بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ كُلُوۡا مِمَّا فِى الۡاَرۡضِ حَلٰلًا طَيِّبًا  ۖ وَّلَا تَتَّبِعُوۡا خُطُوٰتِ الشَّيۡطٰنِؕ اِنَّهٗ لَـكُمۡ عَدُوٌّ مُّبِيۡنٌ

اے لوگو ! زمین کی ان چیزوں میں سے کھاؤ جو حلال طیب ہیں ‘ اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرؤ ‘ بیشک وہ تمہارا کھلا ہوا دشمن ہے

ربط آیات :

اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے (آیت) ” یایھا الناس اعبدوا ربکم “۔ (البقرہ : ٢١) سے امور دین کو تفصیل سے بیان فرمایا تھا ‘ اور اب (آیت) ” یایھا الناس کلوا مما فی الارض “۔ (البقرہ : ١٦٨) سے دنیاوی امور کو بیان فرمارہا ہے ‘ دین روح کی غذا ہے اور کھانا پینا جسم کی غذا ہے ‘ پہلے اللہ تعالیٰ نے روح کی غذا کا تفصیل سے بیان فرمایا ہے اور اب جسم کی غذا کا تفصیل سے بیان فرمارہا ہے تاکہ روح کی ترقی اور بدن کی نشو و نما کے صحیح ذرائع میسر ہوجائیں۔

ثقیف ‘ خزاعہ اور بنو مدلج نے اپنے اوپر کچھ جانوروں کو حرام کرلیا تھا ‘ ان کے رد میں یہ آیات نازل ہوئیں۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : زمین کی ان چیزوں سے کھاؤ جو حلال طیب ہیں اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو۔ (البقرہ : ١٦٨)

حلال اور طیب اور گنا اور بدعت کا معنی :

جس چیز سے حرمت کی گرہ کھل گئی ہو وہ حلال ہے اور طیب وہ چیز ہے جو حلال ذرائع سے حاصل ہوئی نہ ‘ سہل بن عبداللہ نے کہا کہ نجات تین چیزوں میں ہے : حلال کھانا ‘ فرائض کو ادا کرنا اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اقتداء کرنا ‘ نیز سہل نے کہا : حلال مال وہ ہے جو سود ‘ حرام ‘ رشوت ‘ خیانت ‘ مکروہ اور شبہ سے محفوظ ہو۔

جو کام شریعت کے مخالف ہو وہ شیطان کا طریقہ ہے ‘ اگر اس کو کار ثواب اور نیکی سمجھ کر کیا جائے تو وہ بدعت ہے اور اگر اس کو برا سجھ کر کیا جائے گا تو وہ گناہ ہے ‘ مثلا ماتم اور تعزیہ داری شریعت کے خلاف ہے اور اس کو نیکی سمجھ کر کیا جاتا ہے یہ بدعت ہے اور چوری اور قتل بھی شریعت کے خلاف ہیں اور ان کو برا سمجھ کر کیا جاتا ہے ‘ یہ گناہ ہیں ‘ خلاصہ یہ ہے کہ بدعت اور گناہ کا عمل کرنا شیطان کے قدموں پر چلنا ہے اور اس کے طریقہ کی پیروی کرنا ہے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 168