ابن عبدالوھاب نجدی نے ایک کتب لکھی تھی بنام کشف الشبھات فی توحید !

یہ کتاب کو پڑھنے اور اسکے منہج کو سامنے رکھا جائے تو یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ یہ کتاب ابن عبدالوھاب نے ان وقت کے سنی علماء اور بلکہ اپنے بھائی شیخ سلیمان بن عبدالوھاب نجدی رحمہ اللہ کے رد پر لکھی تھی جنہوں نے اسکی تکفیری اور خارجیت اور شرک شرک والی پالیسی اور نئے بدعتی مذہب کو قرآن و حدیث سے رد کیا

اس کتاب کو پڑھ کر مجھے لگا جیسے یہ کسی یہودی نے مسلمانوں میں پھوٹ ڈالنے کے لیے لکھی ہو ۔خارجی ابن عبد الوھاب کی کتاب پڑھی تو معلوم ہوا انکا بابا ئے ابلیسی توحیدی نے اصل جہالت اپنی کتابوں میں درج کی اور بعد والے وہابی اسکی کتاب سے کٹ پیسٹ کرتے ہیں

اس کتاب کے محقق و مترجم نے مقدمہ میں پڑپوتے سے ایک رسالہ بنام حکم تکفیر المعین و الفرق بین قیام الحجہ کے تحت ابن تیمیہ کے حوالے سے ایک مکمل فتویٰ لکھتے ہیں اور آخر میں لکھا ہے کہ توحید کی دعوت اور شرک کے بچنے کے موضوع ر اگر اسلامی حکومت ہو تو ابن تیمیہ کے فتوے کے مطابق ان لوگوں (جو توسل ، استغاثہ ، نیاز ، اولیا کی قبور سے توسل کرتے ہیں ) انکے شرکیہ عقائد سے توبہ کرائی جائے ، وگرنہ مرتد ہونے کے سبب سے انہیں قتل کر دینا چاہیے ۔

ابن عبدالوھاب نجدی کی گمراہیاں اور خارجیت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ اس نے انبیاء ، اولیاء، انکی قبور ، توسل ، استغاثہ ، شفاعت بعد از وفات ، اور نظر و نیاز والوں کو قطعی کافر ، مشرک اور مشرکین عرب سے بڑا کافر مانتا تھا

اور اس کتاب میں اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ جب عرب مشرکین جو آج کے مشرکین سے ہلکے مشرک تھے نبی اکرمﷺ نے ان سے جہاد کیا ، انکو قتل کیا انکا مال مباح فرمایا

تو آج کے مشرکین کو کیسے مسلمان کہا جا سکتا ہے جنکا شرک مشرکین عرب سے بھی بڑھ کر ہے ۔ پھر یہ اپنی طرف سے مختلف دلائل گھڑتا ہے کہ

علماء نے مرتد کو کافر اور اسکو قتل کرنا اور انکا مال مباح لکھا ہے
پھر ایک اصول بیان کرتا ہے
اور کوئی بھی کلمہ گوہ جب نماز ، یا ارکان اسلام کا انکار کرے اور کلمہ بھی پڑھے تو وہ مرتد ہو گا اور واجب القتل ہوگا اس پر اجماع ہے
(یہ بات صحیح ہے )
پھر اپنی طرف سے یہ کہتا ہے جو نماز روزہ ، حج کا انکار کرے اور کلمہ گو ہو اسکا قتل واجب اور مال مباح ہے جوتوحید کا منکر ہو جائے (یعنی استغاثہ ، توسل ، قبور سے فیض ، نظر و نیاز اور بعد از وفات انبیاء، کو شفاعت کرنے والا سمجھے دنیا میں ) وہ کیسے مسلمان رہہ سکتا ہے

جگہ جگہ اس نے زور دیا ہے کہ نبی اکرمﷺ نے جہاد کیا ایسے مشرکین سے پھر اپنے دور کے مسلمانوں کے بارے کہتا ہے انکا شرک ان سے بڑا ہے

تو کیا کوئی اندھا ہے جو یہ نہیں جان سکتا کہ یہ ساری کتاب اس نے اپنے دور کے مسلمانوں جنکو یہ بڑا مشرک سمجھا تھا انکے خلاف جہاد کو حق اور انکو قتل کرنے اور انکا مال مباح ثابت کرنے کے لیے لکھی تھی ۔۔۔۔

اب اس کتاب سے کچھ تصریحات پیش کرتے ہیں :

ابن عبدالوھاب ایک باب قائم کرتا ہے توحید عبادت کا انکار شرک ہے
اس میں یہ اپنے دور حاضرہ کے مسلمانوں کو کہتا ہے ہمارے دور کے مشرکین توحید کے انکار کو اعتقاد کا نام دیتے ہیں پھر عرب مشرکین کے صریح شرک کو جوڑ کر کہتا ہے کہ ثابت ہوا کہ اسی شرک پر رسول اکرمؕؐ نے جنگیں لڑی تھیں ،

پھر دوسرا باب قائم کرتا ہے مشرکین سے جہاد اور اسکی وجوہات
اور اپنی طرف سے لکھتا ہے کہ نبی اکرمؐ نے ان سے جنگ کی جو اللہ کے علاوہ پکارتے تھے ، جانور انکے نام پر ذبح کرتے ،نذر و نیاز یہ وہ عبادتیں ہیں جو صرف اللہ کے لیے خاص تھیں ، پس ثابت ہو ا توحید کا اقرار کرنے سے صرف اسلام میں داخل نہیں ہو جا سکت ہے وہ لوگ جو فرشتوں ، نبیوں ، ولیوں کا قصد کرتے تھے ، اللہ کے قرب کے لیے انکا مال مباح اور انکا قتل حلال ہوا

پھر اپنے وقت کے علماٗ کو مشرک کہتے ہوئے لکھتا ہے :
مشرکین کا یہ اعتراض ہے کہ جو آیات شرک کے رد میں ہیں وہ بت پرستوں کے لیے نازل ہوئیں

ابن عبد الوھاب اسکا جواب دیتے ہوئے لکھتا ہے :
اسکا مطلب انکو بھی اقرار ہو گیا کہ کافر بھی اللہ کی ربوبیت کے قائل تھے قبروں کو قصد کرتے ، شفاعت کے طالب ہوتے ، لیکن اللہ چاہتا ہے کہ مشرکین و موحدین میں فرق کر دے، پھر اسکو بتاو کہ کافروں میں کچھ تو ایسے تھے جو بتوں کو پکارتے تھے اور کچھ ایسے جو اولیا کو پکارتے پھر کچھ ایسے جو نبیوں کو پکارتے تھے
یعنی اس نے بتوں ، کو انبیاء ، رسل ، اولیا اللہ کی طرح بنا دیا ہے اور انکا توسل کو اس نے پکارنا با معنی عین عبادت قرار دیا ہے
یہ تھی وہ گھر کی بنی توحید جو وہابیوں نے اسکی کتابوں سے قبول کی ہوئی ہے

پھر عرب کے مشرکین کے صریح کفر کو مسلمانوں پر فٹ کرنے کے بعد
ابن عبدالوھاب باب قائم کرتا ہے : پہلے دور کا شرک اور آج کے دور کا شرک !

پھر بتوں والی آیات کوملائکہ ، اولیا اللہ ، پر فٹ کر کے دونوں امور کو ایک ہی شرک قرار دیتا ہے ،
پھر لکھتا ہے جس شخص نے یہ مسلہ اللہ کی کتاب سے میں نے تشریح کی ہے سمجھ لیا تو اسکو موجودہ دور کے(سنی عامی مسلمان) اور پہلے دور کے مشرکین کے درمیاں واضح فرق نظر آجائے گا ، مگر ایسے لوگ ہیں کہاں جو اسکو قبول کریں

پھر باب قائم کرتا ہے کہ ہمارے دور کے بعض مشرک تو فساق و فجار کو بھی پکارتے ہیں
یعنی اس نے یہ کذب بیانی کی کہ آج کے لوگ جنکو گنہگار اور بے نمازی مانتے ہیں انکا بھی توسل اختیار کرتےہیں
پھرآگے لکھتا ہے اب پوری طرح ثابت ہو گیا کہ جن لوگوں سے رسولﷺ نے جہاد کیا وہ آج کل کے مشرکوں (یعنی سنی مسلمانوں) سے کم درجے کے شرک میں مبتلاء تھے اور ان سے زیادہ سمجھدار تھے

پھر لکھتا ہے ہمارے بیان کیے ہوئے دلائل پر ایک اعتراض بھی وارد کرتے ہیں (یہ اشارہ ہے ان علماء کی طرف جنہوں نے اسکا رد کیا تھا جس میں انکا بھائی بھی شامل ہے )
پھر باب قائم کرتا ہے کہ دین کا ایک فرخ کا انکار کفر ہے پھر مختلف مثالوں سے ثابت کرتا ہے کہ یہ کافر مرتد و مشرک انکا کون مباح ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔

یعنی ابن عبدالوھاب نجدی خارجی کا ان سب کو بیان کرنے کا مقصد ہے کہ جس طرح دین کے ارکان کا انکار کرنے پر مرتد ، اسکو قتل اور اسکا مال مباح کا فتویٰ ہے
تو جو دین میں توحید کا انکار کرے تو وہ کیسے بچ سکتا ہے ؟؟؟؟
خارجیوں اور دیوبندیوں کا یہ دعویٰ کے اس نے امت پر شرک ، قتل اور مال مباح کے فتوے نہیں لگائے یہ انکا جھوٹ اور کذب بیانی ہے بلکہ یہ مکمل کتاب ہی اسی موقف کے دفاع میں لکھی ہے

اسد الطحاوی
http://www.asadaltahawi.com