یقین ہے کہ وہ نبی مرسل ہیں لیکن مجھے یہ خطرہ ہے کہ رومی مجھے قتل کر دیں گے اگر یہ خطرہ نہ ہوتا تو میں اس نبی کی پیروی کرتا، تاہم اگر ھرقل عقل سے کام لیتا تو اسے معلوم ہوتا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے مکتوب میں فرمایا تھا: تم اسلام قبول کر لوتم سلامت رہو گے یعنی دنیا اور آخرت میں پس اگر وہ اسلام قبول کر لیتا تو اس کو وہ خطرات پیش نہ آتے، جن سے وہ ڈر رہا تھا لیکن ہدایت کی توفیق اللہ تعالی کے ہاتھ میں ہے ۔

ھرقل نے ایمان لانے پر اپنی حکومت کو ترجیح دی اس پر قوی دلیل یہ ہے کہ ۸ھ میں غزوہ موتہ میں اس نے مسلمانوں سے جنگ کی اور یہ اس قصہ کے دو سال بعد کا واقعہ ہے اور “مغازی ابن اسحاق‘‘ میں ہے کہ جب مسلمان سرزمین شام میں گئے تو ان کو یہ خبر پہنچی کہ ھرقل ایک لاکھ مشرکین کے ساتھ ان کے مقابلہ پر آرہا ہے اسی طرح امام ابن حبان نے اپنی’ صحیح‘‘ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے تبوک سے بھی اس کو اسلام کی دعوت دی وہ اسلام قبول کرنے کے قریب تھا لیکن اس نے اسلام قبول نہیں کیا ۔ اس تفصیل سے ظاہر ہو گیا کہ وہ اپنے کفر پر مسلسل برقرار رہا تاہم یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ دل میں اپنے ایمان کو چھپاتا ہو اور اپنی حکومت کو بچانے کے لیے اور قتل کیے جانے کے خوف سے یہ نافرمانیاں کرتا ہو ۔’’ مسند احمد‘‘ میں یہ حدیث ہے کہ اس نے تبوک سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ مکتوب بھیجا کہ میں مسلمان ہوں نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس نے جھوٹ بولا وہ اپنی نصرانیت پر قائم ہے اور ابوعبید کی ” کتاب الاموال‘‘ میں یہ روایت ہے: اللہ کے دشمن نے جھوٹ بولا وہ مسلمان نہیں ہے اسی وجہ سے امام عبد البر نے یہ کہا ہے کہ اس نے تصدیق کا اظہار کیا لیکن اس پر قائم نہ رہا اور تصدیق کے تقاضے پر مل نہیں کیا اور فانی چیزوں کو دائمی نعمتوں پر ترجیح دی ۔ ( فتح الباری ج اص 515 دارالمعرفہ بیروت 1426ھ)

اسلام قبول کر نے کی پاداش میں بڑے پادری ضغاطر کا قتل کیا جانا

نیز اس حدیث میں مذکور ہے کہ ہرقل کا ایک دوست رومیہ میں تھا جو علم میں اس کی ٹکر کا تھا، ھرقل نے اس کو خط لکھ کر معلوم کیا اور وہ خود حمص روانہ ہو گیا ابھی وہ حمص نہیں پہنچا تھا کہ اس کے پاس اس کے دوست کا خط آ گیا۔ اس کی راۓ بھی حرقل کے موافق تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ظہور ہو چکا ہے اور آپ برحق نبی ہیں ۔

ھرقل کے اس دوست کا نام ضغاطر تھا اس کے متعلق حافظ ابن حجر عسقلانی متوفی ۸۵۲ ھ لکھتے ہیں :

حضرت دحیہ بیان کرتے ہیں کہ جب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب لے کر ضغاطر کے پاس گیا تو اس نے کہا: یہی وہ نبی ہیں جن کا ہم انتظار کر رہے تھے اور جن کی ہمیں حضرت عیسی نے بشارت دی تھی سو میں ان کی تصدیق کرتا ہوں اور ان کی اتباع کروں گا قیصر نے اس سے کہا: لیکن اگر میں نے ایسا کیا تو میری حکومت جاتی رہے گی اور یہ لوگ مجھے قتل کر دیں گے اس قصہ کے آخر میں ہے کہ مجھ سے بڑے پادری ( ضغاطر ) نے کہا: یہ مکتوب لے کر اپنے پیغمبر کے پاس چلے جاؤ اور ان پر میرا سلام پڑھنا اور انہیں یہ خبر دینا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں ہے اور بے شک محمد اللہ کے رسول ہیں میں ان پر ایمان لے آیا اور میں نے ان کی تصدیق کر دی اور بے شک عیسائی میرا انکار کر یں گے، پھر وہ ان کی طرف گیا اور انہوں نے اسے قتل کر دیا ۔ امام ابن اسحق کی روایت میں اس طرح ہے کہ ھرقل نے حضرت دحیہ کو ضغاطر رومی کی طرف بھیجا اور ضغاطر نے اپنے اسلام کو ظاہر کر دیا اور اس کے اوپر پہلے جو لباس تھا اس کو اتار دیا اور سفید لباس پہن لیا اور رومیوں کو اسلام کی دعوت دی انہوں نے اس کو مارا پیٹا اور قتل کر دیا اور جب حضرت دحیہ دوبارہ ھرقل کے پاس گئے تو اس نے کہا: میں نے تم سے پہلے کہا تھا کہ مجھے رومیوں سے اپنی جان کا خطرہ ہے لیکن اس روایت پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ حضرت دحیہ ھرقل کے پاس اس مکتوب کو لے کر حدیبیہ کے سال نہیں گئے تھے وہ اس کے پاس مکتوب لے کر غزوہ تبوک میں گئے تھے ہوسکتا ہے کہ ضغاطر کے متعلق دو قصے ہوں ایک قصہ وہ ہے جس کا’’ صحیح بخاری‘‘ میں ذکر ہے جس میں ابن الناطور نے بیان کیا ہے کہ اس کی راۓ حرقل کے موافق تھی اس میں اس کے اسلام لانے کا ذکر ہے نہ اس کے قتل کیے جانے کا اور دوسرا قصہ ۔ وہ ہے جس کا امام ابن اسحاق نے ذکر کیا ہے کہ ضغاطر کے پاس حضرت دحیہ گئے وہ اسلام لے آیا اور اس قتل کر دیا گیا ۔ (فتح الباری خاص 519-520 دار المعرف بیروت ۱ ۲ ۱۴ ھ)

ھرقل کے اسلام لانے پر اس کو دگنا اجر کیوں دیا جاۓ گا ؟

اس حدیث میں مذکور ہے کہ ھرقل نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مکتوب منگوایا اس میں لکھا تھا: بے شک میں تم کو اسلام کی دعوت د یتا ہوں اسلام قبول کر لو تم سلامت رہو گئے اللہ تم کو دگنا اجر عطا فرماۓ گا ۔

ھرقل کو دگنے اجر کی اس لیے بشارت دی کہ وہ پہلے حضرت عیسی علیہ السلام پر ایمان لایا تھا پھر سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائے گا تو دو نبیوں پر ایمان لانے کی وجہ سے اسے دگنا اجر ملے گا اور یہ اس آیت کے موافق ہے:

أوليك يؤتون أجرهم مرتين (القصص: ۵۴ )

ان لوگوں کو ان کا اجر دومرتبہ دیا جاۓ گا ۔

د گنے اجر کی یہ وجہ بھی ہوسکتی ہے کہ ھرقل کا اسلام لا نا اس کے متبعین کے اسلام لانے کا بھی سبب ہو گا اگر یہ اعتراض کیا جائے

قرآن مجید میں ہے:

ليس للإنسان إلا ما سعى (النجم:۳۹)

انسان کو صرف اس کی سعی اور کوشش کا اجر ملتا ہے O

تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس آیت میں اللہ تعالی کے عدل کا اظہار ہے اور جس آیت میں دگنے اجر کا ذکر ہے وہ اس کا فضل ہے ۔

اس کی توجیہ کہ ھرقل کے متبعین کے اسلام نہ قبول کرنے کا گناہ ھرقل کو کیوں ہوگا؟

دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ اگر تم نے اسلام قبول نہیں کیا تو تمہارے متبعین کے اسلام نہ لانے کا بھی گنا ہ تم پر ہوگا حالانکہ قرآن مجید میں ہے:

ولا تزر وازرة وزر أخرى . ( بنی اسرائیل: ۱۵ )

اور کوئی بوجھ اٹھانے والا کسی دوسرے( کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ ھرقل کا گناہ یہ تھا کہ وہ اپنے متبعین کی گمراہی کا سبب بنا کیونکہ وہ لوگ اس کے اسلام نہ لانے کی وجہ سے اسلام نہیں لاۓ لہذا اس اعتبار سے متبعین کا گناہ در حقیقت ھرقل ہی کا گناہ ہے اور وہ اپنے ہی گناہوں کا بوجھ اٹھائے گا ۔

اس اعتراض کا جواب کہ ھرقل کے نام مکتوب میں جو آیت لکھی گئی تھی وہ اس مکتوب کو بھیجنے کے تین سال بعد نازل ہوئی تھی

اس سلسلہ میں تیسرا اعتراض یہ ہے کہ اس مکتوب میں جو آیت کی تھی : ” يأهل الكتب تعالوا إلى كلمة ‘‘ ( آل عمران : ٢۴ ) یه آیت اس وقت نازل ہوئی تھی جب آپ کے پاس نجران کے عیسائیوں کا وفد آیا تھا اور آپ کے پاس وفد آ نے کا قصہ 9 ھ کا ہے اور ابوسفیان جو ھرقل کے دربار میں گئے تھے یہ 6ھ کا واقعہ ہے لہذا اس مکتوب میں وہ آیت کیسے لکھی گئی جو تین سال بعد نازل ہوئی تھی ؟ حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کے نزول سے پہلے ہی اس کو لکھ دیا تھا اور بعد میں جب یہ آیت نازل ہوئی تو آپ کے لکھے ہوۓ کے موافق تھی اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ یہ آیت دو بار نازل ہوئی ہو لیکن یہ بعید ہے ۔ ( فتح الباری ج۱ ص 517ھ دار المعرفة بیروت 1426ھ )

( میں کہتا ہوں کہ اس میں ابن عربی کے اس قول کی تائید ہے کہ قرآن مجید کے مکمل نزول سے پہلے آپ کو اس کا اجمالی علم تھا۔ سعیدی غفرلہ )

’’ “یہ ھرقل کا آخری امر تھا‘‘ آیا اس سے مراد اس کی زندگی کا آخری واقعہ ہے یا دعوت ایمان کے سلسلہ میں آخری بات؟

اس حدیث کے آخر میں مذکور ہے: جب ھرقل عیسائی سرداروں کے ایمان سے مایوس ہو گیا تو اس نے ان سے کہا: میں نے جو ابھی تجویز پیش کی تھی اس سے میں دین میں تمہاری شدت کو آ زمارہا تھا سو مجھے معلوم ہو گیا۔ پھر ان سب سرداروں نے ھرقل کو سجدہ کیااور اس سے راضی ہو گئے اور یہ ھرقل کا آخری امر تھا۔ اس کی شرح میں حافظ عسقلانی لکھتے ہیں :

اس کا معنی یہ ہے کہ ھرقل کے ایمان لانے کے سلسلہ میں یہ آخری بات یا آخری واقعہ تھا اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ ھرقل کے واقعات کے سلسلہ میں یہ آخری واقعہ تھا کیونکہ اس کے بعد ھرقل نے موتہ میں اور تبوک میں مسلمانوں کے خلاف لشکر کشی کی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو دوبارہ مکتوب بھیجا تھا اور امام ابن اسحاق نے یہ روایت ذکر کی ہے کہ ھرقل نے جب شام سے قسطنطنیہ جانے کا ارادہ کیا تو اس نے رومی سرداروں پر چند امور پیش کیے کہ یا تو وہ اسلام قبول کر لیں یا جزیہ دیں اور یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے صلح کر لیں اور آپ ان کو عادت اور معمول سے کم چیز پر باقی رکھیں لیکن انہوں نے اس کا انکار کر دیا پھر وہ شام سے روانہ ہو گیا اور اس نے اہل شام کو الوداعی سلام کیا اور قسطنطنیہ میں داخل ہو گیا۔ اس میں مؤرخین کا اختلاف ہے کہ آیا یہ وہی ھرقل ہے جس سے مسلمانوں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے زمانہ میں جنگ کی تھی یا وہ اس کا بیٹا تھا۔

جب کہ اکثر لوگوں کے نزدیک ھرقل کے ایمان کا معاملہ غیر واضح تھا، اس لیے کہ ہوسکتا ہے کہ اس نے جان کے خوف سے ایمان لانے کی تصریح نہ کی ہو اور یہ یھی ہوسکتا ہے کہ وہ آخر وقت تک شک میں رہا حتی کہ کفر پر مر گیا ۔

حدیث مذکور کی عنوان باب کے ساتھ حافظ عسقلانی کی بیان کردہ مناسبت

امام بخاری نے اس باب کو” انما الاعمال بالنیات ‘‘ کی حدیث سے شروع کیا تھا اور ھرقل کے آخری معاملہ پرختم کیا ہے گویا کہ امام بخاری نے کہا کہ اگر ایمان لانے کے لیے اس کی نیت صادق تھی تو وہ کامیاب ہے ورنہ وہ نا کام اور نامراد ہے اور یوں اس حدیث کی باب سے مناسبت ظاہر ہوگئی ۔ ( فتح الباری ج۱ ص۵۲۱ – ۵۲۰ دارالمعرفة بیروت 1426ھ )

حدیث مذکور کی عنوان باب کے ساتھ حافظ عینی کی بیان کردہ مناسبت

حافظ بدرالدین محمود بن احمد عینی متوفی ۸۵۵ھ اس حدیث کی عنوان باب سے موافقت کے سلسلہ میں لکھتے ہیں :

اس حدیث میں ایسے متعدد جملے ہیں جن سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جس شخص پر وحی کی جاتی ہے اس کو کیسی صفات کا حامل ہونا چاہیے مثلا یہ کہ اس کا نسب اپنی قوم میں سب سے افضل ہو اس قوم میں اس سے پہلے کسی نے نبوت کا دعوی نہ کیا ہو اس نے اس سے پہلے کبھی جھوٹ نہ بولا ہو اور اس کے متبعین بھی اس کے دین کو نا پسند کرکے اس سے نہ پھریں اور یہ بدء الوحی‘‘ کے ساتھ واضح مناسبت ہے نیز ھرقل کو جو مکتوب بھیجا گیا تھا۔ اس میں جو آیت مذکور ہے اور اس باب کے شروع میں جو آیت مذکور ہے دونوں میں یہ چیز مشترک ہے کہ اللہ تعالی انبیاء علیہم السلام پر دین کو قائم کرنے اور کلمہ توحید کا اعلان کرنے کے لیے وحی نازل فرماتا رہا ہے ۔

حافظ عسقلانی اور حافظ عینی کی مناسبتوں کے درمیان محاکمہ اور مصنف کی بیان کردہ مناسبت

میں کہتا ہوں کہ حافظ ابن حجر اور حافظ عینی دونوں نے بہت عمدہ مناسبت بیان کی ہے لیکن حافظ عسقلانی کی مناسبت باب کی پہلی حدیث کے ساتھ ہے اور حافظ عینی کی مناسبت باب کے عنوان کے ساتھ ہے اور مطلوب یہی ہوتا ہے کہ باب کی حدیث کی مناسبت باب کے عنوان کے ساتھ بیان کی جاۓ سو اس اعتبار سے حافظ عینی کی شرح حافظ عسقلانی کی شرح پر فائق ہے ۔

علامہ عینی نے حدیث مذکور کی عنوان باب کے ساتھ جو مناسبت بیان کی ہے وہ عمد و مناسبت ہے لیکن اتنی عمدہ بھی نہیں ہے کیونکہ علامہ عینی نے یہ کہا ہے کہ اس حدیث میں یہ بتایا ہے کہ جن پر وحی کی جاتی ہے ان کی کیسی صفات ہونی چاہئیں گویا اس حدیث کی وحی کے ساتھ مناسبت ہے لیکن اس کے باب کا عنوان صرف وحی نہیں ہے بلکہ” بدء الوحی‘‘ ہے اور ہم پہلے بتا چکے ہیں کہ بدء‘‘ کا معنی ظہور اور غلبہ ہے اور اس حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہونے والی وحی کے ظہور اور غلبہ کا ذکر ہے کیونکہ اس حدیث میں مذکور ہے کہ ابوسفیان نے کہا جب ھرقل نے کہا جو کہا اور وہ اس مکتوب کو پڑھنے سے فارغ ہو گیا تو اس کے پاس بہت شور ہو گیا اور آواز میں بلند ہو گئیں اور ہم کو نکال دیا گیا جب ہم کو نکال دیا گیا تو میں نے اپنے اصحاب سے کہا: ابو کبشہ کے بیٹے (یعنی نبی صلی اللہ علیہوسلم) کا معاملہ بہت عظیم ہوگیا، اس سے سفید فام قوم کا بادشاہ بھی ڈرتا ہے پھر مجھے ہمیشہ یہ یقین رہا کہ وہ عنقریب غالب ہو جائیں گے حتی کہ اللہ نے میرے دل میں اسلام داخل کردیا سو حدیث کے ان جملوں میں وحی کے ظہور اور غلبہ کا ذکر ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا غلبہ وحی کی جہت سے تھا، سو میرے نزدیک اس حدیث کی عنوان باب کے ساتھ موافقت اس وجہ سے ہے کہ اس حدیث میں وحی کے ظہور اور غلبہ کا ذکر ہے اور اس کے باب کا عنوان بھی’’بدء الوحی‘‘ ہے یعنی وحی کا ظہور اور غلبہ اور یہ وہ نکتہ ہے جو اللہ تعالی نے صرف میرے دل میں القاء کیا ہے اور تمام شارحین میں صرف مجھ پر اللہ کی یہ نعمت ہے جس کو میں نے’ نعمۃ الباری‘‘ میں درج کیا ہے وللہ الحمد ۔

حدیث مذکور کی زہری سے دو روایتیں اور ان کی تفصیل

اس حدیث کے آخر میں امام بخاری نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو صالح بن کیسان اور یونس اور معمر نے زہری سے روایت کیا ہے ۔ اس عبارت سے امام بخاری یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ابوالیمان کی جو روایت زہری سے ہے وہ ابوسفیان کے اس قول تک ہے: حتی کہ اللہ نے میرے دل میں اسلام کو داخل کر دیا اس کے بعد جو ابن الناطور کا قصہ آخر حدیث تک ہے وہ ابوالیمان کی روایت سے نہیں ہے اس وجہ سے امام بخاری نے اس حدیث کو ابوالیمان کی سند سے ’’ کتاب الجہاد‘ اور ’’ کتاب التفسیر‘‘ میں رقم :٬2941 اور رقم : ۴۵۵۳ میں ابوسفیان کے اس قول تک روایت کیا ہے حتی کہ اللہ تعالی نے میرے دل میں اسلام کو داخل کر دیا اور اس کے بعد ابن الناطور کا قصہ بیان نہیں کیا اب امام بخاری یہ بیان کر رہے ہیں کہ ابن الناطور کا یہ قصہ از صالح بن کیسان از یونس از معمر از زہری ہے خلاصہ یہ ہے کہ زہری سے دو روایتیں ہیں ایک روایت ابوالیمان نے کی ہے جو ابوسفیان کے قول مذکور تک ہے اور دوسری روایت صالح بن کیسان نے کی ہے جس میں ابن الناطور کا قصہ آخر حدیث تک ہے ۔