أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَسۡكِنُوۡهُنَّ مِنۡ حَيۡثُ سَكَنۡـتُمۡ مِّنۡ وُّجۡدِكُمۡ وَلَا تُضَآرُّوۡهُنَّ لِتُضَيِّقُوۡا عَلَيۡهِنَّ‌ ؕ وَاِنۡ كُنَّ اُولَاتِ حَمۡلٍ فَاَنۡفِقُوا عَلَيۡهِنَّ حَتّٰى يَضَعۡنَ حَمۡلَهُنَّ‌‌ ۚ فَاِنۡ اَرۡضَعۡنَ لَـكُمۡ فَاٰ تُوۡهُنَّ اُجُوۡرَهُنَّ‌ ۚ وَاۡتَمِرُوۡا بَيۡنَكُمۡ بِمَعۡرُوۡفٍ‌ۚ وَاِنۡ تَعَاسَرۡتُمۡ فَسَتُرۡضِعُ لَهٗۤ اُخۡرٰى ؕ‏ ۞

ترجمہ:

ان ( مطلقہ) عورتوں کو اپنی وسعت کے مطابق وہیں رکھو جہاں تم خود رہتے ہو اور ان کو تنگ کرنے کے لیے ان کو تکلیف نہ پہنچائو اور اگر وہ حاملہ ہوں تو وضع حمل تک ان کو خرچ دو اور اگر وہ تمہارے لیے ( بچہ کو) دودھ پلائیں تو ان کو ان کی اجرت دو ، اور رواج کے مطابق آپس میں مشورہ کرلو، اور اگر تم دونوں شواری محسوس کرو تو کوئی دوسری عورت دودھ پلا دے گی

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ان ( مطلقہ) عورتوں کو اپنی وسعت کے مطابق وہیں رکھو جہاں تم خود رہتے ہو، اور ان کو تنگ کرنے کے لیے ان کو تکلیف نہ پہنچائو اور اگر وہ حاملہ ہوں تو وضع حمل تک ان کو خرچ دو اور اگر وہ تمہارے لئے ( بچہ کو) دودھ پلائیں تو ان کو ان کی اجرت دوا اور رواج کے مطابق آپس میں مشورہ کرلو، اور اگر تم دونوں دشواری محسوس کرو تو کوئی دوسری عورت دودھ پلا دے گی صاحب حیثیت کو چاہیے کہ وہ اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرے اور جو تنگ دست ہو تو اس کو جو اللہ نے ( مال) دیا ہے اس میں سے خرچ کرے، اللہ کسی شخص کو اتنا ہی مکلف کرتا ہے جتنا اس کو ( مال) دیا ہے اور عنقریب اللہ مشکل کے بعد آسانی پیدا کرے دے گا ( الطلاق : ٧، ٦)

حضرت فاطمہ بنت قیس کی وہ روایت جس سے ائمہ ثلاثہ نے مطلقہ کے خرچ کے عدم وجوب۔۔۔ پر استدلال کیا ہے

حضرت فاطمہ بن قیس (رض) بیان کرتی ہیں کہ میرے خاوند نے مجھ کو تین طلاقتیں دے دیں، میں نے گھر سے نکلنے کا ارادذہ کیا، میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس گئی، آپ نے فرمایا : تم اپنے غم زاد عمر و بن ام مکتوم کے پاس جائو اور ان کے پاس عدت گزارو۔ ( صحیح مسلم، کتاب الطلاق، باب ٦ رقم الحدیث ٤٥ )

شعبی نے حضرت فاطمہ بنت قیس (رض) کی حدیث بیان کر کے کہا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کے لیے رہائش اور خرچ مقرر نہیں کیا تھا، پھر اسود نے ایک مٹھی میں کنکریاں لے کر ان کو ماریں اور کہا : تم پر افسوس ہے تم ایسی حدیث بیان کرتے ہو۔ حضرت عمر (رض) نے فرمایا تھا : ہم اللہ کی کتاب کو اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو ایک عورت کے قول کی بناء پر ترک نہیں کریں گے، ہم نہیں جانتے اس کی اصل حدیث یاد ہے یا شاید بھول گئی، اس کے لیے رہائش بھی ہوگی اور خرچ بھی ہوگا، اللہ عزوجل فرماتا ہے۔

لَا تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْم بُیُوْتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃ (اطلاق : ١) (تم ان کو ( دوران عدت) ان کے گھروں سے نہ نکالو، اور نہ وہ خود نکلیں سو اس کے کہ وہ کھلی بےحیائی کریں۔ )

طلاق ثلاثہ کے بعد نفقہ اور سکنی کے استحقاق میں مذاہب

امام ابو حنیہف کے نزدیک مطلقہ ثلاثہ کے لیے شوہر پر ہرحال میں نفقہ اور سکنی ( کھانے اور رہائش کا خرچ) لازم ہے، خواہ مطلقہ حاملہ ہو یا غیرحاملہ، امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ مطلقہ ثلاثہ اگر حاملہ ہو تو اسکے لیے نفقہ اور سکنی لازم ہے ورنہ کچھ لازم نہیں، امام شافعی اور امام مالک کہتے ہیں کہ مطلقہ ثلاثہ کے لیے سکنی ہرحال میں لازم ہے اور نفقہ صرف اس صورت میں لازم ہے جب وہ حاملہ ہو۔

علامہ بدر الدین عینی حنفی متوفی ٨٥٥ ھ لکھتے ہیں کہ حسن بصری، عمرو بن دینار، طائوس، عطاء بن ابی رباح، عکرمہ، شعبی، امام احمد بن حنبل، اسحاق اور غیر مقلدین کے نزدیک، جس عورت کو تین طلاقیں دی گئی ہیں اگر وہ حاملہ ہے تو اس کے لیے نفقہ اور سکنی واجب ہے ورنہ اس کے لیے نفقہ واجب ہے نہ سکنٰی اور حماد شریح، نخعی، ثوری، ابن ابی لیلیٰ ابن شبرمہ، حسن بن صالح، امام ابو حنیفہ، امام ابو یوسف اور امام محمد کے نزدیک مطلقہ ثلاثہ کے لیے نفقہ اور سکنٰی واجب ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ، حضرت عمر اور حضرت ابن مسعود (رض) کا بھی یہی مسلک ہے اور عبد الرحمن بن مہدی، ابو عبیدہ، امام مالک اور امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مطلقہ ثلاثہ کے لیے سکنٰی تو ہرحال میں لازم ہے اور نفقہ اس وقت لازم ہوگا جب وہ حاملہ ہوگی۔

(عمدۃ القاری ج ٢٠ ص ٣٠٨، ادارۃ الطباعۃ المنیریہ، مصر، ١٣٤٨ ھ)

مطلقہ ثلاثہ کے نفقہ کے بارے میں ائمہ ثلاثہ کے دلائل

علامہ نووی کے شافعی متوفی ٦٧٦ ھ لکھتے ہیں کہ جنہوں نے مطلقہ ثلاثہ کے لیے نفقہ اور سکنٰی دونوں کو واجب کیا ہے، وہ قرآن مجید کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں :” اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ ) (الطلاق : ٦) ( مطلقہ عورتوں) کو اپنے مقدور کے موافق وہیں ڈ رکھو جہاں تم خود رہتے ہو) ۔ اس آیت میں سکنٰی کا امر ہے اور نفقہ اس لیے واجب ہے کہ وہ اس کے لیے پاس مقید ہے اور حضرت عمر (رض) نے فرمایا : ہم اپنے رب کی کتاب اور اپنے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے، پتہ نہیں وہ مسئلہ سے ناواقف ہے یا بھول گئی ( مالکی اور شافعی) علماء نے کہا کہ کتاب اللہ میں فقط سکنٰی کا ذکر ہے۔ امام داراقطنی نے کہا کہ حضرت عمر کے قول میں ” ہمارے نبی کی سنت “ کے الفاظ ایسی زیادتی ہے جو غیر محفوظ ہے۔ ثقہ راویوں نے اس کا ذکر نہیں کیا اور فقہاء حنبلیہ کا استدلال، حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیث سے ہے، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مطلقہ یلاثہ کے لیے نفقہ اور سکنٰی نہیں ہے اور فقہاء مالکیہ اور شافعیہ کا استدلال قرآن مجید کی اس آیت سے ہے۔ اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ (الطلاق : ٦) اس آیت میں صرف سکنٰی کو واجب کیا ہے نفقہ کو واجب نہیں کیا اور حضرت فاطمہ بنت قیس کی حدیث سے بھی نفقہ کا عدم وجوب ثابت ہوتا ہے، نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے، ” وَاِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ “ (الطلاق ٦) اگر مطلقہ عورتیں حاملہ ہوں تو ان کو نفقہ دو تاوقتیکہ حمل وضع ہوجائے۔ اس آیت کا مفہوم مخالف یہ ہے کہ جو مطلقہ غیر حاملہ ہو اس کا نفقہ واجب نہیں ہے۔ ( شرح مسلم ج ١ ص ٤٨٣، اصح المطابع، کراچی، ١٣٧٥ ھ)

مطلقہ ثلاثہ کے لیے نفقہ اور سکنٰی کے وجوب پر فقہاء احناف کے قرآن مجید سے دلائل

ائمہ اربعہ کے اس پر تفاق ہے کہ جس عورت کو طلاق رجعی دی گئی ہو اس کے لیے نفقہ اور سکنٰی واجب ہے، اسی طرح اس پر بھی اتفاق ہے کہ مطلقہ ثلاثہ حاملہ کے لیے بھی نفقہ اور سکنٰی واجب ہے، اختلاف اس مطلقہ ثلاثہ میں ہے جو غیر حاملہ ہو، امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک اس کے لیے سکنٰی واجب ہے نفقہ واجب نہیں ہے، امام احمد بن حنبل اور غیر مقلدین کے نزدیک اس کے لیے نفقہ واجب ہے نہ سکنٰی اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس کے لیے نفقہ اور سکنٰی دونوں واجب ہیں۔ فقہاء احناف قرآن مجید کی حسب ذیل آیات سے استدلال کرتے ہیں۔

وَلِلْمُطَلَّقٰتِ مَتَاعٌم بِالْمَعْرُوْفِط حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ (البقرہ : ٢٤١) (اور مطلقہ عورتوں کے لیے ( اختتام عدت تک) دستور کے مطابق نان و نفقہ دینا پرہیز گاروں پر لازم ہے )

امام فخر الدین رازی شافعی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

( والقول الثانی) ان المراد بھذہ المتعۃ المنفقۃ والنفقۃ قد تسمی متا عا واذا حملنا ھذہ المتاع علی النفقۃ قد تسمی متاعا واذا حملنا ھذہ المتاع علی الفقۃ اندفع التکرار۔

دوسرا قول یہ ہے کہ کہ اس آیت میں متعہ سے مراد نفقہ ہے اور نفقہ کو متاع بھی کہا جاتا ہے اور جب ہم متاع کو نفقہ پر محمول کریں گے تو تکرار نہیں رہے گا۔

ایک آیت میں ہے :

وَّمَتِّعُوْہُنَّج عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَعَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ ج مَتَاعًام بِالْمَعْرُوْفِج حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ (البقرہ : ٢٣٦) اور مطلقہ عورتوں کو کچھ برتنے کے لیے دو ( یعنی کم از کم کپڑوں کا ایک جوڑا) خوشحال اپنی حیثیت کے مطابق دے اور تنگ دست اپنی حیثیت کے مطابق دے، نہ نیکی کرنے والوں پر واجب ہے۔

سورة بقرہ کی آیت : ٢٣٦ میں مطلقہ عورتوں کے لیے اپنی حیثیت کے مطابق متاع دینے کو اللہ تعالیٰ نے واجب کیا ہے اور یہاں متاع سے مراد بالا تفاق ایسی چیز ہے جس سے وقتی طور پر نفع اٹھایا جاسکے جیسے پکڑوں کا جوڑا، خادم یا کچھ نقد رقم وغیرہ پس اگر بقرہ کی آیت : ٢٤١ میں بھی متاع سے مراد یہی ہو ( جیسا کہ ائمہ ثلاثہ نے سمجھا ہے) تو تکرار لازم آئے گا، اس تکرار سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ دوسری آیت میں متاع کو نفقہ پر محمول کیا جائے جبکہ ازروئے لغت متاع کا اطلاق نفقہ پر بھی ہوتا ہے اور قرآن مجید میں بھی متاع کا اطلاق نفقہ پر کیا گیا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

وَالَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَیَذَرُوْنَ اَزْوَاجًاج وَّصِیَّۃً لِاَّزْوَاجِہِمْ مَّتَاعًا اِلَی الْحَوْلِ غَیْرَ اِخْرَاجٍ (البقرہ : ٢٤٠) اور تم میں سے جو لوگ فوت ہوجائیں اور اپنی بیویاں چھوڑ جئیں، وہ اپنی بیویوں کو ایک سال تک نان اور نفقہ ادا کرنے کی وصیت کریں اور اس مدت میں ان عورتوں کو گھر سے نہ نکالا جائے۔

اس آیت میں متاع سے بالا تفاق اور بالا جماع نفقہ مراد ہے، خلاصہ یہ ہے کہ مطلقہ عورتوں کے لیے البقرہ : ٢٣٦ مطلقہ عورتوں کے لیے متاع دینے کا حکم کیا ہے اور اس سے بالا تفاق وقتی نفع کی چیز مثلاً جوڑا وغیرہ مراد ہے۔ اس کے بعد البقرہ : ٢٤١ میں پھر مطلقہ عورتوں کے لیے متاع دینے کا حکم کیا گیا ہے، اب اگر اس سے پھر وہی وقتی نفع کی چیز مراد لی جائے تو تکرار ہوگا، اس لیے امام رازی فرماتے ہیں کہ تکرار سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ اس میں متاع سے مراد نفقہ لیا جائے جبکہ لغت اور قرآن مجید میں سے متاع پر نفقہ کا طلاق ثابت ہے۔ امام رازی کی تفسیر کی تائید اس سے بھی ہوتی ہے اور ان دونوں آیتوں میں متاع کا لفظ تکرہ ہے اور اصول عرب یہ ہے کہ نکرہ جب مکرر ہو تو ثانی پہلے کا غیر ہوتا ہے اور جب پہلے متاع سے مراد وقتی نفع کی چیز ہے تو ضروری ہوا کہ دوسرے متاع سے مراد نان و نفقہ ہو اور اس آیت میں مطلقات کا لفظ عام ہے اور تمام مطلقات کو شامل ہے وہ حاملہ ہوں یا غیر حاملہ اور امام رازی کی تفسیر اور اس اصول عرب سے ثابت ہوا کہ ہر مطلقہ عورت کے لیے دوران عدت نفقہ واجب ہے خواہ وہ حاملہ ہو یا غیر حاملہ اور یہی احناف کا مؤقف ہے۔

اَسْکِنُوْہُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ وَلَا تُضَآرُّوْہُنَّ لِتُضَیِّقُْوْا عَلَیْہِنَّط وَاِنْ کُنَّ اُولَاتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْہِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَہُنَّ (الطلاق : ٦)

ان مطلقہ عورتوں کو اپنے مقدور کے مطابق وہیں رکھو جہاں تم رہتے ہو اور ان پر تنگی کرنے کے لیے ان کو ضرر نہ پہنچائو، اور اگر یہ مطلقہ عورتیں حاملہ ہوں تو وضع ہونے تک ان پر خرچ کرو۔

علامہ ابو الجصاص اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں : مطلقہ ثلاثہ کے نفقہ کے وجوب پر اس آیت میں تین دلیلیں ہیں : ١۔ سکنی مالیات میں سے ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں مطلقہ کے لیی مال میں حق واجب کیا ہے خواہ مطلقہ رجعیہ ہو یا مطلقہ ثلاثہ ہو اور سکنٰی بھی نفقہ کا ایک حصہ ہے۔ ٢۔ اللہ تعالیٰ نے مطلقہ کو ضرر پہنچانے سے منع کیا ہے ( لتضیقوا علیھن) یعنی نہ سکنٰی میں تنگی کرو نہ نان و نفقہ میں تنگی کرو۔ یہ نہی دونوں کو شامل ہے۔ اس کے بعد علامہ ابوبکر جصاص فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :” وان کن اولات حمل فانفقوا علیھن “ اگر وہ مطلقہ عورتیں حاملہ ہیں تو ان پر خرچ کرو، اس میں مطلقہ سے مراد ہے عام، خواہ مطلقہ رجعیہ ہو یا مطلقہ ثلاثہ، کیونکہ اس پر اتفاق ہے کہ اگر مطلقہ عورتیں حاملہ ہیں تو ان پر خرچ کرو، اس میں مطلقہ سے مراد ہے عام، خواہ مطلقہ رجعیہ ہو یا مطلقہ ثلاثہ، کیونکہ اس پر اتفاق ہے کہ اگر مطلقہ ثلاثہ حاملہ ہو تو اس کا نفقہ بھی واجب ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ نفقہ کا وجوب حاملہ ہونے کی وجہ سے ثابت ہے اور وہ حمل کی وجہ سے نہیں بلکہ دوران عدت اس کے گھر رہنے کی وجہ سے ہے کیونکہ رجعیہ اگر غیر حاملہ ہو تو پھر اس کا نفقہ واجب ہے تو پھر مطلقہ ثلاثہ کا نفقہ بھی اس وجہ سے واجب ہوگا کہ وہ دوران عدت خاوند کے گھر رہے گی۔ ( احکام القرآن ج ٣ ص ٤٦٠، ٤٥٩، سہیل اکیڈمی، لاہور، ١٤٠٠ ھ)

اور یہ بھی واضح رہے کہ جب مطلقہ ثلاثہ کے لیے امام شافعی اور امام مالک اس آیت سے سکنٰی کا وجوب مانتے ہیں تو نفقہ کا وجوب بطریق اولیٰ ثاثت ہوگا کیونکہ نان و نفقہ سکنٰی سے زیادہ اہم ہے۔

مطلقہ ثلاثہ کے لیے نفقہ اور سکنٰی کے وجوب پر احادیث سے دلا ئل

امام دارقطنی روایت کرتے ہیں :

عن حزب بن ابی العالیۃ عن ابی الزبیر عن جابر عن النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) المطلقۃ ثلاثا لھا السکنیٰ والفنقۃ (سنن دارقطنی ج ٤ ص ٦٠ )

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مطلقہ ثالثہ کے لیے سکنٰی بھی ہے اور نفقہ بھی۔

علامہ زیلعی لکھتے ہیں : عبد الحق نے احکام میں لکھا ہے کہ ابو الزبیر عن جابر کی روایت اس وقت صحیح ہوتی ہے جب اس میں سماع کی تصریح ہو یا عن اللیث عن الزبیر ہو ( یعنی لیث کے علاوہ کوئی اور راوی عن ابی الزبیر عن جابر روایت کرے تو صحیح نہیں ہے) اور حرب بن ابی العالیہ سے بھی استدلال نہیں ہوتا، کیونکہ یحییٰ بن معین نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے، اس لیے اقرب یہ ہے کہ یہ حدیث حضرت جابر پر موقوف ہے۔ ( نصب الرایہ ج ٣ ص ٢٧٤، مجلس علمی، ہند) ۔

عبد الحق کے پہلے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ امام مسلم نے صحیح مسلم میں متعدد احادیث عن ابی الزبیر عن جابر کی سند سے بیان کی ہیں اور اس سند میں لیث نہیں ہے مثلاً کتاب الحج کے ’ ’ باب جواز دخول مکہ بغیر احرام “ میں ہے ” نا معاویہ بین عمار الدھنی عن ابی الزبیر عن جابر “ نیز اسی باب میں ہے :” فی روایۃ فتیبۃ قال ناابو الزبیر عن جابر “۔ ان اسانید میں نہ لیث ہے نہ حضرت جابر سے ابو الزبیر کے سماع کی تصریح ہے، پس واضح ہوگیا کہ عبد الحق کا بیان کردہ قاعدہ امام مسلم کے نزدیک مسلم نہیں ہے، ورنہ امام مسلم ان اسانید کے ساتھ روایات کو اپنی صحیح میں درج نہ کرتے اور جب یہ سند حدیث کی صحت کے منافی نہیں تو دارقطنی کی مذکور روایت کی صحت کے لئے بھی موجب طعن نہیں ہے۔

او دوسرے اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ہرچند کہ حرب بن ابی العالیہ کو یحییٰ بن معین نے ضعیف قرار دیا ہے تاہم ان کی ثاقبت کی بھی تصریح ہے۔ حافظ ابن حجر عسقلانی نے لکھا ہے کہ حرب بن ابی العالیہ کا امام حبان نے ثقات میں ذکر کیا ہے اور امام مسلم اور امام نسائی ان کی روایات سے استدلال کرتے ہیں، پس ثابت ہوگیا کہ حرب بن ابی العالیہ رجال صحیح میں سے ہیں :

فقہاء احناف کی دوسری دلیل صحیح مسلم کی حسب ذیل روایت ہے۔

قال عمر لا تترک کتاب اللہ و سنۃ رسولہ لقول امراۃ لا ندوی لعھا حفظت او نیست لھا السکنی والفقۃ قال اللہ عزوجل لا تخرجو ھن من بیوتھن الا ان یاتین بفاحشۃ مبینۃ

حضرت فاطمہ بنت قیس کی روایت سن کر حضرت عمر نے فرمایا : ہم اللہ کی کتاب اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے، پتہ نہیں اس نے حدیث کو یاد رکھا یا بھول گئی۔ مطلقہ ثلاثہ کے لیے سکنٰی بھی ہے اور نفقہ بھی ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : مطلقہ عورتوں کو ان کے گھروں سے نہ نکالو الایہ کہ وہ کھلی بدکاری کریں۔

حضرت عمر (رض) کی اس روایت سے واضح ہوگیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ہدایت یہ تھی کہ مطلقہ ثلاثہ کا سکنٰی اور نفقہ واجب ہے، باقی اس پر علامہ نووی نے جو یہ اعتراض کیا ہے کہ دارقطنی کے نزدیک ” یہ سنت رسول کو ترک کریں گے “ یہ زیادتی غیر محفوظ ہے، اس کا جواب یہ ہے کہ یہ زیادتی امام مسلم کے نزدیک ثابت ہے اور امام مسلم کی تصحیح اور ان کی روات دار قطنی کی جرح سے زیادہ قوی ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ اس زیادتی کے متعدد متابع ہیں، نیز امام مسلم نے متعدد اسانید سے حضرت فاطمہ بن قیس کی روایت پر حضرت ام المومنین عائشہ (رض) کا انکار بھی روایت کیا ہے، ان کے شوہر حضرت اسامہ بھی اس روایت کا انکار کرتے تھے۔

نفقہ کے عدم وجوب پر ائمہ ثلاثیہ کی دلیل کا جواب

امام احمد بن حنبل نے مطلقہ ثلاثہ سے نفقہ اور سکنٰی کے وجوب کی نفی پر حضرت فاطمہ بن قیس کی روایت سے استدلال کیا ہے، اور امام مالک اور امام شافعی نے مطلقہ ثلاثہ سے نفقہ کے وجوب کی نفی پر اسی روایت سے استدلال کیا ہے، جیسا کہ ہم علامہ نووی کے حوالے سے نقل کرچکے ہیں۔ علامہ سر خسی حنفی اس استدلال کے جواب میں لکھتے ہیں۔

حضرت فاطمہ بنت قیس کے شوہر حضرت اسامہ بن زید (رض) جب بھی حضرت فاطمہ سے اس روایت کو سنتے تو پوری قوت سے اس روایت کا رد کرتے ” حضرت عائشہ (رض) فرماتی تھیں : یہ عورت اس روایت سے دنیا میں ایک فتنہ پیدا کر رہی ہے اور حضرت عمر (رض) فرماتے تھے : ہم اللہ کی کتاب اور اپنے نبی کی سنت کو ایک عورت کے قول کی وجہ سے نہیں چھوڑ سکتے، پتہ نہیں وہ سچی ہے یا جھوٹی ؟ اس کو مسئلہ یاد ہے یا بھول گئی، میں نے خود یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے : مطلقہ ثلاثہ کے دوران عدت نفقہ اور سکنٰی ہے۔

علامہ سرخسی فرماتے ہیں : اگر بالفرض یہ حدیث ثابت ہو تو اس کی دو تاویلیں ہیں : پہلی تاویل یہ ہے کہ حضرت فاطمہ بنت قیس کے شوہر غائب تھے، مدینہ سے یمن کی طرف گئے ہوئے تھے، انہوں نے اپنے بھائی کو جو کا آٹا بطور نفقہ دینے کا وکیل بنایا، انہوں نے اسے لینے سے انکار کردیا اور ان کا خاوند وہاں موجود نہیں تھا جو اسکے بدلہ میں کوئی اور چیز ادا کرتا۔ دوسری تاویل یہ ہے کہ روایات کے مطابق حضرت فاطمہ بن قیس بہت زبان دراز تھیں اور اپنے دیوروں ( خاوند کے بھائیوں) کو بہت تنگ کرتی تھیں، اس وجہ سے ان لوگوں نے ان کو گھر سے نکال دیا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو حضرت ابن ام مکتوم (رض) کے گھر عدت گزارنے کا حکم دیا ( جس وجہ سے انہوں نے یہ گمان کیا کہ کیا ان کے لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نفقہ اور سکنٰی مقرر نہیں فرمایا۔ ( المبسوط ج ٥ ٢٠٢، ٢٠١، دارالمعرفہ، بیروت)

اس کے بعد فرمایا : اور اگر وہ تمہارے لیے ( بچہ کو) دودھ پلائیں تو ان کو ان کی اجرت دو ، اور رواج کے مطابق آپس میں مشورہ کرلو اور اگر تم دونوں دشواری محسوس کرو تو کوئی دوسری عورت دودھ پلا دے گی

دودھ پلانے کی اجرت لینے کا جواز

علامہ ابوبکر احمد بن علی رازی جصاص حنفی متوفی ٣٧٠ ھ لکھتے ہیں :

یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ اگر بچہ کی ماں کو دودھ پلانے پر راضی ہو ( خواہ وہ مطلقہ ہو یا نہ ہو) تو باپ کے لیے یہ جائز نہیں کہ بچہ کو دودھ پلانے کے لیے کوئی اور دایہ مقرر کرے اور بچہ کے باپ پر یہ لازم ہے کہ وہ بچہ کی ماں کو دودھ پلانے کی اجرت ادا کرے، بشرطیکہ بچہ کی ماں رواج اور دستور کے مطابق دودھ پلانے کی اجرت طلب کرے۔ ( واضح رہے کہ دنیا کے تمام مذاہب میں سے صرف مذہب اسلام نے دعوت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ بچہ کو کو دودھ پلنے کی اجرت کا اس کے باپ سے مطالبہ کرسکتی ہے) اور اگر بچہ کی ماں دودھ پلانے کی اجرت رواج اور دستور سے زیادہ کا مطالبہ کرے تو پھر فریقین باہمی مشاورت سے کسی اور دایہ کو دودھ پلانے کے لیے مقرر کرسکتے ہیں۔ (احکام القرآن ج ٣ ص ٤٦٤، ٤٦٣، سہیل اکیڈمی، لاہور)

تبیان القرآن سورۃ نمبر 65 الطلاق آیت نمبر 6