أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَا جَعَلۡنَاۤ اَصۡحٰبَ النَّارِ اِلَّا مَلٰٓئِكَةً‌  ۖوَّمَا جَعَلۡنَا عِدَّتَهُمۡ اِلَّا فِتۡنَةً لِّلَّذِيۡنَ كَفَرُوۡا ۙ لِيَسۡتَيۡقِنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ وَيَزۡدَادَ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِيۡمَانًا‌ وَّلَا يَرۡتَابَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ وَالۡمُؤۡمِنُوۡنَ‌ۙ وَلِيَقُوۡلَ الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ مَّرَضٌ وَّالۡكٰفِرُوۡنَ مَاذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًا ‌ؕ كَذٰلِكَ يُضِلُّ اللّٰهُ مَنۡ يَّشَآءُ وَيَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ ‌ؕ وَمَا يَعۡلَمُ جُنُوۡدَ رَبِّكَ اِلَّا هُوَ ‌ؕ وَمَا هِىَ اِلَّا ذِكۡرٰى لِلۡبَشَرِ ۞

ترجمہ:

اور ہم نے دوزخ کے محافظ صرف فرشتے بنائے ہیں، اور ہم نے ان کی یہ تعداد صرف کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کی ہے، تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور ایمان والوں کا ایمان اور زیادہ ہوجائے اور نہ اہل کتاب شک کریں اور نہ ایمان والے اور تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ کفار یہ کہیں کہ اللہ نے اس عجیب بات کو بیان کرنے سے کیا ارادہ فرمایا ہے ؟ اسی طرح اللہ جس میں چاہے گم راہی پیدا کرتا ہے اور جس میں چاہے ہدایت پیدا کردیتا ہے، اور اللہ کے لشکروں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور یہ صرف بشر کے لیے نصیحت ہے  ؏

فرشتوں کو دوزخ کا محافظ بنانے کی حکمتیں

المدثر : ٣١ میں فرمایا : اور ہم نے ان کی یہ تعدادذ صرف کافروں کی آزمائش کے لیے مقرر کی ہے۔

جب ابو جہل اور ابو الاشدین نے یہ بڑھکیں اور ڈینگیں ماریں اور شیخی بگھاری تو مسلمانوں نے کہا : تم پر افسوس ہے تم فرشتوں کو لوہاروں اور جیل کے داروغوں پر قیام کر رہے ہو۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حسب ذیل وجوہ سے دوزخ کا پہرے دار اور محافظ بنایا ہے۔

(١) تاکہ دوزخ کے داروغہ عذاب یافتہ لوگوں کی جنس سے نہ ہوں کیونکہ اگر وہ جنس سے ہوتے تو ہوسکتا تھا کہ کفار اور مشرکین کے عذاب کو دیکھ کر ان کے دلوں میں کوئی نرمی اور رحم پیدا ہوتا اور جب وہ ان کی مخالف جنس سے ہوں گے تو یہ امکان نہیں رہے گا، اسی لیے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو ہم انسانوں کی جنس سے بھیجا گیا تاکہ آپ ہم پر نرمی اور رحم فرمائیں اور ہمارے لئے رئوف رحیم ہوجائیں۔

(٢) اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں فرشتے سب سے زیادہ ارتکاب معصیت سے دور ہیں اور سب سے زیادہ مشقت عبادت کرنے پر قادر ہیں۔

(٣) ان کی قوت جنات اور انسانوں کی قوت سے زیادہ ہے۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ فرشتے نور سے پیدا کئے گئے ہیں تو وہ غیر متناہی مدت تک دوزخ میں کیسے رہ سکیں گے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ غیر متناہی مدت تک کفار، مشرکین اور منافقین کو دوزخ کی آگ میں زندہ رکھے گا، ان کے اجسام جلتے رہیں گے اور دوبارہ پھر بنتے رہیں گے تو اس کی قدرت سے کب بعید ہے کہ وہ نور سے بنے ہوئے فرشتوں کو غیر متناہی مدت تک بغیر کسی درد اور تکلیف کے زندہ اور قائم رکھے۔

اس کے بعد فرمایا : تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور ایمان والوں کا نور اور زیادہ ہوجائے اور نہ اہل کتاب شک کریں اور نہ ایمان والے، اور تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ کفار یہ کہیں کہ اللہ نے اس عجیب بات کو بیان کر کے کیا اور وہ فرمایا ہے ؟

دوزخ کے فرتوں کی تعداد پر کفار کے اعتراضات اور ان کے جوابات

دوزخ کے محافظوں کی تعداد بیان کرنے میں کفار کی دو وجہ سے آزمائش ہے :

(١) کفار قرآن مجید کا مذاق اڑاتے تھے اور کہتے تھے کہ دوزخ کے محافظ بیس کیوں نہیں ہیں، انیس کے عدد کی کیا خصوصیت ہے ؟

(٢) کفار کہتے تھے کہ انیس کا عدد تو بہت کم ہے اور اہل دوزخ کی تعداد بہت زیادہ ہے، جب سے دنیا بنائی گئی ہے قیامت تک کے کافر، جن اور کافر انسان بےحد اور بیشمار ہیں تو دوزخ میں اتنی بڑی تعداد کی حفاظت کے لیے صرف انیس فرشتے کیسے پورے ہوں گے ؟

پہلے سوال کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قادر مختار ہے، وہ بغیر کسی علت اور سبب کے جتنی چاہتا ہے، جو چیز چاہتا ہے پیدا فرماتا ہے، اس نے سات آسمانوں اور سات زمینیں بنائی ہیں، کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اس سے کم تعداد میں آسمان اور زمینیں کیوں نہیں بنائیں ؟ اس نے نطفہ کو جما ہوا خون بنانے کے لیے چالیس دن مقرر کیے، پھر جمے ہوئے خون کو گوشت کا ٹکڑا بنانے کے لیے چالیس دن مقرر کیے، پھر گوشت کے ٹکڑے کو ہڈیاں بنانے کے لیے چالیس دن مقرر کیے، پھر اس میں روح پھونک دی جاتی ہے۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ اس نے اس سے کم یا زیادہ مدت کیوں مقرر نہیں کی ؟ اس نے ہدایت کے لیے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اور رسل بھیجے، اس سے کم یا زیادہ کیوں نہیں بھیجے ؟ آسمان کتابیں چار نازل کیں، اس سے کم یا زیادہ کیوں نہیں نازل کیں ؟ یہ کوئی سوال نہیں کرسکتا، وہ فاعل مختار ہے اور کسی چیز کا جواب دہ نہیں ہے۔

لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَھُمْ یُسْئَلُوْنَ ۔ (الانبیائ : ٢٣) وہ اپنے کسی فعل پر جواب دہ نہیں ہے اور لوگوں سے سوال کیا جائیگا۔

ان کا دوسرا سوال یہ تھا کہ صرف انیس فرشتوں کی قلیل تعداد ابتداء آفرینش سے قیامت تک تمام کافر جنات اور کافر انسانوں کی دوزخ میں حفاظت کے لیے کیسے کافی ہوگی ؟ میں کہتا ہوں کہ یہ تو انیس فرشتے ہیں، اللہ تعالیٰ اگر چاہتا تو صرف ایک فرشتے بھی ان سب کی حفاظت کرا سکتا تھا، کیا انہوں نے یہ نہیں دیکھا کہ ابتداء آفرنیش سے قیامت تک کے تمام جانداروں کی روح قبض کرنے کے لیے صرف ایک فرشتہ عزرائیل ہے، اگر یہ کہا جائے کہ اس کے انصار اور مددگار اور بہت فرشتے ہیں تو ہم کہتے ہیں کہ ہوسکتا ہے کہ دوزخ کے محافظین کے انصار اور مددگار بھی اور فرشتے ہوں۔ ان معترضین نے اس پر غور نہیں کیا کہ ایک ابلیس ہے اور وہ اکیلا ان جیسے قیامت تک کے تمام لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے، دوزخ کے محافظ فرشتے تو پھر بھی انیس ہیں۔

اس کے بعد فرمایا : اسی طرح اللہ جس میں چاہتا ہے گم راہی پیدا فرما دیتا ہے۔

کفار کی آزمائش کی وضاحت

یعنی جس طرح اللہ تعالیٰ نے کفار کی آزمائش کے لیے دوزخ کے فرشتے کی تعداد انیس مقرر کردی ہے، تاکہ کفار مکہ انیس کی تعداد پر اعتراض کر کے کافر ہوجائیں یا اپنے کفر میں اور راسخ اور پختہ ہوجائیں۔

اس آزمائش کی حسب ذیل توجیہات کی گئی ہیں :

الجبائی نے کہا : آزمائش کا یہ معنی ہے کہ کفار اللہ تعالیٰ کی قدرت کو پہچان لیں کہ اگر وہ چاہے تو صرف انیس فرشتوں کو ایسی طاقت عطاء فرما سکتا ہے، جو لاکھوں فرشتوں کو بھی حاصل نہ ہو۔

الکعبی نے کہا : اس آزمائش سے مراد امتحان ہے تاکہ مؤمنین اس تعداد کی حکمت کو اللہ تعالیٰ کی طرف سونپ کر امتحان میں کامیاب ہوں کہ کفار اس تعداد پر اعتراضات کر کے انجام کارناکام ہوں۔

رہا یہ اعتراض کہ جب کافروں میں کفر کو اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا ہے، تو پھر کافروں کو اس کفر پر سزا کیوں دی جائے گی ؟ اس کا جواب کئی بار دیا جا چکا ہے کہ کافروں نے اس کفر کو خود اختیار کیا تھا اور بندہ اپنے لیے جس چیز کو اختیار کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس میں اسی چیز کو پیدا فرما دیتا ہے۔

سابقہ آسمانی کتابوں میں دوزخ کے فرشتوں کی تعداد کے ذکر پر سید مودودی کے اعتراضات اور ان کے جوابات

ایک سوال یہ ہے کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد انیس ہے، اس کو قرآن مجید میں بیان کرنے کی کیا حکمت ہے ؟ اس کی حسب ذیل وجوہ ہیں :

اللہ تعالیٰ نے فرمایا : تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں اور ایمان والوں کا ایمان اور زیادہ ہوجائے اور نہ اہل کتاب شک کریں۔ ( المدثر : ٣١) اہل کتاب کے شک نہ کرنے اور ان کے یقین کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی آسمانی کتابوں میں یہ تعداد مذور ہے اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی متکب میں نہیں گئے اور آپ نے سابقہ آسمانوں کتابوں کو نہیں پڑھا اور اس کے باوجود آپ نے دوزخ کے فرشتوں کی وہی تعداد بیان کردی ہے جو ان کی آسمانی کتابوں میں لکھی ہوئی ہے، تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کی تصدیق کا بہت بڑا ذریعہ بن گیا۔

سید ابو الاعلیٰ مودودی متوفی ١٣٩٩ ھ نے اس تفسیر پر درج ذیل اعتراض کیا ہے :

یہ تفسیر ہمارے نزدیک دو وجوہ سے صحیح نہیں ہے، اول یہ کہ یہود و نصاریٰ کی جو مذہبی کتابیں دنیا میں پائی جاتی ہیں، ان میں تلاش کے باوجود ہمیں یہ بات کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد ١٩ ہے۔ دوسرے قرآن مجید میں بہ کثرت باتیں ایسی ہیں جو اہل کتاب کے ہاں ان کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کردیتے ہیں کہ ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ باتیں ان کی کتابوں سے نقل کرلی ہیں۔

(تفہیم القرآن ج ٦ ص ٥٠، ادارہ ترجمان القرآن، لاہور، ١٤١١ ھ)

اگر سید مودودی کی بات مان لی جائے تو پھر اس کی کیا توجیہ کی ہوگی کہ اللہ تعالیٰ نے دوزخ کے فرشتوں کی تعداد انیس بیان کرنے کی یہ حکمت بیان فرمائی کہ اہل کتاب یقین کرلیں اور ایمان والوں کا ایمان اور زیادہ ہوجائے اور نہ اہل کتاب پر شک کریں۔ ( المدثر : ٣١) خود سید مودودی نے اللہ عزوجل کے اس ارشاد کی کوئی توجیہ بیان نہیں کی، اور اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد کا لازماً یہی معنی ہے کہ دوزخ کے فرشتوں کی یہ تعداد سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی لکھی ہوئی تھی اور قرآن مجید نے ان کے موافق ان فرشتوں کی تعداد انیس بیان کی، تاکہ اہل کتاب کو قرآن مجید کی صداقت پر یقین آجائے اور ایمان والوں کا قرآن مجید پر ایمان اور پختہ ہوجائے اور اہل کتاب شک نہ کریں۔

رہا سید مودودی کا یہ اعتراض کہ یہود و نصاریٰ کی جو مذہبی کتابیں دنیا میں پائی جاتی ہیں، ان میں تلاش کے باوجود ہمیں یہ آیت کہیں نہیں ملی کہ دوزخ کے فرشتوں کی تعداد ١٩ ہے۔

اس کا جواب یہ ہے کہ سید مودودی کے زمانہ میں جو تورات اور انجیل کے نسخے تھے، ان میں یہ تعداد لکھی ہوئی نہیں ہوگی، لیکن اس سے یہ کب لازم آتا ہے کہ کسی زمانے میں بھی ان کی کتابوں میں یہ تعداد لکھی ہوئی نہیں تھی حتیٰ کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بھی ان کی کتابوں میں یہ تعداد لکھی ہوئی نہیں تھی۔ یہ حقیقت مسلم ہے کہ یہود آئے دن اپنی تورات میں تحریف کرتے رہتے ہیں، اس کی ایک واضح مثال یہ ہے کہ تورات کے ١٩٢٧ ء کے ایڈیشن میں ایک آیت اس طرح لکھی ہوئی تھی۔

اور اس نے کہا خداوند سینا سے آینا اور شعیر سے ان پر طلوع ہوا، فاران ہی کے پہاڑ سے وہ جلوہ گر ہو، دس ہزار قدسیوں کے ساتھ آیا۔ ( کتاب مقدس، تورات، استثناء باب ٣٣، آیت ٢، پرانا عہد نامہ ص ١٩٢، مطبوعہ برٹش اینڈ فاران بائبل سوسائٹی، انار کلی، لاہور، ١٩٢٨ )

جب ان لوگوں نے یہ دیکھا کہ یہ آیت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر منطبق ہو رہی ہے کیونکہ آپ مکہ میں دس ہزار صحابہ کے ساتھ داخل ہوئے تھے، تو انہوں نے اس آیت کے الفاظ بدل دیئے اور یوں لکھا : اور لاکھوں قدسیوں میں سے آیا۔

اب تورات کے موجودہ نسخوں میں یہ آیت اس طرح لکھی ہوئی ہے :

اور اس نے کہا : خداوند سینا سے آیا اور شعیر سے ان پر آشکارا ہوا، اور کوہ فاران سے جلوہ گر ہوا اور لاکھوں قدسیوں میں سے آیا۔ ( کتاب مقدس، تورات، استثناء باب ٣٣، آیت : ٢٠٣، پرانا عہد نامہ ص ٢٠١، مطبوعہ بائبل سوسائٹی، لاہور، ١٩٩٢ ئ)

سید مودودی کا حال کس قدر عجیب ہے کہ وہ قرآن کی اس صریح آیت کو چھوڑ رہے ہیں ” تاکہ اہل کتاب یقین کرلیں الایۃ “ اور چونکہ ان کے زمانہ میں چھپی ہوئی تورات میں یہ آیت نہیں ہے، اس لیے اس کی تصدیق کر رہے ہیں کہ تورات میں یہ آیت نہیں ہے۔

سید مودودی کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ قرآن مجید میں بہ کثرت باتیں ایسی ہیں جو اہل کتاب کے ہاں ان کی مذہبی کتابوں میں بھی بیان کی گئی ہیں، لیکن اس کے باوجود وہ اس کی یہ توجیہ کردیتے ہیں کہ ( سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ باتیں ان کی کتابوں سے نقل کرلی ہیں۔

اگر بالفرض اہل کتاب یہ توجیہ پیش کرتے ہیں تو ان کی یہ توجیہ قطعاً باطل اور مردود ہے، نزول قرآن سے پہلے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کسی مکتب میں پڑھنے کے لیے نہیں گئے تھے اور آپ نے اہل کتاب کی کتابیں نہیں پڑھی تھیں اور نہ نزول قرآن سے پہلے آپ کا لکھنے پڑھنے کے ساتھ کوئی شغل تھا، قرآن مجید میں اس کی شہادت موجود ہے :

وَمَا کُنْتَ تَتْلُوْا مِنْ قَبْلِہٖ مِنْ کِتٰبٍ وَّلَا تَخُطُّہٗ بِیَمِیْنِکَ اِذًا لَّا رْتَابَ الْمُبْطِلُوْنَ ۔ (العنکبوت : ٤٨ )

اور نزول قرآن سے پہلے آپ نہ کوئی کتاب پڑھتے تھے اور نہ کسی کتاب کو اپنے دائیں ہاتھ سے لکھتے تھے ورنہ باطل پرست لوگ شک میں پڑجاتے۔

یعنی اگر نزول کتاب سے پہلے آپ کا لکھنے پڑھنے کا شغل ہوتا تو آپ کی نبوت اور قرآن کے کلام الٰہی ہونے کے منکرین شک میں پڑجاتے اور یہ کہتے کہ آپ ہم کو جو کچھ سنا رہے ہیں وہ سب آپ نے پچھلی کتابوں سے نقل کرلیا ہے اور جب نزول قرآن سے پہلے آپ کا لکھنے پڑھنے کا شغل تھا ہی نہیں تو کسی کو یہ کہنے کی جرأت ہی نہ ہوسکی، یہ جرأت صرف سید مودودی نے کی ہے اور قرآن مجید کی واضح شہادت کے باوجود اہل کتاب کی خود ساختہ توجیہ کی بنیاد پر اس حقیقت کا انکار کر رہے ہیں کہ سابقہ آسمانی کتابوں میں بھی یہ تصریح تھی کہ دوزخ کے محافظ فرشتوں کی تعداد انیس ہے۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بھی تورات اور انجیل مخرف تھی اور اہل کتاب ان کتابوں میں یہ پڑھتے تھے کہ دوزخ کے محافظ فرشتوں کی تعداد انیس ہے، لیکن ان کو اس تعداد پر مکمل اعتماد اور اطمینان نہیں تھا کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ ان دونوں کتابوں میں تحریف ہوتی رہی ہے :

مِنَ الَّذِیْنَ ہَادُوْا یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ عَنْ مَّوَاضِعِہٖ (النسائ : ٤٦ )

یہودی کلام میں اس کے مقامات سے تحریف کرتے رہتے ہیں۔

یُحَرِّفُوْنَ الْکَلِمَ مِنْم بَعْدِ مَوَاضِعِہٖ (المائدہ : ٤١) وہ کلام میں اس کے اصل مقامات کو چھوڑ کر اس میں تحریف

وَقَدْ کَانَ فَرِیْقٌ مِّنْہُمْ یَسْمَعُوْنَ کَلَامَ اللہ ِ ثُمَّ یُحَرِّفُوْنَہٗ مِنْم بَعْدِ مَا عَقَلُوْہُ وَہُمُ یَعْلَمُوْنَ ۔ (البقرہ : ٧٥)

اور ان میں ایک فریق ایسا تھا جو کلام اللہ کو سنتا تھا، پھر عالم اور عاقل ہونے کے باوجود اس میں تحریف کردیتا تھا۔

غرض یہ کہ اہل کتاب کا اپنی کتابوں میں تحریف کرنا ایک ثابت شدہ حقیقت تھی، جس کا انہیں بھی علم اور اعتراض تھا، اس لیے ان کو اس پر کامل اطمینان نہیں تھا کہ دوزخ کے محافظ فرشتوں کی تعداد ١٩ ہے، لیکن جب انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سن لیا تو ان کو بھی اس تعداد پر مکمل اعتماد ہوگیا، یہ اور بات ہے کہ بعد میں انہوں نے اس تعداد کے ذکر کو اپنی کتابوں سے نکال دیا تاکہ ان کی کتابوں کی یہ آیت قرآن مجید کی تصدیق کا ذریعہ نہ بن جائے، اور سید مودودی نے ان کی تصدیق کردی۔

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو کفار قریش کی تکذیب کا علم تھا، اور آپ جانتے تھے کہ جب آپ دوزخ کے فرشتوں کی اس تعداد کا ذکر کریں گے تو کفار آپ کا مذاق اڑائیں گے اور آپ پر ہنسیں گے، اس کے باوجود جب آپ پر یہ آیت نازل ہوئی تو آپ نے اس کو پڑھ کر سنایا اور آپ نے اس کی کوئی پرواہ نہیں کی کہ کفار کیا کہیں گے اور اس وقت سب نے جان لیا کہ اگر آپ کا مقصد دنیا کو طلب کرنا ہوتا اور دنیا میں اپنا تسلط اور اقتدار حاصل کرنا ہوتا تو آپ کبھی اس تعداد کا ذکر نہ کرتے جو آپ کا مذاق اڑانے اور آپ کی نبوت پر طعن کا سبب بنا اور اس سے ہر منصف مزاج شخص پر واضح ہوگیا کہ آپ کا مقصد صرف اللہ کے پیغام کو پہنچانا ہے، خواہ کوئی اس کو مانے یہ مانے۔

دوزخ کے فرشتوں کی تعداد کے بیان سے مؤمنین کے ایمان کے زیادہ ہونے کی وضاحت

نیز اس آیت میں فرمایا ہے : اور ایمان والوں کا ایمان اور زیادہ ہوجائے۔

مؤمنین کا اس پر یقین ہوتا ہے بلکہ ان کا اس پر قوی ایمان ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ازل سے تمام معلومات کا علم ہے اور اس کا علم صحیح ہے اور معلومات کے مطابق ہے اور اس کا علم قدیم اور واجب ہے، اور اس میں تغیر اور زوال محال ہے، اسی طرح اس کا کلام بھی صادق ہے اور واقع کے مطابق ہے اور اس کے کلام میں کذب محال ہے تو جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا : دوزخ کے محافظ فرشتے انیس ہیں تو ان کی اس خبر پر کوئی تردد نہیں ہوا، ان کو پہلے بھی اللہ تعالیٰ کے علم اور اس کے کلام کے صدق پر ایمان تھا، اب اس آیت کی تصدیق کرنے سے یہ ایمان اور زیادہ ہوگیا اور جب ان کے علم یہ آیا کہ کفار مکہ اس تعداد کا انکار کر رہے ہیں اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مذاق اڑا رہے ہیں تو انہوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی مدافعت کی اور اس تعداد کے صدق پر اپنے ایمان کو مزید مستحکم کیا۔

اگر یہ اعتراض کیا جائے کہ تمہارے نزدیک ایمان میں کمی اور زیادتی تو نہیں ہوتی تو پھر ایمان والوں کے ایمان کے زیادہ ہونے کی کیا توجیہ ہوگی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ ہمارے نزدیک نفس ایمان میں کمی اور زیادتی نہیں ہوتی لیکن ایمان کامل میں زیادتی اور کمی ہوتی ہے اور اس آیت میں ایمان والوں کے ایمان سے مراد ایمان کامل ہے، دوسرا جواب یہ ہے کہ نفس ایمان کم اور زیادہ تو نہیں ہوتا، لیکن وہ قوی اور ضعیف ہوتا ہے، اور اس آیت سے مراد یہ ہے کہ جب کفار نے اس تعداد کا مذاق اڑاتا تو ان کا اس تعداد پر ایمان اور قوی ہوگیا۔

اس اعتراض کا جواب کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے، اس کے بعد کفار کا ذکر کرنا تکرار ہے

نیز اس آیت میں فرمایا ہے اور تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے اور وہ کفار یہ کہیں کہ اللہ نے اس عجیب بات کو بیان کر کے کیا ارادہ فرمایا ہے ؟

اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے، قرآن مجید کے عرف میں ان لوگوں سے مراد منافقین ہوتے ہیں، اور یہ سورت مکی ہے اور مکہ میں تو منافقین نہیں تھے، اگر اس کا یہ جواب دیا جائے کہ اس سے مراد کفار ہیں تو کفار کا تو اسکے بعد مستقل ذکر آ رہا ہے پھر یہ تکرار ہوگا، نیز دوسرے جملہ کا پہلے جملہ پر عطف ہے اور عطف تغایر کو چاہتا ہے۔

اس کا ایک جواب یہ ہے کہ اس سے مراد کفار ہی ہیں، لیکن اس تعداد پر اعتراض کرنے والے دو قسم کے تھے، بعض کفار شک کی وجہ سے اس تعداد پر اعتراض کرتے تھے اور یہ وہ لوگ تھے جن کے دلوں میں بیماری تھی اور بعض محض بغض اور عناد کی بناء پر اس تعداد کا مذاق اڑاتے تھے اور اس تعداد پر اعتراض کرتے تھے اور دوسرے جملہ میں جو کفار کا ذکر فرمایا ہے، اس سے مراد کفار کی یہی قسم ہے۔

امام رازی نے اس اعتراض کا یہ جواب دیا کہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے، اس سے مراد منافقین ہی ہیں، رہا یہ اعتراض کی یہ سورت تو مکی ہے اور منافقین تو مدینہ منورہ میں وجود میں آئے تھے، اس کا جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہے، اس کو علم تھا کہ عنقریب منافقین وجود میں آئیں گے، اس لیے اس نے مستقبل میں ہونے والے واقعہ کی پہلے ہی خبر دے دی، اس اعتبار سے یہ آیت معجزہ ہے کہ اس میں غیب کی خبر دی گئی اور بعد میں ایسا ہی ہوا، جن لوگوں کے دلوں میں شک کی بیماری تھی، انہوں نے قرآن مجید پر اعتراضات کیے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ شک کرنے والوں سے اہل مکہ ہی مراد لیے جائیں کیونکہ اکثر کفار مکہ قرآن مجید کے صدق پر شک کرتے تھے اور بعض قرآن مجید کی تکذیب پر یقین رکھتے تھے۔

( تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٧١٤، داراحیاء التراث العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

اس اعتراض کا جواب کہ کفار تو قرآن کو اللہ کا کلام مانتے ہی نہیں تو پھر انہوں نے کیوں کہا : اللہ نے اس مثال سے کیا ارادہ فرمایا ہے ؟

اس آیت میں فرمایا ہے کہ تاکہ جن لوگوں کے دلوں میں بیماری ہے اور کفار یہ کہیں کہ اللہ نے اس عجیب بات کو بیان کر کے کیا ارادہ فرمایا ہے ؟

اس پر یہ اعتراض ہوتا ہے کہ یہ لوگ تو قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام مانتے ہی نہیں تھے، پھر وہ کیسے کہہ سکتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اس عجیب بات سے کیا ارادہ فرمایا ہے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یہ قول منافقین کا ہے تو وہ ظاہر میں قرآن مجید کو اللہ تعالیٰ کا کلام مانتے تھے، اور اگر یہ قول کفار کا ہے تو ان کا مطلب یہ تھا کہ آپ کے نزدیک یہ اللہ عزوجل کا کلام ہے تو بتائیں اللہ تعالیٰ نے اس عجیب مثال سے کیا ارادہ فرمایا ہے ؟

اس سوال کا جواب کہ جب اللہ تعالیٰ خود ہی گمراہی کرتا ہے تو پھر گم راہوں کی مذمت کیوں فرماتا ہے ؟

نیز اس آیت میں فرمایا ہے : اسی طرح اللہ جس میں چاہے گم راہی پیدا کردیتا ہے۔

اس پر یہ اعتراض ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے خود ہی کفار میں گم راہی کو پیدا فرماتا ہے تو پھر ان کی مذمت کیوں فرمائی ہے اور آخرت میں ان کو دوزخ میں کیوں ڈالے گا ؟ اس کے حسب ذیل جوابات ہیں :

(١) جب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ دوزخ کے محافظ فرشتے انیس ہیں تو کچھ لوگوں نے اپنے اختیار سے اس آیت کی تصدیق کردی، اور جو کچھ لوگوں نے اپنے اختیار سے اس آیت کی تکذیب کردی، جن لوگوں نے اس آیت کی اپنے اختیار سے تصدیق کی، ان میں اللہ تعالیٰ نے ایمان پیدا کردیا، اور جن لوگوں نے اپنے اختیار سے اس آیت کی تکذیب کی، ان میں اللہ تعالیٰ نے گمراہی پیدا کردی، پس ہدایت اور گمراہی دونوں کو پیدا اللہ تعالیٰ کرتا ہے اور دنیا میں انسان کی تحسین یا مذمت اور آخرت میں اس کو ثواب یا عذاب اس کے اختیار اور کسب کی وجہ سے ہوتا ہے۔

(٢) معتزلہ نے یہ جواب دیا ہے کہ کفار کو گمراہ کرنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ان پر الطاف اور عنایات نہیں کرتا۔

(٣) معتزلہ نے ایک اور جواب یہ دیا ہے کہ کفار کو گمراہ کرنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن کفار کو جنت کے راستہ کی ہدایت نہیں دے گا۔

اس شبہ کا ازالہ کہ صرف انیس فرشتے تمام دوزخیوں کو کس طرح عذاب پہنچا سکتے ہیں ؟

نیز اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اور اللہ کے لشکروں کو اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

آیت کے اس حصہ میں اس شبہ کا ازالہ ہے کہ فقط انیس فرشتے بیشمار کافر جنات اور کافر انسانوں کو عذاب دینے کے لیے کیسے کافی ہوں گے ؟ اور اس کا ازالہ اس طرح ہے کہ ان انیس محافظوں کے ماتحت کس قدر فرشتے ہیں، ان کی تعداد کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

دوسرا جواب یہ ہے کہ انیس کا عدد مقرر کرنے میں اللہ تعالیٰ کی کیا حکمت ہے، اس کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔

تیسرا جواب یہ ہے کہ کفار اور مشرکین کو دوزخ میں عذاب دینے کے لیے اللہ تعالیٰ کو فرشتوں کی کوئی حاجت نہیں ہے کیونکہ حقیقت میں عذاب دینے والا اللہ تعالیٰ ہی ہے، وہی دوزخ میں کفار اور مشرکین کے اندر درد اور الم کو پیدا فرمائے گا۔

اللہ کے لشکر کا بیان

علامہ سید محمود آلوسی حنفی متوفی ١٢٧٠ ھ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں :

بعض احادیث میں ہے کہ خشکی کی مخلوقات، سمندری مخلوقات کا دسواں حصہ ہیں اور ان کا مجموعہ فضائی مخلوقات کا دسواں حصہ ہے اور ان سب کا مجموعہ آسمان دنیا کے فرشتوں کا دسواں حصہ ہے اور اس کا مجموعہ دوسرے آسمان کے فرشتوں کا دسواں حصہ ہے، اسی طرح ساتویں آسمان تک کے فرشتوں کی تعداد ہے اور اس کا مجموعہ کرسی کے فرشتوں کی تعداد کا دسواں حصہ ہے، اور اس کا مجموعہ حاملین ِعرش کے فرشتوں کی تعداد کا دسواں حصہ ہے اور ان سب کا مجموعہ اللہ تعالیٰ کی معلومات کے مقابلہ میں بہت ہی قلیل ہے اور کوئی نہیں جانتا کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے ماسوا کتنی مخلوقات کو پیدا کیا ہے۔

یہ آیت اور اس کی مثل دیگر آیات اور احادیث سے یہ بات نکلتی ہے کہ جسام علومیہ اللہ تعالیٰ کے لشکروں میں سے لشکر ہیں اور ان کے حقائق اور احوال کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، اور اللہ عزوجل کی سلطنت کے دائرہ کا کلام احاطہ نہیں کرسکتا اور نہ اس کے مرکز کی طرف طائر فکر کی پرواز پہنچ سکتی ہے۔ (روح المعانی جز ٢٩ ص ٢٢١، دارالفکر، ١٤١٧ ھ)

” اور یہ صرف بشر کے لیے نصیحت ہے “ کے مرجع کی تعیین

اس آیت کا آخری جملہ یہ ہے : اور یہ صرف بشر کے لیے نصیحت ہے۔

اس میں اختلاف ہے کہ یہ ضمیر کس کی طرف لوٹ رہی ہے، بعض مفسرین نے کہا : یہ سقر ( دوزخ) کی طرف لوٹ رہی ہے، یعنی اس سے پہلے دوزخ اور اس کی صفات کا جو ذکر فرمایا ہے وہ صرف بشر کے لیے نصیحت ہے تاکہ بشر ایسے کام نہ کرے جو دوزح میں پہنچانے کا موجب ہوں، اور بعض مفسرین نے کہا : یہ ضمیر ان آیات کی طرف راجع ہے جن میں ان متشابہات کا ذکر کیا گیا ہے اور دوزخ کے احوال میں یہ بتایا گیا ہے کہ اس کے محافظ فرشتوں کی تعداد انیس ہے، اور یہ آیات تمام جہان والوں کے لیے نصیحت ہیں لیکن ان سے فائدہ صرف مؤمنین حاصل کرتے ہیں۔

القرآن – سورۃ نمبر 74 المدثر آیت نمبر 31