بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَـنَبۡلُوَنَّكُمۡ بِشَىۡءٍ مِّنَ الۡخَـوۡفِ وَالۡجُـوۡعِ وَنَقۡصٍ مِّنَ الۡاَمۡوَالِ وَالۡاَنۡفُسِ وَالثَّمَرٰتِؕ وَبَشِّرِ الصّٰبِرِيۡنَۙ

اور البتہ ہم تم کو کچھ ڈر ‘ بھوک اور (تمہارے) مالوں ‘ جانوں اور پھلوں کے نقصان میں ضرور مبتلا کریں گے ‘ اور ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیجئے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور البتہ ہم تم کو کچھ خوف ‘ بھوک اور (تمہارے) مالوں ‘ جانوں ‘ اور پھلوں کے نقصان میں ضرور مبتلا کریں گے۔ (البقرہ : ١٥٥)

دنیا میں مصائب پیش آنے کی وجوہات :

خوف سے مراد دشمنوں کا خوف ہے ‘ بھوک سے مراد قحط ہے ‘ مالوں کے نقصان سے مراد مویشیوں کا مرجانا ‘ حادثاتی طور پر فصلوں کا تباہ ہوجانا اور گاڑیوں کا ٹکراؤ سے برباد ہوجانا ہے ‘ روپے پیسے وغیرہ کا لٹ جانا بھی اس میں شامل ہے ‘ جانوں کے نقصان سے مراد دوستوں اور رشتہ داروں کی موت ہے اور ثمرات کے نقصان سے مراد اولاد کی موت ہے ‘ اولاد پر ثمرات کا اطلاق مجاز مشہور ہے۔

امام ترمذی روایت کرتے ہیں :

حضرت ابو موسیٰ اشعری (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب کسی بندہ کا بچہ مرجاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اپنے فرشتوں سے فرماتا ہے : تم نے میرے بندہ کے بچہ کی روح قبض کرلی ‘ وہ کہتے ہیں ہاں ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے تم نے میرے بندے کے دل کے ثمرہ پر قبضہ کرلیا ‘ وہ کہتے ہیں ہاں ! اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے بندہ نے (اس پر) کیا کہا ؟ وہ کہتے ہیں : تیری حمد کی اور ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ پڑھا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : میرے بندہ کے لیے جنت میں ایک گھر بنادو اور اس کا نام بیت الحمد رکھو۔ (جامع ترمذی ص ‘ ١٦٦ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

دنیا میں لوگوں کا جو حادثات اور قدرتی آفات سے جانی اور مالی نقصان ہوتا ہے ‘ اس کی دو قسمیں ہیں : ایک قسم تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش ہوتی ہے ‘ دوسری قسم مکافات عمل اور کفارہ ذنوب ہے ‘ کسی شخص نے کسی دوسرے شخص کو کسی جانی اور مالی نقصان میں مبتلا کردیتا ہے اور بعض اوقات یہ جانی اور مالی نقصان آدمی کے گناہوں کا کفارہ بن جاتے ہیں اور اس کے گناہوں میں تخفیف ہوجاتی ہے یا وہ بالکل گناہوں سے پاک ہوجاتا ہے۔

امام ترمذی روایت کرتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا مومن کو جب بھی کانٹا چبھنے کی یا اس سے بھی کم کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند کرتا ہے اور اس کا ایک گناہ مٹا دیتا ہے۔

حضرت ابوسعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : مومن کو جب بھی کوئی تھکاوٹ یا جسمانی درد لاحق ہوتا ہے یا کوئی غم پیش آتا ہے یا کوئی بیماری لگتی ہے یا کسی چیز کا اندیشہ اور خوف دامن گیر ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس سے اس کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (جامع ترمذی ص ‘ ١٥٨ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

اور مکافات عمل کے نتیجہ میں جو مصائب پیش آتے ہیں ان کے متعلق اللہ تعالیٰ کا یہ ارشاد ہے۔

(آیت) ” وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم ویعفوا عن کثیر “۔۔ (الشوری : ٣٠)

ترجمہ : اور جو مصیبت تمہیں پہنچی تو وہ تمہارے ہی ہاتھوں کی کمائی کے سبب پہنچی اور وہ تمہاری بہت سی خطاؤں کو معاف فرما دیتا ہے

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور ان صبر کرنے والوں کو بشارت دیجئے۔ جن کو جب کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ کہتے ہیں : بیشک ہم اللہ ہی کے لیے ہیں اور بیشک ہم اللہ ہی کی طرف لوٹنے والے ہیں۔۔ (البقرہ : ١٥٦۔ ١٥٥)

صبر کے معانی اور مصیبت پر صبر کرنے کی فضیلت :

صبر کے معنی ہیں : نفس کو روکنا اور کسی چیز کو برداشت کرنا ‘ حرام اور فحش کاموں کی ترغیب اور تحریک کے وقت اپنے نفس کو گناہ سے روکنا صبر ہے ‘ فرائض واجبات اور سنن کی ادائیگی میں مشقت کو برداشت کرنا اور نفس کو آرام طلبی اور عبادت نہ کرنے سے روکنا بھی صبر ہے۔ لوگوں کی اذیت رسانی پر اپنے آپ کو انتقام لینے سے روکنا بھی صبر ہے اور مصیبت پہنچنے پر واویلا کرنے اور شکوہ اور شکایت کرنے سے خود کو روکنا بھی صبر ہے اور اس آیت میں یہی مراد ہے۔

جب انسان کو کوئی مصیبت پہنچے یا اس سے کوئی نعمت چلی جائے تو وہ اس پر غور کہ اللہ تعالیٰ نے اس نعمت کے مقابلہ میں لاکھوں نعمتیں اس کو دی ہوئی ہیں ‘ اگر یہ ایک نعمت جاتی رہی تو کیا غم ہے اور اس کی دی ہوئی اور لاکھوں نعمتیں موجود ہیں پھر جب اس نے خود ہی ایک دن اس دنیا سے چلے جانا ہے تو اس ایک نعمت کے چلے جانے سے کیا فرق پڑے گا۔

امام غزالی لکھتے ہیں :

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : جب میں اپنے بندوں میں سے کسی بندے کے بدن ‘ یا مال یا اولاد میں کوئی مصیبت بھیجتا ہوں ‘ پھر وہ اس پر صبر جمیل کرتا ہے تو میں قیامت کے دن اس کے لیے میزان قائم کرنے یا اس کا نامہ اعمال کھولنے سے حیا کرتا ہوں۔ (کامل ابن عدی)

نیز حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل نے فرمایا : اے جبرائیل ! اس شخص کی کیا جزا ہے جس کی بینائی کو میں سلب کرلوں اور وہ اس پر صبر کرے ؟ اس کی جزا میرے گھر میں ہمیشہ رہنا ہے اور میرا دیدار کرنا ہے۔ (صحیح بخاری ‘ معجم اوسط ‘ کامل ابن عدی ‘ ابویعلی)

امام مالک ” موطا “ میں حضرت ابوسعید خدری (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل فرماتا ہے : جب میں اپنے بندہ کو کسی مصیبت میں مبتلا کروں اور وہ اس پر صبر کرے اور اپنے عیادت کرنے والوں سے میری شکایت نہ کرے تو میں اس کے گوشت کو بہتر گوشت سے اور اس کے خون کو بہتر خون سے بدل دیتا ہوں اور جب میں اس کو صحت مند کرتا ہوں تو اس کا کوئی گناہ نہیں رہتا اور اگر میں اس کو وفات دوں تو وہ میری رحمت کی طرف ہے۔ (احیاء العلوم ج ٤ ص ٤٢٢‘ مطبوعہ دارالخیر ‘ بیروت ‘ ١٤١٣ ھ)

” انا للہ وانا الیہ راجعون “ پڑھنے کی فضیلت :

امام طبرانی روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : میری امت کو ایک ایسی چیز دی گئی ہے جو پہلی امتوں میں سے کسی کو نہیں دی گئی ‘ وہ مصیبت کے وقت ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ پڑھنا ہے۔

(معجم کبیر ج ١٢ ص ٣٢‘ مطبوعہ داراحیاء التراث العربی ‘ بیروت)

امام مسلم روایت کرتے ہیں : حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ سنا کہ جب مسلمان پر کوئی مصیبت آئے اور وہ اللہ کے حکم کے مطابق ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ پڑھے اور یہ دعا کرے ‘ اے اللہ ! اس مصیبت پر اجر عطا فرما اور مجھے اس کا بہتر بدل عطا فرما ‘ تو اللہ تعالیٰ اس کو اس سے بہتر بدل عطا فرمائے گا ‘ جب ابوسلمہ (حضرت ام سلمہ کے سابق شوہر) فوت ہوگئے تو میں نے سوچا : ابوسلمہ سے بہتر اور کون ہوگا ‘ جن کے گھر نے سب سے پہلے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف ہجرت کی تھی ‘ بہرحال میں نے یہ دعا پڑھ لی تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے میرا عقد کردیا۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٣٠٠‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

حافظ سیوطی بیان کرتے ہیں ؛: امام بزار نے سند ضعیف کے ساتھ اور امام بیہقی نے ” شعب الایمان “ میں حضرت ابوہریرہ (رض) سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جب تم میں سے کسی شخص کی رسی ٹوٹ جائے تو وہ ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ پڑھے ‘ کیونکہ یہ بھی مصائب میں سے ہے۔

امام عبدبن حمید اور امام بن ابی الدنیا نے عکرمہ سے روایت کیا ہے کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا چراغ بجھ گیا تو آپ نے فرمایا : ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ آپ سے عرض کیا گیا : یا رسول اللہ ! کیا یہ مصیبت ہے ؟ آپ نے فرمایا : ہاں ! ہر وہ چیز جو مومن کو ایذا دے وہ اس کے لیے مصیبت ہے اور اس میں اس کے لیے اجر ہے۔ امام ابن ابی الدنیا اور امام بیہقی حضرت عبداللہ بن عمرو (رض) سے روایت کرتے ہیں : جس شخص میں چار خصلتیں ہوں اللہ تعالیٰ جنت میں اس کا گھر بنا دیتا ہے ‘ جو ” لا الہ الا اللہ “ سے اپنی (جان اور مال کی) حفاظت کرے ‘ اور جب اس کو مصیبت پہنچے تو ” انا للہ وانا الیہ راجعون “ پڑھے اور جب اس کو کوئی چیز دی جائے تو الحمد للہ کہے اور جب وہ کوئی گناہ کرے تو استغفر اللہ کہے۔ (الدرالمنثور ‘ ج ١ ص ‘ ١٥٧۔ ١٥٦ مطبوعہ مکتبہ آیۃ اللہ النجفی ایران )

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 155