بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلِكُلٍّ وِّجۡهَةٌ هُوَ مُوَلِّيۡهَا ‌ۚ فَاسۡتَبِقُوا الۡخَيۡرٰتِؕ اَيۡنَ مَا تَكُوۡنُوۡا يَاۡتِ بِكُمُ اللّٰهُ جَمِيۡعًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ قَدِيۡرٌ

اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف جس کی طرف وہ (نماز میں) منہ کرتا ہے ‘ سو تم نیکیوں میں دوسروں سے آگے نکلو تو جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تمسب کو لے آئے گا ‘ بیشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے

اللہ کی ذات کا حضور کے لیے قبلہ ہونا :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ہر ایک کے لیے ایک سمت ہے جس کی طرف وہ (نماز میں) منہ کرتا ہے۔ (البقرہ : ١٤٨)

اس آیت کی دو تفسیریں کی گئی ہیں ‘ ایک یہ ہے کہ ہر علاقہ کے مسلمانوں کے لیے کعبہ کی ایک جہت اور سمت ہے جس کی طرف وہ منہ کرتے ہیں بعض علاقوں کے مسلمانوں کے شمال کی طرف کعبہ ہے ‘ اور بعض علاقہ والوں کے جنوب کی طرف کعبہ ہے ‘ بعض کے مشرق کی طرف اور بعض کے مغرب کی طرف کعبہ ہے ‘ مثلا ایتھوپیا کے شمال کی طرف کعبہ ہے ‘ ماسکو کے جنوب کی طرف ‘ وسطی افریقہ کے مشرق کی طرف اور برصغیر کے مغرب کی طرف کعبہ ہے۔

دوسری تفسیر یہ ہے کہ اصحاب شریعت اور رسولوں میں سے ہر ایک کا الگ الگ قبلہ ہے جس کی طرف وہ منہ کرتے ہیں ‘ مقربین کا قبلہ عرش ہے ‘ روحانیین کا قبلہ کرسی ہے ‘ کروبین کا قبلہ بیت المعمور ہے ‘ انبیاء سابقین کا قبلہ بیت المقدس ہے اور آپ کا قبلہ کعبہ ہے۔ (تفسیر کبیر ج ١ ص ٢٧ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

علامہ آلوسی نے لکھا ہے کہ کعبہ آپ کے جسم کا قبلہ ہے اور آپ کی روح کا قبلہ میری ذات ہے اور میرا قبلہ آپ ہیں۔ (روح المعانی ج ٢ ص ١٥‘ مطبوعہ دارا حیاء التراث العربی ‘ بیروت)

اگر یہ سوال کیا جائے کیا کہ آپ کی روح کا قبلہ اللہ کی ذات ہو یہ تو متصور ہے ‘ لیکن اللہ تعالیٰ کا قبلہ آپ کی ذات ہو یہ کیسے متصور ہوگا اس کا جواب یہ ہے کہ قبلہ سے مراد جہت عبادت نہیں ہے بلکہ اس سے مراد مرکز توجہ ہے یعنی آپ کی توجہ اللہ کی طرف رہتی ہے اور اللہ کی خاص توجہ آپ کی طرف رہتی ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : سو تم نیکیوں میں دوسروں سے آگے نکلو۔ (البقرہ : ١٤٨)

پانچوں نمازوں کے مستحب اوقات :

اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ کعبہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے میں تم دوسروں سے آگے نکلو ‘ اور یہ اس کو متضمن ہے کہ ہر نیکی میں سبقت کرو۔ فقہاء شافعیہ نے اس آیت سے یہ مسئلہ مستنبط کیا ہے کہ نماز کو اول وقت میں پڑھنا مستحب ہے ‘ امام ابوحنفیہ (رح) کے مذہب کے اعتبار سے اس آیت کی یہ توجیہہ ہوگی کہ ہر نماز کو اس کے مستحب وقت میں پڑھنے میں سبقت کی جائے ‘ فجر کی نماز کا مستحب وقت ہے جب طلوع فجر کے بعد سفیدی ہوجائے ‘ ظہر کی نماز کو گرمیوں میں ٹھنڈا کرکے اور ایک مثل سائے تک موخر کرکے پڑھنا مستحب ہے ‘ عصر کی نماز کو موخر کرکے سورج کے زرد ہونے سے پہلے پڑھنا مستحب ہے ‘ مغرب کی نماز کو غروب آفتاب کے فورا بعد جلدی پڑھنا مستحب ہے ‘ اور عشاء کی نماز کو تہائی رات تک موکر کرکے پڑھنا مستحب ہے۔

فجر کے مستحب وقت کی دلیل یہ حدیث ہے ‘ امام ترمذی روایت کرتے ہیں :

حضرت رافع بن خدیج (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : سفیدی پھیلنے کے بعد فجر کی نماز پڑھو ‘ اس میں زیادہ اجر ہے۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٤٩ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

اور حضرت عائشہ (رض) سے جو روایت ہے کہ ہم منہ اندھیرے نماز پڑھتے تھے ‘ یہ عمل اس حدیث سے منسوخ ہے نیز یہ حدیث قولی ہے اور حضرت عائشہ (رض) کی حدیث فعلی اور حدیث قولی حدیث فعلی پر راجع ہے۔

گرمیوں میں ظہر کی نماز کو ٹھنڈا کرنے اور ایک مثل تک موخر کرنے پر یہ دلیل ہے ‘ امام ترمذی روایت کرتے ہیں : حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب گرمی شدید ہو تو نماز کو ٹھنڈا کرو ‘ کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے بھڑکنے سے ہوتی ہے۔ (جامع ترمذی ص ‘ ٥٠ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت ابو ذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا موذن ظہر کی اذان دینے لگا تو آپ نے فرمایا : ٹھنڈا کرو ‘ ٹھنڈا کرو اور فرمایا : گرمی کی شدت جہنم کے بھڑکنے سے ہوتی ہے ‘ سو نماز کو ٹھنڈے وقت میں پڑھو ‘ حتی کہ ہم نے ٹیلوں کا سایا دیکھا۔ (صحیح بخاری ج ١ ص ‘ ٧٧۔ ٧٦ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث میں یہ دلیل بھی ہے کہ ظہر کا وقت دو مثل سائے تک رہتا ہے اور ایک مثل سائے سے ظہر کا وقت ختم نہیں ہوتا۔

عصر کے مستحب وقت کے متعلق یہ حدیث ہے ‘ امام مسلم روایت کرتے ہیں :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : یہ منافق کی نماز ہے ‘ وہ سورج کو دیکھتا رہتا ہے ‘ حتی کہ جب سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان ہوجاتا ہے تو وہ کھڑا ہو کر چار ٹھونگیں مار لیتا ہے اور اللہ کا بہت کم ذکر کرتا ہے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ٢٢٥‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ سورج کے زرد ہونے سے پہلے عصر کی نماز پڑھ لینی چاہیے اور امام حاکم روایت کرتے ہیں۔

زیاد بن عبداللہ نخعی بیان کرتے ہیں کہ ہم حضرت علی (رض) کے ساتھ مسجد اعظم میں بیٹھے ہوئے تھے ‘ مؤذن نے آکر کہا : نماز یا امیر المومنین ! آپ نے فرمایا : بیٹھ جاؤ وہ بیٹھ گیا ‘ اس نے پھر اٹھ کر کہا : نماز یا امیر المومنین ! آپ نے فرمایا : یہ ہمیں سنت کی تعلیم دیتا ہے ! پھر حضرت علی (رض) نے کھڑے ہو کر ہمیں عصر کی نماز پڑھائی ‘ پھر ہم واپس آکر وہیں بیٹھ گئے جہاں پہلے بیٹھے ہوئے تھے ‘ پھر ہم گھنٹوں کے بل جھک کر سورج کو غروب کے لیے اترتا ہوا دیکھ رہے تھے۔ امام حاکم نے کہا : اس حدیث کی سند صحیح ہے اور اس کو امام بخاری اور امام مسلم نے روایت نہیں کیا۔ (المستدرک ج ١ ص ١٩٢‘ مطبوعہ مکتبہ دارالباز ‘ مکہ مکرمہ)

چونکہ عصر کی نماز کے بعد نفل پڑھنا مکروہ ہے اس لیے امام ابوحنفیہ فرماتے ہیں کہ عصر کی نماز تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے تاکہ نفل پڑھنے کے لیے زیادہ وقت مل سکے ‘ اس کی تائید حضرت علی کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے۔

اور مغرب کے مستحب وقت کے متعلق یہ حدیث ہے ‘ امام ابو داؤد روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوایوب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تک میری امت مغرب کی نماز کو ستاروں کے نکلنے تک مؤخر نہیں کرے گی وہ خیر پر رہے گی یا فرمایا : نیکی پر رہے گی۔ (سنن ابوداؤد ج ١ ص ٦٠‘ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)

اور عشاء کے مستحب وقت کے متعلق یہ حدیث ہے ‘ امام ترمذی روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اگر مجھے اپنی امت پر دشوار نہ ہوتا تو میں اس کو یہ حکم دیتا کہ وہ عشاء کی نماز کو تہائی یا نصف رات تک مؤخر کرے (جامع ترمذی ص ‘ ٥١ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

تاہم قرآن مجید کی اس آیت سے اول میں نماز پڑھنے پر استدلال کرنا ضعیف ہے ‘ کیونکہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ نیکی کرنے میں دوسروں پر سبقت کرو ‘ نیکی کرنے میں دوسروں سے آگے نکلو یا بڑھ چڑھ کر نیکی کرو ‘ جن اوقات میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے نمازیں پڑھی ہیں ‘ اور جن اوقات میں آپ نے نماز پڑھنے کی تلقین کی ہے اور ترغیب دی ہے ان ہی اوقات میں نماز پڑھنا مستحب ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : تم جہاں کہیں بھی ہو گے اللہ تم سب کو لے آئے گا۔ (البقرہ : ١٤٨)

یہ آیت یا تو خاص نمازیوں کے متعلق ہے یعنی تم کعبہ کے شمال میں ہو یا جنوب میں ہو یا جنوب میں ‘ مشرق میں ہو یا مغرب میں ‘ تم دور دراز کی مختلف جہات اور مختلف علاقوں میں جہاں سے بھی کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھو گے اللہ تعالیٰ ان نمازوں کو عین کعبہ کی طرف نماز قرار دے گا۔

یا یہ آیت تمام لوگوں کے متعلق ہے کہ موت کے بعد تمہارے بدن کے اجزاء خاک میں مل کر ہواؤں اور آندھیوں سے اور دیگر قدرتی آفات سے بکھر کر خواہ کہیں پہنچ جائیں ‘ اللہ تعالیٰ تمہارے ان اجزاء کو قیامت کے دن مجتمع کر دے گا ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 148