بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَمَنۡ يَّرۡغَبُ عَنۡ مِّلَّةِ اِبۡرٰهٖمَ اِلَّا مَنۡ سَفِهَ نَفۡسَهٗ ‌ؕ وَلَقَدِ اصۡطَفَيۡنٰهُ فِى الدُّنۡيَا ‌ۚ وَاِنَّهٗ فِى الۡاٰخِرَةِ لَمِنَ الصّٰلِحِيۡنَ

اور ملت ابراہیم سے اس شخص سوا کون منحرف ہوگا جو بیوقوف ہو ‘ اور بیشک ہم نے ان کو دنیا میں منتخب کرلیا ‘ اور بیشک وہ آخرت میں صالحین میں سے ہیں

ملت کا معنی : 

علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں : 

ملت ان احکام کو کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے انبیاء (علیہم السلام) کی زبانوں سے اپنے بندوں کے لیے مشروع فرمائے تاکہ بندوں کو اللہ کا قرب حاصل ہو ‘ دین کا بھی یہی معنی ہے لیکن دین اور ملت میں یہ فرق ہے یہ دین کی اضافت اللہ کی طرف بھی ہوتی ہے جیسے (آیت) ” لا تاخذکم بہما رافۃ فی دین اللہ “۔ (النور : ٢) اور انبیاء (علیہم السلام) کی طرف بھی دین کی اضافت ہوتی ہے جیسے (آیت) قل یایھا الناس ان کنتم فی شک من دینی “ (یونس : ١٠٤) اور مسلمانوں کی طرف بھی دین کی اضافت ہوتی ہے جیسے (آیت) ” الیوم اکملت لکم دینکم “۔ (المائدہ : ٣) اس کے برعکس ملت صرف انبیاء (علیہم السلام) کی طرف کی جاتی ہے۔ (المفردات ص ‘ ٤٧١ مطبوعہ المکتبۃ المرتضویہ ‘ ایران ‘ ١٣٤٢ ھ)

دین ‘ ملت ‘ شریعت وغیرہا کے مفاہیم اور ان کا باہمی فرق ہم نے سورة فاتحہ میں (آیت) ” مالک یوم الدین “ کی تفسیر میں بیان کیا ہے۔

ملت ابراہیم سے انحراف کا حماقت ہونا “۔ 

اللہ تعالیٰ نے پہلے یہ بیان کیا تھا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی آزمائش میں پورے اترے ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کو تمام لوگوں کا امام بنایا ‘ انہوں نے اللہ کے حکم سے بیت اللہ بنایا اور فرمایا کہ ان کو اپنی اولاد پر شفقت تھی انہوں نے اس کے لیے دعا کی ‘ مدنہ میں رہنے والے یہود اپنا نسب حضرت اسحاق (علیہ السلام) کے واسطہ سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے ثابت کرتے تھے اور نصاری بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی ماں کے واسطے سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف خود کو منسوب کرتے تھے اور قریش مکہ حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے واسطہ سے خود کو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف منسوب کرتے تھے الغرض یہ سب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی طرف منسوب ہونے میں اپنا فخر سمجھتے تھے اور جب یہ ثابت ہوگیا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مبعوث ہونے کی دعا کی تھی اور آپ نے جس دین کی دعوت دی وہی ملت ابراہیم ہے تو اب جو شخص خود کو ابراہیمی کہتا ہو اور دین ابراہیم سے اعراض اور انحراف کرتا ہو اس سے بڑا بیوقوف اور کون ہوگا ! 

تمام انبیاء کا پیدائشی مومن ہونا : 

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے اللہ تعالیٰ نے فرمایا : ” اسلم “ اسلام لاؤ “ امام رازی نے کہا : اس میں علماء کا اختلاف ہے کہ یہ کس وقت فرمایا ‘ ایک قول یہ ہے کہ یہ نبوت سے پہلے فرمایا جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ستارے ‘ چاند اور سورج کے ڈوبنے سے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت پر استدلال کر رہے تھے اور جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کرلی تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اسلام لاؤ اور انہوں نے کہا : میں تمام جہانوں کے رب پر اسلام لایا۔ 

امام رازی نے کہا : اکثر علماء کی یہی رائے ہے ‘ اور بعض علماء نے کہا : یہ حکم نبوت کے بعد تھا اور اس کا معنی ہے : اسلام پر مستقیم رہو اور توحید پر قائم رہو۔ (تفسیر کبیر ج ١ ص ٤٨٧ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ) 

علامہ ابو الحیان اندلسی نے بھی یہی لکھا ہے۔ (البحرالمحیط ج ١ ص ٦٣١‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ) 

اور علامہ آلوسی نے بھی یہ دو قول ذکر کیے ہیں (روح المعانی ج ١ ص ٣٨٨‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)

بہرحال یہ حکم نبوت سے پہلے ہو یا بعد ‘ انبیاء (علیہم السلام) پیدائشی مومن ہوتے ہیں اور نبوت سے پہلے کفر سے معصوم ہوتے ہیں ‘ اس لیے اس کا معنی ہے : اعضاء سے اطاعت کرو یا اسلام پر ثابت قدم رہو یا اپنے آپ کو ہمیں سونپ دو ‘ اس کا یہ معنی نہیں ہے کہ ایمان لے آؤ جس سے یہ وہم ہو کہ آپ پہلے مومن نہیں تھے۔ معاذ اللہ۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 130