۷- باب من الإيمان أن يحب لأخيه ما يحب لنفسه

یہ بھی امور ایمان سے ہے کہ اپنے بھائی کے لیے بھی اسی چیز کو پسند کرے جس کو اپنے لیے پسند کرتا ہے

۱۳- حدثنا مسدد قال حدثنا يحيى، عن شعبة عن قتادة عـن انـس رضي الله عنه عن النبي صلى الله عليه وسلم وعن حسين المعلم قال حدثنا قتادة ، عن أنس عن النبی صلى الله عليه وسلم قال لا يؤمن أحدكم حتى يحب لأخيه ما يحب لنفسه

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ ہمیں مسدد نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: ہمیں یحیی نے حدیث بیان کی، از شعبه از قتاده از حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ از نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حسین معلم نے کہا: ہمیں قتادہ نے حدیث بیان کی از انس از نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک ( کامل ) مومن نہیں ہو گا جب تک کہ اپنے بھائی کے لیے بھی اسی چیز کو پسند نہ کرے جس کو اپنے لیے پسند کرتا ہے ۔

(صحیح مسلم : ۴۵، سنن ترمذی:۲۵۱۵ سنن نسائی :5016 سنن ابن ماجه :66 مسند ابویعلی : 3182 سنن دارمی:3740 مسند ابوعوانہ ج۱ ص 33 شعب الایمان : ۱۱۱۲۵ المعجم الاوسط :۸۲۸۸ مسند الشامیين : ۲۵۹۲ مسند احمد ج ۳ ص 176 طبع قدیم مسند احمد :۱۲۸۰۱۔ ج۲۰ ص ۱۹۳ مؤسسة الرسالة بیروت )

حدیث مذکور کے رجال کا تعارف خصوصاً حضرت انس رضی اللہ تعالی عنہ کا تذکرہ

(۱)مسدد بن مسرھد بن مسر ل ابن مرعبل الاسدی یہ اہل بصرہ کے ثقہ راویوں میں سے ہیں، انہوں نے حماد بن زید،ابن عیینہ اور یحیی القطان سے احادیث کا سماع کیا ہے اور ان سے ابو حاتم الرازی، ابوداؤد اور محمد بن یحیی الذھلی ابوزرعہ اور اسماعیل بن اسحاق وغیرہ نے سماع کیا ہے احمد بن عبد اللہ نے کہا: یہ ثقہ راوی ہیں امام احمد اور یحیی بن معین نے کہا: یہ بہت سچے ہیں یہ رمضان ۲۲۳ھ میں فوت ہو گئے تھے۔

(۲) یحیی بن سعید بن فروخ التیمی ان کی کنیت ابوسعید ہے امام اور حجت ہیں ان کی جلالت اور توثیق پر سب متفق ہیں، انہوں نے یحیی انصاری، محمد بن عجلان، ابن جریج ، ثوری، امام مالک اور شعبہ وغیرہ سے سماع کیا ہے اور ان سے الثوری، ابن عینیہ ،امام احمد یحیی بن معین اور امام احمد وغیرہ نے سماع کیاہے، یحیی بن معین نے کہا: یحیی بن سعید بیس سال تک ایک دن اور ایک رات میں قرآن مجید ختم کرتے رہے یہ ۱۲۰ھ میں پیدا ہوۓ اور ۱۹۸ھ میں فوت ہو گئے۔

( ۳) شعبہ بن الحجاج الواسطی ان کا تعارف پہلے ہوچکا ہے

( ۴ ) قتادہ بن دعامہ بن قتادہ بن عزیز السدوی البصری التابعی، انہوں نے صحابہ میں سے حضرت انس بن مالک، حضرت عبداللہ سرجس اور ابوالطفیل عامر سے احادیث کا سماع کیا ہے اور تابعین میں سے سعید بن مسیب، حسن بصری اور محمد بن سیرین سے سماع کیا ہے اور ان سے سلیمان التیمی، ایوب السختیانی، اعمش شعبہ اوزاعی اور کثیر لوگوں نے سماع کیا ہے ان کی جلالت حفظ, توثیق, فضیلت اور اتقان پر اجماع ہے یہ واسط میں ۱۱۷ھ یا ۱۱۸ھ میں 56یا 57 سال کی عمر میں فوت ہو گئے کتب ستہ میں ان کے علاوہ قتادہ نام کا اور کوئی راوی نہیں ہے۔

( ۵ ) حسین بن ذکوان المعلم البصری ہیں انہوں نے عطاء بن رباح، قتادہ اور دوسروں سے احادیث کا سماع کیا ہے اور ان سے شعبہ، ابن المبارک، یحیی القطان نے سماع کیا ہے یحی بن معین اور ابوحاتم نے کہا: یہ ثقہ ہیں ۔

(6) حضرت انس بن مالکالنضر انصاری ہیں، ان کی کنیت ابوحمزہ ہے، یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خادم تھے، انہوں نے دس سال آپ کی خدمت کی، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے 2286 احادیث روایت کی ہیں ان میں سے 168 احادیث پر امام بخاری اور امام مسلم متفق ہیں اور امام بخاری ۸۳احادیث کے ساتھ منفرد ہیں اور امام مسلم ۹۱ احادیث کے ساتھ منفرد میں صحابہ میں ان کی سب سے زیادہ اولاد تھی ان کی والدہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: یا رسول اللہ! انس آپ کا خادم ہے آپ اس کے لیے اللہ سے دعا کیجئے آپ نے دعا کی: اے اللہ! اس کے مال اور اولاد میں برکت دینا اور اس کی عمر زیادہ کرنا اور اس کے گناہ بخش دینا حضرت انس نے کہا: میں نے اپنی پشت سے پیدا ہونے والی98 اولاد کو دفن کیا ان کے باغ سے سال میں دو مرتبہ پھل اتر تے تھے اور ان کے باغ کے پھولوں سے مشک کی خوشبو آتی تھی اور ان کی عمر ۱۰۰ سال سے متجاوز تھی یہ بصرہ کے صحابہ میں سے سب سے آخر میں ۹۳ ھ میں فوت ہوۓ ۔( عمدة القاری ج۱ ص۲۳۰۔۲۲۹)

اس حدیث کی باب کے عنوان سے مطابقت بالکل واضح ہے ۔

اپنی پسندیدہ چیز کا اپنے مسلمان بھائی کو دینے کا وجوب

حافظ ابن رجب حنبلی متوفی ۷۹۵ ھ لکھتے ہیں :

جو شخص اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند نہیں کرتا، جس کو اپنے لیے پسند کرتا ہے، اس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایمان کی نفی کی ہے، تو معلوم ہوا کہ اپنی پسندیدہ چیز کو اپنے بھائی کے لیے پسند کرنا بھی خصال ایمان سے ہے بلکہ ایمان کے واجبات سے ہے کیونکہ ایمان کی نفی اس وقت کی جاتی ہے، جب اس کے بعض واجبات کو ترک کر دیا جاۓ جیسا کہ اس حدیث میں ہے:

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس وقت کوئی زانی زنا کرتا ہے اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا اور جس وقت کوئی چور چوری کرتا ہے تو اس وقت وہ مومن نہیں ہوتا اور جس وقت کوئی شرابی شراب پیتا ہے تو اس وقت وہ مؤمن نہیں ہوتا ۔ ( صحیح البخاری: 5578 صحیح مسلم : ۵۷)

اور کوئی شخص اپنے بھائی کے لیے اپنی پسندیدہ چیزوں کو اسی وقت پسند کرے گا، جب وہ حسد، کینہ، بغض اور دھوکا دہی سے سلامت اور محفوظ ہو اور ان سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا واجب ہے حدیث میں ہے:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم جب تک ایمان نہ لاؤ، جنت میں داخل نہیں ہو گے اور جب تک تم ایک دوسرے سے محبت نہ کرو تمہارا ایمان نہیں ہوگا الحدیث ۔ ( صحیح مسلم : ۵۴ سنن ترمذی: ۲۶۸۸، سنن ابن ماجه : 3692)

پس مومن، مومن کا بھائی ہے وہ اپنے بھائی کے لیے اس چیز کو پسند کرتا ہے جس کو اپنے لیے پسند کرتا ہے اور اس کے لیے اسی چیز کو ناپسند کرتا ہے، جس کو اپنے لیے ناپسند کرتا ہے حدیث میں ہے:

حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: تم مؤمنین کو دیکھو گے کہ وہ ایک جسم کے اعضا کی طرح ایک دوسرے پر رحم کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں اور ایک دوسرے پر شفقت کرتے ہیں, جب اس کے جسم کے ایک عضو میں بیماری ہوتی ہے تو اس کا پورا جسم بیداری اور بخار میں کراہتا رہتا ہے ۔ ( صحیح البخاری: 601ق صحیح مسلم:۲۵۸۶)

پس جب مومن اپنے لیے دین اور دنیا کی کسی فضیلت کو پسند کرے گا تو وہ یہ پسند کرے گا کہ اس کے بھائی کو بھی وہ فضیلت مل جاۓ اور اس سے وہ فضیلت زائل نہ ہو جیسا کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما نے فرمایا: جب میں قرآن کریم کی کسی آیت کو پڑھ کر اس کا مطلب سمجھتا ہوں تو میں پسند کرتا ہوں کہ تمام مسلمان اس آیت کا وہ مطلب سمجھ لیں جو میں نے سمجھا ہے ۔ امام شافعی نے فرمایا: میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ تمام لوگ اس علم کو حاصل کرلیں اور خصوصیت سے میری طرف اس علم کی نسبت نہ کریں ۔

اپنی برتری اور انفرادیت کو طلب کرنا مذموم ہے

اور جوشخص یہ پسند کرتا ہے کہ اس کو دین اور دنیا کی کسی فضیلت میں تفرد اور انفرادیت حاصل ہو تو یہ مذموم ہے قرآن مجید میں ہے:

تلك الدار الآخرة تجعلها للذين لا يريدون علوا في الأرض ولا فسادا والعاقبة للمتقين (القصص:83)

یہ آخرت کا گھر ہم ان لوگوں کے لیے مخصوص کرتے ہیں جو زمین میں اپنی برتری اور بڑائی کا ارادہ نہیں کرتے اور نہ دہشتگردی کا ارادہ کرتے ہیں اور نیک انجام اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے ہے

اور حدیث میں ہے:

حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہما بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اس لیے علم حاصل کیا کہ ان پڑھ لوگوں سے بحث کرے یا علماء کے سامنے فخر کرے یا لوگوں کے چہروں کو اپنی طرف موڑے تو وہ شخص دوزخ میں ہے ۔ ( سنن ابن ماجہ : ۲۵۳ زوائد ابن ماجہ میں مذکور ہے کہ اس حدیث کی سند ضعیف ہے ۔ )

حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ اور دوسرے اکابر نے کہا: وہ اس کو پسند نہیں کرتے کہ ان کی جوتی دوسروں کی جوتیوں سے اچھی ہو اور نہ اس کو پسند کرتے ہیں کہ ان کے کپڑے دوسروں کے کپڑوں سے اچھے ہوں ۔ حدیث میں ہے:

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور وہ شخص خوب صورت تھا’ اس نے کہا: یا رسول اللہ ! میں حسین چیزوں کو پسند کرتا ہوں اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ مجھے کیا کچھ عطا کیا گیا ہے حتی کہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ کوئی شخص مجھ سے برتر ہو خواہ میری جوتی کے تسمہ سے کیا یہ تکبر ہے؟ آپ نے فرمایا: نہیں ! لیکن تکبر حق کا انکار کرنا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا ہے ۔ ( سنن ابوداؤد :۴۰۹۰ مسند احمد ج۱ ص 427-385)

اس حدیث میں یہ مذکور ہے کہ وہ شخص یہ چاہتا تھا کہ اس سے کوئی برتر نہ ہو، نہ یہ کہ وہ سب سے برتر اور بلند ہو بلکہ اس کا تقاضا یہ ہے کہ وہ برتری اور بلندی میں لوگوں کے مساوی ہو، اور اس حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ وہ شخص یہ پسند کرتا تھا کہ دو لوگوں سے برتر اور بلند ہو اور ان میں منفرد ہو ۔

اگر کسی شخص کو اللہ تعالی نے کوئی مخصوص فضیلت عطا کی ہو اور وہ اس فضیلت میں عام لوگوں سے منفرد ہو اور برتر اور بلند ہو اور وہ اس نعمت پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کے لیے اس فضیلت کی لوگوں کو خبر دے تو یہ مستحسن ہے، قرآن مجید میں ہے:

وأما بنعمة ربك فحدث(الضحی :11)

بہر حال آپ اپنے رب کی نعمت کا خوب بیان کریں 0

حضرت ابوسعید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ میم نے فرمایا: میں قیامت کے دن تمام اولاد آدم کا سردار ہوں اور فخر نہیں اور میرے ہی ہاتھ میں حمد کا جھنڈا ہو گا اور فخر نہیں اور ہر نبی خواہ آدم ہوں یا کوئی اور وہ میرے جھنڈے کے نیچے ہوں گے اور سب سے پہلے مجھ سے زمین شق ہو گی اور نخرنہیں ۔ ( یہ حدیث حسن صحیح ہے ) ( سفن تر ندی: ۲۱۵ ۱۳ مسند احمد ج ۳۳ ۲ )

حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر مجھے علم ہو کہ کوئی شخص مجھ سے زیادہ کتاب اللہ کا علم رکھتا ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے اونٹوں پر سفر کرنا پڑے تو میں اس کے پاس ضرور جاؤں گا ۔ (فتح الباری لابن رجب ج۱ ص 41-42 ملخصا دار ابن الجوزیہ ریاض، 1417ھ )

حدیث مذکور کی شرح، شرح صحیح مسلم میں یہ حدیث، شرح صحیح مسلم :۷۹ ۔ ج۱ ص ۴۵۴ – ۴۵۳ میں مذکور ہے وہاں اس پر اس عنوان کے تحت بحث کی ہے کہ جو چیز لائق استفادہ اور قابل استعمال نہ ر ہے اس کا دوسرے مسلمانوں کو دینا جائز نہیں ہے اور جو چیز پسندیدہ نہ ہو لیکن قابل استعمال ہو اس کا دینا جائز ہے اور جومباحث یہاں نعمۃ الباری میں ذکر کیے ہیں ان کا وہاں ذکر نہیں ہے ۔