بسم اللہ الرحمن الرحیم
نجد کہاں ہے؟ پوسٹ مکمل پڑھیے گا-
👈 مشرقین و مغربین کا بیان
کچھ لوگ بارہ نجد کا بہت ذکر کرتے ہیں, حالانکہ احادیث و تاریخ سے صرف ایک نجد ثابت ہے جسکی سرحدیں حجاز سے لیکر عراق تک ہیں یعنی عراق و حجاز کے درمیان کا علاقہ نجد ہے. کچھ لوگ اہل عراق کو اہل مشرق ثابت کرنے کے لیے سمتوں کی قرآنی اصطلاح پیش کرتے ییں کیونکہ جب صرف دو سمتیں ہونگے تو ظاہر بات ہے کہ ایک مشرق ہوگی دوسری مغرب تیسری کوئی سمت نہیں ہوگی تو  اس طرح عراق خودبخود مشرق کی سمت میں آجائيگا جس سے عراق کو  مشرق میں ثابت کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ ان لوگوں کی یہ غلط فہمی ہے کہ صرف دو سمتیں ہی ہیں جبکہ درج ذیل حدیث میں شمال کا بھی ذکر آیا ہے.

لیکن ہم ان لوگوں کے اصرار کو مدنظر رکھتے ہوئے سمتوں کی قرآنی اصطلاح کے مطابق ہی چلیں گے ۔ قرآن مجید میں سمتوں کے متعلق آیا ہے کہ:
“(وہی) دونوں مشرقوں کا مالک ہے اور (وہی) دونوں مغربوں کا مالک ہے۔”
(سورۃ رحمان 18/25)
سورۃ مزمل 73/10:
“وہ مشرق و مغرب کا مالک ہے، اُس کے سوا کوئی معبود نہیں، سو اُسی کو (اپنا) کارساز بنا لیں۔”
جبکہ عام طور پر مشرق، مغرب، شمال جنوب کی سمتیں استعمال ہوتی ہیں۔ لیکن ہم اپنے کالم میں وہی اصطلاع بیان کريں گے جو قرآن میں بیان ہوئی ہے۔

آئیے سب سے پہلے وہ حدیث پڑھتے ہیں جس میں نجد کے لئے دعا نہیں فرمائی گئی
👈حدیث نجد
حضرت عبداللہ بن عمر رضی ﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے دعا فرمائی: اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ!  ہمارے لئے یمن میں برکت عطا فرما۔لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی، میرا خیال ہے کہ  آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور شیطا ن کا سینگ وہیں سے نکلے گا۔
صحیح بخاری 2598/6، حدیث 6681۔
اس حدیث میں تین متعین خطوں کے نام لئے گئے ہیں لیکن کچھ احباب شام اور یمن کو تو علاقائی طورپر لیتے ہیں لیکن جب نجد کی باری آتی ہے تو یہ احباب نجد کے لغوی معنی نکال لاتے ہیں اور کہتے ہیں کہ یہ نجد ریاض مراد نہیں بلکہ ابھری ہوئی زمین مراد ہے، اور عرب میں بارہ نجد ہیں۔ حالانکہ حدیث کا لب و لباب واضع ہے کہ تین متعین خطے ہیں۔ جب ہم دو خطوں کے لغوی معنی اخذ نہیں کرتے ہیں تو پھر ہم تیسرے خطے کا لغوی معنی کیونکر اخذ کرسکتے ہیں؟. حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں جو خطہ نجد کے نام سے مشہور تھا دراصل وہی نجد کا خطہ اس حدیث میں مراد ہے.  اب ہم نجد کے لغوی معنی پڑھتے ہیں
نجد کے لغوی معنی
علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
“نجد زمین کا وہ حصہ ہے جو بلند و بالا، مضبوط و گاڑھا اور اونچائی پر واقع ہو”
(لسان العرب:45/14)
نجد کی حدود کا تعین
علامہ یاقوت حموی اپنی شہرہ آفاق کتاب  معجم البلدان میں  لکھتے ہیں:
” نجد اس عریض (ترچھی) جگہ کا نام ہے جس کی بلندی کی طرف تہامہ اور یمن ہے اور پستی کی طرف عراق اور شام ہیں۔
یہ بھی کہا جاتا ہے کہ سارے کا سارا نجد یمامہ کے ماتحت ہے۔
(علامہ یاقوت حموی، معجم البلدان ج 5، ص 263)

ابن حجر عسقلانی نے خطابی کا قول نقل کیا ہےاپنی رائے نہیں دی ہے۔
حافظ ابن حجرعسقلانیؒ علامہ خطابی سے نقل کرتے ہیں:”نجد من جهة المشرق ومن كان بالمدينة كان نجده بادية العراق ونواحيها وهي مشرق أهل المدينة وأصل النجد ما ارتفع من الأرض وهو خلاف الغورفإنه ما انخفض منها”۔)
(فتح الباری لابن حجر، باب قولہ باب قول النبی صلی اللہ علیہ وسلم ،حدیث نمبر:۶۶۸۱)
ترجمہ:” نجد مشرق کی طرف ہےاوراہل مدینہ کے لیے نجد بادیہ عراق اوراس کے مضافات ہیں اور یہ اہل مدینہ سے مشرق کی جانب ہے اورنجد دراصل زمین کی سطح مرتفع کا نام ہے اوریہ لفظ غور)پستی( کے برعکس ہے،غور پستی کو کہتے ہیں۔.”  حالانکہ خطابی کے اس قول سے جہمور آئمہ کرام نے اختلاف کیاہے کیونکہ جمہور آئمہ کرام کی نظر میں عراق مشرق میں نہیں ہے.

جیساکہ علامہ مالکی اس حدیث (نجد) کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
مشرق سے مراد مدینہ کا مشرق ہے اور وہ نجد ہے، اسی طرح تبوک کے مشرق میں بھی نجد ہی ہے نیز اسکی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیاکہ وہاں سے زلزلے اور فتنے ہونگے اور شیطان کا سینگ وہی سے نکلے گا۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ : اے اللہ! مضر کو سختی سے کچل دے اور مضر نجد میں ہے۔.
اکمال المعلم ج 1 ص 159
(مضرنجد ریاض میں رہتا ہےجسکی ایک بڑی شاخ بنو تمیم ہے)

علامہ بدرالدین عینی “عمدۃ القاری” شرح صحیح بخاری میں لکھتے ہیں کہ
“نجد عرب کا ایک علاقہ ہے اور تہامہ سے لیکر ارض عراق تک کا علاقہ نجد ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ عراق اور وجرہ اور غمرۃ الطائف کے درمیان والا علاقہ نجد ہے۔ عباب میں لکھا ہے کہ غور یعنی تہامہ کے برخلاف عرب کا وہ سارا بلند علاقہ جو تہامہ سے لیکر ارض عراق تک ہے نجد ہے۔
(امام بدرالدین عینی، عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری، ج 1، ص 266۔)

امام بدرالدین عینی شارح صحیح بخاری نجد کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہیں کہ:
قلت النجد الناحيّتہ التي  بين الحجاز والعراق۔
ميں کہتا ہوں کہ حجاز و عراق کے درميان کے علاقے کا نام نجد ہے۔(عمدتہ القاري ص 266/1)

علامہ کرمانی نے علامہ عینی کا قول نقل کیا ہے
تہامہ سے جو اونچی زمین کا علاقہ ہے یہی وہ نجد ہے جو رآس الکفر(کفر کا سرچشمہ) اور نجد قرن الشیطان (گمراہ فرقوں کی ) کی جائے پیدائش ہے۔ ص 35۔
نجد قرن الشیطان وہ خطہ زمین ہے جس کی حد تہامہ حجاز سے شروع ہوکر عراق کے نیچان (غور یا ڈھلان) پر ختم ہوجاتی ہے۔ ص 36۔

علامہ  محمد طاہر فتنی حنفی کا قول
اس حدیث (نجد قرن الشیطان) کا معنی بیان کرتے ہوئے نجدقرن شیطان کی شرح میں فرماتے ہیں کہ :
“ھو اسم خاص لماذون الحجاز ممایلی العراق”
یعنی یہ ایک خاص جگہ کا نام ہے جو حجاز کے علاوہ عراق  کے ساتھ ملتی ہے۔
(مجمع بحار الانوار صفحہ 680، جلد 4)
درج بالا ترجمہ سلفیوں کا ہے. اور یہ حوالہ سلفیوں کی بہت سی ویب سائٹ پر بھی دستیاب ہے. حیرانگی کی بات یہ ہے کہ سلفی ہمیشہ سے بارہ نجدوں کا پرچار کرتے نظر آتے ہیں لیکن خود علامہ طاہر حنفی فتنی کا قول نقل فرماتے ہیں جن کی وضع کردہ تعریف کے مطابق نجد ایک مخصوص جگہ کا نام ہے جو عراق اور حجاز کے درمیان واقع یے.
  اس سے ثابت ہوا کہ عراق نجد نہیں بلکہ نجد کی سرحدیں عراق سے ملتی ہیں۔

علامہ احمد خطیب قسطلانی  بخاری کے مستند شارحین میں سے ہیں، لکھتے ہیں کہ
یعنی سرزمین تہامہ سے لیکر عراق تک جو بلند علامہ ہے وہ نجد ہے۔
(احمد بن محمد خطیب قسطلانی، ارشاد الساری، جلد 2، صفحہ 212)۔
جمہور آئمہ کرام کے اقوال کی روشنی میں ثابت ہواکہ نجد عراق اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔ جس کی سرحدیں عراق مدینہ، مکہ، یمن اور شام سے ملتی ہیں۔ نجد کے لئے قرن (یعنی سینگ کا نام) میقات کے لئے رکھ کر صاف فرما دیاکہ یہی شیطان  کے سینگ والا نجد ہے ۔جو نجد ریاض ہے  اور اس کا رقبہ تقریبا تیرہ لاکھ نوے ہزار مربع فٹ ہے

عراق کے لغوی معنی

مشہور عراق کئی شہروں پر مشتمل ہے، عراقن بول کر کوفہ اور بصرہ مراد لیتے ہیں، عراق کو عراق اس لئے کہتے ہیں کہ یہ عراق القربتہ سے ماخوذ ہے، مشکیزے کے نیچے والا سوراخ غرض جسے دوہرا کیا جاتا ہےکہ عرب کی سرزمین کی نسبت گہرائی میں واقع ہے اور سطح سمندر کے قریب واقع ہے۔
ابوالقاسمی زجاجی فرماتے ہیں کہ
ابن اعرابی نے کہا ہے کہ عراق کو عراق کہنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ نجد کی نسبت پست و نشیت علاقہ ہے اور سمندر کے قریب ہے۔ یہ عراق القربتہ سے ماخوذ ہے یعنی مشکیزے کے نیچے والا سوراخ۔
(علامہ یاقوت حموی، معجم البلدان، ص 93)
عراق کی لغوی تعریف سے یہ واضح ہواکہ عراق پست اور نیچی زمین کو کہتے ہیں جو سطح سمندر کے قریب تر ہو اور نجد ابھری ہوئی زمین کو کہتے ہیں جو ایک دوسرے کے متضاد ہیں۔

احادیث میقات میں نجد اور عراق کا بیان

میقات کے حوالے سے سینکڑوں احادیث ہیں لیکن ہم دو احادیث پیش کرتے ہیں تاکہ نقطہ نظر سمجھ آ جائے.
حدیث
حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ “نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اہل نجد کے لئے قرن اور اہل شام کے لئے جحفہ اور اہل مدینہ کے لئے  ذوالحلیفہ کو میقات مقرر فرمایا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ میں نے نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا ہے اور مجھے خبر ملی ہے کہ نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ اہل یمن کے لئے یلملم ہے تو عراق کا ذکر ہوا تو انہوں فرمایا کہ اس زمانے میں عراق نہیں تھا۔ (یعنی اس زمانے میں عراق فتح نہیں ہوا تھا)۔
صحیح بخاری، جلد 3، صفحہ 1930، حدیث 2200۔
پتہ چلاکہ اس وقت عراق فتح نہیں ہوا تھا۔

جب یہ دو شہر (بصرہ اور کوفہ) فتح ہوئے تو لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ یا امیرالمؤمنین! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نجد کے لوگوں کے لئے احرام باندھنے کی جگہ قرن منازل قرار دی ہے اور ہمارا راستہ ادھر سے نہیں ہے، اگر ہم قرن کی طرف جائیں تو ہمارے لئے بڑی دشواری ہو گی۔ اس پر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ پھر تم لوگ اپنے راستے میں اس کے مدمقابل کوئی جگہ تجویز کر لو۔ چنانچہ ان (اہل عراق) کے لئے ذات عرق کی تعیین کر دی۔
(صحيح البخاري – الصفحة أو الرقم: 1531).
  اس حدیث سے ثابت ہوا کہ اہل عراق کے لیے میقات کا تعین حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کیا کیونکہ اہل عراق کے لیے نجد کا میقات “قرن” نہیں تھا بلکہ  بہت دور تھا اور وہ اہل عراق کے راستے میں نہیں آتا تھا جس کی وجہ سے انہیں اگر اہل نجد والا میقات اپنانا پڑتا تو انہیں بہت مشکل ہوتی۔. لہذا انکے لیے ذات “عرق “میقات مقرر کیا گیا. پس ثابت ہواکہ عراق اور نجد دو مختلف علاقے ہیں. نجد حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دور میں تھا جسکے لیے میقات مقرر فرما دیا جبکہ عراق اس دور میں نہیں تھا جس وجہ سے اسکے لیے میقات مقرر نہیں کیاگیا.

میقات کے حوالے ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ کا قول:
فان لاھل الیمن  اذا قصد  وا مکۃ طریقان احداھما طریق اھل الجبال  وھم یصلون  الی قرن او یحاذونہ فھو میقاتھم “کما ھو میقات  اھل مشرق”۔
یمن والوں کے لئے مکہ مکرمہ آنے کے دو راستے ہیں  ایک راستہ پہاڑی لوگوں کا ہے وہ قرن یا اسکے محاذی  مقام سے ہوکر مکہ شریف آتے ہیں۔ یہی انکا میقات ہے جیساکہ یہ مشرق والوں کا میقات ہے۔
(فتح الباری، جلد 3، 382)۔
تبصرہ: یمن کے قریب نجد ریاض ہے جبکہ عراق اور یمن کے درمیان ریاض ہے۔ سو یمن والے اہل مشرق یعنی ریاض والوں کے میقات قرن کے راستے سے بھی آتے تھے۔
7: احادیث کثیرہ سے نجد واحد کا ثابت ہونا

اب ہم احادیث سے نجد کو ایک مخصوص علاقہ ثابت کرتے ہیں۔ نجد بھی ایک مخصوص علاقہ ہے جیسے شام اور یمن ہیں

غزوہ نجد
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے پوچھاگیا کہ کیا آپ نے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے ساتھ نماز خوف اد کی ہے؟  فرمایا “ہاں”۔ اس نے پوچھاکب؟ انہوں نے فرمایاکہ غزوہ نجد میں۔ مکمل حدیث کےلئے ریفرنس
نسائی شریف، جلد1، صفحہ 1318، حدیث 1546، باب صلوۃ الخوف
اگر یہ غزوہ عراق کے کسی نجد میں وقوع پذیر ہوتا تو کوفہ، بصرہ یا طبرستان کا نام ضرور آتا لیکن نہیں آیا کیونکہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے عراق کے خلاف جنگ نہیں کی تھی ۔ اور بیشتر
غزوات اور سریے اہل نجد کے خلاف لڑے۔

باب نجد کی طرف جو لشکر  حضور علیہ السلام  نے روانہ فرمایا تھا
حضرت امام بخاری نے اس کو جنگ طائف کے بعد ذکر کیا ہے لیکن اہل مغازی نے کہا ہے کہ یہ لشکر فتح مکہ کو جانے سے پہلے  روانہ کیا تھا۔ ابن سعد نے کہاکہ یہ 8 ہجری کے ماہ شعبان کا واقعہ ہے، بعضوں نے کہا ماہ رمضان میں یہ لشکر روانہ کیا تھا، اس کے سردار ابو قتادہ رضی اللہ عنہ تھے۔ اس میں صرف 25 آدمی تھے جنہوں نے غطفان سے مقابلہ میں 200 اونٹ اور 2000 بکریاں حاصل کیں۔
(صحیح بخاری، جلد 8، باب نجد کا سریہ، حدیث 4338)
غطفان اسی علاقے میں بستا ہے جو مدینہ کی حدود سے لیکر عراق کی حدود تک آتا ہے۔

بنو حنیفہ نجد کی جانب چند سواروں کو بھیجا
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ “نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  نے نجد کی جانب کچھ سواروں کو روانہ فرمایا تو وہ بنی حنیفہ کے ایک شخص ثمامہ بن اثال کو گرفتار کرکے لے آئے اور اسے مسجد نبوی کے ایک ستون سے باندھا۔ ۔۔مکمل حدیث کے لئے حوالہ
(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 690، حدیث 538،باب 1500)

بنی تمیم کی شاخ بنی عنبر
ابن اسحاق کا قول ہے کہ عینیہ بن حصن بن حذیفہ بن بدر کو رسول خدا نے بنی تمیم کی شاخ بنی عنبر سے جہاد کرنے بھیجا، انہوں نے شب خون مار کر مرد قتل کردئیے اور عورتوں کو قید کرلیا۔
(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 687، باب 536)
یہ  غزوات اور سریے موجودہ نجد ریاض میں وقوع پذیر ہوئے تھے جو لاکھوں مربع میل پر پھیلا ہوا ہے۔ اور ان احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ جس نجد کے خلاف غزوات ہوئے اور سریے ہوئے وہی نجد قرن الشیطان  ہے اور وہ سعودی عرب میں واقع ہے.

👈تاریخی کتب سے نجد واحد کا ثابت ہونا
اب ہم تاریخی واقعات سے ثابت کرتے ہیں کہ نجد صرف ایک مخصوص علاقہ ہے اور جس نجد سے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے زمانے میں ہی بہت زیادہ فتنے نکلے تھے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اسکے لئے دعا بھی نہیں کی۔

درج ذیل میں تاریخی واقعات درج ہیں۔

شیطا ن نے بھی نجد ریاض کا ہی شیخ بننا پسند کیا

مشرکوں نے جب دیکھاکہ مسلمانوں نے اپنی عورتیں اور بچے قبائل اوس و خزرج کے ہاں بھیج (مدینہ میں) دیئے تو سمجھ گئے کہ یہ صاحب اثر لوگ ہیں، اب رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم بھی وہی چلے جائيں گے۔ سب کے سب دارالندوہ میں جمع ہوئے، جتنے دانشمند اور صاحب الرائے تھے سب نے شرکت کی کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے معاملے میں باہم مشورہ کریں۔ نجد کے ایک بوڑھے کی شکل میں ایک شخص یہاں آیا کہ تلوار لٹک رہی تھی، موٹے کپڑے تھے۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے متعلق بحث چھیڑی، ہر شخص نے اپنی رائے کے مطابق مشورہ دیا، ہر ایک کی رائے کو ابلیس رد کرتا تھا، کسی کی رائے کو پسند نہ کیا۔
ابوجہل نے کہاکہ میری رائے یہ ہے کہ ہم قریش کے ہر ہر قبیلے کا ایک ایک شخص لے لیں جو بہادر اور دلیر ہو، پھر اسے ایک تیز تلوار دے دیں تاکہ یہ سب مل کر حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو ماریں تاکہ آپ کا خون تمام قبائل میں تقسیم ہوجائے اور بنی عبدمناف کی سمجھ میں بھی نہ آئےگا کہ اسکے بعد وہ کیا کریں۔ وہ  نجدی (ابلیس) کہنے لگاکہ اس نوجوان(ابو جہل) کی خوبی اللہ ہی کےلئے ہے۔ واللہ رائے تو یہی صاحب ہے ورنہ پھر کچھ نہیں ہوسکتا۔
(طبقات ابن سعد، جلد 1، صفجہ 234)۔
حتی کہ شیطان نے بھی نجدی بننا پسند کیا ہے۔ عراق کو نجد کہنے والے بتاسکتے ہیں کہ شیطان مردود کون سے نجد کا بن کر آیا تھا، نجد عراق یا نجد ریاض؟

اسلام اور نجدی باشندے
دانش گاہ پنجاب کا مطبوعہ اردو دائرہ معارف الاسلامیہ ملاحظہ ہو لکھتے ہیں کہ:
عہدی نبوی میں اس علاقے کے تعلقات اسلام کے ساتھ تقریبا آخر تک کھینچے ہی رہے۔ قبل از ہجرت ایک حج کے موقع پر حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جب کوئي پندرہ قبائل کے لوگوں سے یکے بعد دیگرے اس کی خواہش کی کہ آپ کو اپنے گھر لے چلیں تو بنو حنیفہ کے نجدی ہی سب سے زیادہ درشت اور بداخلاق ثابت ہوئے تھے۔ (ابن ہشام ص 283)

غزوہ غطفان نجد بحوالہ طبقات ابن سعد
ہجرت کے پچیسویں مہینے میں ربیع الاول میں رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کا  نجد کی طرف غزوہ غطفان ہے جو التحیل کے نواح میں ذوی امر میں ہے۔
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو یہ خبر پہنچی کہ بنی ثعلبہ و محارب کی ایک بڑی جماعت نے ذوی امر میں جمع ہوکر یہ قصد کیا ہے کہ وہ آپ کو تمام اطراف سے گھیر لیں، یہ فعل بنی محارب کے ایک آدمی ہے جس کا نام دہتور(دھاتور) بن الحارس ہے۔
(طبقات ابن سعد، جلد 1، صفحہ 271)
درج ذیل ہم ایک اور حوالے سے تفصیل دے رہے ہیں۔

قاریوں کی جماعت کی شہادت، یا واقعہ بئیر معونہ
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے 70 آدمیوں کی ایک جماعت  جسے قراء یعنی قاریوں کے نام سے یاد کیا جاتا تھا، مدینہ کے گردونواح میں  اس وقت تک نازل شدہ قرآن کی تعلیم کے لئے بھیجی تھی لیکن جب  وہ اس جگہ پہنچے تھے جسے بئیر معونہ کہا جاتا ہے تو بنی سلیم نے علم القرآن  سے انہیں روکا تھا اور جب انہوں نے کہا تھا کہ ہم نبی کریم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے حکم سے یہاں آئے ہیں تو ان دشمنان اسلام نے اس پوری جماعت کو شہید کردیا۔ کہا جاتا ہے اور اسکی تائيد اکثر اہل خبر نے کی ہے کہ ابو براء عامر بن مالک بن جعفر نے حضور علیہ السّلام کی خدمت میں  حاضر ہوکر آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے عرض کیا تھا کہ اگر آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم دعوت دینے والوں کو اہل نجد کی طرف روانہ فرمائيں تو اسے یقین ہے کہ وہ اسلام قبول کرکے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے مطیع ہوجائيں گے۔
آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اسے اسلام کی دعوت دی تھی لیکن وہ دل سے مسلمان نہیں ہوا تھا، تاہم آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اسکے مذکورہ بالا مشورے کے بعد “اہل نجد” کے اسلام لانے اور اطاعت قبول کرنےکے بارے میں اندیشہ ظاہر کیا تھا تو البراء عامر بن مالک نے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے عرض کیا تھا کہ اہل نجد اسکے ہمسائے ہیں وہ اسکی بات ٹالیں گے۔
(البدایہ والنھایہ، جلد 4، صفحہ55،56)

سریہ ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنی کلاب کی جانب نجد کے مقام پر ہوا
شعبان 7 ہجری میں ابو بکرصدیق رضی اللہ عنہ کا ضریہ کے نواح میں بمقام نجد سریہ بنی کلاب ہوا۔
(طبقات ابن سعد، جلد 1، صفحہ 340)

امام بخاری وفد بنی حنیفہ اور قصہ ثمامہ بن اثال رضی اللہ کے باب میں بیان کرتے ہیں کہ:
عبداللہ بن یوسف نے ہم سے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ مجھ سے سعید بن ابی سعید نے بیان کیا کہ اس نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے سناء ، وہ بیان کرتے ہیں کہ :
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے نجد کی جانب کچھ سوار بھیجے، جو بنی حنیفہ کے ایک آدمی کو لائے جسے ثمامہ بن اثال کہا جاتا تھا اور انہوں نے اسے مسجد کے ایک ستون سے باندھ دیا اور رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے  اسکے پاس آکر فرمایا۔۔۔۔۔۔لمبا واقعہ ہیں۔
تفصیل کےلئے حوالہ چیک کریں۔
(البدایہ والنھایہ ، جلد 5، صفحہ 79)
حضرت ابو قتادہ بن رباعی  انصاری رضی اللہ عنہ کا شعبان سن 8 ہجری میں مقام خضر کی طرف سریا
یہ جگہ نجد میں بنو محارب کی زمین ہے۔ نبی اکرم صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے انکے ہمراہ پندرہ 15 افراد بنو غطفان کی طرف بھیجے۔
(المواہب الدنیاء جلد 1، صفحہ 406)

سریہ غالب بن عبداللہ اللیثی بجانب المفیعہ
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے غالب بنی عبداللہ کو بنی عوال اور بنی عبد بن ثعلبہ کی طرف بھیجا جو المفیعہ  میں تھے جو بطن نخل  سے النقرہ کی جانب علاقہ نجد میں ہے، اسکے اور مدینے کے درمیان آٹھ برد (96 میل) کا فاصلہ ہے۔
طبقات ابن سعد، جلد 1، صفحہ 241)
سریہ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ
زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کا سریہ القروہ کی جانب ہجرت کی اٹھائيسویں مہینے کے شروع جمادی الآخر میں پیش آیا۔ جس میں زید امیر بن کر نکلے ، القروہ نجد کی الزبدہ اور الغمرہ کے درمیان  ذات عرق کے نواح میں ہے۔
(طبقات ابن سعد، جلد 1، صفحہ 272)

سریہ المندر بن عمرو
رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ہجرت کے چھتیسویں مہینے صفر میں بئیرمعونہ کی طرف المندر بن عمرو السعدی کا سریہ ہوا۔ عامر بن جعفر رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے پاس آیا اور آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو ہدیہ دیا مگر آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے  قبول نہیں فرمایا۔ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اس پر اسلام پیش کیا، مگر اس نے اسلام قبول نہیں کیا اور دور بھی نہیں ہوا۔
عامر نے درخواست کی کہ اگر آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  اصحاب میں سے چند آدمی میرے ہمراہ میری قوم کے پاس بھیج دیں تو امید ہے کہ وہ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی دعوت قبول کرلینگے۔
آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ مجھے اہل نجد کا خوف ہے۔ اس نے کہا میں تو ان کے ہمراہ ہوں پھر کیسے کوئی انکے سامنے آئيگا۔
(طبقات ابن سعد، جلد 1، صفحہ 285)
یعنی کہ اہل نجد کے فتنہ پرور ہونے کی وجہ سے انکو خوف تھا۔ ان کی شرانگیزیوں کا پتہ تھا اسی لئے انہوں نے خوف کا اظہار کیا اور انہی افعال کی وجہ سے نجد کےلئے دعا بھی  نہیں فرمائی۔

غزوہ ذات الرقاع اور غزوہ نجد، قبیلہ محارب کہاں پر ہے
غزوہ ذات الرقاع قبیلہ محارب سے ہوا جو قبیلہ غطفان کی ایک شاخ ہے۔ حضور علیہ السلام  نخل سے ذات الرقاع کی لڑائی میں گئے وہاں غطفان ملے لیکن لڑائی نہ ہوئی۔
غزوہ نجد
حضرت جابر رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  کے ساتھ نجد کی طرف جہاد کیا تھا۔
(صحیح بخاری، جلد 2، حدیث 1305)

بنو حنیفہ نجد میں ہے
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے نجد کی طرف کچھ سواروں کو بھیجا، وہ بنی حنیفہ کے آدمی ثمامہ بن اثال کو پکڑ کر لائے۔ فل حدیث کے لئے حوالہ چیک کریں۔
(صحیح بخاری، ، جلد 2، صفحہ 1470، حدیث 1505)

تبصرہ
جس نجد کے لئے دعا نہ فرمائی اور کسی نے نجد کی تعریف  کی تو فرمایا کہ تم نے جھوٹ کہا  اور جس نجد کے خلاف غزوہ میں حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے خود شرکت کی اور اپنے اصحاب کو بار بار لشکر دیکر بھیجا ہو اور جس نجد کے لوگوں سے لڑتے لڑتے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی زندگی گزری وہ نجد سعودی عرب ہے جس کے مرکز میں اب ریاض شہر آباد ہے۔ صحیح احادیث، تاریخی واقعات اور اقوال آئمہ کی روشنی میں یہ ثابت ہوگیا ہے کہ  نجد عراق نہیں بلکہ وہ خطہ زمین ہے جس میں سعودی دارالحکومت ریاض واقع ہے۔

بنی مضر اور بنی ربیعہ کون ہیں اور کہاں رہتے ہیں
بنی مضر اور ربیعہ نجد میں رہتے ہیں۔ جو عراق اور مدینہ کے درمیان واقع ہے۔
بنی مضر اور بنی ربیعہ کا تاریخی پس منظر
مضر بن نزار اور ربیعہ
اسکا ایک حقیقی بھائی عیاد تھا اور دو علاتی بھائی ربیعہ اور انمار تھے۔ جب نزار بن معد کا آخری وقت آیا تو اس نے اپنے بیٹوں کو وصیت کی اور اپنے مال کو ان میں تقسیم کردیا، اپنے بیٹوں کو مخاطب کرکے کہاکہ
“خیمہ جو سرخ چمڑیا کا تھا  اور اس طرح کا دوسرا مال یہ مضر کا ہے،  اس وجہ سے مضر کا نام مضر الحمراء ہوا۔
“یہ میرا سیاہ شامیانہ  اور اس رنگ کا دوسرا مال ربیعہ کا ہے۔، چونکہ سیاہ گھوڑا ملا اس لئے اس کا نام ربیعۃ الفرس ہوا۔
“اور یہ خادم اور اسکے مشابہ میرا مال  ہے وہ عیاد کا ہے، یہ بھورے رنگ کا تھا چنانچہ ابلق جانور اور کھرگاسی بھیڑ بکریاں لے لیں۔
(تاریخ طبری، جلد 2، صفحہ 41)

سرخ خیمہ, دینار اور اونٹ جو سرخ تھے وہ مضر کو دئیے
اور سیاہ شامیانہ اور سیاہ گھوڑے ربیعہ کو دئیے انکے باپ نے.
(تاریخ طبری, جلد1 صفحہ 42)
بنو مضر اونٹ والے قرار پائے اور بنو ربیعہ گھوڑے والے قرار پائے۔ جیسا کہ آگے احادیث میں بھی اونٹ اور گھوڑے والوں کا ذکر آئيگا۔

بنی مضر کے قبل از اسلام اخلاقی حالات
اگرچہ قریش کو مکہ میں ایک حکومت حاصل ہوگئی اور قبائل مضر اطراف و جوانب ممالک کو شام و عراق میں اور کچھ حجاز میں منتشر و متفرق ہوگئے۔ اور بعض ان میں بادیہ نشین و خانہ بدوش ہوگئے، اور بعض اسباب عشرت اور سامان تمدن کی فراہمی میں مصروف ہوئے۔
کبھی یہ فارس و روم سے عراق و شام میں لڑتے نظر آتے تھے اور کبھی اپنی حدود کی حفاظت کی غرض سے اپنی قوم کو جمع کرکے اہل عراق و شام سے مقابلہ کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ان  لڑائيوں میں اور خون ریزيوں میں کبھی یہ مغلوب ہوکر خراج گزاری پر مجبور ہوجاتے تھے لیکن جب کبھی پھر کوئی موقع ہاتھ آ جاتا تھا تو خراج گزاری، اطاعت شاہی سے منحرف ہوکر مخالفت کربیٹھتے تھے۔
الغرض ٹھنڈے کلیجے  نہ یہ خود پانی پیتے تھے اور نہ پینے دیتے تھے۔ ہمیشہ شاہان عراق  و شام  کو استیصال، فساد و افتاء نیرا فتنہ میں رہنا پڑتا تھا۔
(تاریخ ابن خلدون، جلد 1، صفحہ 31)

بنی مضر کی تاریخ پڑھنے سے پتہ چلاکہ قبیلہ مضر کی وجہ سے اہل عراق و شام ہمیشہ فتنے میں مبتلاء رہتے تھے۔ بنو مضر والے نہ خود چین سے رہتے تھے اور نہ کسی کو رہنے دیتے تھے۔ یہ بات واضع ہوئی کہ یہ قبیلے نجد میں ہی رہتے تھے اور یہاں سے ہی وہ ااہل عراق اور اہل شام کے خلاف فساد بپاء کئے رہتے تھے کیونکہ نجد کی حدود شام اور عراق کیساتھ لگتی ہیں۔ فتح عراق کے بعد بنو مضر اور ربیعہ کے قبیلوں کی بڑی تعداد عراق میں جابسی تھی۔

احادیث کی روشنی میں بنی مضراور بنی ربیعہ کے مراکز کا تعین
ایک لمبی حدیث کا ایک حصہ بیان کرتے ہیں جو قبیلہ قیس کے لوگوں کے حوالے سے ہے
یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم! ہم صرف حرمت والے مہینوں میں ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہوسکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر قبیلے کے کفار حائل ہیں۔
(صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 13)
حدیث
ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ کہتے ہیں کہ وفد عبدالقیس نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی خدمت میں آیا اور عرض کیا:
یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم! ہم ربیعہ کا قبیلہ ہیں اور کفار مضر ہمارے اور آپ کے درمیان رکاوٹ ہیں، لہذا ہم آپ کی خدمت میں سوائے شہرحرم کے نہیں آ سکتے ہیں۔
مکمل حدیث کے لئے ریفرنس دیکھیں
(صحیح بخاری، حدیث 1502، صفحہ 1467)
ان حادیث میں بتایا گیا کہ قبیلہ قیس کے لوگوں اور مدینہ والوں کے درمیان مضر کا کافر قبیلہ حائل تھا، اب ہمیں دیکھنا ہوگا کہ یہ قبیلہ قیس کے لوگ کہاں کے رہنے والے تھے، قبیلہ قیس بنی ربیعہ کی ایک شاخ ہے۔
حدیث شریف
اے اللہ! عبدل قیس کی مغفرت فرماکہ یہ رضامندی سے کسی کے جبر کے بغیر مسلمان ہوگئے ہیں، اب یہ شرمندہ ہونگے اور نہ ہی ہلاک جبکہ ہماری قوم کے کچھ لوگ اس وقت تک مسلمان نہیں ہوتے جب تک رسوا اور ہلاک نہ ہوجائيں،پھر نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے چہرے کا رخ موڑتے ہوئے قبلہ کی جانب کیا اور فرمایاکہ اہل مشرق میں سب سے بہترین لوگ بنو عبدالقیس ہیں۔
(مسند احمد بن حنبل، جلد 7، صفحہ 360، حدیث 17983)
یہ وفد بحرین کا رہنے والا تھا یعنی کہ مدینہ کے مشرق میں بحرین آتا ہے۔

اسکی شرح میں ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ :
اس میں دلیل ہے کہ قبیلہ عبدالقیس قبائل مضر سے پہلے مسلمان ہوا تھا اور عبدالقیس کا علاقہ بحرین اور عراق کی اطراف سے اسکے  ساتھ ملنے والے علاقے تھے۔
(فتح الباری، جلد 1، صفحہ 132)

امام نووی قبیلہ عبدل قیس کے بارے میں اپنی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
اہل مشرق میں سے افضل عبدالقیس کا وفد تمہارے پاس پہنچ چکا ہے۔ ان میں اشحج عصری بھی ہیں، وہ عہد توڑنے اور تبدیل کرنے والے نہیں اور نہ ہی شک کرنے والے ہیں کیونکہ قوم ابھی تک مسلمان نہیں ہوئی یہاں تک کہ وہ ان سے تنہا ہوگئے ہیں۔
(شرح صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 33)
علامہ بدرالدین عینی اسکی شرح میں لکھتے ہیں کہ :
ربیعہ(عبدالقیس) اور مدینہ کے درمیان کفار کا قبیلہ مضر آباد تھا اور ربیعہ کے لوگوں کو مدینہ آتے وقت مضر سے گزر کر آنا پڑتاتھا۔

(عمدۃ القاری، جلد 1، صفحہ 305)
احادیث اور آئمہ کرام کی شرح سے یہ بات معلوم ہوئی کہ قبیلہ قیس مشرق میں ہے اور قبیلہ قیس کے لوگ عراق کے بارڈر کے علاقے اور ملک بحرین میں آباد تھے۔ بحرین میں بنو ربیعہ کی شاخ قبیلہ عبدالقیس آباد تھا جسے قبیلہ قیس بھی کہا جاتا ہے۔ قبیلہ قیس کے رہائشی علاقے کی تصدیق اس حدیث سے ہوجاتی ہے.
حدیث شریف
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی مسجد میں جمعہ کی نماز ہونے کے بعد، سب سے پہلے جمعہ کی نماز ادا کی گئی وہ (مقام) جواثی میں عبدل القیس کی مسجد ہے۔ جواثی بحرین میں ایک جگہ کا نام ہے۔
(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 1469، حدیث 1504)
قبیلہ قیس بہت بڑا  قبیلہ تھا جو بحرین میں رہتا تھا۔
(المواہب لدنیا، صفحہ 652، جلد 1)

اس نقشے کے مطابق مدینہ کے مشرق قریب میں معونہ، بنوسعد، بنو غطفان، بنو اسد، بنو مرہ، بنو سلیم کے قبائل دکھائے گئے ہیں۔ مدینہ طیبہ کے عین مشرق بعید میں بنوتمیم کا علاقہ ظاہر کیاگیا ہے، بنو تمیم کے شمال میں بنو عامر اور جنوب میں حنیفہ کا علاقہ بتایاگیا ہے۔
 

👈بنو تمیم کا شجرہ نسب سلفیوں کی زبانی
(بنومضر کی بڑي شاخ)

بنی تمیم کا حسب و نسب
عدنان
سعد
سعد سے دو شاخيں
1: مضر
2: ربیعہ
مضر کی شاخیں
1: قبیس ایلان
2: تمیم
3: خزیعہ
ربیعہ کی شاخيں
1: وائل
2: عنزہ
وائل کی دو شاخيں
1: ثعلبہ
2: بکر
(المنجد، حصہ تاریخ، صفحہ 458)

اس شجرہ نسب میں کئی قبائل کے نام شامل نہیں ہیں مثلا بنو قیس وغیرہ لیکن پھر بھی ہم سلفیوں کی وضع کی گئی تعریف کو مان لیتے ہیں۔
اس حوالے سے علامہ بدرالدین عینی فرماتے ہیں کہ:
تمیم بنو مضر کا بہت بڑا قبیلہ ہے، یہ تمیم بن مر بن عدبان بن طبخہ بن الیاس  بن مضر کی طرف منسوب ہے۔
(عمدۃ القاری، جلد 13، صفحہ 104، صفحہ 83 جلد 8)

بنی تمیم کہاں رہتی ہے

بنو تمیم نجد میں ہی رہنے والی ہے
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے نجد کے سرداروں حضرت اقرع بن م حابس، حضرت عینیہ بن بدر اور انکے دیگر ساتھیوں کو سونا عطا کیا۔
اسکی شرح میں علامہ بدر الدین عینی نجد کے سردار حضرت اقرع بن حابس رضی اللہ عنہ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ:
ابن اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت اقرع بن حابس تمیمی رضی اللہ عنہ  عطارد بن حاجب کے ساتھ بنی تمیم کے اشراف کیساتھ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے۔
(عمدۃ القاری، جلد 15، صفحہ 229)۔ نجد کے سرداروں میں ایک اقرع بن حابس تھے جو قبیلہ بنوتمیم سے تعلق رکھتے تھے۔

علامہ بدر الدین عینی شارح صحیح بخاری خوارج کے بارے میں لکھتے ہیں کہ :
یہ (ذوالخویصرہ کی نسل کے) لوگ نجد کے اس مقام سے نکلے جہاں بنو تمیم آباد ہیں۔
(عمدۃ القاری، جلد 24، صفحہ 90)
حدیث اور شرح سے واضع ہواکہ بنو تمیم کا قبیلہ نجد کا رہنے والا تھا اور اسی قبیلے سے پہلا گستاخ رسول  ذوالخویصرہ تمیمی نکلا تھا جس کی نسل سے فتنہ پروروں کے نکلنے کی نشاندہی فرمائي ۔
حدیث
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے حضرت عینیہ بن حصن فزاری رضی اللہ عنہ کو بنوتمیم کی طرف مقام السقیاء میں بھیجا اور یہ بنوتمیم کی سرزمین ہے۔ آپ محرم الحرام کی سن 9 ہجری میں پچاس 50 عربی شاہ سواروں کو لیکر تشریف لے گئے تھے، جن میں کوئی مہاجر اور انصار نہیں تھے۔ ۔۔۔۔۔ ان سواروں نے صحراء میں بنو تمیم کے لوگوں پر اچانک حملہ کیا۔ تفصیل کے لئے:
(طبقات ابن سعد، جلد 3، صفحہ 160)
اہل نجد کے بنو تمیم و دیگر مضر کے قبائل سے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے کافی غزوات و سریا کئے۔ بادیہ نشین یعنی صحرانشینی بھی بنی تمیم کا طرہ امتیاز تھا.
حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے غزوات اور سریا کی کل تعداد 82 بیاسی ہے۔ قاضی سلمان منصور پوری نے لکھا: اور ان میں سے 23 تئیس غزوات و سریا قبائل نجد کے ساتھ پیش آئے۔ پتہ چلاکہ بنوتمیم نجد میں رہتی تھی۔

کفر مشرقی ہے, مشرق والوں سے کون لوگ مراد ہیں, احادیث کی روشنی میں دیکھتے ہیں.

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ ایمان یمانی ہے اور کفر مشرقی ہے۔ بکریوں والوں کے لئے سکون و اطمینان ہے جبکہ اونٹ اور گھوڑے والوں میں تکبر، غرور اور درشتگی پائی جاتی ہے، اور دجال جب احد کے پیچھے پہنچے گا تو فرشتے اس کا رخ شام کی طرف موڑ دینگے، جہاں وہ ہلاک ہوگا۔ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
(جامع الترمذی، جلد 2، صفحہ 139، حدیث 124)
نوٹ: درج بالا حدیث میں پہلے بتایاگیا کہ ایمان اہل یمن والوں میں ہےاورکفر مشرق والوں ہیں ہے۔ پھرمشرق والوں یعنی بنی ربیعہ اور بنو مضرکے کفر کی یہ وجوہات بتائي گئيں کہ وہ تکبر و غرور کرنے والے ہیں اور درشت ہیں یعنی سخت دل ہیں۔ جبکہ احادیث میں آتا ہے کہ جس کے دل میں ذرہ برابر غرور ہو وہ جنت میں نہیں جائيگا، یعنی غرور بھی کفرہے ۔اور اللہ اچھے اخلاق والوں کو پسند کرتا ہے جبکہ بداخلاق لوگوں کو ناپسند کرتا ہے۔
کچھ لوگ درج ذیل حدیث کو پیش کرتے ہیں کہ اہل مشرق کا میقات ذات عرق تھا

درج بالا حدیث کو البوصیری رحمۃ اللہ نے ابراہیم بن یزید الخوزی کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے۔
حافظ ابن حجر عسقلانی نے ابراہیم بن یزید پر اپنی کتاب تہذیب التہذیب میں جرح کی ہے لکھتے ہیں کہ
قال احمد: متروک الحدیث
وقال ابن معین: لیس بثقۃ، ولیس بشئ
وقال ابوزرعۃ وابوحاتم: منکرالحدیث، ضعیف الحدیث
وقال البخاری: سکتوا عنہ
قال الدولابی: یعنی ترکوہ
وقال النسائي: متروک الحدیث
امام ابن حجر العسقلانی التقریب میں اس کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ
ابراہیم بن یزید الخوزی- بضم المعجمۃ وبالزای- ابواسماعیل المکی، مولی بنی، امیۃ، متروک الحدیث
اس حدیث کو ضعیف قرار دیاگیا جس میں اہل مشرق کے لئے میقات ذات عرق مقرر فرمایاگیا ہے۔ جبکہ ہم نے پہلے بھی احادیث پیش کیں جن میں اہل مشرق قبیلہ قیس والوں کو فرمایاگیا۔ جبکہ ہم درج ذیل صحیح بخاری اور صحیح مسلم کی احادیث سے ثابت کریں گے کہ اہل مشرق کون سے قبیلوں کو کہاگیا ہے۔


حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے پاس کھڑے ہوئے تھے تو آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے اپنے ہاتھ سے مشرق کی طرف اشارہ فرمایا اور فرمایاکہ فتنہ یہاں ہوگا جہاں سے شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے۔ اسے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دو یا تین مرتبہ دوہرایا۔ اور عبیداللہ بن سعید نے اپنی روایت میں آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے دروازے کے پاس کھڑے تھے۔
(صحیح مسلم، جلد 3، صفحہ 1836، حدیث 2796)

حضرت عمر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک مرتبہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے دو مرتبہ یہ دعا فرمائی کہ” اے اللہ! ہمارے شام اور یمن میں برکت نازل فرما، ایک آدمی نے عرض کیا یارسول اللہ! ہمارے مشرق کے لئے بھی دعا فرمائيے، نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ وہاں سے تو شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے اور دس میں سے نو فیصد شر یہی ہوتا ہے۔
(صحیح بخاری، حدیث 7094، ابن حبان 7301)

حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ کفر کا مرکز مشرق کی طرف ہے، فخر و تکبر گھوڑے والوں میں اور اونٹ والوں میں ہے جن کے دل سخت ہیں  اور نرمی، اخلاقی اور مسکینی بکری والوں میں ہے۔
ایک اور حدیث میں فرماتے ہیں کہ ایمان تو یمن والوں میں ہے اور کفر مشرق کی طرف ہے اور بکری والوں میں مسکینی، نرم مزاجی ہوتی ہے اور  غرور اور ریاکاری، سخت مزاجی اور بد اخلاقی گھوڑوں والوں اور اونٹوں والوں میں ہے۔
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 186/187، حدیث 187/188)

حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایا کہ دلوں کی سختی اور سخت مزاجی مشرق والوں میں ہے، ایمان حجاز والوں میں ہے۔
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 192، حدیث 195)

رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے یمن کی طرف اشارہ کیا اور فرمایاکہ ایمان یمانی ہے اور آگاہ ہوجاؤ کہ فتنہ اور سنگدلی اونٹوں کی دموں کے قریب رہنے والوں مضر اور ربیعہ میں ہے جہاں سے شیطان کے دو سینگ نکلیں گے۔
(صحیح مسلم، صفحہ 52، جلد 1، بخاری 466، جلد 1)
نوٹ: اس حدیث میں نشاندہی کردی گئی کہ سنگدل، درشت لوگ بنی مضر اور بنی ربیعہ کے ہیں اور یہاں سے ہی شیطان کے دو سینگ نکلیں گے۔

حضرت ابو مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  نے یمن کی طرف اپنے دست مبارک سے اشارہ کرتے ہوئے فرمایا کہ ایمان تو یہاں (یمن میں) ہے اور سختی اور سنگدلی ربیعہ اور مضر اونٹوں والوں میں ہے جو اونٹوں کی دموں کے پیچھے پیچھے ہانکتے چلے جاتے ہیں، جہاں سے شیطان کے دو سینگ نکلیں گے یعنی قبیلہ ربیعہ اور مضر۔
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 184، حدیث 183)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے دعا فرمائی: اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض)لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلّی اللہ علیہوسلّم نے (پھر) دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ! ہمارے لئے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر ) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی، میرا خیال ہے کہ  آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور شیطان کا سینگ  (فتنہ وہابیّت و نجدیّت) وہیں سے نکلے گا۔
صحیح بخاری 2598/6، حدیث 6681۔

حدیث شریف
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا کہ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں کہ یمن والے آگئے ہیں یہ لوگ نہایت نرم دل اور کمزور دل ہیں، ایمان بھی یمنی ہے اور حکمت بھی یمانی اور مسکینی بکری والوں میں اور فخرو غرور شور مچانے والے دیہاتیوں میں جو مشرق کی طرف رہتے ہیں (یعنی ربیعہ اور مضر)
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 189، حدیث 191)

نوٹ

درج بالا احادیث میں اہل مشرق یعنی بنو مضر و بنو ربیعہ کی ان خرابیوں کا ذکر فرمایا گیا ہے کہ ان میں “فخر و تکبر, درشتگی, دلوں کی سختی, ریاکاری, سخت مزاجی, بداخلاقی پائی جاتی ہے.
ان خرابیوں کا قرآن میں بھی ذکر آیا ہےجیساکہ فخروتکبر کے بارے میں فرمایا:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنۡ کَانَ مُخۡتَالًا فَخُوۡرَا ﴿ۙ۳۶
بیشک اللہ اس شخص کو پسند نہیں کرتا جو تکبرّ کرنے والا (مغرور) فخر کرنے والا (خود بین) ہو ۔

“وَ اِذۡ قُلۡنَا لِلۡمَلٰٓئِکَۃِ اسۡجُدُوۡا لِاٰدَمَ فَسَجَدُوۡۤا اِلَّاۤ اِبۡلِیۡسَ ؕ اَبٰی وَ اسۡتَکۡبَرَ ٭۫ وَ کَانَ مِنَ الۡکٰفِرِیۡنَ ﴿۳۴﴾
اور (وہ وقت بھی یاد کریں) جب ہم نے فرشتوں سے فرمایا کہ آدم (علیہ السلام) کو سجدہ کرو تو سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے، اس نے انکار اور تکبر کیا اور (نتیجۃً) کافروں میں سے ہو گیا
“قَالَ الَّذِیۡنَ اسۡتَکۡبَرُوۡۤا اِنَّا کُلٌّ فِیۡہَاۤ ۙ اِنَّ اللّٰہَ قَدۡ حَکَمَ بَیۡنَ الۡعِبَادِ ﴿۴۸﴾
تکبر کرنے والے کہیں گے: ہم سب ہی اسی (دوزخ) میں پڑے ہیں بے شک اللہ نے بندوں کے درمیان حتمی فیصلہ فرما دیا ہے۔
حدیث:حضرت حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: متکبر آدمی جنت میں داخل نہ ہوگا اور نہ وہ جو جھوٹی شیخی بگھارتا ہے۔ (ابو داؤد)
حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے دل میں ذرہ برابر تکبر ہوگا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ (مسلم)

درشتگی اور بداخلاقی کے بارے میں
حدیث: حضرت جریر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو آدمی نرمی اختیار کرنے سے محروم رہا وہ آدمی بھلائی سے محروم رہا۔( صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر2101)
حدیث :حارثہ بن وہب رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایاکہ: سخت گو اور درشت خوآدمی جنت میں نہیں جائے گا۔ (ابو داؤد)
ریاکاری یعنی شرک خفی
اللہ تعالی فرماتا ہے:
” انا اغنی الشرکاء عن الشرک، من عمل عملا اشرک معی فیہ غیری ترکتہ وشرکہ”
(صحیح مسلم، الزھد والرقائق، باب الریاء ح:2985)
میں تمام شرکاء سے برھ کر شرک سے مستغنی ہوں- جو شحص اپنے عمل میں میرے ساتھ غیر کو شریک کرے تو میں اسے اس کے شرک کے ساتھ چھوڑ دیتا ہوں
حدیث: ” الا احبرکم بما ھو اخوف علیکم عندی من المسیح الدّجال؟ قالو: بلی یا رسول اللہ! الشرک الحفی یقوم الرّجل فیصلی فیزیّن لما یرای من نظر رجل”: ( سنن ابن ماجہ، الزھد، باب الریاء والسمعۃ، ح: 4204)
کیا میں تمہیں وہ بات نہ بتاؤں جس کا خوف مجھے تم پر مسیح دجال سے بھی زیادہ ہ؟ صحابہ رضی اللہ عنہ سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کیوں نہیں؟ (ضرور بتلائیے) آپ نے فرمایا: وہ ہے “شرک خفی” کہ کوئی شحص نماز کے لیےکھڑا ہو اور وہ اپنی نماز کو محض اس لیے سنوار کر پڑھے کہ کوئی شخص اسے دیکھ رہا ہے

تبصرہ
قرآن و حدیث کی روشنی میں ریاکاری، درشتگی، بداخلاقی، سخت مزاجی، اور فخروتکبر کا مفہوم سمجھنے میں مدد ملی۔ ان اعمال کی وجہ سے انسان آخرت میں جن حالات کا سامنا کریگا اس کا بھی پتہ چل گیا۔اور ان اعمال کو کفر قرار دیاگیا۔ کیونکہ نیک اعمال سے انسان جنت میں جاتا ہے اور بداعمال کی وجہ سے جہنم میں جاتا ہے۔ کفر مشرقی سے جو چيزیں مراد تھیں وہ یہی اعمال تھے۔ اور ان اعمال کے کرنے والوں کے نام بنو ربیعہ اور بنو مضر بتائے گئے۔ اور انہی دو قبیلوں سے شیطان کے سینگ نکلنے کی پیشگوئي فرمائی گئي۔ اب حدیث نجد  اور احادیث “بنو ربیعہ و بنو مضر” پر نظر دوڑائي جائے  تو فتنہ پرستوں کی آماہ جگاہ کا پتہ چل جاتا ہے۔ بنو مضر اور بنو ربیعہ بحرین اور سعودی عرب کے نجد میں آباد تھے۔ جب  بنو تمیم شاخ بنو مضر وغیرہ نے جب عراق کی طرف ہجرت کی تو وہاں بھی فتنے پیدا ہونے شروع ہوگئے۔ ان حالات کا ذکر ہم احادیث عراق و احادیث خوارج کے عنوان کے تحت کریں گے ان شاء اللہ۔
بےعقل لوگ، آیات قرآنی کی روشنی میں
ہم یہ حدیث دوبارہ زیربحث لا رہے ہیں
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا کہ آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم فرماتے ہیں کہ یمن والے آگئے ہیں یہ لوگ نہایت نرم دل اور کمزور دل ہیں، ایمان بھی یمنی ہے اور حکمت بھی یمانی اور مسکینی بکری والوں میں اور فخرو غرور شور مچانے والے دیہاتیوں میں جو مشرق کی طرف رہتے ہیں (یعنی ربیعہ اور مضر)
(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 189، حدیث 191)
شور مچانے والے دیہاتیوں کو مشرق میں کہا گیا ہے اور ان سے مراد بنو ربیعہ و بنو مضر ہیں، ان شور مچانے والے دیہاتیوں سے کون سے لوگ مراد ہوسکتے ہیں
آئيے سورت الحجرات آیت نمبر 4 اور 5 پڑھتے ہیں
آیات قرآنی
“اِنَّ الَّذِیۡنَ یُنَادُوۡنَکَ مِنۡ وَّرَآءِ الۡحُجُرٰتِ اَکۡثَرُہُمۡ لَا یَعۡقِلُوۡنَ ﴿۴﴾
“وَ لَوۡ اَنَّہُمۡ صَبَرُوۡا حَتّٰی تَخۡرُجَ اِلَیۡہِمۡ لَکَانَ خَیۡرًا لَّہُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ غَفُوۡرٌ رَّحِیۡمٌ ﴿۵﴾
بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں سے اکثر سمجھ نہیں رکھتے اور اگر وہ لوگ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ہی ان کی طرف باہر تشریف لے آتے تو یہ اُن کے لئے بہتر ہوتا، اور اﷲ بڑا بخشنے والا بہت رحم فرمانے والا ہے۔
یہ آیت بنی تمیم کے دیہاتی لوگوں کے حق میں نازل ہوئی، قبیلہ بنی تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت مسجد نبوی میں آئے، حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم اس وقت آرام فرما رہے تھے تو یہ لوگ باہر سے آوازیں دینے لگے تھے کہ اے محمد باہر آئيے۔
ابن کثیر، آیت نمبر 4 اور 5  کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ:
ان لوگوں کی مذمت بیان فرمائي جا رہی ہے جو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، یہ امہات المؤمنین کے گھر تھے۔ اجڈ بدوؤں کا یہی طریقہ تھا۔ یہ اقرع بن حابس تمیمی کے بارے میں نازل ہوئي۔
(تفسیر ابن کثیر، جلد 4، صفحہ 363، سورت الحجرات)
یہ آیات نجد کے لوگوں کے حق میں نازل ہوئيں جو بنی تمیم کے تھے اور ابن کثیر تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اجڈ بدوؤں کا یہی طریقہ ہے۔  یعنی زور سے بولنا،دور سے پکارنا جس سے شور محسوس ہو۔

سورت الفتح کی آيت اور اسکی تفسیر، نجدی فتنہ سے متعلق
اب ہم ایک اور آیت پیش کرتے ہیں جو نجد کے حوالے سے نازل ہوئی

“عنقریب تم سخت لڑائی والی قوم کی طرف بلائے جاؤ گے۔
(سورۃ الفتح آیت 16)
اس آیت کی تفسیر میں قاضی ثناء اللہ پانی پتی فرماتے ہیں کہ:
زہری مقاتل اور ایک جماعت کا یہ قول ہے کہ اس سے بنو حنیفہ یمامہ کے باشندے اور مسیلمہ کذاب مراد تھے۔ حضرت رافع بن خدیج صحابی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم یہ آیت پڑھتے تو تھے مگریہ معلوم نہ تھےکہ یہ کون لوگ ہیں۔ جب حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ بنی حنیفہ (نجدیوں) کے خلاف جہاد کی دعوت دی تو ہمیں پتہ چلاکہ اس آيت سے یہ لوگ مراد ہیں۔ یہ اکثر مفسرین کا قول ہے۔
(تفسیر مظہری، جلد 9، صفحہ 22)
اس سے پتہ چلتا ہے کہ نجد (ریاض ) کے فتنوں کے حوالے سے قرآن میں بھی ذکر آیا ہے اور پہلے ہی بتا دیاگيا تھا کہ وہاں فتنے سے نمٹنے کے لئے سخت جنگ ہوگی۔ اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ یہی نجد مراد ہے جس کے فتنوں کے بارے میں قرآن و حدیث میں نشاندہی فرمائي گئی۔

گھر کی گواہی
نجد کو مشرقی کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے۔

الریاض، درعیہ، عینیہ اور اسکے آس پاس کے باشندوں کو طیبہ (یعنی مدینہ) میں مشرقی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا جیسا کہ شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے استاد شیخ عبداللہ بن ابراہیم کے حالات سے مرکوز ہے کہ وہ نجد کے ایک شہر مجمع، جو کہ عینیہ اور درعیہ کے قریب ہی ہے کہ باشندے تھے، یہ مقام مدینہ طیبہ میں مقیم تھے اور انہیں شیخ مشرقی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔
شیخ عثمان بن بشر، عنوان المجد فی تاریخ النجد، ص 17۔

خلاصہ
حدیث شریف میں آتا ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اﷲ عنہما روایت کرتے ہیں کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم نے دعا فرمائی: اے اللہ !ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما، اے اللہ! ہمیں ہمارے یمن میں برکت عطا فرما، (بعض)لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ!ہمارے نجد میں بھی؟ آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے (پھر) دعا فرمائی: اے اللہ! ہمارے لئے ہمارے شام میں برکت عطا فرما۔ اے اللہ!  ہمارے لئے یمن میں برکت عطا فرما۔ (بعض) لوگوں نے (پھر ) عرض کیا: یا رسول اللہ! ہمارے نجد میں بھی، میرا خیال ہے کہ  آپ صلّی اللہ علیہ وسلّم نے تیسری مرتبہ فرمایا: وہاں زلزلے اور فتنے ہیں اور شیطان کا سینگ  (فتنہ وہابیّت و نجدیّت) وہیں سے نکلے گا۔” اس حدیث میں تین متعین علاقوں کا ذکر ہے۔ یہاں کسی خطے کا لغوی معنی نہیں لیاگیا لیکن کچھ لوگ لغوی معنی نکال رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ دس ہیں اور حدیث میں بیان کردہ نجد سے مراد عراق ہے اور پھر وہ نجد کے لغوی معنی بیان کرتے ہیں کہ “”نجد زمین کا وہ حصہ ہے جو بلند و بالا، مضبوط و گاڑھا اور اونچائی پر واقع ہو” (لسان العرب:45/14)۔ پھر اسکی حدود کا تعین علامہ طاہر حنفی فتنی کے اس قول سے کرتے ہیں کہ “”ھو اسم خاص لماذون الحجاز ممایلی العراق”  یعنی یہ ایک خاص جگہ کا نام ہے جو حجاز کے علاوہ عراق  کے ساتھ ملتی ہے۔ (مجمع بحار الانوار صفحہ 680، جلد 4)۔۔ اور امام عینی شارح صحیح بخاری اپنی شہرہ آفاق کتاب عمدۃ القاری میں لکھتے ہیں کہ “علامہ عيني عليہ الرحمہ لکھتے ہيں کہ: قلت النجد الناحيّتہ التي  بين الحجاز والعراق (عمدتہ القاري ص 266/1): ميں کہتا ہوں کہ حجاز و عراق کے درميان کے علاقے کا نام نجد ہے۔علامہ طاہر فتنی اور امام بدرالدین عینی کے مطابق حجاز اور عراق کے درمیان کا نام نجد ہے۔
جبکہ علامہ مالکی اس حدیث  کی شرح میں لکھتے ہیں کہ  مشرق سے مراد مدینہ کا مشرق ہے اور وہ نجد ہے، اسی طرح تبوک کے مشرق میں بھی نجد ہی ہے نیز اسکی تائید اس حدیث سے ہوتی ہے جس میں فرمایا گیاکہ وہاں سے زلزلے اور فتنے ہونگے اور شیطان کا سینگ وہی سے نکلے گا۔ ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ : اے اللہ! مضر کو سختی سے کچل دے اور مضر نجد میں ہے۔. (اکمال المعلم ج 1 ص 159)۔ جبکہ  “عراق کو عراق کہنے کی اصل وجہ یہ ہے کہ نجد کی نسبت پست و نشیت علاقہ ہے اور سمندر کے قریب ہے۔  (علامہ یاقوت حموی، معجم البلدان، ص 93) نجد کے لغوی معنی ابھری ہوئی زمین کے ہیں جبکہ عراق کے معنی پست اور نیچی زمین کو کہتے ہیں جو سطح سمندر کے قریب تر ہو۔ سو عراق اور نجد کے لغوی معنی جاننے سے پتہ چلاکہ عراق اور نجد کے معنی ایک دوسرے کے متضاد ہیں، اس لئے عراق کو نجد کہنا کسی صورت مناسب نہیں۔ نجد والوں کو اہل مشرق بھی کہا جاتا ہے جیساکہ “شیخ محمد بن عبدالوہاب نجدی کے استاد شیخ عبداللہ بن ابراہیم کے حالات سے مرکوز ہے کہ وہ نجد کے ایک شہر مجمع، جو کہ عینیہ اور درعیہ کے قریب ہی ہے کہ باشندے تھے، یہ مقام مدینہ طیبہ میں مقیم تھے اور انہیں شیخ مشرقی کے نام سے یاد کیا جاتا تھا۔ شیخ عثمان بن بشر، عنوان المجد فی تاریخ النجد، ص 17۔ نجد کا رقبہ تقریبا تیرہ لاکھ نوے ہزار مربع فٹ ہے۔ “نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے اہل نجد کے لئے قرن اور اہل شام کے لئے جحفہ اور اہل مدینہ کے لئے  ذوالحلیفہ کو میقات مقرر فرمایا ہے۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ یہ میں نے نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم سے سنا ہے اور مجھے خبر ملی ہے کہ نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ اہل یمن کے لئے یلملم ہے تو عراق کا ذکر ہوا تو انہوں فرمایا کہ اس زمانے میں عراق نہیں تھا۔ (یعنی اس زمانے میں عراق فتح نہیں ہوا تھا)۔صحیح بخاری، جلد 3، صفحہ 1930، حدیث 2200۔
اس حدیث سے وضاحت ہوگئي کہ عراق اس دور میں فتح نہیں ہوا تھا، اور نجد ریاض کے لوگوں کےلئے “قرن” کو میقات مقرر فرمایاگیا۔ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے نجد کے خلاف غزوہ بھی لڑا۔ جیساکہ حضرت جابر رضي اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم نے آپ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم  کے ساتھ نجد کی طرف جہاد کیا تھا۔ (صحیح بخاری، جلد 2، حدیث 1305) اگر یہ غزوہ عراق کے کسی نجد میں وقوع پذیر ہوتا تو کوفہ، بصرہ یا طبرستان کا نام ضرور آتا لیکن نہیں آیا کیونکہ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے عراق کے خلاف جنگ نہیں کی تھی ۔ اسی طرح تقریبا تئیس غزوات و سریاء اہل نجد کے خلاف لڑے گئے۔ جب کفار مکہ دارالندوہ میں جمع ہوکر حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کے خلاف سازشیں کرنے لگے تو شیطان ایک نجدی شیخ بن کر دارالندوہ میں آیا اور اس نے ابوجہل کی اس بات پر بے انتہا خوشی کا اظہارکیاکہ
ابوجہل نے کہاکہ میری رائے یہ ہے کہ ہم قریش کے ہر ہر قبیلے کا ایک ایک شخص لے لیں جو بہادر اور دلیر ہو، پھر اسے ایک تیز تلوار دے دیں تاکہ یہ سب مل کر حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کو ماریں تاکہ آپ کا خون تمام قبائل میں تقسیم ہوجائے اور بنی عبدمناف کی سمجھ میں بھی نہ آئےگا کہ اسکے بعد وہ کیا کریں۔ وہ  نجدی (ابلیس) کہنے لگاکہ اس نوجوان(ابوجہل) کی خوبی اللہ ہی کےلئے ہے۔ واللہ رائے تو یہی صاحب ہے ورنہ پھر کچھ نہیں ہوسکتا۔(طبقات ابن سعد، جلد 1، صفجہ 234)۔ نجد ریاض کے لوگ حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کےلئے بہت درشت اور بداخلاق ثابت ہوئے جیساکہ ابن ہشام نے لکھا ہے کہ “عہدی نبوی میں اس علاقے کے تعلقات اسلام کے ساتھ تقریبا آخر تک کھینچے ہی رہے۔ قبل از ہجرت ایک حج کے موقع پر حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے جب کوئي پندرہ قبائل کے لوگوں سے یکے بعد دیگرے اس کی خواہش کی کہ آپ کو اپنے گھر لے چلیں تو بنو حنیفہ کے نجدی ہی سب سے زیادہ درشت اور بداخلاق ثابت ہوئے تھے۔ (ابن ہشام ص 283)۔ نجد میں رہنے والے دو بڑے قبائل ہیں جن کا نام مضر اور ربیعہ ہے۔ جن کی بہت سی شاخيں ہیں یہ دونوں قبائل قبل از اسلام بہت جنگجو اورفساد بپا کرنے والے تھے جیساکہ تاریخ ابن خلدون میں بیان ہوا ہے کہ ” اگرچہ قریش کو مکہ میں ایک حکومت حاصل ہوگئی اور قبائل مضر اطراف و جوانب ممالک کو شام و عراق میں اور کچھ حجاز میں منتشر و متفرق ہوگئے۔ اور بعض ان میں بادیہ نشین و خانہ بدوش ہوگئے، اور بعض اسباب عشرت اور سامان تمدن کی فراہمی میں مصروف ہوئے۔
کبھی یہ فارس و روم سے عراق و شام میں لڑتے نظر آتے تھے اور کبھی اپنی حدود کی حفاظت کی غرض سے اپنی قوم کو جمع کرکے اہل عراق و شام سے مقابلہ کرتے دکھائی دیتے تھے۔ ان  لڑائيوں میں اور خون ریزيوں میں کبھی یہ مغلوب ہوکر خراج گزاری پر مجبور ہوجاتے تھے لیکن جب کبھی پھر کوئی موقع ہاتھ آ جاتا تھا تو خراج گزاری، اطاعت شاہی سے منحرف ہوکر مخالفت کربیٹھتے تھے۔
الغرض ٹھنڈے کلیجے  نہ یہ خود پانی پیتے تھے اور نہ پینے دیتے تھے۔ ہمیشہ شاہان عراق  و شام  کو استیصال، فساد و افتاء نیرا فتنہ میں رہنا پڑتا تھا۔ (تاریخ ابن خلدون، جلد 1، صفحہ 31)۔ بنی مضر کی تاریخ پڑھنے سے پتہ چلاکہ یہ قبیلہ بہت جنگجو اور فتنہ فساد والا تھا جس کی وجہ سے اہل عراق و شام ہمیشہ فتنے میں مبتلاء رہتے تھے۔ بنو مضر والے نہ خود چین سے رہتے تھے اور نہ کسی کو رہنے دیتے تھے۔ یہ بات واضع ہوئی کہ یہ قبیلے نجد میں ہی رہتے تھے اور یہاں سے ہی وہ ااہل عراق اور اہل شام کے خلاف فساد بپاء کئے رہتے تھے کیونکہ نجد کی حدود شام اور عراق کیساتھ لگتی ہیں۔ فتح عراق کے بعد بنو مضر اور ربیعہ کے قبیلوں کی بڑی تعداد عراق میں جابسی تھی۔ بنو مضر نجد میں رہتی تھی جیساکہ حدیث میں قبیلہ قیس کے لوگوں کے حوالے سے آتا ہے کہ ” یارسول اللہ صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم! ہم صرف حرمت والے مہینوں میں ہی آپ کی خدمت میں حاضر ہوسکتے ہیں کیونکہ ہمارے اور آپ کے درمیان مضر قبیلے کے کفار حائل ہیں۔
(صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 13) قبیلہ قیس کے لوگ بحرین کے رہنے والے تھے جن کو اہل مشرق میں سے بہترین لوگ کہاگیا ہے جیساکہ فرمایاگیا کہ ” اہل مشرق میں سب سے بہترین لوگ بنو عبدالقیس ہیں۔ (مسند احمد بن حنبل، جلد 7، صفحہ 360، حدیث 17983)۔ اسکی شرح میں ابن حجر عسقلانی کہتے ہیں کہ اس میں دلیل ہے کہ قبیلہ عبدالقیس قبائل مضر سے پہلے مسلمان ہوا تھا اور عبدالقیس کا علاقہ بحرین اور عراق کی اطراف سے اسکے  ساتھ ملنے والے علاقے تھے(فتح الباری، جلد 1، صفحہ 132)۔ قبیلہ قیس کا علاقہ بحرین تھاجیساکہ ” حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی مسجد میں جمعہ کی نماز ہونے کے بعد، سب سے پہلے جمعہ کی نماز ادا کی گئی وہ (مقام) جواثی میں عبدل القیس کی مسجد ہے۔ جواثی بحرین میں ایک جگہ کا نام ہے۔(صحیح بخاری، جلد 2، صفحہ 1469، حدیث 1504)۔ قبیلہ مضر کی ایک بڑی شاخ بنو تمیم ہے جس سے پہلا گستاخ رسول ذی الخویصرہ تمیمی نکلا تھا۔ “تمیم بنو مضر کا بہت بڑا قبیلہ ہے، یہ تمیم بن مر بن عدبان بن طبخہ بن الیاس  بن مضر کی طرف منسوب ہے۔ (عمدۃ القاری، جلد 13، صفحہ 104، صفحہ 83 جلد 8)۔ بنوتمیم نجد کی رہنے والی ہے جیساکہ ” علامہ بدر الدین عینی شارح صحیح بخاری خوارج کے بارے میں لکھتے ہیں کہ : یہ (ذوالخویصرہ کی نسل کے) لوگ نجد کے اس مقام سے نکلے جہاں بنو تمیم آباد ہیں۔ (عمدۃ القاری، جلد 24، صفحہ 90)
اب تک کی بحث سے ثابت ہواکہ احادیث سے صرف ایک نجد ثابت ہے۔ اب ہم نجد کے ان قبیلوں کی طرف آتے ہیں جن سے فتنہ نکلنے کی پیشگوئی فرمائی گئی اور جن کو اہل مشرق بھی کہاگیا ہے۔ مشرق کے لئے دعا کی درخواست پر “نبی صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم نے فرمایاکہ وہاں سے تو شیطان کا سینگ طلوع ہوتا ہے اور دس میں سے نو فیصد شر یہی ہوتا ہے۔ (صحیح بخاری، حدیث 7094، ابن حبان 7301)، یعنی مشرق کی طرف دس میں سے نوفیصد شر ہے۔ اگر کلی مشرق کو اس سے مراد لے لیا جائے تو اس میں پاکستان، انڈیا، چین، ایران اورافغانستان وغیرہ آ جاتے ہیں۔ جبکہ ان ممالک میں کروڑوں محبان رسول صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم رہتے ہیں۔ پھر مشرق سے کونسا علاقہ مراد ہے؟ تو فرمایاگياکہ “کفر کا مرکز مشرق کی طرف ہے، فخر و تکبر گھوڑے والوں میں اور اونٹ والوں میں ہے جن کے دل سخت ہیں  “”  غرور اور ریاکاری، سخت مزاجی اور بد اخلاقی گھوڑوں والوں اور اونٹوں والوں میں ہے۔(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 186/187، حدیث 187/188)
ان حدیثوں میں اشارہ  فرمادیاکہ اونٹوں اور گھوڑوں والوں میں کفر ہے۔ کفر کی صورتیں بھی بیان فرمادیں کہ وہ سخت دل ہیں، مغرور ہیں، ریاکار ہیں، سخت مزاج ہیں۔  پھر دوسرے مقام پر کفر کے مرکز اہل مشرق والوں کی پہچان ان الفاظ میں فرما دی کہ “فخرو غرور شور مچانے والے دیہاتیوں میں جو مشرق کی طرف رہتے ہیں (یعنی ربیعہ اور مضر)(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 189، حدیث 191)۔ دوسرے مقام پر سنگدل لوگوں کی نشاندہی ان الفاظ میں فرمائي کہ” سختی اور سنگدلی ربیعہ اور مضر اونٹوں والوں میں ہے جو اونٹوں کی دموں کے پیچھے پیچھے ہانکتے چلے جاتے ہیں، جہاں سے شیطان کے دو سینگ نکلیں گے یعنی قبیلہ ربیعہ اور مضر۔(صحیح مسلم، جلد 1، صفحہ 184، حدیث 183)۔ ۔ پس ثابت ہواکہ جس نجد سے شیطان کے دو سینگ نکلنے کی پیشگوئی فرمائی گئی وہ نجد ہے جس کے درمیان میں سعودی عرب کا دارالحکومت ریاض آباد ہے۔ اسی نجد سے سب سے پہلا گستاخ رسول عبداللہ ذی الخویصرہ التمیمی نکلا تھا۔ اور اسی نجد کے لوگوں نے حضور صلّی اللہ علیہ وآلہ وسلّم کی ظاہری پردہ پوشی کے بعد ارتداد کیا تھا، اور اسی نجد سے مسیلمہ کذاب جو بنو ربیعہ کی ایک شاخ بنو حنیفہ کا تھا نکلا، جسے بعض آئمہ کرام نے شیطان کے ایک سینگ سے تشبیع دی۔ اسکے علاو  سجاع اور طلیحہ جیسے جھوٹے نبوت کے دعویدار نکلے، اسی نجد سے ابوبلال مرداس جسے خواب میں جہنم میں کتا بنا ہوا دیکھا گیا نکلا جو بنو تمیم کا تھا، خوارج کا ایک فرقہ اباضیہ کا سرخیل عبداللہ بن اباض بھی بنوتمیم کا تھا۔ خوارج کا ایک بڑا سردار نجدہ جو نجد بنوحنیفہ سے تعلق رکھتا تھا نکلا۔ غرض کہ اس نجد سے بےتحاشہ فنتے نکلے ہیں۔ نجد کے فرقہ وہابیہ کے بانی “محمد بن عبدالوہاب” کے بارے میں شیخ احمد بن محمد الصاوی المالکی فرماتے ہیں کہ “”وقيل هذه الآية نزلت في الخوارج الذين يحرّفون تأويل الكتاب والسنة ويستحلون بذلك دماء المسلمين وأموالهم كما هو مُشَاهَدٌ الآن في نَظَائِرهم وهم فرقة بأرض الحجاز يقال لهم الوهابية يحسبون أنهم على شيء ألا إنهم هم الكاذبون استحوذ عليهم الشيطان فأنساهم ذكر الله أولئك حزب الشيطان ألا إن حزب الشيطان هم الخاسرون نسأل الله الكريم أن يقطع دابرهم”. انتهى كلام الشيخ الصاوي المالكي.حاشية العلامة الصاوي على تفسير الجلالين للفقيه أحمد بن محمد الصاوي المالكي المتوفي 1241 ۔
ترجمہ خط کشیدہ
اُن پر شیطان نے غلبہ پا لیا ہے سو اُس نے انہیں اللہ کا ذکر بھلا دیا ہے، یہی لوگ شیطان کا لشکر ہیں۔ جان لو کہ بیشک شیطانی گروہ کے لوگ ہی نقصان اٹھانے والے ہیں