أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَمَنۡ حَآجَّكَ فِيۡهِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَكَ مِنَ الۡعِلۡمِ فَقُلۡ تَعَالَوۡا نَدۡعُ اَبۡنَآءَنَا وَاَبۡنَآءَكُمۡ وَنِسَآءَنَا وَنِسَآءَكُمۡ وَاَنۡفُسَنَا وَاَنۡفُسَكُمۡ ثُمَّ نَبۡتَهِلۡ فَنَجۡعَل لَّعۡنَتَ اللّٰهِ عَلَى الۡكٰذِبِيۡنَ

ترجمہ:

پھر (اے رسول مکرم ! ) جو لوگ علم حاصل ہوجانے کے بعد بھی آپ سے عیسیٰ کے متعلق کٹ حجتی کریں تو آپ کہیں آؤ ہم بلالیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو اور تمہیں پھر ہم مباہلہ (عاجزی کے ساتھ دعا) کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : پھر (اے رسول مکرم ! ) جو لوگ علم حاصل ہوجانے کے بعد بھی آپ سے عیسیٰ کے متعلق کٹ حجتی کریں تو آپ کہیں آؤ ہم بلالیں اپنے بیٹوں کو اور تمہارے بیٹوں کو اور اپنی عورتوں کو اور تمہاری عورتوں کو اور اپنے آپ کو اور تمہیں پھر ہم مباہلہ (عاجزی کے ساتھ دعا) کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ (آل عمران : ٦١)

نصاری نجران کو دعوت مباہلہ کی تفصیل :

نجران کے وفد کے سامنے پہلے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر دلائل پیش کئے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خدا ہیں نہ خدا کے بیٹے ہیں اور اس مسئلہ میں عیسائیوں کے تمام شبہات کو مکمل طور پر زائل کیا ‘ اور جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے یہ دیکھا کہ وہ ہٹ دھرمی سے کسی دلیل کو نہیں مان رہے تو انہیں عاجز کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے ان سے مباہلہ کرنے کا حکم دیا۔

امام ابوالحسن علی بن احمد واحدی نیشا پوری متوفی ٤٥٨ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں

جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نجران کے وفد کو مباہلہ کرنیکے لئے بلایا۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت حسین (رض) کو گود میں اٹھائے ہوئے اور حضرت حسن (رض) کا ہاتھ پکڑے ہوئے نکلے اور حضرت فاطمہ اور حضرت علی (رض) آپ کے پیچھے پیچھے چل رہے تھے اور آپ فرما رہے جب میں دعا کروں تو تم آمین کہنا نصاری کے سردار اسقف نے کہا اے نصاری کی جماعت میں ایسے چہروں کو دیکھ رہا ہوں کہ اگر وہ اللہ سے یہ دعا کریں کہ وہ پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے تو اللہ ان کی دعا قبول کرکے پہاڑ کو اپنی جگہ سے ہٹا دے گا سو تم ان سے مباہلہ نہ کرو ورنہ تم ہلاک ہوجاؤ گے اور قیامت تک روئے زمین پر کوئی عیسائی باقی نہیں بچے گا ‘ پھر انہوں نے جزیہ دینا قبول کرلیا اور اپنے علاقہ میں واپس چلے گئے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : قسم اس ذات کی جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے اللہ کا عذاب اہل نجران کے نزدیک آچکا تھا اور اگر یہ مباہلہ کرتے تو انہیں بندر اور خنزیر بنادیا جاتا اور ان کی وادی میں آگ بھڑکتی رہتی اور اہل نجران کو ملیا میٹ کردیا جاتا حتی کہ درختوں پر پرندے بھی ہلاک ہوجاتے اور سال ختم ہونے سے پہلے تمام عیسائی فنا کے گھاٹ اتر جاتے (الوسیط ج ١ ص ٤٤٤‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

(المستدرک ج ٢ ص ٥٩٤‘ دلائل النبوۃ لابی نعیم ج ٢ ص ٢٩٨‘ طبری ج ٦ ص ٤٨٢۔ ٤٧٨‘ الدرالمنثور ج ٢ ص ٣٩۔ ٣٨‘ کنزالعمال ج ٢ ص ٣٨٠)

امام حاکم نے لکھا ہے کہ یہ حدیث امام مسلم کی شرط کے مطابق صحیح ہے ‘ اور امام ابوعیسی محمد بن عیسیٰ ترمذی متوفی ٢٧٩ ھ روایت کرتے ہیں :

جب یہ آیت نازل ہوئی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت علی (رض) ‘ حضرت فاطمہ (رض) حضرت حسن (رض) اور حضرت حسین (رض) کو بلایا اور فرمایا : اے اللہ ! یہ میرے اہل ہیں۔ یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٤٢٦‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

قرآن مجید کی اس آیت میں حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) پر اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بیٹوں کا اطلاق کیا ہے اور اس کی تائید اس حدیث میں ہے۔ امام ترمذی روایت کرتے ہیں :

حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں ایک رات کسی کام سے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا۔ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) باہر تشریف لائے درآں حالیکہ آپ نے کسی کو چادر میں لیا ہوا تھا جس کا مجھے پتہ نہیں چلا جب میں اپنے کام سے فارغ ہوا تو میں نے پوچھا آپ نے چادر میں کس کو لیا ہوا ہے ؟ آپ نے چادر کھولی تو آپ کے زانو پر حضرت حسن اور حضرت حسین (رض) بیٹھے ہوئے تھے آپ نے فرمایا یہ دونوں میرے بیٹے ہیں اور میری بیٹی کے بیٹے ہیں۔ اے اللہ ! میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ‘ سو تو بھی ان سے محبت کر اور تو اس سے بھی محبت کر جو ان دونوں سے محبت کرے۔ (جامع ترمذی ص ٥٣٩۔ مطبوعہ کراچی)

واضح رہے کہ آپ کی دیگر صاحبزادیوں سے اولاد کا سلسلہ قائم اور جاری نہیں رہا۔ آپ کی آل کے سلسلہ کا فروغ صرف نسب فاطمی سے مقدر تھا۔ نیز آپ کی اولاد کی خصوصیت میں یہ دلیل ہے۔ امام ابو القاسم سلیمان بن احمد طبرانی متوفی ٣٦٠ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت عمر ابن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن ہر سبب اور نسب منقطع ہوجائے گا ماسوا میرے سبب اور نسب کے۔ (المستدرک ج ٣ ص ١٤٢‘ سنن کبری ج ٧ ص ١١٤‘ البدایہ والنہایہ ج ٧ ص ٨١‘ تاریخ بغداد ج ١٠ ص ٢٧١‘ المطالب العالیہ ج ٤ ص ١٧٧) (المعجم الکبیر ج ٣ ص ٣٦‘ ج ١١ ص ٢٤٣‘ مطبوعہ دار احیاء التراث العربی بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ ‘ مجمع الزوائد ج ٤ ص ٢٧٢‘ ٢٧١‘ مطبوعہ بیروت)

سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دلیل : 

مناظرہ اور مجادلہ میں مباہلہ کرنا حق اور باطل کے درمیان فیصلہ کن امر ہے کیونکہ اس میں جھوٹے فریق پر لعنت ثابت ہوجاتی ہے اور اس میں سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر دو دلیلیں ہیں اول یہ کہ اگر آپ کو اپنی نبوت پر یقین واثق نہ ہوتا تو آپ ان کو مباہلہ کی دعوت نہ دیتے اور ثانی یہ کہ فریق مخالف کے سردار عاقب نے مباہلہ کرنے سے انکار کردیا اور جزیہ دینے پر راضی ہوگیا اور وہ اس شرط پر واپس چلے گئے کہ ہر سال ایک ہزار حلے صفر میں اور ایک ہزار حلے رجب میں بھیجیں گے۔

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ عامر روایت کرتے ہیں :

نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان سے فرمایا اگر تم مباہلہ سے انکار کرتے ہو تو اسلام قبول کرلو جو حقوق مسلمانوں کے ہیں وہ تمہارے ہوں گے اور جو چیزیں ان پر فرض ہیں وہ تم پر فرض ہوں گی اور اگر تم کو یہ منظور نہیں ہے تو پھر ذلت کے ساتھ جزیہ ادا کرو اور اگر یہ بھی منظور نہیں ہے تو پھر ہم تمہارے ساتھ جنگ کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم عرب کے ساتھ جنگ کی طاقت نہیں رکھتے لیکن ہم جزیہ ادا کریں گے سو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان پر دو ہزار حلے مقرر کئے ایک ہزار صفر کے مہینہ میں اور ایک ہزار رجب کے مہینہ میں۔ (جامع البیان ج ٣ ص ‘ ٣١١ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

مباہلہ کا لغوی اور اصطلاحی معنی اور اس کا شرعی حکم :

علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں : مباہلہ کا معنی ہے عاجزی کے ساتھ دعا کرنا۔ (المفردات ص ‘ ٦٣‘ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)

امام ابن جریر نے لکھا ہے ‘ مباہلہ کا معنی ہے فریق مخالف کے لئے ہلاکت اور لعنت کی دعا کرنا۔ (جامع البیان ج ٣ ص ٢٠٩‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

امام ابوالحسن علی بن احمد واحدی نیشا پوری متوفی ٤٥٨ ھ ساتھ لکھتے ہیں

لغت میں ابتہال کے دو معنی ہیں۔ عاجزی کے ساتھ اللہ سے دعا کرنا ‘ اور لغت کرنا ‘ اور یہ دونوں قول حضرت ابن عباس (رض) سے مروی ہیں ‘ کلبی سے روایت ہے بہت کوشش کے ساتھ دعا کرنا اور عطاء نے اس آیت کی یہ تفسیر کی ہے کہ ہم جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔ (الوسیط ج ١ ص ٤٤٥‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

مباہلہ کرنا اس شخص کے لئے جائز ہے جس کو اپنے حق پر ہونے کا یقین واثق ہو اور فریق مخالف کے کفر پر ہونے کا یقین واثق ہو اور فریق مخالف کے کفر پر ہونے کا یقین ہو کیونکہ مباہلہ میں یہ دعا کی جاتی ہے :

اے اللہ ہم میں سے جو فریق جھوٹا ہو اس پر لعنت فرما ‘ اور لعنت صرف کافر پر جائز ہے۔ اس میں بھی اختلاف ہے کہ آیا اب بھی مباہلہ کرنا جائز ہے یا نہیں ؟ علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ امام عبد بن حمید نے اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ حضرت ابن عباس (رض) کا کسی شخص سے اختلاف ہوا تو آپ نے اس کو مباہلہ کی دعوت دی اور یہ آیت پڑھی اور مسجد حرام میں حجراسود کے سامنے کھڑے ہو کر ہاتھ بلند کرکے دعا کی ‘ اس حدیث میں یہ دلیل ہے کہ اب بھی مباہلہ کرنا جائز ہے۔ (روح المعانی ج ٣ ص ‘ ١٩٠ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)

ہمارے شیخ علامہ سید احمد سعید کا ظمی قدس سرہ العزیز کا گوجرانوالہ کے مولوی عبدالعزیز سے علم غیب پر مناظرہ ہوا آپ نے مشکوۃ سے یہ حدیث پیش کی کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے دونوں شانوں کے درمیان اپنا دست قدرت رکھا جس کی ٹھنڈک میں نے اپنے سینہ میں محسوس کی سو میں نے جان لیا جو کچھ تمام آسمانوں اور زمینوں میں ہے ‘ مولوی عبدالعزیز نے کہا مشکوۃ بےسند کتاب ہے میں اس کو نہیں مانتا حضرت نے جامع ترمذی سے یہ حدیث نکال کر دکھائی اس نے طیش میں آکر ترمذی شریف کو پھینک دیا ‘ حضرت نے فرمایا تم نے حدیث کی بےادبی کی ہے اب میں تم سے مناظرہ نہیں کرتا مجھ سے مباہلہ کرلو۔ پھر دونوں نے یہ الفاظ کہے کہ ہم میں سے جو فریق باطل ہو وہ دوسرے فریق کے سامنے ایک سال کے اندر خدا کے قہر وغضب میں مبتلا ہو کر مرجائے ‘ مولوی عبدالعزیز جب گوجرانوالہ پہنچے اور صبح کی نماز کے بعد قرآن مجید کا درس دینے بیٹھے اور بولنا چاہا تو الفاظ منہ سے نہ نکلے زبان باہر نکل آئی کافی دنوں تک علاج کی کوشش کی گئی لیکن ڈاکٹروں نے کہہ دیا کہ کوئی مرض ہو تو علاج کیا جائے یہ تو اللہ کا عذاب ہے بالآخر سال پورا ہونے سے پہلے ہی وہ عذاب میں مبتلا ہو کر ہلاک ہوگئے۔

الوہیت مسیح کے ابطال پر ایک عیسائی عالم سے امام رازی کا مناظرہ : 

امام فخر الدین محمد بن ضیاء الدین عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

جن دونوں میں خوارزم میں تھا مجھے معلوم ہوا کہ ایک عیسائی بہت تحقیق اور تدقیق کا مدعی ہے۔ ہم نے علمی گفتگو شروع کردی اس نے مجھ سے پوچھا کہ (سیدنا حضرت) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت پر کیا دلیل ہے ؟ میں نے کہا جس طرح ہم تک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی خبر تواتر سے پہنچی ہے اسی طرح ہم تواتر سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے معجزات کی خبر پہنچی ہے ‘ سو جس طرح ہم اس خبر متواتر کی وجہ سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبی مانتے ہیں اسی طرح ہم اس خبر متواتر کی وجہ سے سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو نبی مانتے ہیں۔ اس عیسائی عالم نے کہا لیکن میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو نبی نہیں خدا مانتا ہوں میں نے کہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے متعلق الوہیت کا دعوی متعدد وجوہ سے باطل ہے۔

(١) خدا اس کو کہتے ہیں جو لذاتہ واجب الوجود ہو اور اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ نہ جسم ہو نہ کسی چیز میں ہو نہ عرض ہو ‘ اور وہ تغیر اور حدوث کی علامات سے منزہ ہو اور حضرت عیسیٰ جسم اور متحیز تھے وہ پہلے معدوم تھے پھر پیدا ہوئے ان پر بچپن ‘ جوانی اور ادھیڑ عمری کے جسمانی تغیرات آئے ‘ وہ کھاتے پیتے تھے ‘ بول وبراز کرتے تھے ‘ سوتے جاگتے تھے اور تمہارے قول کے مطابق ان کو یہودیوں نے قتل کردیا اور صلیب پر چڑھا دیا اور بداہت عقل اس پر شاہد ہے کہ جس شخص کے یہ احوال ہوں وہ خدا نہیں ہوسکتا۔

(٢) تمہارے قول کے مطابق حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) یہودیوں سے چھپتے پھرے اور جب ان کو سولی پر چڑھایا گیا تو وہ بہت چیخے اور چلائے۔ اگر وہ خدا تھے تو ان کو چھپنے کی کیا ضرورت تھی اور چیخنے چلانے کی کیا ضرورت تھی ؟

(٣) اگر حضرت عیسیٰ خدا تھے تو جب یہود نے ان کو قتل کردیا تھا تو بغیر خدا کے یہ کائنات کیسے زندہ رہی۔ ؟

(٤) یہ تواتر سے ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی بہت عبادت کرتے تھے جو شخص خود خدا ہو وہ عبادت کیوں کرے گا ؟

پھر میں نے اس عیسائی عالم سے پوچھا تمہارے نزدیک حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خدا ہونے پر کیا دلیل ہے ؟ اس نے کہا حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) سے بہت عجیب و غریب امور کا ظہور ہوا۔ انہوں نے مردوں کو زندہ کیا ‘ مادر اندھوں اور برص کے مریضوں کو شفا دی ‘ میں نے اس سے کہا لاٹھی کو سانپ بنادینا عقل کے نزدیک مردہ کو زندہ کرنے سے زیادہ عجیب و غریب ہے کیونکہ مردہ آدمی کے بدن اور زندہ آدمی کے بدن میں مشاکلت ہوتی ہے جب کہ لاٹھی اور سانپ میں کوئی مشابہت نہیں ہے اور جب لاٹھی کو سانپ بنا دینے کے باوجود حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا خدا ہونا لازم نہیں آیا تو چار مردے زندہ کرنے سے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا خدا ہونا کیسے لازم آئے گا ؟ (تفسیر کبیر ج ٢ ص ٤٦٤۔ ٤٦٣ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 61