بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰبَنِىۡٓ اِسۡرَآءِيۡلَ اذۡكُرُوۡا نِعۡمَتِىَ الَّتِىۡٓ اَنۡعَمۡتُ عَلَيۡكُمۡ وَاَوۡفُوۡا بِعَهۡدِىۡٓ اُوۡفِ بِعَهۡدِكُمۡۚ وَاِيَّاىَ فَارۡهَبُوۡنِ

اے بنو اسرائیل ! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی ‘ اور تم میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا ‘ اور تم مجھ سے ہی ڈرو

ربط آیات :
اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے توحید ‘ رسالت اور حشر ونشر پر دلائل قائم فرمائے ‘ اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنی عام نعمتوں کو ذکر فرمایا جن سے ہر انسان مستفید ہوا اور ان نعمتوں کا وجود اس پر دلالت کرتا ہے کہ ان کا کوئی موجد ہے جو حکیم اور حمید ہے اور وحدہ لاشریک ہے ‘ ان نعمتوں کا سابقہ آسمانی کتابوں میں ذکر تھا ‘ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی زبان پر اللہ تعالیٰ نے ان نعمتوں کے ذکر کو نازل فرمایا اور سب کو معلوم تھا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کتابوں کو نہیں پڑھا ‘ اور نہ کسی عالم کی صحبت اختیار کی اور پھر آپ نے وہ مضامین اور گزشتہ امتوں کی خبریں اور واقعات بیان کیے جو آسمان کتابوں میں موجود ہیں اور غیب کی خبریں دیں اور یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ یہ آپ کا خود ساختہ کلام نہیں ہے بلکہ اللہ کا کلام ہے جو اس نے آپ کے قلب پر نازل فرمایا ہے، نیز اس بیان میں حشر ونشر پر بھی دلیل ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو اور آسمانوں اور زمینوں کو پیدا کیا اور جب وہ ان سب کو ابتداء پیدا کرنے پر قادر ہے تو فنا کے بعد دوبارہ پیدا کرنے پر بھی قادر ہے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے اہل علم اور اہل کتاب کو خطاب کیا اور ان سے فرمایا کہ وہ ان نعمتوں کو یاد کریں جو اللہ تعالیٰ نے ان کو عطا کی ہیں اور اللہ تعالیٰ سے کیے ہوئے عہد کو پورا کریں اور دلائل کے مطابق حق کی پیروی کریں اور ان کو چاہیے کہ وہ سیدنا حضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور قرآن مجید پر سب سے پہلے ایمان لائیں اور ان کے احکام پر عمل کریں اور آخرت کو نہ بھولیں۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے بنو اسرائیل ! میری اس نعمت کو یاد کرو جو میں نے تم کو عطا کی تھی اور تم میرا عہد پورا کرو میں تمہارا عہد پورا کروں گا۔ (البقرہ : ٤٠)
بنواسرائیل پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا بیان اور ان نعمتوں کے یاد دلانے کی وجہ :
اسرائیل عبرانی زبان کا لفظ ہے، اس کا معنی ہے : اللہ کا برگزیدہ بندہ ‘ یا عبداللہ یا امیر اور مجاہد اور یہ حضرت یعقوب بن اسحاق بن ابراہیم خلیل اللہ کا لقب ہے۔ انسان پر اللہ تعالیٰ کی بیشمار نعمتیں ہیں ‘ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
(آیت) ” وان تعدوا نعمت اللہ لا تحصوھا ‘۔ (ابراہیم : ٣٤)
ترجمہ : اور اگر تم اللہ کی نعمتوں کو شمار کرو تو شمار نہ کرسکو گے۔
عام نعمتوں کے علاوہ جو نعمتوں بالخصوص اولاد اسرائیل کو عطا فرمائیں وہ یہ ہیں کہ ان کو آل فرعون سے نجات دی ‘ ان میں سے انبیاء بنائے ‘ ان پر من وسلوی نازل کیا ‘ ایک پتھر سے ان کے لیے بارہ چشمے رواں کردیئے اور ان کو تورات کا امین بنایا جس میں سیدنا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفات کا بیان ہے اور آپ کی نبوت اور رسالت کا ذکر ہے ‘ ہرچند کہ یہ نعمتیں اس زمانہ کے یہود کے آباء و اجداد کو عطا کی گئی تھیں لیکن آباء و اجداد کو دی گئی نعمتیں انکی اولاد کے حق میں بھی نعمتیں ہوتی ہیں کیونکہ ان نعمتوں سے ان کو عظمت اور فضیلت حاصل ہوتی ہے اور خصوصا یہ نعمتیں ان کی بقاء کا سبب ہیں، اگر فرعون بنو اسرائیل کی نسل کشی جاری رکھتا یا فرعون کے ساتھ بنو اسرائیل کو بھی سمندر میں غرق کردیا جاتا تو آج دنیا میں یہودیوں کا وجود نہ ہوتا اور وہ کب کے صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہوتے۔
اللہ تعالیٰ نے ان کو یہ نعمتیں اس لیے یاد دلائی ہیں کہ وہ غور و فکر کریں اور جب کوئی شخص کسی کی بہ کثرت نعمتوں کو یاد کرتا ہے تو اس کو اس کی مخالفت سے حیا آتی ہے ‘ سو یہودیوں کو اللہ تعالیٰ کے احکام کی مخالفت سے باز آنا چاہیے ‘ اور تورات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جن صفات کا ذکر ہے ان کو چھپانا نہیں چاہیے اور تورات کی وساطت سے یہودیوں نے اللہ تعالیٰ سے جو عہد کیا تھا اس کو پورا کرنا چاہیے اور وہ عہد یہ تھا کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کسی حکم کی نافرمانی نہیں کریں گے ‘ اور اللہ تعالیٰ کے احکام میں ایک حکم یہ بھی تھا کہ وہ حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں گے تو اللہ تعالیٰ بھی ان سے کیا ہوا عہد پورا کرے گا ‘ اور ان کو جنت میں داخل کر دے گا۔
بنواسرائیل اور اللہ تعالیٰ کے مابین عہد کا بیان :
اور یہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی کرم اور اس کا فضل ہے کہ اس نے برابر کا معاملہ کرنے کا فرمایا کہ تم مجھ سے کیا ہوا عہد پورا کرو میں تم سے کیا ہواعہد پورا کروں گا ‘ ورنہ کہاں بندہ کہاں خدا ‘ بندہ اس کا حکم بجا لائے تو اس کا کام ہی بندگی کرنا ہے اور اس اطاعت پر جو اس نے جنت عطا کرنے کا وعدہ فرمایا وہ محض اس کا کرم اور فضل ہے کسی کا اس پر کوئی استحقاق نہیں ہے۔
یہودیوں کا اللہ سے عہد اور اللہ کا ان سے عہد یہ ہے کہ وہ سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کرنے کا عہد پورا کریں تو اللہ تعالیٰ ان سے سخت اور مشکل احکام کا بوجھ اتارنے کا عہد پورا کرے گا اور ان کو جنت میں داخل کرے گا اور عام لوگوں سے عہد یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان لائیں تو دنیا میں ان کی جان اور مال محفوظ رہے گا اور آخرت میں وہ دائمی عذاب سے محفوظ رہیں گے ‘ اور جو فرائض اور واجبات کو ادا کریں گے اور کبیرہ گناہوں سے اجتناب کریں گے تو اللہ تعالیٰ ان کو مغفرت سے نوازے گا اور جو صراط مستقیم پر ثابت قدم رہیں گے اور ابتداء جنت میں چلے جائیں گے اور جو بحرتوحید میں اس طرح مستغرق رہیں گے کہ وہ اپنی ذات سے بھی غافل ہوجائیں انہیں اللہ تعالیٰ کا دیدار ‘ اس کا قرب اور اس کی رضا حاصل ہوگی اور اس آیت کے آخر میں فرمایا ہے کہ اس عہد کے معاملہ میں خاص مجھ ڈرنا کیونکہ عہد شکنی کی صورت میں اللہ کے قہر اور غضب کا سامنا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور اس (قرآن) پر ایمان لاؤ جو میں نے نازل کیا ہے ‘ جو اس (کتاب) کی تصدیق کرنے والا ہے جو تمہارے پاس ہے۔ (البقرہ : ٤١)
قرآن مجید کس چیز میں تورات کا مصدق ہے ؟ ہر نبی کے زمانہ میں اس کی شریعت پر عمل۔۔۔۔ اور حضور کی رسالت کا عموم :
اس آیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ تورات میں یہودیوں نے جو تحریف کردی ہے قرآن مجید ان تحریفات کا بھی مصدق ہے ‘ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن مجید اس کا مصدق ہے کہ تورات بھی ایک آسمانی کتاب ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل کی گئی ہے اور تورات میں انبیاء سابقین کے صحیح واقعات ‘ علماء یہود سے لیے ہوئے عہود ‘ اللہ تعالیٰ کی توحید اور اس کی عبادت کا حکم لوگوں کے درمیان عدل و انصاف کا ارشاد ‘ اللہ کی نافرمانی اور بےحیائی کے کاموں سے ممانعت ‘ ان امور میں قرآن مجید تورات کا مصداق ہے اور چونکہ ہر نبی کی شریعت الگ ہوتی ہے اور اس نبی کے زمانہ اور اس کے تقاضوں کے اعتبار سے احکام وضع کیے جاتے ہیں ‘ اس لیے قرآن مجید بعض جزوی احکام شرعیہ میں تورایت کا مخالف ہے ‘ لیکن یہ مخالفت اصول دین میں نہیں ہے بلکہ فروعی احکام میں اس زمانہ کی خصوصیات کے لحاظ سے ہے مثلا ‘ وضو ‘ نماز ‘ روزہ اور حلال اور حرام چیزوں کی تعداد اور کیفیات میں اختلاف ہے اور اگر قرآن اس زمانہ میں نازل ہوتا تو اس میں وہی تورات کے احکام ہوتے اور اگر تورات اب نازل ہوتی تو اس میں وہی قرآن مجید کے احکام ہوتے ‘ اس لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے ‘ امام احمد (رح) اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں۔
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اہل کتاب سے کوئی مسئلہ معلوم نہ کرو ‘ کیونکہ وہ تم کو ہرگز ہدایت نہیں دیں گے ‘ وہ خود گمراہ ہوچکے ہیں (ان سے سوال کرکے) یا تو تم کسی باطل کی تصدیق کرو گے ‘ یا حق کی تکذیب کرو گے۔ بیشک اگر موسیٰ اس وقت زندہ ہوتے تو ان کے لیے میری اتباع کے سوا اور کچھ جائز نہ ہوتا۔ (مسند ابویعلی ج ٢ ص ٤٢٧۔ ٤٢٦‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ “ بیروت)
حافظ الہیثمی (رح) لکھتے ہیں :
حضرت جابر بن عبداللہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت عمر بن الخطاب کو بعض اہل کتاب سے ایک کتاب ملی ‘ وہ اس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس لے کر آئے اور اس کو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے پڑھا ‘ آپ غضب ناک ہوئے اور فرمایا : اے ابن الخطاب ! کیا تم اس میں متحیر ہو ؟ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! میں تمہاری پاس صاف صاف دین لایا ہوں ‘ تم ان سے جب بھی کسی چیز کے متعلق سوال کرو گے یہ تم کو سچی خبر دیں گے تو تم اس کی تکذیب کرو گے اور جھوٹی خبر دیں گے تو تم اس کی تصدیق کرو گے ‘ اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں میری جان ہے ! اگر موسیٰ (علیہ السلام) تمہارے اس زمانہ میں زندہ ہوتے تو ان کے لیے میری پیروی کے سوا اور کوئی چارہ کار نہ تھا۔ اس حدیث کو امام احمد ‘ امام ابویعلی اور امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں مجالدبن سعید ایک ضعیف راوی ہے۔ (مجمع الزوائد ج ١ ص ١٧٤‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ ١٤٠٢ ھ)
امام احمد (رح) اور امام ابو یعلی (رح) کی روایت کا متن وہ ہے جس کو ہم نے اس سے پہلے ان کے حوالوں سے نقل کیا ہے اور دوسری روایت کا متن غالبا ” مسند بزار “ میں ہے ابھی تک ” مسند بزار “ مکمل نہیں چھپی ‘ ہمارے پاس اس کی ابتدائی تین جلدیں ہیں ‘ ان میں یہ روایت نہیں ہے۔
اس حدیث کی ایک تقریر تو یہ ہے کہ ہر نبی کی شریعت اس کے زمانہ میں واجب العمل ہے حتی کہ اگر متاخر نبی متقدم کے زمانہ میں مبعوث ہوتا یا متقدم نبی متاخر کے زمانہ میں مبعوث ہوتا تو اس کی بعینہ وہی شریعت ہوتی ‘ علامہ بیضاوی کی تفسیر اس تقریر کے مطابق ہے ‘ اور اس حدیث کی دوسری تقریر یہ ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی رسالت تمام انبیاء علیہم الصلوۃ والسلام کو شامل ہے اور یہ آپ کی خصوصیت ہے ‘ اس لیے انبیاء سابقین میں سے جو نبی بھی آپ کے زمانہ میں زندہ ہوتا تو اس کے لیے آپ کی اتباع کے سوا اور کوئی چارہ نہ ہوتا اور آپ کی رسالت کے عموم کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کی شریعت کے بغیر کوئی عمل جائز نہ ہوا اور اس کی وجہ یہ ہے کہ آپ کی شریعت تمام شریعتوں سے اکمل ہے اور آپ کی رسالت کے عموم پر یہ آیت دلیل ہے :
(آیت) ” واذاخذا اللہ میثاق النبین لما اتیتکم من کتب و حکمۃ ثم جآء کم رسول مصدق لما معکم لتؤمنن بہ ولتنصرنہ قالء اقررتم واخذتم علی ذلکم اصری قالوا اقررنا، قال فاشھدوا وانا معکم من الشھدین “۔۔ (آل عمران : ٨١)
ترجمہ : اور (یاد کیجئے) جب اللہ نے (سب) نبیوں سے یہ عہد لیا کہ میں تم کو جو کتاب اور حکمت دوں ‘ پھر تمہارے پاس عظیم رسول آجائیں جو اس کی تصدیق کرنے والے ہوں جو تمہارے پاس (کتاب اور حکمت) ہے تو ضرور ضرور تم اس پر ایمان لانا اور ضرور ضرور اس کی مدد کرنا ‘ فرمایا : کیا تم نے اقرار کیا اور اس پر میرا بھاری عہد قبول کیا ؟ سب نے کہا : ہم نے اقرار کیا ‘ فرمایا پس گواہ رہنا اور میں خود تمہارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔
اگر یہ تمام نبی ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانے میں ہوتے تو ان سب پر لازم تھا کہ یہ آپ پر ایمان لاتے اور آپ کی نصرت کرتے ‘ سو یہ تمام نبی حکما اور تقدیرا آپ کی امت ہیں اور ہم تحقیقا آپ کی امت ہیں اور آپ کی رسالت سب کو عام ہے ‘ یہی وجہ ہے کہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دیگر انبیاء (علیہم السلام) پر اپنی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا :
وارسلت الی الخلق کافۃ وختم بی النبیون “۔
مجھے تمام مخلوق کا رسول بنایا گیا ہے اور مجھ پر نبوت ختم کردی گئی ہے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ١٩٩ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تم سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو۔ (البقرہ : ٤١)
اگر یہ سوال کیا جائے کہ یہودیوں سے پہلے تو مشرکین قرآن مجید کا انکار کرچکے تھے تو یہود کس طرح اس کے سب سے پہلے منکر ہوں گے ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ مراد یہ ہے کہ اہل کتاب میں سے تم سب سے پہلے اس کے منکر نہ بنو ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ اس میں یہ تعریض ہے کہ چونکہ یہ کتاب تمہاری کی مصدق ہے تو تم کو سب سے پہلے اس پر ایمان لانا چاہیے تھا۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور تھوڑی قیمت کے بدلہ میں میری آیتوں کو فروخت نہ کرو اور مجھ سے ڈرو۔۔ (البقرہ : ٤١)
تعلیم قرآن مجید پر اجرت لینے کی تحقیق :
” شراء “ کا لفظ اضداد سے ہے اور یہ خریدنے اور فروخت کرنے دونوں معنوں میں آتا ہے اور یہاں اس سے مراد ” استبدال “ ہے کیونکہ یہودی علماء دنیاوی فوائد کی وجہ سے قرآن مجید پر ایمان نہیں لاتے تھے اور انہوں نے دنیاوی فوائد کے بدلہ میں قرآن پر ایمان لانے کو اختیار کرلیا تھا اور ان کے یہ دنیاوی فوائد اگرچہ ان کے نزدیک بہت زیادہ تھے لیکن قرآن مجید پر ایمان لانے سے ان کو جو اخروی فوائد حاصل ہوتے ان کے مقابلہ میں یہ بہت قلیل اور حقیر تھے ‘ یہ علماء اپنی قوم کے رئیس تھے اور ان کی قوم ان کو تحفے اور ہدیے پیش کرتی تھی اور ان کو یہ خوف تھا کہ اگر وہ قرآن مجید پر ایمان لائے اور انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اتباع کی تو ان کو وہ نذرانے نہیں ملیں گے ‘ اس لیے انہوں نے ان ہدیوں اور نذرانوں کو آخرت پر ترجیح دی ‘ ایک قول یہ ہے کہ وہ رشوت لے کر حق چھپاتے تھے۔
امام ابن جریر طبری (رح) لکھتے ہیں :
اس آیت کا معنی یہ ہے کہ ہم نے تم کو جو اپنی کتاب اور آیات کا علم دیا ہے تم اس علم کو دنیا کے قلیل مال کے عوض فروخت نہ کرو کیونکہ وہ لوگوں سے تورات میں حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کے ذکر کو چھپاتے تھے حالانکہ تورات میں لکھا ہوا تھا کہ وہ نبی امی ہیں جن کا ذکر تورات اور انجیل میں ہے اور وہ اپنے پیروکاروں پر اپنی ریاست اور ان سے نذرانے لینے کے لالچ میں اس کو چھپاتے تھے حالانکہ اس کے عوض میں ان کو ساری دنیا بھی مل جاتی تو وہ قلیل تھی۔ (جامع البیان ج ١ ص ٢٠١۔ ٢٠٠‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)
اس آیت سے بعض علماء نے یہ استدلال کیا ہے کہ تعلیم قرآن پر اجرت لینا جائز نہیں ہے لیکن واضح رہے کہ اس آیت میں اجرت لینے سے منع نہیں کیا بلکہ دنیاوی متاع کے بدلہ میں اللہ کی آیات کو چھپانے سے منع کیا ہے۔
علامہ قرطبی مالکی (رح) لکھتے ہیں :
” صحیح بخاری “ میں ہے کہ جس چیز پر تمہیں سب سے زیادہ اجرت لینے کا حق ہے وہ اللہ کی کتاب ہے۔ اس حدیث میں قرآن مجید پر اجرت لینے کی صاف تصریح ہے اور اسی پر اعتماد کرنا چاہیے ‘ اور اس آیت کا جواب یہ ہے کہ اس آیت کے مخاطب بنو اسرائیل ہیں اور یہ ہم سے پہلے کی شریعت ہے اور یہ ہم پر حجت نہیں ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ١ ص ٣٣٦۔ ٣٣٥‘ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ ١٣٨٧ ھ)
جب خصوصیت مورد اور عام الفاظ میں تعارض ہو تو اعتبار عموم الفاظ کا ہوتا ہے لیکن بعض اوقات قرائن کی وجہ سے خصوصیت مورد کا اعتبار کیا جاتا ہے اور یہاں دلیل کی وجہ سے خصوصیت مورد متعین ہے ‘ علامہ قرطبی (رح) کا یہ کہنا صحیح نہیں ہے کہ ہم سے پہلے کی شریعت ہے۔
ہمارے نزدیک تعلیم قرآن ‘ حج ‘ امامت ‘ اذان اور دیگر عبادات پر اجرت لینا جائز ہے اور اس کی اصل یہ حدیث ہے :
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جن چیزوں پر تم اجر لیتے ہو ان میں اجر کی سب سے زیادہ حقدار اللہ کی کتاب ہے۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٣٠٤‘ ج ٢ ص ‘ ٨٥٤ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨٥ ھ)
یہ حدیث تعلیم قرآن پر اجرت لینے کے باب میں نص صریح ہے ‘ بعض علماء نے اس حدیث کی یہ تاویل کی ہے کہ اس حدیث میں دم کرنے پر اجرت لینے کا جواز ہے ‘ اس سے تعلیم قرآن پر اجرت لینے جواز لازم نہیں آتا ‘ لیکن یہ تاویل اس لیے صحیح ہے کہ اس حدیث میں الفاظ عام ہیں اور خصوصیت مورد کے مقابلہ میں عموم الفاظ کو ترجیح دی جاتی ہے ‘ اور جن احادیث میں ممانعت ہے وہ سب سندا ضعیف ہیں جو اس حدیث صحیح سے معارضہ کی صلاحیت نہیں رکھتیں۔ (فتح الباری : ج ٤ ص ٤٥٤۔ ٤٥٣‘ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ ١٤٠١ ھ)
اس مسئلہ پر دوسری دلیل یہ ہے کہ خلفاء راشدین پانچ وقت کی نمازیں اور جمہ پڑھاتے تھے ‘ وعظ و نصیحت کرتے تھے ‘ مقدمات کے فیصلے کرتے تھے ‘ مسلمانوں کے اندرونی اور بیرونی مسائل کے حل کے لیے کوشاں رہتے تھے اور جہاد کا انتظام کرتے اور ان تمام خدمات کے عوض ان کو بیت المال سے وظیفہ دیا جاتا تھا ‘ اور اخیار امت کا یہ تعامل اس مسئلہ پر واضح دلیل ہے کہ تعلیم قرآن ‘ امامت ‘ خطابت اور دیگر عبادات پر اجرت لینا نہ صرف یہ کہ جائز ہے بلکہ خلفاء راشدین کی سنت ہے ‘ امام بخاری (رح) روایت کرتے ہیں :
حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) خلیفہ بن گئے تو انہوں نے فرمایا : میری قوم کو معلوم ہے کہ میرا کسب (تجارت) میرے اہل و عیال کی کفالت کے لیے ناکافی نہیں تھا اور اب میں مسلمانوں کے معاملات میں مشغول ہوگیا ہوں ‘ اب ابوبکر کے اہل و عیال بیت المال کے مال سے کھائیں گے اور ابوبکر مسلمانوں کے لیے کسب کرے گا۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٢٧٨‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨٥ ھ)
علامہ بدرالدین عینی حنفی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
امام ابن سعد نے ثقہ راویوں کی سند کے ساتھ بیان کیا ہے کہ جب حضرت ابوبکر صدیق (رض) کو خلیفہ بنادیا گیا تو وہ اپنے معمول کے مطابق سر پر کپڑوں کی گٹھڑی رکھ کر بازار میں تجارت کے لیے چلے گئے ‘ راستہ میں حضرت عمر بن الخطاب (رض) اور حضرت ابوعبیدہ بن جراح (رض) سے ملاقات ہوئی ‘ انہوں نے کہا : یہ آپ کیا کر رہے ہیں حالانکہ آپ مسلمانوں کے ولی مقرر ہوچکے ہیں ؟ حضرت ابوبکر (رض) نے کہا : اگر میں تجارت نہ کروں تو پھر اپنے عیال کو کہاں سے کھلاؤں گا ؟ انہوں نے کہا : ہم آپ کے لیے وظیفہ مقرر کرتے ہیں ‘ پھر انہوں نے ہر روز کے لیے نصف بکری مقرر کردی۔
میمون سے روایت ہے کہ جب حضرت ابوبکر (رض) کو خلیفہ بنایا گیا تو مسلمانوں نے آپ کا دوہزار درہم وظیفہ مقرر کیا ‘ حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا : میرے اہل و عیال کا خرچ زیادہ ہے ‘ مجھے اس سے زیادہ کی ضرورت ہے ‘ پھر مسلمانوں نے پانچ سودرہم کا اضافہ کردیا۔ (عمدۃ القاری ج ١١ ص ١٨٥‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ)
نیز علامہ بدرالدین عینی (رح) لکھتے ہیں :
” صحیح بخاری “ کی اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب کسی عامل کے اوپر کوئی اور عامل نہ ہو تو وہ اپنی ضرورت کے مطابق بیت المال سے وظیفہ لے سکتا ہے اور ہر وہ شخص جس کو مسلمانوں کے اعمال کی کوئی ذمہ داری سونپی جائے اس کے لیے بیت المال سے وظیفہ مقرر کیا جائے کیونکہ اس کو اپنی اور اپنے اہل و عیال کی ضرورت کے لیے رقم کی احتیاج ہوتی ہے کیونکہ اگر اس کو کوئی وظیفہ نہیں دیا جائے گا تو وہ باعوض مسلمانوں کے کسی کام پر تیار نہیں ہوگا اور اس سے مسلمانوں کے اجتماعی مفادات اور مصالح ضائع ہوجائیں اسی بنا پر ہمارے اصحاب نے یہ کہا ہے کہ قاضی کو وظیفہ دینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور قاضی شریح (رض) قضاء کا وظیفہ لیا کرتے تھے ’ امام بخاری نے رزق الحکام کے باب میں اس کا ذکر کیا ہے ‘ پھر اگر قاضی ضرورت مند ہو تو بیت المال سے اس کی کفالت واجب ہے اور اس کے پاس اتنی دولت ہو کہ وہ وظیفہ سے مستغنی ہو تو پھر اس کا بیت المال سے وظیفہ نہ لینا افضل ہے اور ایک قول یہ ہے کہ پھر بھی اس کا وظیفہ لینا زیادہ صحیح ہے تاکہ وہ قضاء کے معاملہ اور اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرنے میں سستی نہ کرے ‘ کیونکہ جب وہ اپنے کام کا کوئی وضیفہ نہیں لے گا تو قضاء کی ذمہ داریوں کو توجہ اور باقاعدگی سے پورا نہیں کرے گا۔ (عمدۃ القاری ج ٢ ص ١٧٩‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ)
علامہ عینی نے قاضی کو وظیفہ دینے کی جو وجوہات بیان کی ہیں وہ تمام وجوہات تعلیم قرآن ‘ امامت اور اذان وغیرہ میں بھی پائی جاتی ہیں۔
علامہ آلوسی حنفی ” تشتروا بایاتی ثمنا قلیلا “ کی تفسیر میں لکھتے ہیں :
بعض اہل علم نے آیت سے قرآن مجید اور دیگر علوم کی تعلیم کی اجرت کے عدم جواز پر استدلال کیا ہے اور اس مسئلہ میں بعض احادیث بھی مروی ہیں جو صحیح نہیں ہیں حالانکہ حدیث میں یہ ہے کہ صحابہ کرام۔ نے عرض کیا : کیا ہم تعلیم قرآن پر اجرت لیں ؟ آپ نے فرمایا : جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں سب سے بہتر کتاب اللہ ہے ‘ اور اس کے جواز کے سلسلہ میں علماء کے بکثرت اقوال منقول ہیں اگرچہ بعض علماء نے اس کو مکروہ بھی کہا ہے ‘ اور اس آیت میں اس کی کراہت پر کوئی دلیل نہیں ہے۔ (روح المعانی ج ٣ ص ٦٥٥ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)
اگر یہ کہا جائے کہ عالم دین پر دینی علوم کی تعلیم دینا اور فرائض کی جماعت کرانا فرض ہے اور فرض کا اجر اللہ کے ذمہ ہے (اس کے وعدہ کی بناء پر جو اس نے محض اپنے فضل سے کیا ہے) بندوں کے ذمہ نہیں ہے ‘ تو میں کہوں گا کہ یہ صحیح اور برح ہے لیکن عالم دین پر یہ کب ضروری ہے کہ وہ مثلا جامعہ نعیمیہ میں جا کر تعلیم دے اور وہاں نماز پڑھائے ‘ اور اس پر یہ کب ضروری ہے کہ وہ آٹھ سے بارہ بجے تک چارگھنٹے پڑھائے ‘ اسی طرح اس پر مثلا ظہر کی نماز پڑھانا ضروری ہے ‘ یہ کب ضروری ہے کہ وہ ڈیڑھ بجے ظہر کی نماز پڑھائے ‘ نیز یہ کب ضروری ہے کہ مدرسہ کے معین کردہ نصاب کے عین مطابق پڑھائے ‘ پھر اس پر یہ کب ضروری ہے کہ وہ فلاں فلاں طالب علم کو پڑھائے اور فلاں فلاں لوگوں کو نماز پڑھائے ؟
اس لیے جب کوئی ادارہ کسی عالم دین کو مخصوص مدرسہ کے مخصوص نصاب کے مطابق مخصوص طلبہ کو تعلیم دینے کا پابند کرے گا یا مخصوص مسجد کے مخصوص مسجد کے مخصوص اوقات میں مخصوص لوگوں کو نماز پڑھانے یا اذان دینے کا پابند کرے گا تو وہ معاوضہ ان خصوصیات اور تقییدات کے مقابلہ میں ہوگا ‘ نفس عبادات کا معاوضہ نہیں ہوگا اور نہ کسی عالم کو یہ خیال کرنا چاہیے کہ وہ ان عبادات کا معاوضہ لے رہا ہے عالم کو جس جگہ جس وقت اور جن لوگوں کا پابند کیا جاتا ہے وہ اسی جگہ ‘ اس وقت اور ان لوگوں کی پابندی کرنے کا معاوضہ لیتا ہے۔
اسی طرح یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ ان دینی فرائض کو ادا کرنے میں عالم دین جو وقت صرف کرتا ہے ‘ وہ معاوضہ اس وقت کا ہوتا ہے ان عبادات کا معاوضہ نہیں ہوتا ‘ یا ان ذمہ داریوں کو ادا کرنے میں اس کو جو توانائی خرچ ہوتی ہے یہ معاوضہ اس توانائی کا ہے ان عبادات کا معاوضہ نہیں ہے یا جس طرح حضرت ابوبکر (رض) نے فرمایا کہ اگر میں اس وقت کوئی اور ذریعہ معاش اختیار کرتا تو وہ میری ضروریات کا کفیل ہوتا ‘ اب مسلمانوں کے ان امور کی انجام دہی کی وجہ سے وہ اس کار معاش کو اختیار نہیں کرسکا ‘ لہذا اس کے بدلہ میں اس کی ضروریات کا خرچ قوم یا کسی قومی ادارہ پر واجب ہوگا۔
امام مالک (رح) اور امام شافعی (رح) نے اور ایک قول میں امام احمد (رح) نے عبادات پر معاوضہ لینے کو جائز کہا ہے۔
ہر چند کہ متقدمین فقہاء احناف نے اسلامی فرائض کی بجا آوری پر اجرت لینے سے منع کیا تھا ‘ لیکن اس کی وجہ یہ تھی کہ اس وقت علماء کے لیے بیت المال سے وظائف مقرر کیے جاتے تھے لیکن اب امراء اور سلاطین نے علماء کی کفالت ترک کردی ہے تو اب علماء کا اپنے فرائض منصبی پر اجرت لینا جائز ہے اور متاخرین فقہاء احناف نے بھی اس کے جواز کا فتوی دیا ہے ‘ علامہ بدر الدین عینی حنفی لکھتے ہیں :
امام خیر اخزی نے کہا ہے کہ ہمارے زمانہ میں امام ‘ مؤذن اور معلم کا اجرت لینا جائز ہے ‘ اسی طرح ” روضہ “ اور ” ذخیرہ “ میں ہے۔ (بنایہ شرح ہدایہ ج ٣ ص ٦٥٥‘ مطبوعہ ملک سنز فیصل آباد)
علامہ ابوالحسن مرغینانی لکھتے ہیں :
ہمارے بعض مشائخ نے اس زمانہ میں تعلیم قرآن کی اجرت دینے کو مستحسن قرار دیا ہے ‘ کیونکہ امور دینیہ میں لوگوں پر سستی غالب ہوگئی ہے ‘ اور اجرت نہ دینے میں حفظ قرآن کے ضائع ہونے کا خدشہ ہے ‘ فتوی اسی قول پر ہے۔ (ہدایہ آخرین ص ٣٠٣‘ مطبوعہ مکتبہ شرکۃ علمیہ ‘ ملتان)
علامہ بابرتی (رح) اس کی شرح میں لکھتے ہیں :
اس زمانہ میں تعلیم قرآن پر اجرت دینا جائز ہے اور فقہاء نے اسکے لیے مدت اور اجرت کے مقرر کرنے کو بھی جائز کہا ہے اور اگر مدت مقرر نہ کی گئی ہو تو اجرت مثلی دینے کے وجوب کا فتوی دیا ہے۔
فقہاء نے کہا ہے کہ متقدمین نے تعلیم قرآن مجید کی اجرت لینے سے اس لیے منع فرمایا تھا کہ پہلے معلمین کے لیے بیت المال سے وظائف مقرر تھے ‘ اس لیے معلمین اپنی ضروریات اور معاش میں مستغنی تھے ‘ نیز اس زمانہ میں محض ثواب کے لیے قرآن مجید کی تعلیم دینے کا بھی رجحان تھا اور اب یہ بات باقی نہیں رہی ‘ امام ابوعبداللہ الخیر اخزی نے کہا کہ اس زمانہ میں امام مؤذن اور معلم کے لیے بھی اجرت لینا جائز ہے۔ (عنایہ علی ہامش فتح القدیر ج ٨ ص ٤٠‘ مطبوعہ مکتبہ نوریہ رضویہ ‘ سکھر)
علامہ علاؤالدین الحصکفی لکھتے ہیں :
اس زمانہ میں اجرت پر قرآن مجید کی تعلیم دینے ‘ فقہ پڑھانے ‘ امامت کرنے اور اذان دینے کے جواز کا فتوی دیا جاتا ہے اور اجرت پر تعلیم دلوانے والے کو مقررہ اجرت دینے پر مجبور کیا جائے گا اور اگر پہلے اجرت طے نہ کی گئی ہو تو اس کو اجرت مثلی دینے پر مجبور کیا جائے گا۔ (درمختار علی ہامش ردالمختار ج ٥ ص ٤٦‘ مطبوعہ مطبعہ عثمانیہ استنبول)
علامہ زین الدین ابن نجیم لکھتے ہیں :
علامہ ابن الثحنہ نے کہا ہے کہ فقہاء مدارس سے جو وظیفہ لیتے ہیں وہ اجرت نہیں ہے کیونکہ اس میں اجارہ کی شرائط نہیں پائی جاتیں ‘ اور نہ یہ صدقہ ہے کیونکہ غنی بھی یہ وظیفہ لیتے ہیں ‘ بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ فقہاء درس کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کردیتے ہیں ‘ اس لیے یہ ان کی اعانت ہے ‘ حتی کہ اگر وہ کسی کام یا مشغولیت کی وجہ سے درس میں نہ آسکیں ‘ پھر بھی ان کا وظیفہ لینا جائز ہے۔ (البحر الرائق ج ٥، ص ٢٢٩‘ مطبوعہ مطبعہ ‘ مصر ‘ ١٣١١ ھ)
اب ایک نقطہ بحث طلب رہ گیا ہے کہ اگر علماء ان عبادات پر اجرت لیں تو کیا ان کو آخرت میں اجر ملے گا یا نہیں ‘ میرا یہ گمان ہے کہ اگر علماء اس معاوضہ کو اپنی عبادات کا معاوضہ سمجھ کرلیتے ہیں تو پھر وہ اجر اخروی کے مستحق نہیں ہیں اور اگر وہ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ عبادات تو محض للہ فی اللہ ہیں ‘ وہ محض پابندی اوقات کا معاوضہ لیتے ہیں تو پھر ان کو اجر اخروی کی امید رکھنی چاہیے۔
اس مسئلہ پر سیر حاصل بحث اور جانبین کے دلائل پر تبصرہ ہم نے ” شرح مسلم “ کی ساتویں جلد میں کیا ہے۔
قرآن خوانی کے نذرانوں کے جواز کا بیان :
بعض علماء نے یہ کہا ہے کہ میت کو ثواب پہنچانے کے لیے جو قرآن خوانی کی جاتی ہے اس میں پڑھنے والے چونکہ پیسوں کے عوض قرآن مجید پڑھتے ہیں اس لیے ان کو اس پڑھنے کا اجر نہیں ملتا ‘ اور جب ان کو خود اجر نہیں ملتا تو یہ میت کو کس چیز کا اجر پہنچائیں گے ‘ اور تعلیم قرآن کی اجرت کے لیے جو تاویلات کی جاتی ہیں کہ یہ ضرورت کی وجہ ہے سے ہیں اور قرآن خوانی میں کوئی ضرورت نہیں ہے۔
میں کہتا ہوں کہ ممانعت بعض احادیث کی وجہ سے بیان کی جاتی ہے ’ ’ شرح صحیح مسلم “ جلد سابع کے آخر میں میں نے تفصیل کے ساتھ ان احادیث کا ضعف اور محمل بیان کیا ہے اور جواز کے لیے ” صحیح بخاری “ ’ کی وہ حدیث کافی ہے جس میں یہ ذکر ہے کہ صحابہ کرام (رض) نے سورة فاتحہ پڑھ کر دم کرنے کی اجرت لی اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس پر یہ فرمایا کہ جن چیزوں پر تم اجرت لیتے ہو ان میں اجرت کی سب سے زیادہ مستحق کتاب اللہ ہے۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ٣٠٤)
ثانیا ہمارے عرف میں قرآن خوانی سے پہلے اجرت طے نہیں کی جاتی ‘ پڑھنے والے بغیر کسی مطالبہ کے قرآن مجید پڑھتے ہیں اور پڑھوانے والے حسب توفیق کچھ خدمت کردیتے ہیں اور اگر وہ کچھ نہ دیں تو کوئی ان سے مطالبہ نہیں کرتا اور یہ کہنا کہ پڑھنے والے پیسوں کی نیت سے پڑھتے ہیں ‘ بلاوجہ دوسروں کے حق میں بدگمانی کرنا ہے ‘ نیت کا حال اللہ کے سوا اور کسی کو معلوم نہیں ‘ تاہم اگر یہ اصرار کیا جائے کہ نہیں وہ پیسوں ہی کی وجہ سے پڑھتے ہیں تو جن تاویلات کی وجہ سے تعلیم قرآن ‘ امامت اذان ‘ خطابت اور تدریس کا معاوضہ جائز ہے وہی تاویلات یہاں بھی جاری ہوجائیں گی اور ضرورت کا فرق اس وقت مفید ہوتا جب احادیث صحیحہ سے اس کی ممانعت ہوتی ‘ اس کے برعکس بخاری کی حدیث صحیح سے اس کا جواز ثابت ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور دیدہ دانستہ حق کو نہ چھپاؤ۔ (البقرہ : ٤٢)
یہود کی تلبیس اور کتمان حق کا بیان :
امام ابن جریر طبری (رح) لکھتے ہیں :
” لبس “ کا معنی ہے : اختلاط یعنی حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ ‘ ان میں سے بعض یہ کہتے ہیں کہ سیدنا حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مبعوث ہیں اور یہ حق تھا اور وہ اس حق کے ساتھ اپنی اس باطل تاویل کو ملاتے تھے کہ آپ ان کی طرف مبعوث نہیں ہیں بلکہ ان کے غیر کی طرف مبعوث ہیں ‘ اور یہ باطل ہے کیونکہ آپ تمام مخلوق کی طرف رسول بنا کر بھیجے گئے ہیں۔
ضحاک نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ اس آیت کا معنی ہے : سچ کو جھوٹ کے ساتھ نہ ملاؤ۔
ابن زید نے اس کی تفسیر میں کہا ہے حق سے مراد تورات ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) پر نازل کیا تھا اور باطل سے مراد وہ تحریفات ہیں جن کو وہ اپنے ہاتھوں سے لکھتے تھے۔ (جامع البیان ج ١ ص ٢٠٢‘ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)
علامہ قرطبی (رح) لکھتے ہیں :
حضرت ابن عباس (رض) نے حق کو چھپانے کی تفسیر میں فرمایا : یہود حضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت کو چھپاتے تھے حالانکہ ان کو یہ علم تھا کہ آپ اللہ کے برحق نبی ہیں اور آپ وہی نبی ہیں جن کے مبعوث ہونے کا ذکر تورات میں کیا گیا ہے۔ (الجامع الاحکام القرآن ج ١ ص ٣٤٢ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ ١٣٨٧ ھ)
اس آیت سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عالم پر حق کا اظہار کرنا واجب ہے اور حق کو چھپانا حرام ہے ‘ سورة بقرہ : ١٥٩ میں حق کو چھپانے پر لعنت کی گئی ہے۔ امام ابوداؤد ‘ حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جس شخص سے کسی چیز کے علم کے متعلق سوال کیا گیا اور اس کو چھپایا قیامت کے دن اس کو آگ کی لگام ڈالی جائے گی۔ (سنن ابوداؤد ج ٢ ص ١٥٩‘ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ (البقرہ :)
زکوۃ کا لغوی اور شرعی معنی اور اس کے وجوب کی شرائط کا بیان :
سورة بقرہ : ٣ میں نماز کا معنی ‘ نماز قائم کرنے کی تفسیر اور نماز کی تاکید اور اس کے فوائد کے متعلق تفصیل سے لکھ دیا گیا ہے ‘ زکوۃ کا لغت میں معنی ہے : کسی چیز کا بڑھنا اور پاکیزہ ہونا ‘ اور اس کا شرعی معنی یہ ہے :
نصاب کے مطابق جس مال پر ایک سال گزر گیا ہو اس مال میں سے جالیسویں حصہ کا کسی غیرہاشمی فقیر کو اللہ کی رضا کے لیے مالک بنادینا۔ (درمختار علی ھامش رد المختار ج ٢ ص ٤۔ ٢‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)
زکوۃ مسلمان ‘ عاقل ‘ بالغ اور آزاد شخصی پر فرض ہوتی ہے اور اس کی فرضیت کا سبب ایسامال ہے جو نصاب کے مطابق ہو اور اس پر ایک سال گزر گیا ہو اور اس مال پر کسی مخلوق کا قرض نہ ہو ‘ اگر اس مال پر اللہ کا حق ہو مثلا اس کے ذمہ پچھلی زکوۃ ہو ‘ نذر یا کفار کی ادائیگی ہو یا حج ہو تو وہ زکوۃ کی ادائیگی سے مانع نہیں ہے ‘ البتہ وہ مال اس کی حاجات اصلیہ سے زائد ہو ‘ حاجات اصلیہ میں اس کے اور اس کے بیوی اور بچوں یا اس کے بوڑھے ماں باپ کے کھانے ‘ پینے علاج ‘ کپڑوں اور رہائش کے اخراجات شامل ہیں اور اسی طرح جو اس نے کسی کا قرضہ ادا کرنا ہے وہ بھی اس میں شامل ہے ‘ ان چیزوں کے اخراجات منہا کرنے کے بعد جو رقم اس کے پاس بچے اور نصاب کو پہنچ جائے تو اس پر زکوۃ واجب ہے ‘ فقہاء اسلام کا اس پر اتفاق ہے کہ چاندی کا نصاب دوسودرہم یا پانچ اوقیہ چاندی ہے جو ساڑھے باون تولے یا ٣٦، ٦١٢ گرام کے برابر ہے اور سونے کا نصاب چالیس دینار یا بیس مثقال ہوتا ہے ‘ جو ساڑھے سات تولے یا ٤٨، ٨٧ گرام کے برابر ہے، کرنسی نوٹوں اور مال تجارت کو چاندی کے نصاب کے تابع کیا جائے گا۔
نیز اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔۔ (البقرہ :)
باجماعت نماز پڑھنے کے فوائد :
اس کا معنی ہے : نماز پڑھنے والوں کے ساتھ نماز پڑھو ‘ رکوع نماز کا ایک جز ہے اور یہاں جز کا کل پر اطلاق کیا گیا ہے ‘ اور خصوصیت سے رکوع کا ذکر اس لیے فرمایا کہ یہودیوں کی نماز میں رکوع نہیں ہے اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ‘ اس کا مطلب ہے جماعت کے ساتھ نماز پڑھو اور یہ اس لیے فرمایا ہے کہ یہودی الگ الگ نماز پڑھتے تھے تو ان کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کا حکم دیا تاکہ ان کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے فوائد حاصل ہوں۔ جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے حسب ذیل فوائد ہیں :
(١) تنہا نماز پڑھنے کی بہ نسبت جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ ثواب ہوتا ہے۔
(٢) ہوسکتا ہے تنہا نماز پڑھنے والے کی نماز قبول نہ ہو اور جماعت میں کوئی ایسا مقبول بارگاہ ہو جس کی وجہ سے سب کی نماز قبول ہوجائے۔
(٣) بعض لوگ قراءت صحیح نہیں کرتے یا طمانیت اور اعتدال سے رکوع اور سجود نہیں کرتے ‘ تنہا نماز پڑھیں گے تو ان کی نماز ناقص یا باطل ہوگی اور جماعت کے ساتھ نماز نماز صحیح ادا ہوجائے گی۔
(٤) جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے کسی شخص پر بےنمازی ہونے کی تہمت نہیں لگائی جائے گی اور یہ معلوم ہوجائے گا کہ کون شخص اللہ کا فرمانبردار ہے اور کون شخص نافرمان ہے۔
(٥) اس سے مسلمانوں کی اجتماعی زندگی میں تقویت ملے گی ‘ وہ ایک دوسرے کے دکھ ‘ درد ‘ صحت اور بیماری ‘ خوشی اور غمی اور خوشحالی اور افلاس پر مطلع ہو سکیں گے اور ایک دوسرے کے کام آنے کے مواقع میسر آئیں گے۔
جماعت کے شرعی حکم میں مذاہب فقہاء :
جو علماء جماعت کے وجوب کے قائل ہیں وہ اس آیت میں امر کو وجوب پر محمول کرتے ہیں اور جو وجوب کے قائل نہیں ہیں وہ اس امر کو استحباب پر محمول کرتے ہیں۔
علامہ ابن ھمام حنفی : لکھتے ہیں :
داؤد ظاہری ‘ عطاء ‘ ابو ثور ‘ حضرت ابن مسعود (رض) اور حضرت ابوموسی اشعری (رض) کے نزدیک جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا فرض عین ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ یہ فرض کفایہ ہے ‘ ” غایت “ میں مذکور ہے کہ ہمارے عامہ مشائخ کے نزدیک جماعت واجب ہے اور ایک قول یہ ہے کہ یہ سنت موکدہ ہے جو واجب کے قریب ہے۔ (فتح القدیر ج ١ ص ٣٠٠)
علامہ محمد بن علی بن محمد حصکفی لکھتے ہیں :
مردوں کے حق میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا سنت مؤکدہ ہے ‘ زاہدی نے کہا کہ تاکید سے مراد وجوب ہے ‘ مگر جمعہ اور عید میں جماعت شرط ہے ‘ اور تروایح میں جماعت سنت کفایہ ہے اور رمضان کے وتر میں جماعت مستحب ہے اور غیر رمضان اور نوافل میں بہ طور تداعی کے جماعت مکروہ تنزیہی ہے (بہ شرطی کہ دائما ہو) محلہ کی مسجد میں اذان اور اقامت کے ساتھ جماعت کا تکرار کرنا مکروہ ہے (اذان اور اقامت کے بغیر ہیئت تبدیل کرکے تکرار جماعت جائز ہے) راستہ کی مسجد میں یا جس مسجد میں کوئی امام معین نہ ہو اور نہ مؤذن ہو وہاں جماعت کا تکرار مکروہ نہیں ہے۔ (درمختار علی ہامش ردالمختار ج ٥ ص ٣٧١‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)
علامہ نووی شافعی لکھتے ہیں :
جمعہ میں جماعت فرض عین ہے اور باقی فرائض میں جماعت کے بارے میں اختلاف ہے ‘ زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ فرض کفایہ ہے ‘ دوسرا قول یہ ہے کہ یہ سنت ہے اور تیسرا قول یہ ہے کہ یہ فرض عین ہے۔ (روضۃ الطالبین ج ١ ص ٣٤٣‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ‘ ١٣٠٥ ھ)
علامہ مرادوی حنبلی (رح) لکھتے ہیں :
مردوں پر پانچ وقتوں کی نماز کے لیے جماعت واجب ہے ‘ شیخ تقی الدین وغیرہ نے کہا ہے کہ یہ فرض کفایہ ہے۔ (الانصاف ج ٢ ص ٢١٠ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٣٧٢ ھ)
علامہ خرشی مالکی (رح) لکھتے ہیں :
فرض نمازوں کے لیے یا قضا نمازوں کے لیے جماعت سنت موکدہ ہے اور جمعہ کے سوا کسی نماز میں جماعت واجب نہیں ہے۔ (الخرشی علی مختصر خلیل ج ٢ ص ١٧ مطبوعہ دار صادر ‘ بیروت)
رکوع کا معنی نماز میں رکوع کرنا بھی ہے اور خضوع اور خشوع بھی ہے ‘ اس لیے یہ لفظ جماعت کے لیے قطعی الدلالۃ نہیں ہے اور اس سے جماعت کی فرضیت پر استدلال کرنا ضعیف ہے۔ حسب ذیل احادیث سے جماعت کے سنت موکدہ ہونے پر استدلال کیا گیا ہے :
امام مسلم (رح) روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس ایک نابینا شخص آیا اور اس نے عرض کیا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ! مجھے کوئی شخص مسجد میں لے جانے والا نہیں ہے ‘ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت طلب کی ‘ آپ نے اس کو اجازت دے دی ‘ جب وہ چلا گیا تو آپ نے پھر اس کو بلایا اور فرمایا : تم اذان کی آواز سنتے ہو ؟ اس نے کہا : ہاں ‘ آپ نے فرمایا : تو پھر نماز کے لیے جاؤ۔ ١ (رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حضرت عتبان بن مالک انصاری (رض) کو ان کے نابینا ہونے کی وجہ سے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت دے دی تھی ‘ اس لیے اس لیے اس حدیث میں امر استحباب پر محمول ہے اور اس کا وجوب منسوخ ہے ‘ یعنی جماعت کی فضیلت حاصل کرنے کے لیے مسجد میں جاؤ ہرچند کہ یہ تم پر واجب نہیں ہے) (صحیح مسلم ج ١ ص ٢٣٢‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ ہماری رائے یہ تھی کہ نماز کی جماعت صرف وہ شخص چھوڑتا ہے جو ایسا منافق ہو جس کا نفاق معلوم ہو یا وہ بہت بیمار ہو ‘ بیشک ایک بیمار آدمی دو آدمیوں کے درمیان سہارے سے چل کر نماز پڑھنے کے لیے جاتا تھا اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہم کو سنن الھدی کی تعلیم دی اور سنن الھدی میں سے یہ ہے کہ جس مسجد میں اذان دی گئی ہو اس میں نماز پڑھی جائے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٢٣٢‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)
حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ جس آدمی کو اس سے خوشی ہو کہ کل وہ اللہ سے حالت اسلام میں ملاقات کرے ‘ اسے چاہیے کہ جب ان نمازوں کی اذان دی جائے تو وہ ان کی حفاظت کرے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی کے لیے سنن الہدی کو مشروع کیا ہے اور ان کو جماعت سے پڑھنا سنن الہدی میں سے ہے ‘ اور اگر تم نے گھروں میں نماز پڑھی جیسا کہ فلاں تارک جماعت اپنے گھر میں نماز پڑھتا ہے تو تم اپنے نبی کی سنت کو ترک کردو گے اور اگر تم نے اپنے نبی کی سنت کو ترک کیا تو تم گمراہ ہوجاؤ گے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٢٣٢‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)
ان احادیث میں یہ تصریح ہے کہ جماعت سے نماز پڑھنا سنت موکدہ ہے ‘ اور اس کو فرض عین یا فرض کفایہ کہنا ضعیف قول ہے۔ عورتوں کا مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا اگرچہ فی نفسہ جائز ہے مگر ان کا گھروں میں نماز پڑھنا زیادہ افضل ہے، ” شرح صحیح مسلم “ کی پانچویں جلد میں اس کی بحث ہے۔ نماز عبادات بدنیہ میں سب سے افضل ہے اور زکوۃ عبادات مالیہ میں سب سے افضل ہے ‘ اس لیے ان دونوں کو ساتھ ذکر کیا ہے ‘ امام رازی (رح) نے کہا ہے کہ یہود زکوۃ نہیں دیتے تھے اس لیے زکوۃ کا ذکر کیا اور وہ جماعت سے نماز نہیں پڑھتے تھے اس لیے باجماعت نماز پڑھنے کا ذکر کیا۔
امام شافعی (رح) وغیرہ جو اس کے قائل ہیں کہ کفار فروع کے مخاطب ہوتے ہیں وہ اس آیت سے استدلال کرتے ہیں کہ یہود کافر تھے اور ان کو نماز پڑھنے اور زکوۃ دینے کا حکم دیا ہے اور جو اس کے قائل نہیں ہیں وہ اس کا جواب دیتے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ وہ ایمان لانے کے بعد نماز پڑھیں اور زکوۃ ادا کریں اور یا یہ حکم مسلمانوں کو ہے۔
ہم نے جماعت کے سنت موکدہ ہونے کے متعلق تفصیل سے گفتگو کی ہے ‘ ہمارے زمانہ میں نوافل کی جماعت ‘ عورتوں کی عورتوں کے لیے امامت اور سمجھ دار نابالغ لڑکے کی تروایح میں امامت کے متعلق کافی بحث کی جاتی ہے اس لیے ہم یہاں اس مسئلہ کی تحقیق کر رہے ہیں۔ فنقول وباللہ التوفیق :
نوافل کی جماعت کی تحقیق :
فقہاء احناف کے نزدیک چار سے کم افراد کی جماعت کرنا مطلقا جائز ہے اور اگر چار سے زیادہ افراد ہوں اور دوام کے ساتھ نوافل کی جماعت کی جائے تو مکروہ تنزیہی ہے اور اگر کبھی کبھی نوافل کی جماعت کی جائے تو پھر مکروہ تنزیہی بھی نہیں ہے۔
علامہ ابن عابدین شامی حنفی لکھتے ہیں :
” مختصر قدوری “ میں یہ لکھا ہے کہ نوافل کی جماعت جائز نہیں ہے ‘ اس سے مراد جواز کی نفی نہیں ہے ‘ بلکہ فقہاء نے یہ کہا ہے کہ اس سے مراد یہ ہے کہ نوافل کی جماعت مکروہ ہے کیونکہ ” خلاصۃ الفتاوی “ میں ” قدوری “ سے نقل کیا ہے کہ نوافل کی جماعت مکروہ نہیں ہے اور اس کی تائید ” حلیہ “ میں مذکور ہے کہ امام طحاوی (رح) نے منصور بن مخرمہ سے روایت کیا ہے کہ ہم نے حضرت ابوبکر (رض) کو رات میں دفن کیا تو حضرت عمر (رض) نے کہا : میں نے وتر نہیں پڑھے ‘ پھر وہ کھڑے ہوگئے اور ہم نے ان کے پیچھے صف باندھی ‘ حضرت عمر (رض) نے ہم کو تین وتر کی نماز پڑھائی اور صرف آخر میں سلام پھیرا ‘ پھر صاحب ” الحلیہ “ نے کہا کہ ظاہر یہ ہے کہ نوافل کی جماعت غیر مستحب ہے ‘ اگر یہ جماعت کبھی کبھی ہو جیسا کہ حضرت عمر (رض) نے وتر کی جماعت کرائی تھی تو یہ مباح غیر مکروہ ہے اور اگر دائما ہو تو پھر یہ بدعت مکروہ ہے کیونکہ یہ منقول کے خلاف ہے اور ” مختصر قدوری “ میں جو اس کو ناجائز یعنی مکروہ لکھا ہے وہ دوام پر محمول ہے اور دیگر کتابوں میں جو اس کے خلاف لکھا ہے وہ اس صورت پر محمول ہے جب نوافل کی جماعت احیانا (کبھی کبھی) ہو ‘ علامہ شامی فرماتے ہیں : صاحب الحلیہ “ کی تائید اس سے ہوتی ہے کہ ” البدائع “ میں مذکور ہے کہ ترویح کے سوا نوافل کی جماعت سنت نہیں ہے (بدائع الصنائع ج ١ ص ٢٩٨) کیونکہ سنیت کی نفی کراہت کو مستلزم نہیں ہے ‘ ہاں ! اگر دائما نوافل کی جماعت کی جائے تو پھر یہ مکروہ ہے ‘ اور علامہ خیرالدین رملی (رح) نے ” البحرالرائق “ کے حاشیہ میں لکھا ہے کہ کراہت کی علت دوام ہے ‘ اور ” نہایہ “ میں مذکور ہے کہ وتر من وجہ نفل ہیں کیونکہ وتر کی ہر رکعت میں قراءت واجب ہے اور وتر بغیر اذان اور اقامت کے ادا کیے جاتے ہیں اور نفل جماعت کے ساتھ غیر مستحب ہیں ‘ کیونکہ رمضان کے علاوہ صحابہ کرام (رض) نے وتر جماعت کے ساتھ نہیں پڑھے ‘ اس عبارت میں یہ تصریح ہے کہ نوافل کی جماعت مکروہ تنزیہی ہے۔ (رد المختار ج ١ ص ‘ ٤٧٦‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)
علامہ بخاری (رح) لکھتے ہیں :
اگر امام کے سوا تین نمازی ہوں تو نوافل کی جماعت بالاتفاق مکروہ نہیں ہے ‘ اور چار میں مشائخ کا اختلاف ہے اور زیادہ صحیح یہ ہے کہ یہ بھی مکروہ نہیں ہے۔ (خلاصۃ الفتاوی ج ١ ص ١٥٤‘ مطبوعہ مکتبہ رشیدیہ ‘ کوئٹہ)
امام احمد رضاقادری لکھتے ہیں :
امام کے سوا تین آدمیوں تک تو اجازت ہی ہے ‘ چار کی نسبت کتب حنفیہ میں کراہت لکھتے ہیں یعنی کراہت تنزیہہ جس کا حاصل خلاف اولی ہے نہ کہ گناہ و حرام جیسا کہ ہم نے اپنے فتاوی میں بیان کیا ہے۔ (فتاوی رضویہ ج ٣ ص ٤٨٥۔ ٤٨٠) مگر مسئلہ مختلف فیہ ہے اور بہت اکابرین سے جماعت نوافل بالتداعی ثابت ہے اور عوام فعل خیر سے منع نہ کیے جائیں گے ‘ علماء امت و حکماء ملت نے ایسی ممانعت سے منع فرمایا ہے۔ (امام احمد رضا قادری متوفی ١٣٤٠ ھ ‘ فتاوی رضویہ ج ٣ ص ٥٠٠‘ مطبوعہ لائلپور)
علامہ نور اللہ بصیر پوری نے لکھا ہے کہ کبھی کبھی نوافل کی جماعت کرنا مکروہ تنزیہی بھی نہیں ہے۔ (فتاوی نوریہ ج ١ ص ٢٧٢‘ مطبوعہ لاہور ‘ ١٩٨٣ ء)
خواتین کی امامت کی تحقیق :
جماعت کے مسائل میں سے ایک اہم مسئلہ عورتوں کی جماعت ہے ‘ امام شافعی (رح) کے نزدیک عورت کا عورتوں کو نماز پڑھانا اور ان کا باجماعت نماز پڑھانا جائز ہے ‘ امام احمد کے اس مسئلہ میں دو قول ہیں ‘ ایک قول یہ ہے کہ عورتوں کی جماعت مستحب ہے ‘ اور دوسرا قول یہ ہے کہ غیر مستحب ہے ‘ امام مالک کے نزدیک عورتوں کا عورت کی اقتداء میں نماز پڑھنا ناجائز ہے ‘ امام ابوحنفیہ کے نزدیک عورت کا عورتوں کے لیے امام ہونا مکروہ تحریمی ہے ‘ ہرچند کے امام احمد اور امام شافعی کے نزدیک عورت کا عورتوں کے لیے امام ہونا جائز ہے لیکن انہوں نے یہ تصریح کی ہے کہ عورتوں کا مردوں کے لیے امام ہونا ناجائز ہے اور مردوں کے لیے عورت کی امامت کے باطل ہونے پر ائمہ اربعہ کا اجماع ہے ‘ عورت کی امامت کے جواز کے سلسلہ میں جو احادیث ہیں پہلے ہم ان کا ذکر کریں گے ‘ پھر فقہاء کے مذاہب کو بیان کریں گے۔ فنقول وباللہ التوفیق :
خواتین کی امامت کے متعلق احادیث :
امام ابوداؤد (رح) روایت کرتے ہیں :
عبدالرحمان بن خلاد بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت ام ورقہ سے ملنے ان کے گھر جاتے تھے ‘ آپ نے ان کے لیے ایک موذن مقرر کیا تھا جو ان کے لیے اذن دیتا تھا اور آپ نے حضرت ام ورقہ کو حکم دیا تھا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز پڑھائیں۔ عبدالرحمان کہتے ہیں : میں نے ان کے موذن کو دیکھا ‘ وہ ایک بوڑھا شخص تھا۔ (سنن ابوداؤد ج ١ ص ٨٨۔ ٨٧‘ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)
امام بیہقی (رح) روایت کرتے ہیں :
ولید بن جمیع (رح) بیان کرتے ہیں کہ میری دادی نے حضرت ام ورقہ بنت عبداللہ بن الحارث (رض) سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ‘ ام ورقہ (رض) سے ملاقات کے لیے جاتے تھے اور آپ نے ان کا نام شہیدہ رکھا تھا ‘ حضرت ام ورقہ (رض) نے قرآن حفظ کیا تھا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب غزوہ بدر کے لیے گئے تو حضرت ام ورقہ (رض) نے عرض کیا : مجھے بھی اپنے ساتھ جانے کی اجازت دیں ‘ میں زخمیوں کی دوادارو کروں گی اور مریضوں کی دیکھ بھال کروں گی ‘ شاید اللہ تعالیٰ میرے لیے بھی شہادت مقدر کر دے ‘ آپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے شہادت مقدر کردی ہے ‘ اور آپ نے ان کا نام شہیدہ رکھ دیا ‘ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں حکم دیا کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز پڑھائیں ‘ انہوں نے اپنی ایک باندی اور ایک غلام کو مدبر کردیا تھا حضرت عمر (رض) کے عہد خلافت میں ان دونوں نے حضرت ام ورقہ (رض) کو قتل کردیا ‘ وہ دونوں قتل کر کے بھاگ گئے اور پکڑے گئے ‘ اور ان کو پھانسی دی گئی اور یہ پہلے لوگ تھے جن کو مدینہ میں پھانسی دی گئی ‘ اس وقت حضرت عمر (رض) نے کہا : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سچ فرمایا تھا کہ چلو ہم شہیدہ کی زیارت کریں : (سنن کبری ج ٣ ص ١٣٠‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)
امام حاکم روایت کرتے ہیں :
حضرت ورقہ انصاریہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) فرماتے ہیں : چلو شہیدہ کے پاس جائیں اور ہم ان کی زیارت کریں اور آپ نے یہ حکم دیا تھا کہ ان کے لیے اذان دی جائے اور اقامت کہی جائے اور وہ اپنے گھروالوں کو فرض نمازیں پڑھائیں ‘ مسلم بن ولید بن جمیع نے اس سے استدلال کیا ہے ‘ میں اس مسئلہ میں اس حدیث کے سوا اور کسی حدیث متصل کو نہیں جانتا ‘ اور ہم نے حضرت ام المومنین عائشہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ وہ اذان دیتی تھیں۔ اقامت کہتی تھیں اور عورتوں کو نماز پڑھاتی تھیں۔ (المستدرک ج ١ ص ٢٠٣ مطبوعہ مکتبہ دارالباز ‘ مکہ مکرمہ)
امام بیہقی (رح) روایت کرتے ہیں :
رائطہ حنفیہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) نے فرض نمازوں میں عورتوں کی امامت کی اور ان کے وسط میں کھڑی ہوئیں۔ (سنن کبری ج ٣ ص ١٣١‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)
عطاء بیان کرتے ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) اذان دیتی تھیں ‘ اقامت کہتی تھیں اور عورتوں کی امامت کرتی تھیں اور ان کے وسط میں کھڑی ہوتی تھیں۔ (سنن کبری ج ٣ ص ١٣١‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)
حجیرہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے عورتوں کی امامت کی اور ان کے وسط میں کھڑی ہوئیں۔
حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ عورت عورتوں کی امامت کرے اور ان کے وسط میں کھڑی ہو۔ (سنن کبری ج ٣ ص ١٣١‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)
امام دار قطنی (رح) روایت کرتے ہیں :
حضرت ام ورقہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے عہد میں امامت کرتی تھیں اور آپ نے ان کو اجازت تھی کہ وہ اپنے گھر والوں کو نماز پڑھائیں۔ (سنن دارقطنی ج ١ ص ٤٠٣‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)
رائطہ حنفیہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت عائشہ (رض) فرض نماز میں ہماری امام ہوئیں ‘ اور ہمارے درمیان کھڑی ہوئیں۔ (سنن دارقطنی ج ١ ص ٤٠٤‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)
حجیرہ بنت حصین بیان کرتی ہیں کہ حضرت ام سلمہ (رض) نے ہمیں عصر کی نماز پڑھائی اور ہمارے درمیان کھڑی ہوئیں۔ (سنن دارقطنی ج ١ ص ٤٠٤‘ مطبوعہ نشر السنۃ ‘ ملتان)
خواتین کی امامت کے متعلق فقہاء حنبلیہ کا نظریہ :
علامہ ابن قدامہ حنبلی (رح) لکھتے ہیں :
آیا عورت کا عورتوں کو نماز پڑھانا مستحب ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے ‘ امام احمد (رح) سے ایک روایت یہ ہے کہ یہ مستحب ہے ‘ حضرت عائشہ (رض) حضرت ام سلمہ (رض) عطاء ‘ ثوری ‘ اوزاعی ‘ امام شافعی (رح) ‘ اسحاق ‘ اور ابو ثور ‘ سے روایت ہے کہ عورت ‘ عورتوں کی امامت کرائے ‘ اور امام احمد (رح) سے ایک روایت یہ ہے کہ یہ غیر مستحب ہے ‘ اصحاب رائے (فقہاء احناف) نے اس کو مکروہ کہا ہے ‘ لیکن اگر وہ پڑھیں گی تو نماز ہوجائے گی۔ شعبی ‘ نخعی اور قتادہ (رض) نے کہا ہے کہ نوافل میں عورتوں کا امامت کرانا جائز ہے ‘ فرائض میں جائز نہیں ہے ‘ حسن بصری (رح) اور سلیمان بن یسار (رح) نے کہا ہے کہ عورت فرض میں امامت کرائے نہ نفل میں ‘ امام مالک (رح) نے کہا ہے کہ عورت کسی شخص کی کسی نماز میں امامت نہ کرے کیونکہ عورت کا اذان دینا مکروہ ہے اور اذان کی تعریف ہے : جماعت کی دعوت دینا اور جب اس کے لیے جماعت کی دعوت دینا مکروہ ہے تو جماعت کرنا بھی مکروہ ہے ‘ اور ہماری دلیل حضرت ام ورقہ (رض) کی حدیث ہے۔ (المغنی ج ٢ ص ١٧‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤٠٥ ھ)
علامہ مرداوی حنبلی (رح) لکھتے ہیں :
ہمارا مذہب یہ ہے کہ عورتوں کا مردوں کی امامت کرنا مطلقا جائز نہیں ہے۔ (الانصاف ج ٢ ص ٢٦٣‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت ‘ ١٣٧٢ ھ)
خواتین کی امامت کے متعلق فقہاء شافعیہ کا نظریہ :
علامہ یحییٰ بن شرف نووی (رح) لکھتے ہیں :
اگر عورت مردوں کو نماز پڑھائے تو مردوں کی نماز باطل ہوجائے گی اور اگر عورتوں کو نماز پڑھائے تو جمعہ کی نماز کے سوا یہ تمام نمازوں میں صحیح ہے اور جمعہ کی نماز میں دو قول ہیں ‘ زیادہ صحیح قول یہ ہے کہ یہ نماز نہیں ہوگی اور دوسرا قول یہ ہے کہ نماز ہوجائے گی۔ (شرح المہذب ج ٤ ص ٢٥٥‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت) بقیہ اگلی آیت میں

[Tibyan-ul-Quran 2:40]