بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

سَيَقُوۡلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰٮهُمۡ عَنۡ قِبۡلَتِهِمُ الَّتِىۡ كَانُوۡا عَلَيۡهَا ‌ؕ قُل لِّلّٰهِ الۡمَشۡرِقُ وَالۡمَغۡرِبُ ؕ يَهۡدِىۡ مَنۡ يَّشَآءُ اِلٰى صِراطٍ مُّسۡتَقِيۡمٍ

عنقریب بیوقوف لوگ کہیں گے کہ ان (مسلمانوں کو) ان کے اس قبلہ ( بیت المقدس) سے کس نے پھیر دیاجس پر وہ (پہلے) تھے آپ کہیے کہ مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں ‘ وہ جسے چاہے صراط مستقیم پر چلاتا ہے

آیا مکہ میں ابتداء آپ کا قبلہ کعبہ تھا یا بیت المقدس ؟

علامہ قرطبی لکھتے ہیں :

اس میں اختلاف ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ابتداء نماز فرض ہوئی تو آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے یا خانہ کعبہ کی طرف ‘ حضرت ابن عباس کا قول یہ ہے کہ مکہ مکرمہ میں اور مدینہ منورہ کے ابتدائی سترہ مہینوں میں آپ بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے ‘ پھر اللہ تعالیٰ نے آپ کو خانہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا ‘ علامہ بدرالدین عینی نے اسی قول کو ترجیح دی ہے (عمدۃ القاری ج ١ ص ٢٤٠) تاہم آپ مکہ مکرمہ میں بیت المقدس کی طرف منہ کر کے اس طرح کھڑے ہوتے تھے کہ کعبہ کی طرف پیٹھ نہیں ہوتی تھی۔ دوسروں نے یہ کہا ہے کہ جب آپ پر ابتداء نماز فرض ہوئی تو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم ہوا ‘ حافظ ابوعمرو ابن عبدالبر ‘ نے کہا : میرے نزدیک یہ قول زیادہ صحیح ہے ‘ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) مدینہ منورہ میں آئے تو آپ نے یہود کی تالیف قلب کے لیے ان کے قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی تاکہ دین اسلام کو قبول کرنے کے لیے ان میں زیادہ داعیہ ہو اور جب آپ ان کے قبول اسلام سے مایوس ہوگئے تو آپ نے یہ چاہا کہ آپکو پھر کعبہ کی طرف پھیر دیا جائے۔ ایک قول یہ ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کرنے میں اہل عرب کے قبول اسلام کا زیادہ داعیہ تھا ‘ ایک قول یہ ہے کہ آپ نے یہود کی مخالفت کی بناء پر ایسا کیا۔

تاہم اگر یہ مان لیا جائے کہ مکہ میں آپ کا قبلہ کعبہ تھا تو پھر دو بار قبلہ کا منسوخ ہونا لازم آئے گا اس لیے محققین کا یہ نظریہ ہے کہ ابتداء مکہ مکرمہ میں بھی بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے۔

تحویل قبلہ کا بیان :

امام بخاری (رح) روایت کرتے ہیں :

حضرت براء (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ابتداء مدینہ میں آئے تو اپنے نانا یا ماموں کے گھر ٹھہرے اور آپ نے سولہ یاسترہ ماہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھی اور آپ کو یہ پسند تھا کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ ہوجائے اور آپ نے اس کی طرف منہ کرکے جو پہلی نماز پڑھی نماز پڑھی وہ عصر کی نماز تھی ‘ آپ کے ساتھ ایک جماعت نے نماز پڑھی ‘ پھر آپ کے ساتھ نماز پڑھنے والوں میں سے ایک شخص ایک مسجد والوں کے پاس سے گزرا وہ اس وقت رکوع میں تھے ‘ اس نے کہا : میں شہادت دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے ‘ وہ لوگ نماز کی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھرگئے یہود اور دیگر اہل کتاب کو یہ پسند تھا کہ آپ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے رہیں ‘ جب آپ نے بیت اللہ کی طرف منہ کرلیا تو ان کو یہ ناگوار ہوا۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ١١۔ ١٠ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

علامہ بدرالدین عینی لکھتے ہیں کہ اس مسجد کے نمازیوں کو خبر واحد سے یہ علم ہوگیا کہ قبلہ بدل گیا ہے ‘ اب ان کے لیے یہ بھی ممکن تھا کہ وہ اس نماز کو توڑ کر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس جاتے اور تحویل قبلہ کی تحقیق کرتے اور یہ بھی ممکن تھا کہ وہ اس خبر پر اعتماد کرکے نماز میں قبلہ بدل لیتے ‘ انہوں نے اجتہاد سے دوسری صورت پر عمل کیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ خبر واحد حجت ہے اور اپنے اجتہاد سے نماز میں قبلہ کی سمت بدلنا جائز ہے ‘ بلکہ اگر ہر رکعت میں اس پر قبلہ مشتبہ ہو تو وہ اپنے اجتہاد سے ہر رکعت میں سمت بدل لے۔ (عمدۃ القاری ج ١ ص ‘ ٢٤٨ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ)

علامہ قرطبی لکھتے ہیں :

” صحیح بخاری “ کی اس روایت میں یہ مذکور ہے کہ تحویل قبلہ کے بعد بیت اللہ کی طرف جو نماز سب سے پہلے پڑھی گئی وہ عصر کی نماز تھی ‘ اور امام مالک کی روایت میں ہے ‘ وہ صبح کی نماز تھی اور ایک قول یہ ہے کہ یہ حکم بنو سلمہ کی مسجد میں نازل ہوا اس وقت آپ ظہر کی نماز میں تھے اور دو رکعت پڑھ چکے تھے ‘ پھر نماز ہی میں آپ نے قبلہ بدل لیا اور باقی دو رکعتیں بیت اللہ کی طرف منہ کر کے پڑھیں اور اس مسجد کا نام مسجد القبلتین رکھا گیا ‘ چونکہ بیت اللہ اور بیت المقدس ایک دوسرے کے بالمقابل ہیں اس لیے نماز میں مرد گھوم کر عورتوں کی جگہ آگئے اور عورتیں گھوم کر مردوں کی جگہ چلی گئیں۔

ابو حاتم البستی نے بیان کیا ہے کہ مسلمانوں نے سترہ ماہ اور تین دن بیت المقدس کی طرف نماز پڑھیں ‘ کیونکہ آپ بارہ ربیع الاول کو مدینہ منورہ آئے تھے اور اللہ تعالیٰ نے آپ کو منگل کے دن نصف شعبان کو کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دیا بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کی کیفیت میں علماء کے تین اقوال ہیں :

(١) حسن ‘ عکرمہ اور ابوالعالیہ نے کہا : آپ نے اپنی رائے اور اجتہاد سے بیت المقدس کی طرف منہ کیا تھا۔

(٢) طبری نے کہا : آپ کو بیت المقدس اور بیت اللہ میں سے کسی ایک کی طرف منہ کرنے کا اختیار دیا گیا تھا آپ نے یہود کے ایمان لانے کی خواہش کی وجہ سے بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کا اختیار کرلیا۔

(٣) حضرت ابن عباس (رض) نے کہا : آپ نے اللہ کی وحی اور اس کے حکم سے بیت المقدس کی طرف منہ کرنے کو اختیار کیا تھا کیونکہ قرآن مجید میں ہے :

جس قبلہ پر آپ پہلے تھے ہم نے اس کو اسی لیے قبلہ بنایا تھا تاکہ ہم ظاہر کردیں کہ کون رسول اللہ کی پیروی کرتا ہے (اور اس کو اس سے ممتاز کردیں ‘ جو اپنی ایڑیوں پر پلٹ جاتا ہے) اور یہی جمہور کا مسلک ہے (الجامع الاحکام القرآن ج ٢ ص ١٥٠۔ ١٤٨ مطبوعہ انتشارات ناصر خسرو ایران ٗ ١٣٨٧ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : آپ کہیے کہ مشرق اور مغرب اللہ ہی کے ہیں وہ جسے چاہے صراط مستقیم پر چلاتا ہے۔۔ (البقرہ : ١٤٢)

تحویل قبلہ سے متعلق مسائل :

اس آیت میں منافقین اور یہود کے اعتراض کا جواب دیا ہے کہ بیت المقدس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا مقصد یہ نہیں تھا کہ بیت المقدس خود مستقل بالذات ہے کیونکہ مشرق اور مغرب سب اس کی ملک ہیں ‘ وہ جس طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دے وہی قبلہ ہے اور اس کے حکم پر عمل کرنا ہی صراط مستقیم کی ہدایت ہے۔

قرآن مجید کی اس آیت اور کی تفسیر میں جو ” صحیح بخاری “ کی روایت ذکر کی گئی ہے ان سے حسب ذیل مسائل مستبط ہوتے ہیں :

(١) اللہ تعالیٰ نے فرمایا : عنقریب یہ بیوقوف یہ کہیں گے کہ ” مسلمانوں کو ان کے اس قبلہ سے کس نے پھیر دیا جس پر وہ تھے “ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیب کی خبر دی ہے اور یہ پیش گوئی پوری ہوگئی اور یہ حضرت سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی نبوت اور قرآن مجید کی صداقت کی قوی دلیل ہے۔

(٢) اس آیت میں یہ دلیل ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کتاب میں ایسے احکام بھی ہیں جو ناسخ اور منسوخ ہیں اور علماء کا انپر اجماع ہے کہ قرآن مجید نے جس حکم کو سب سے پہلے منسوخ کیا ہے وہ بیت اللہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا ہے۔

(٣) بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا حکم قرآن میں نہیں تھا ‘ یہ صرف نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت سے ثابت تھا اور قرآن مجید نے اس حکم کو منسوخ کردیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ قرآن سنت کا ناسخ ہے۔

(٤) خبر واحد پر عمل کرنا جائز ہے ‘ کیونکہ اہل قبا کو جب یہ خبر پہنچی کہ قبلہ بدل گیا ہے تو انہوں نے نماز کی حالت میں اپنا قبلہ بدل لیا۔

(٥) جب تک کسی حکم کے منسوخ ہونے کا علم نہ ہو اس پر عمل کرنا جائز ہے کیونکہ تحویل قبلہ کے بعد بھی اہل قبانے بیت المقدس کی طرف نماز پڑھی کیونکہ ان کو اس وقت تحویل قبلہ کا علم نہیں ہوا تھا۔

(٦) نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر قرآن مجید تدریجا نازل ہوتا تھا اور حسب ضرورت احکام نازل ہوتے رہتے تھے۔

نماز کے لیے کسی ایک جہت کی طرف منہ کرنے کے اسرار :

تمام نمازیوں کے لیے کسی ایک جہت کو قبلہ بنانے کی حسب ذیل حکمتیں ہیں :

(١) اگر نماز میں کسی ایک جہت کی طرف منہ کرنے کا حکم نہ دیا جاتا تو کوئی مشرق کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتا کوئی مغرب کی طرف اور کوئی شمال کی طرف اور کوئی جنوب کی طرف اور اس طرح عبادت میں مسلمانوں کی وحدت ‘ نظم اور جمعیت نہ رہتی اور جب تمام دنیا کے مسلمانوں کو وحدت اور نظم کے تابع کیا ہے۔

(٢) جب انسان کسی صاحب اقتدار کے پاس جاتا ہے تو اس کی طرف متوجہ ہو کر کا اپنی درخواست پیش کرتا ہے نماز میں انسان اللہ کی طرف متوجہ ہو کر اس کی حمد وثنا کرتا ہے اس کی تسبیح کرتا ہے اور اس کے سامنے اپنی درخواست پیش کرتا ہے تو اس کی توجہ کے ارتکاز کے لیے بنایا گیا۔

(٣) نماز میں اصل یہ ہے کہ خضوع ‘ خشوع ‘ اور حضور قلب ہو اگر انسان مختلف جہات کی طرف متوجہ ہو کر نماز پڑھے تو اس سے حضور قلب حاصل نہیں ہوگا اس لیے ایک قبلہ بنایا گیا تاکہ سب اس کی طرف متوجہ ہو کر حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھیں۔

کعبہ کو قبلہ بنانے کے اسرار :

(١) اللہ تعالیٰ نے کعبہ کے متعلق فرمایا : یہ میرا گھر ہے (آیت) ” ان طھرا بیتی “۔ (البقرہ : ١٢٥) تو اپنی عبادت کرنے والوں کے لیے اپنے بیت کو قبلہ بنادیا۔

(٢) یہود نے سمت مغرب کو قبلہ بنایا تھا کیونکہ حضرت موسیٰ کو مغرب کی جانب سے نداء آئی تھی : (آیت) ” وما کنت بجانب الغربی اذ قضینا الی موسیٰ الامر “ (القصص : ٤٤) اور عیسائیوں نے جہت مشرق کو قبلہ بنایا کیونکہ حضرت جبرائیل حضرت مریم کے پاس جانب مشرق سے گئے تھے۔ (آیت) ” واذکر فی الکتب مریم اذا انتبدت من اھلھامکانا شرقیا۔ (مریم : ١٦) تو مسلمانوں کا قبلہ کعبہ بنایا کیونکہ یہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ کا قبلہ ہے اور سیدنا محمد حبیب اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا مولد ہے اور اللہ کا حرم اور بیت اللہ ہے :

(آیت) ” ان اول بیت وضع للناس للذی ببکۃ مبرکا وھدی للعلمین۔ فیہ ایت بینت مقام ابرھیم ومن داخلہ کان امنا “۔ (آل عمران : ٩٧۔ ٩٦)

ترجمہ : بیشک (اللہ کی عبادت کے لیے) سب سے پہلا گھر جو لوگوں کے لیے بنایا گیا وہی ہے جو مکہ میں ہے ‘ برکت والا اور تمام جہانوں کے لیے ہدایت ہے۔ اس میں کھلی کھلی نشانیاں ہیں ‘ مقام ابراہیم ہے ‘ جو اس میں داخل ہوا وہ مامون ہوگیا۔

(آیت) ” جعل اللہ الکعبۃ البیت الحرام قیماللناس “۔ (المائدہ : ٩٧)

اللہ نے کعبہ کو عزت والا گھر اور لوگوں کے قیام کا سبب بنادیا۔

(٣) کعبہ زمین کے وسط میں ہے ‘ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو زمین کے وسط کی طرف متوجہ کیا تاکہ وہ زندگی کے ہر معاملہ میں کیفیت متوسط (عدل) کو اختیار کریں۔

(٤) اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو قبلہ بنا کر یہ ظاہر فرمایا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اللہ تعالیٰ کے محبوب ہیں ‘ کیونکہ کعبہ کو قبلہ بنانے کی یہ وجہ بیان فرمائی :

(آیت) ” فلنولینک قبلۃ ترضھا “۔ (البقرہ : ١٤٤)

ترجمہ : ہم آپ کو اس قبلہ کی طرف ضرور پھیر دیں گے جس پر آپ راضی ہیں۔

(آیت) ” ومن انآیء الیل فسبح و اطراف النھار لعلک ترضی۔ (طہ : ١٣٠)

ترجمہ : اور رات کے کچھ اوقات اور دن کے اطراف میں اس کی تسبیح کیجئے تاکہ آپ راضی ہوجائیں۔

دنیا میں آپ کو راضی کرنے کے لیے کعبہ کو قبلہ بنایا ‘ اور دن رات میں تسبیح پڑھنے کا حغکم دیا اور آخرت میں آپ کو راضی کرنے کے لیے مقام محمود اور شفاعت کبری سے نوازا :

(آیت) ” عسی ان یبعثک ربک مقاما محمودا۔ (بنی اسرائیل : ٧٩)

ترجمہ : عنقریب آپ کا رب آپ کو مقام محمود پر جلوہ گر فرمائے گا۔

(آیت) ” ولسوف یعطیک ربک فترضی۔ (الضحی : ٥)

ترجمہ : اور عنقریب ضرور آپ کا رب آپ کو (اتنا) دے گا کہ آپ راضی ہوجائیں گے۔

(٥) حضرت آدم (علیہ السلام) نے پانچ پہاڑوں سے مٹی لے کر کعبہ بنایا تھا ‘ اس میں یہ اشارہ ہے کہ اگر تمہارے گناہ پہاڑ جتنے بھی ہوئے تو کعبہ کی طرف نماز پڑھنے سے جھڑ جائیں گے۔

(٦) جب مسلمان بیت المقدس کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے تھے تو یہود طعن دیتے تھے کہ تم ہماری مخالفت کرتے ہو اور ہماری مسجد کی طرف منہ کر کے نماز پڑھتے ہو تو اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کا قبلہ بدل دیا ‘ اور کعبہ کو قبلہ بنادیا۔

(٧) مسلمان ملت ابراہیم کے اتباع کے داعی تھے اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے بنائے ہوئے کعبہ کو ان کا قبلہ بنادیا۔

(٨) جب قریش نے کعبہ کی تعمیر کی تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اینٹیں اٹھا اٹھا کر لا رہے تھے تو اس کو قبلہ بنانے میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعظیم ہے۔

استقبال کعبہ کی فقہی مسائل :

(١) نماز میں مسجود لہ اللہ تعالیٰ ہے ‘ کعبہ کو سجدہ کرنے کی نیت کرنا کفر ہے۔

(٢) کعبہ سے مراد وہ جگہ ہے اور تحت الثری سے لے کر عرش عظیم تک وہ فضاء ہے جہاں کعبہ بنا ہوا ہے حتی کہ اگر بیت اللہ یہ عمارت نہ بھی تو اس جگہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی جائے گی۔

(٣) مکہ اور مدینہ میں رہنے والوں کے لیے عین کعبہ کی طرف منہ کرنا ضروری ہے اور دوسروں کے لیے کعبہ کی جہت کی طرف منہ کرنا کافی ہے۔

(٤) اگر کسی شخص کو اندھیرے یا لاعلمی کی وجہ سے کعبہ کی سمت کا پتا نہ ہو تو وہ غور وفکر کرے اور جس جانب اس کا ظن غالب ہو اس طرف منہ کر کے نماز پڑھے ‘ اگر بعد میں یہ پتا چلے کہ اس نے غلط سمت کی طرف نماز پڑھی تو اس پر اعادہ نہیں ہے ‘ اگر نماز کی ہر رکعت میں اس کی رائے بدل جائے تو اپنی رائے کے مطابق ہر رکعت میں پھرتا رہے۔

(٥) نفل نماز چلتی سواری پر جائز ہے خواہ سواری کا قبلہ کی طرف منہ نہ ہو۔

(٦) عذر کی وجہ سے فرض نماز چلتی سواری (خواہ چلتی ٹرین ہو) پر جائز ہے خواہ سواری کا قبلہ کی طرف منہ نہ ہو اور بعد میں اس کا اعادہ نہیں ہے (ردالمختار علی ہامش رد المختار ج ١ ص ٢٩١۔ ٢٨٦“ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)

کعبہ کا اولیاء اللہ کی زیارت کے لیے جانا :

علامہ علاء الدین حصکفی حنفی۔ ١ (علامہ علاء الدین محمد بن علی بن محمد حصکفی حنفی ١٨٨ ھ ‘ (درالمختار علی ھامش رد المختار ج ٢ ص ٢٣٠‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)

علامہ ابن عابدین شامی حنفی۔ ٢ ( علامہ سید محمد ابن عبادین شامی حنفی متوفی ١٢٥٢ ھ ‘(ردالمختار علی رد المختار ج ٢ ص ٢٣٠ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٤٠٧ ھ)

اور علامہ احمد طحطاوی حنفی۔ ٣ (علامہ طحطاوی حنفی متوفی ١٢٣١ ھ ‘ حاشیۃ الطحطاوی علی (علی الدد المختار ج ٢ ص ٢٣٩‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت ١٣٩٥ ھ)

نے لکھا ہے کہ کعبہ کا اولیاء اللہ کی زیارت کے لیے جانا جائز ہے اور اس مسئلہ کو نجم الملۃ والدین علامہ عمر نسفی اور علامہ زین الدین ابن نجیم حنفی نے نقل کیا ہے۔

شیخ اشرف علی تھانوی نے بھی لکھا ہے کہ یہ جائز ہے اور اس حدیث سے استدلال کیا ہے ‘ امام ترمذی روایت کرتے ہیں کہ ایک دن حضرت ابن عمر نے کعبہ کو دیکھ کر فرمایا : تیری حرمت کس قدر عظیم ہے لیکن مومن کی حرمت اللہ کے نزدیک تجھ سے زیادہ ہے ‘ اور امام ابن ماجہ نے حضرت ابن عمر سے روایت کیا کہ میں نے دیکھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کعبہ کا طواف فرما رہے تھے اور فرما رہے تھے : تو کتنا پاکیز ہے اور تیری خوشبو کتنی اچھی ہے اور تیری حرمت کتنی عظیم ہے اور اس ذات کی قسم جس کے قبضہ وقدرت میں محمد کی جان ہے ! اللہ کے نزدیک مومن کی حرمت تجھ سے زیادہ ہے ‘ جب بندہ مومن کعبہ سے افضل ہے تو کعبہ کا اولیاء اللہ کی زیارت کے لیے جانا بعید نہیں ہے ‘ رہا یہ شبہ کہ اگر کعبہ اولیاء کی زیارت کے لیے جاتا ہے تو اتنا بھاری بھرکم جسم کیسے منتقل ہوتا ہے اور تاریخ میں کہیں منقول نہیں کہ کعبہ اپنی جگہ سے کبھی غائب ہوا ہو تو اس کا جواب یہ ہے کہ امام مسلم نے حضرت جابر (رض) سے روایت کیا ہے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ جب قریش نے (واقعہ معراج میں) میری تکذیب کی تو میں حطیم میں کھڑا ہوا تو اللہ تعالیٰ نے میرے لیے بیت المقدس کو منکشف کردیا اور حضرت ابن عباس کی روایت میں ہے کہ بیت المقدس بھی ایک بھاری جسم ہے اور اس کا منتقل ہونا بھی عادۃ محال ہے اور اس کے متعلق بھی تاریخ میں کہیں منقول نہیں کہ وہ اپنی جگہ سے غائب ہوا ہو اس حدیث کی یہ توجیہ ہے کہ بیت المقدس کی مثال اس کی جگہ پر تھی اور اس کی حقیقت آپ کے سامنے رکھ دی گئی۔ اس طرح ہوسکتا ہے کہ حقیقت کعبہ زیارت کے لیے گئی ہو اور اس کی مثال وہاں اس کے قائم مقام کردی گئی ہو (بوادرالنوادرص ١٣٧۔ ١٣٥‘ ملخصا، مطبوعہ شیخ غلام علی اینڈ سنز ١٩٦٤ ء)

اور قرآن مجید میں پلک جھپکنے سے پہلے تخت بلقیس لانے کا واقعہ مذکور ہے ‘ اس سے یہ شبہ بھی دور ہوجاتا ہے کہ ایک بھاری جسم کیسے منتقل ہوسکتا ہے۔

علامہ یافعی یمنی لکھتے ہیں :

روایت ہے کہ ایک شخص نے دوسرے شخص کو دور دراز کے شہروں سے کعبہ دکھایا ‘ ایک اور شخص نے بعض منکرین کو دکھایا۔

کہ وہ کعبہ کا طواف کررہا تھا اور ہم نے تحقیق کے ساتھ یہ سنا ہے کہ تحقیق سے ثابت ہے کہ یہ مشاہدہ کیا گیا کہ کعبہ ایک جماعت کا حقیقتا طواف کر رہا تھا اور میں نے بعض معتمد اولیاء اور مستند علماء کو دیکھا ہے جنہوں نے کعبہ کو اولیاء کا طواف کرتے ہوئے دیکھا ہے۔ (روض الریاحین فی حکایات الصالحین ص ٣٣‘ مطبوعہ مطبع مصطفیٰ البابی واولادہ ‘ مصر)

اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں کعبہ کی تعظیم اور توقیر اور ہیبت اور جلال اور زیادہ کرے ‘ ہمیں یہ نقول اور دلائل بہت عجیب و غریب معلوم ہوتے ہیں خصوصا اس لیے کہ ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سید الانبیاء والاولیاء ہیں لیکن آپ نے کعبہ کا طواف کیا اور آپ کے گرد کعبہ کا طواف کرنا ثابت نہیں ہے ‘ اگر ان مستند فقہاء اور علماء نے کعبہ کے طواف کرنے کو نقل نہ کیا ہوتا تو ہم اس کو صراحۃ رد کردیتے ‘ جو فضیلت آپ کے لیے ثابت نہ ہو اس فضیلت کو ہم آپ کے امتی کے لیے ثابت کرنے کی جرات نہیں کرتے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 142