أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لِمَنۡ شَآءَ مِنۡكُمۡ اَنۡ يَّتَقَدَّمَ اَوۡ يَتَاَخَّرَؕ ۞

ترجمہ:

تم میں سے ہر اس شخص کے لیے ( ڈرانے والی) ہے جو ( نیکی میں) آگے بڑھے یا ( برائی کی وجہ سے) پیچھے رہ جائے۔

 

المدثر : ٣٧ کا معنی یہ ہے کہ تم میں سے جو شخص نیکی میں آگے بڑھنا چاہے، اس کے حق میں دوزخ ڈرانے والی ہے اور جو شخص برائی میں مبتلا ہو کر پیچھے رہنا چاہیے، اس کو بھی دوزخ ڈرانے والی ہے۔

امام رازی کا جبریہ کی تائید کرنا

معتزلہ نے اس آیت سے جبریہ کے خلاف استدلال کیا ہے کہ بندہ اپنے افعال پر قادر ہے، مجبور نہیں ہے۔ امام رازی نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ بندہ کے افعال اس کی مشیت ( اس کے چاہنے) پر موقوف ہیں اور بندہ کی مشیت اللہ تعالیٰ کی مشیت پر موقوف ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

وما تشاء ون الا ان یشاء اللہ ( الدھر : ٣٠) تم وہی چاہتے ہو جو اللہ چاہتا ہے۔

( اس آیت کی تحقیق ہم انشاء اللہ سورة الدھر میں کریں گے) امام رازی فرماتے ہیں : اس صورت میں یہ آیت معتزلہ کے خلاف ہماری دلیل ہے اور اصحاب نے اس آیت کے دو اور جواب بھی دیئے ہیں :

(١) اس آیت میں دھمکانے کے لیے مخاطبین کی مشیت کی طرف نسبت کی ہے، جیسا کہ اس آیت میں ہے :

فَمَنْ شَآئَ فَلْیُؤْمِنْ وَّمَنْ شَآئَ فَلْیَکْفُرْ (الکہف : ٢٩) جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کرے۔

(٢) اس آیت میں بندوں کی مشیت اللہ تعالیٰ کی مشیت پر محمول ہے اور اس کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تم میں سے جس شخص کو آگے بڑھانا چاہے گا یا اللہ تعالیٰ جس شخص کو پیچھے رکھنا چاہے گا، اس کے لیے دوزخ ڈرانے والی ہے۔

(تفسیر کبیر ج ١٠ ص ٧١٤، داراحیاء التراث، العربی، بیروت، ١٤١٥ ھ)

امام رازی کی جبریہ کی تایپد پر مصنف کا تبصرہ

جس طرح اس آیت کی تفسیر میں امام رازی نے جبریہ کی تایپد کی ہے، اسی طرح قرآن مجید کی اور متعدد آیات میں امام رازی نے جبریہ کی تایپد اور تقویت کی ہے، لیکن جمہور ہل سنت کے نزدیک قدر اور جبر دونوں نظریات باطل ہیں، معتزلہ اور قدریہ کا نظریہ ہے کہ انسان اپنے افعال کا خود خالق ہے، اور جبریہ کا مؤقف یہ ہے کہ انسان کو اپنے افعال پر کوئی اختیار نہیں ہے، انسان وہی چاہتا ہے جو اللہ تعالیٰ چاہتا ہے اور انسان وہی فعل کرتا ہے جو اس میں اللہ تعالیٰ پیدا کرتا ہے، اور اہل سنت کا عقیدہ یہ ہے کہ انسان کے افعال کو خلق، اللہ تعالیٰ کرتا ہے کیونکہ وہی ہر چیز کا خالق ہے اور ان افعال کا کسب بندہ کرتا ہے اور کسب کا معنی ہے فعل کا ارادہ کرنا، بندہ جس فعل کا ارادہ کرتا ہے، اللہ تعالیٰ اس میں وہی فعل پیدا کرتا ہے اور بندہ کو جو جزاء اور سزا ملتی ہے وہ بندے کے کسب اور ارادہ کی بناء پر ملتی ہے، اور جبریہ کا مؤقف اس وجہ سے باطل ہے کہ اگر انسان کا اپنے افعال میں کوئی اختیار اور ارادہ نہ ہو تو پھر قیامت، جزاء اور سزا، جنت اور دوزخ سب بےمعنی اور عبث ہوجائیں گے، کیونکہ جب بندہ کا کسی فعل میں کوئی اختیار نہ ہو، اور وہ نیک کام کرے یا بد کام کرے، وہ کام اس کے اختیار اور ارادہ کے بغیر محض اللہ تعالیٰ کے ارادہ اور اس کے پیدا کرنے سے اس سے صادر ہو رہے ہیں تو اسے نیک کاموں پر کس وجہ سے جزاء ملے گی اور برے کاموں پر کس وجہ سے سزا ملے گی ؟ پھر اللہ تعالیٰ کا نبیوں اور رسولوں کو دنیا میں ہدایت کے لیے بھیجنا بھی بےمعنی اور عبث ہوگا، کیونکہ جب انسان کو کسی کام کے کرنے اور نہ کرنے کا اختیار ہی نہیں ہے، تو پھر نبیوں اور رسولوں کا اسے نیکی کی تلقین کرنا اور برائیوں سے روکنا کس وجہ سے ہوگا ؟ نیز ہم دیکھتے ہیں کہ جس شخص کے ہاتھ میں رعشہ ہو، اس کے ہاتھ اس کے اختیار اور اس کا ارادہ کے بغیر حرکت کرتے رہتے ہیں اور جو آدمی صحیح اور تندرست ہو وہ جب چاہے اپنے ہاتھوں کو حرکت دیتا ہے اور جب چاہے حرکت نہیں دیتا اور ان دونوں کی حرکتوں میں بداہۃً فرق ہے، مرتعش کی حرکات اس کے اختیار اور ارادہ کے بغیر صادر ہوتی ہیں، اور تندرست آدمی کی حرکات اس کے اختیار اور ارادہ سے صادر ہوتی ہیں، لہٰذا جبریہ کا یہ کہنا کہ انسان جمادات کی طرح بےاختیار اور مجبور ہے اور امام رازی ایسے عقلیات کے امام کا جبریہ کی تایپد کرنا ہماری عقل سے بالا تر ہے، ممکن ہے اس کی وجہ وجیہ ہو، جس تک ہم نہ پہنچ سکے ہوں۔

القرآن – سورۃ نمبر 74 المدثر آیت نمبر 37