۲۲ – باب المعاصي من أمر الجاهلية ولا يكفر صاحبها بإرتكابها الا بالشرک

معاصی امر جاہلیت سے ہیں اور کسی شخص کی تکفیر صرف شرک کے ارتکاب کی وجہ سے کی جاۓ گی

 

لقول النبي صلى الله عليه وسلم إنك امرو فيك جاهلية ، وقول الله تعالى (إن الله لا يغفر ان يشرك به ويغفر ما دون ذلك لمن يشاء» (النساء:116۔48)

کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: تم ایسے شخص ہو کہ تم میں جاہلیت کی خصلت ہے اور اللہ تعالی کا ارشاد ہے: بے شک اللہ اس کونہیں بخشا کہ اس کے ساتھ شرک کیا جاۓ اور جو اس سے کم گناہ ہو، اس کو جس کے لیے چاہے حیا سے بخش دیتا ہے (النساء: 116۔ 48 ) ۔

ان دونوں بابوں میں مناسبت یہ ہے کہ پہلے باب میں خاوند کے کفر کا بیان تھا اور اس باب میں اللہ کے کفر کا بیان ہے ۔

۳۰- حدثنا سليمان بن حرب قال حدثنا شعبة،عن واصل الأحدب، عن المعرور قال لفيت أبا ذر بالربذة وعليه حلة، وعلى غلامه حلة ، فسألته عن ذلك فقال إني ساببت رجلا فعيرته بأمه فقال لى النبي صلى الله عليه وسلم يا أبا ذر أعيرته بأمه؟ إنك امرؤ فيك جاهلية، إخوانكم خولکم،جعلهم الله تحت ايديكم فمن كان أخوه تحت يده، فليطعمه مما يأكل وليلبسه مما يلبس، ولا تكلفوهم ما يغلبهم، فإن كلفتموهم فأعينوهم اطراف الحد بیث:6050-۲۵۴۵]

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ ہمیں سلیمان بن حرب نے حدیث بیان کی انہوں نے کہا: ہمیں شعبہ نے حدیث بیان کی از واصل الاحدب از المعرور انہوں نے کہا: میری حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے ربذہ میں ملاقات ہوئی، ان پر بھی حلتہ تھا اور ان کے غلام پر بھی حلتہ تھا۔ میں نے ان سے اس کا سبب پوچھا انہوں نے کہا: میں نے ایک شخص کو برا کہا تھا میں نے اس کو اس کی ماں سے عار دلایا تو مجھ سے نبی ﷺ نے فرمایا: اے ابوذر! کیا تم نے اس کو اس کی ماں سے عار دلایا ہے؟ تم ایسے شخص ہو کہ تم میں جاہلیت کی خصلت ہے، تمہارے خدام تمہارے بھائی ہیں، اللہ نے ان کو تمہارا ماتحت بنادیا ہے، پس جس شخص کا بھائی اس کا ماتحت ہو، تو اس کو وہ کھلاۓ جو وہ خود کھاتا ہے اور اس کو وہ پہناۓ جو وہ خود پہنتا ہے اور ان کو اس کام کا مکلف نہ کرو، جو ان پر دشوار ہو اور اگر تم ان کو ایسے کام کا مکلف کرو، جو ان پر دشوار ہو تو ان کی مدد کرو۔ ( صحیح مسلم :1661 مسند البزار: ۳۹۹۶ الادب المفرد :۱۸۹ مسند ابوعوانه: 6171 مسند احمد ج ۵ ص 171 طبع قدیم، مسند احمد : ۲۱۴۳۲۔ ج 35 ص 141 مؤسسة الرسالہ بیروت )

معاصی،جاہلیت اور شرک کے معانی اور اس باب کی باب سابق سے مناسبت

اس باب کا عنوان معاصی ہے اور یہ معصیت کی جمع ہے،لغت میں اس کا معنی ہے : نافرمانی اور شرع میں اس کا معنی ہے : واجب کے ترک سے یا مکروہ کے ارتکاب سے شارع کی مخالفت کرنا اور یہ کبائر اور صغائر سے عام ہے اور اس عنوان میں جاہلیت کا ذکر ہے اس کا معنی ہے: اسلام سے پہلے فترت کا زمانہ اور اس باب میں شرک کا ذکر ہے شرک کا معنی ہے: اللہ تعالی کے سوا کسی کو واجب یا قدیم ماننا یا اس کی کسی صفت کو مستقل بالذات ماننا یا اس کو عبادت کا مستحق سمجھنا۔ اہل سنت کے نزدیک کوئی شخص معصیت کے ارتکاب سے ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور معتزلہ کے نزدیک ایمان سے خارج ہوجاتا ہے لیکن کفر میں داخل نہیں ہوتا اور خوارج کے نزدیک وہ کفر میں داخل ہو جا تا ہے۔ امام بخاری کا اس باب سے مقصد خوارج اور معتزلہ کا رد کرنا ہے، اس باب میں اور باب سابق میں یہ مناسبت ہے کہ سابق باب میں خاوند کی نافرمانی کا ذکر تھا اور وہ بھی معصیت ہے ۔

حدیث مذکور کے رجال کا تعارف اور خصوصاً حضرت ابوذر ضی اللہ عنہ کا تذکرہ

(۱) ابوایوب سلیمان بن حرب الازدی البصری.

(۲) شعبہ بن الحجاج ان دونوں کا تعارف ہو چکا ہے .

(۳) واصل بن حیان الاسدی الکوفی یہ کبڑے تھے، یحیی بن معین نے کہا: یہ ثقہ ہیں ابوحاتم نے کہا: بہت سچے اور حدیث کی صلاحیت رکھنے والے ہیں، یہ ۱۲۷ھ میں فوت ہو گئے تھے ائمہ ستہ نے ان سے احادیث روایت کی ہیں.

( ۴ ) المعرور بن سوید ابوامیہ الاسدی الکوفی انہوں نے حضرت عمر بن الخطاب، حضرت ابن مسعود، حضرت ابوذر سے احادیث کا سماع کیا ہے اور ان سے واصل اور اعمش وغیرہ نے سماع کیا ہے اعمش نے کہا: میں نے ان کو ۱۲۰ سال کی عمر میں دیکھا ان کے سر اور ڈاڑھی کے بال کالے تھے یحی بن معین اور ابو حاتم نے کہا: یہ ثقہ ہیں ائمہ ستہ نے ان سے احادیث روایت کی ہیں.

(۵) حضرت ابوذر، ان کا نام جندب بن جنادہ الغفاری ہے یہ اسلام لانے والوں میں چوتھے یا پانچویں تھے یہ مکہ میں آ کر مسلمان ہوۓ پھر اپنی قوم کے شہروں میں چلے گئے اور وہیں رہے حتی کہ بدر احد اور خندق کے معر کے گزر گئے، پھر مدینہ آ گئے، پھر تاحیات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے ان کے مناقب بہت ہیں اور ان کا زہد مشہور ہے ان کا مذہب یہ تھا کہ انسان کے اوپر اس کی ضرورت سے زائد مال کو جمع کرنا حرام ہے انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ۲۸۱ احادیث روایت کی ہیں امام بخاری ان سے دو حدیثوں کے ساتھ منفرد میں اور امام مسلم ۱۷ احادیث کے ساتھ منفرد ہیں ان سے بہت صحابہ نے احادیث روایت کی ہیں ان میں حضرت ابن عباس اور حضرت انس بھی ہیں اور بہ کثرت تابعین ہیں،یہ ربذہ میں ۳۲ھ میں فوت ہو گئے، حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی ۔ ( عمدة القاری ج ۱ ص ۲۲۵- ۲۲۴)

لغوی معانی اور بعض شرعی احکام

اس حدیث میں ربزہ کا ذکر ہے، یہ مدینہ سے تین مرحلہ دور ایک جگہ ہے، فید اور مکہ کی راہ پر ذات عرق کے قریب ایک گاؤں ہے،حضرت ابوذرغفاری اسی جگہ مدفون ہیں اور اس حدیث میں حلہ کا ذکر ہے ایک قسم کی دو چادروں کو حلہ کہتے ہیں ۔ اس حدیث میں ذکر ہے کہ انہوں نے ایک شخص کو برا کہا تھا اور اس کو اس کی ماں کے ساتھ عار دلا یا تھا یعنی اس کی ماں کو عیب لگایا تھا، وہ شخص حضرت بلال تھے اور حضرت ابوذر نے ان کو کہا تھا: اے حبشیہ کے بیٹے ! اس حدیث میں نوکروں اور خادموں کو برا کہنے سے منع فرمایا ہے اور کسی کے ماں باپ کو عیب لگانے سے بھی منع فرمایا ہے اور اس سے معلوم ہوا کہ اپنے باپ دادا پر فخر کرنا بھی ممنوع ہے اور نوکروں اور خدام کو وہ کھانا کھلائیں جو خود کھاتے ہوں اور وہ لباس پہنائیں جو خود پہنتے ہوں اور ان کو اپنا بھائی کہیں اور ان سے سخت مشکل کام نہ کرائیں ۔

اسلام میں غلامی کا چلن ختم ہونے کی تفصیل

چونکہ اس حدیث میں غلام کا ذکر آ گیا ہے، اس لیے ہم غلام اور باندیوں کی مختصر وضاحت کر رہے ہیں ۔

ظہور اسلام سے قبل پوری دنیا میں یہ رواج تھا کہ جب دو فریقوں میں جنگ ہوتی تو جس فریق کو جنگ میں شکست ہوتی تو میدان جنگ میں مخالف فریق کے جو مرد اور عورتیں گرفتار ہوتیں تو ان مردوں کو غلام بنا لیا جا تا اور عورتوں کو باندیاں بنا لیا جا تا چنانچہ ابتداء میں اسلام میں بھی اس طریقہ پر عمل ہوتا رہا پھر جنگی قیدیوں کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی :

فإذا لقيتم الذين كفروا فضرب الرقاب حتى إذا اثخنتموهم فشدوا الوثاق فإما منا بعد وإما فداء حتى تضع الحرب أوزارها ذلك۔ (محمد: ۴)

 جب تمہارا کافروں سے مقابلہ ہو تو ان کی گردنیں مارنا ہے حتی کہ جب تم ان کا اچھی طرح خون بہا چکو تو قیدیوں کو مضبوط باندھ لو پھر ان پر خود احسان کر کے انہیں چھوڑ دو یا ان سے فدیہ لے کر انہیں چھوڑ دو حتی کی لڑائی اپنے ہتھیار رکھ دے ۔

اس سلسلہ میں تحقیق یہ ہے کہ اگر کسی کافر ملک نے مسلمان قیدیوں کو غلام بنایا ہو تو مسلمانوں کے لیے بھی جائز ہے کہ وہ بھی کافر قیدیوں کو غلام بنالیں اور اگر انہوں نے مسلمان قیدیوں کو غلام نہ بنایا ہو بلکہ قید کرلیا ہو اور وہ ان کی رہائی کے عوض اپنے قیدیوں کی رہائی کا مطالبہ کریں تو ہمیں تبادلہ میں جنگی قیدی چھوڑ دینا چاہیے اور جن کو غلام بنایا جا چکا ہے ان کے ساتھ اسلام نے حسن سلوک کرنے کی بہت تاکید کی ہے جیسا کہ اس حدیث میں بھی ہے پھر ان کو آزاد کرنے کی بہت صورتیں رکھی ہیں کہ قتل خطاء کے کفارہ میں غلام کو آزاد کر دیا جاۓ قسم توڑنے کے کفارہ میں غلام آزاد کر دیا جاۓ، کفارہ ظہار میں غلام آزاد کر دیا جاۓ، روزہ توڑنے کے کفارہ میں غلام آزاد کر دیا جاۓ، نیز غلام کو آزاد کرنے میں بہت اجر وثواب رکھا ہے حدیث میں ہے :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے کسی مسلمان غلام کو آزاد کیا اللہ تعالی اس غلام کے ہر عضو کے بدلہ میں آزاد کر نے والے کے ہر عضو کو دوزخ کی آگ سے آزاد کر دے گا ۔

( صحیح البخاری : ۲۵۱۷ ،صحیح مسلم : ۰۹ ۱۵ سنن ترمذی :۱ ۱۵۴ السنن الکبری للنسائی : ۴۸۷۵)

اسلام کے ان احکام کی وجہ سے اب مسلم دنیا میں غلامی کا رواج ختم ہو چکا ہے ۔ شرح صحیح مسلم ج ۴ ص ۵۴۔ ۴۷ میں ہم نے اس مسئلہ پر بہت زیادہ تحقیق کی ہے ۔