بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَاِنۡ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنۡۢ بَعۡدُ حَتّٰى تَنۡكِحَ زَوۡجًا غَيۡرَهٗ ‌ؕ فَاِنۡ طَلَّقَهَا فَلَا جُنَاحَ عَلَيۡهِمَآ اَنۡ يَّتَرَاجَعَآ اِنۡ ظَنَّآ اَنۡ يُّقِيۡمَا حُدُوۡدَ اللّٰهِ‌ؕ وَتِلۡكَ حُدُوۡدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُهَا لِقَوۡمٍ يَّعۡلَمُوۡنَ

پھر اگر اس کو (تیسری) طلاق دے دی تو وہ عورت اس (تیسری طلاق) کے بعد اس پر حلال نہیں ہے یہاں تک کہ وہ عورت اس کے علاوہ کسی اور مرد سے نکاح کرے ‘ پھر اگر وہ (دوسرا خاوند) اس کو طلاق دے دے تو پھر ان پر کوئی حرج نہیں ہے کہ وہ اس (طلاق کی عدت کے بعد) پھر باہم رجوع کرلیں اگر ان کا یہ گمان ہو کہ وہ دونوں اللہ کی حدود کو قائم رکھ سکیں گے۔ اور یہ اللہ کی حدود ہیں جن کو اللہ ان لوگوں کیلیے بیان فرماتا ہے جو علم والے ہیں۔

بیک وقت دی گئی طلاقوں کے تین ہونے پر جمہور کے قرآن مجید سے دلائل :

اللہ تعالیٰ نے طلاق دینے کا یہ قاعدہ بیان فرمایا ہے کہ دو طلاقوں کے بعد بھی خاوند کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ چاہے تو ان طلاقوں سے رجوع کرلے اور چاہے تو رجوع نہ کرے لیکن :

(آیت) ” فان طلقھا فلا تحل لہ من بعد حتی تنکح زوجا غیرہ “۔ (البقرہ : ٢٣٠)

ترجمہ : پس اگر اس نے اس کو ایک اور طلاق دے دی تو اب وہ عورت اس کے لیے حلال نہیں ہے تاوقتیکہ وہ کسی اور شخص سے نکاح کرے۔

اس آیت سے پہلے ” الطلاق مرتان “ کا ذکر ہے یعنی طلاق رجعی دو مرتبہ دی جاسکتی ہے ‘ اس کے بعد ” فان طلقھا “ فرمایا : اس کے شروع میں حرف ” فا “ ہے جو تعقیب بلامہلت کے لیے آتا ہے اور اب قواعد عربیہ کے اعتبار سے معنی یہ ہوا کہ دو رجعی طلاقیں دینے کے بعد خاوند نے اگر فورا تیسری طلاق دے دی تو اب وہ عورت اس مرد کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ شرعی قاعدہ کے مطابق کسی اور مرد کے ساتھ نکاح نہ کرے ‘ اس آیت میں اگر حرف ” ثم “ یا اس قسم کا کوئی اور حرف ہوتا جو مہلت اور تاخیر پر لالت کرتا تو علی التعیین یہ کہا جاسکتا تھا کہ ایک طہر میں ایک طلاق اور دوسرے طہر میں دوسری طلاق اور تیسرے طہر میں تیسری طلاق دی جائے گی ‘ لیکن قرآن مجید میں ” ثم “ کی بجائے ‘ ” فا “ کا ذکر کیا گیا ہے ‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ اگر خاوند نے دو طلاقیں دینے کے بعد فورا تیسری طلاق دے دی تو اس کی بیوی اس کے لیے حلال نہیں رہے گی۔

قرآن مجید نے ” الطلاق مرتان “ فرمایا ہے یعنی دو مرتبہ طلاق دی جائے اور دو مرتبہ طلاق دینا اس سے عام ہے کہ ایک مجلس میں دو مرتبہ طلاق دی جائے یا دو طہروں میں دو مرتبہ طلاق دی جائے اور اس کے بعد فورا اگر تیسری طلاق دے دی تو اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی اس سے واضح ہوگیا کہ اگر کسی شخص نے ایک مجلس میں تین بار طلاق دی اور بیوی سے کہہ دیا : میں نے تم کو طلاق دی ‘ میں نے تم کو طلاق دی ‘ میں نے تم کو طلاق دی تو یہ تینوں طلاقیں واقع ہوجائیں گی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوجائے گی۔ غیر مقلدوں کے مشہور ‘ مستند اور ان کے بہت بڑے عالم شیخ ابن حزم اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں :

یہ آیت بیک وقت دی گئی تین طلاقوں اور الگ الگ دی گئی طلاقوں دونوں پر صادق آتی ہے اور اس آیت کو بغیر کسی نص کے طلاق کی بعض صورتوں کے ساتھ خاص کرنا جائز نہیں۔ (المحلی ج ١٠ ص ١٧‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المینریہ ’ ١٣٥٢ ھ)

قرآن مجید کی اس آیت سے بھی جمہور فقہاء اسلام کا استدلال ہے :

(آیت) ” اذا نکحتم المؤمنت ثم طلقتموھن من قبل ان تمسوھن فمالکم علیھن من عدۃ تتعدونھا “۔ (الاحزاب : ٤٩)

ترجمہ : جب تم مسلمان عورتوں سے نکاح کرو ‘ پھر ان کو مقاربت سے پہلے طلاق دے دو ‘ تو ان پر تمہارے لیے کوئی عدت نہیں جس کو تم گنو۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے غیر مدخولہ کو طلاق دینے کا ذکر فرمایا ہے اور طلاق دینے کو اس سے عام رکھا ہے کہ بیک وقت اکٹھی تین طلاقیں دی جائیں یا الگ الگ طلاقیں دی جائیں اور جس چیز کو اللہ تعالیٰ نے مطلق اور عام رکھا ہو اس کو اخبار آحاد اور احادیث صحیحہ سے بھی مقید اور خاص نہیں کیا جاسکتا چہ جائیکہ ماوشما کی غیر معصوم آراء اور غیر مستند اقوال سے اس کو مقید کیا جاسکے۔

قرآن مجید سے استدلال پر اعتراض کے جوابات :

پیر محمد کرم شاہ الازہری نے اس استدلال کے جواب میں لکھا ہے : دوسری آیت اور سنت نبوی ان کے اطلاق کو مقید کردیا ہے ‘ اور ان کے احکام اور شرائط کو بیان کردیا ہے ‘ نیز ان آیات میں ایک ساتھ طلاق دینے کی بھی تو کہیں تصریح نہیں۔ (دعوت فکر ونظر مع ایک مجلس کی تین طلاقیں ص ٢٢٤‘ مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور ١٩٧٩ ء)

قرآن مجید کی کسی آیت میں یہ تصریح نہیں ہے کہ بیک وقت اجتماعی طور پر دی گئی تین طلاقین ایک ہوں گی جس کو اس آیت کے عموم کی تخصیص پر قرینہ بنایا جاسکے نہ کسی حدیث صحیح میں یہ تصریح ہے ہاں یہ ضروری ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی ناراضگی کا موجب ہے اور بدعت اور گناہ ہے اور یہی احناف کا مسلک ہے ‘ اور سنت طریقہ الگ الگ طہروں میں تین طلاقیں دینا ہے لیکن اس میں گفتگو نہیں ہے ‘ گفتگو اس میں ہے کہ اگر کسی شخص نے خلاف سنت طریقہ سے بیک وقت تین طلاقیں دے دیں تو آیا وہ نافذ ہوں گی یا نہیں ! البتہ بکثرت احادیث اور آثار سے یہ ثابت ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقیں نافذ ہوجائیں گی ‘ جیسا کہ عنقریب واضح ہوگا۔ غیر مقلدوں کے امام ثانی ابن حزم اس آیت کے بارے میں لکھتے ہیں :

اس آیت میں عموم ہے اور تین دو اور ایک طلاق دینے کی اباحت ثابت ہوتی ہے۔ (المحلی ج ١٠ ص ١٧٩‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المینریہ ’ ١٣٥٢ ھ)

جمہور فقہاء اسلام نے اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے :

(آیت) ” للمطلقت متاع بالمعروف “۔ (البقرہ : ٢٤١)

ترجمہ : مطلقہ عورتوں کو رواج کے مطابق متاع (کپڑوں کا جوڑا) دینا چاہیے۔

شیخ ابن حزم اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مطلقہ کو عام رکھا ہے خواہ وہ ایک طلاق سے مطلقہ ہو یا دو سے یا تین سے اور ان میں سے کسی کے ساتھ اس کو خاص نہیں کیا۔ (المحلی ج ١٠ ص ١٧٠‘ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المینریہ ’ ١٣٥٢ ھ)

اس آیت میں مطلقہ عورتوں کو متعہ (کپڑوں کا جوڑا) دینے کی ہدایت کی ہے خواہ وہ عورتیں تین طلاقوں سے مطلقہ ہوں یا دو طلاقوں سے مطلقہ ہوں یا ایک سے اور کسی ایک طلاق کے ساتھ مطلقہ کی تخصیص نہیں فرمائی ‘ یہی چیز شیخ ابن حزم نے بیان کی ہے۔ قرآن مجید میں طلاق کے عموم اور اطلاق کی اور بھی آیات ہیں لیکن ہم بغرض اختصار انہی آیات پر اکتفا کرتے ہیں۔

بیک وقت دی گئی تین طلاقوں پر جمہور فقہاء اسلام کے احادیث سے دلائل :

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ انصار میں سے ایک شخص نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا : یا رسول اللہ ! یہ بتلائیے کہ ایک شخص اپنی عورت کے ساتھ کسی مرد کو دیکھ لے تو اس کو قتل کر دے یا کیا کرے ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے بارے میں قرآن مجید میں لعان کا مسئلہ ذکر فرمایا ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تیرے اور تیری بیوی کے درمیان اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمادیا ‘ حضرت سہل کہتے ہیں کہ ان دونوں نے میرے سامنے مسجد میں لعان کیا ‘ جب وہ لعان سے فارغ ہوگئے تو اس شخص نے کہا : اب اگر میں اس عورت کو اپنے پاس رکھوں تو میں خود جھوٹا ہوں ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے پہلے لعان سے فارغ ہوتے ہی اس نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ‘ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اپنی بیوی سے علیحدگی اختیار کرلی ‘ آپ نے فرمایا : سب لعان کرنے والوں کے درمیان یہ تفریق ہے۔ ابن شہاب کہتے ہیں : اس کے بعد یہ طریقہ مقرر ہوگیا کہ سب لعان کرنے والوں کے درمیان تفریق کردی جائے۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٨٠٠‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

علامہ ابن حجر عسقلانی اس حدیث کی شرح میں علامہ نووی کی ” شرح مسلم “ کے حوالے سے لکھتے ہیں :

اس نے اس لیے تین طلاقیں دی تھیں کہ اس کا گمان یہ تھا کہ لعان سے اس کی بیوی حرام نہیں ہوئی تو اس نے کہا : اس کو تین طلاقیں۔ (فتح الباری ج ٩ ص ٤٥١‘ مطبوعہ دارنشرالکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ‘ ١٤٠١ ھ)

اس حدیث سے واضح ہوگیا کہ صحابہ کرام کے درمیان یہ بات معروف اور مقرر تھی کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینے سے بیوی حرام ہوجاتی ہے ‘ اسی وجہ سے اس شخص نے اپنی بیوی سے تفریق اور تحریم کے لیے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے اس کو تین طلاقیں دیں ‘ اگر ایک مجلس میں تین طلاقیں سے ایک طلاق رجعی واقعی ہوتی تو اس صحابی کا یہ فعل عبث ہوتا اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اسے فرماتے : بیک وقت تین طلاقوں سے تمہاری مفارقت نہیں ہوگی۔

اس سلسلے میں امام بخاری نے یہ حدیث بھی روایت کی ہے :

حضرت سہل کہتے ہیں کہ ان دونوں نے مسجد میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے لعان کیا درآں حالیکہ میں بھی لوگوں کے ساتھ تھا۔ حضرت عویمر نے کہا : یا رسول اللہ ! اب اگر میں نے اس کو اپنے پاس رکھا تو میں جھوٹا ہوں پھر حضرت عویمر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم دینے سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں (صحیح بخاری ج ٤ ص ‘ ٨٠٠ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ الطبعۃ الاولی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ ١ (امام مسلم بن حجاج قشیری متوفی ٢٦١ ھ ‘ صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ٤٨٩ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

امام نسائی نے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے ٢ (امام عبدالرحمان احمد بن شعیب نسائی متوفی ٣٠٣ ھ ‘ سنن نسائی ج ٢ ص ١٨١‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی) اور ابوداؤد میں بھی ہے۔

علامہ نووی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ جمہور کے نزدیک نفس لعان سے تفریق ہوجاتی ہے اور محمد بن ابی صفرہ مالکی نے کہا ہے کہ نفس لعان سے تفریق نہیں ہوتی ‘ ان کی دلیل یہ ہے کہ اگر نفس لعان سے تفریق ہوتی تو حضرت عویمر اس کو تین طلاقیں نہ دیتے اور شوافع نے اس حدیث سے یہ استدلال کیا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں دینا مباح ہے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٤٨٩‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

بخاری اور مسلم کی اس حدیث سے یہ بات بہرحال واضح ہوگئی کہ صحابہ کرام کے درمیان یہ بات معروف اور متفق علیہ تھی کہ تین طلاقوں سے تفریق اور تحریم ہوجاتی ہے اور اس کے بعد رجوع جائز نہیں ہے ورنہ حضرت عویمر (رض) رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تفریق کے قصد سے اپنی بیوی کو لفظ واحد سے تین طلاقیں نہ دیتے۔

اس واقعہ میں ” سنن ابو داؤد “ کی درج ذیل حدیث نے مسئلہ بالکل واضح کردیا ہے۔

حضرت سہل بن سعد (رض) اس واقعہ میں بیان کرتے ہیں کہ حضرت عویمر نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے تین طلاقیں دیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان طلاقوں کو نافذ کردیا۔ (سنن ابوداؤد ج ١ ص ‘ ٣٠٦ مطبوعہ مطبع مجتبائی ٗ پاکستان ‘ لاہور ١٤٠٥ ھ)

اس حدیث میں اس بات کی صاف تصریح ہے کہ حضرت عویمر (رض) نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے ایک مجلس میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان تین طلاقوں کو نافذ کردیا۔ صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم ‘ سنن نسائی اور سنن ابو داؤد میں حضرت عویمر (رض) کے اس واقعہ کو پڑھنے کے بعد کسی انصاف پسند شخص کے لیے اس مسئلہ میں تردد کی گنجائش نہیں رہنی چاہیے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقیں نافذ ہوجاتی ہیں۔ والحمد للہ رب العلمین۔

حضرت عویمر کی حدیث سے استدلال پر اعتراض کے جوابات :

پیر محمد کرم شاہ الازہری اس حدیث سے جمہور فقہاء اسلام کے استدلال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں : جہاں تک اس حدیث کی سند کا تعلق ہے اس کی صحت میں کسی کو کلام نہیں۔ صحیح بخاری اور صحیح مسلم دونوں میں موجود ہے لیکن کیا اس حدیث سے استدلال درست ہے تو یہ ذرا تفصیل طلب ہے ‘ خود ابوبکر الجصاص اور شمس الائمہ سرخسی نے فرمایا کہ اس حدیث سے استدلال درست نہیں۔ (دعوت فکر ونظر مع ایک مجلس کی تین طلاقیں ص ٢٢٥‘ مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور ١٩٧٩ ء)

پیر محمد کرم شاہ صاحب کا یہ استدلال سخت حیرت کا باعث ہے۔ جمہور فقہاء اسلام نے اس حدیث سے اس پر استدلال کیا ہے کہ تین طلاقیں اگر بیک وقت دی جائیں تو تینوں واقع ہوجاتی ہیں ‘ علامہ ابوبکر جصا ص اور علامہ سرخسی نے اس استدلال کا رد نہیں کیا ‘ بلکہ یہ کہا ہے کہ احناف کے نزدیک بیک وقت تین طلاقین دینا گناہ ہے اور امام شافعی کہتے ہیں کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا مباح ہے اور اس حدیث سے استدلال کرتے ہیں کہ اگر بیک وقت تین طلاقیں دینا گناہ ہوتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عویمر عجلانی (رض) کے تین طلاقیں دینے پر انکار فرماتے اور آپ کا انکار نہ فرمانا بیک وقت تین طلاقوں کے مباح ہونے کی دلیل ہے۔ علامہ ابوبکر الجصاص اور علامہ سرخسی نے ان کے اس استدلال کا رد فرمایا ہے۔ اب ہم پہلے علامہ ابوبکر الجصاص کی اصل عبارت ذکر کرتے ہیں

علامہ ابوبکر الجصاص الرازی فرماتے ہیں :

امام شافعی نے فرمایا کہ جب شارع (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے تین طلاقیں بیک وقت دینے سے منع فرمایا تو اس سے ثابت ہوا کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا مباح ہے۔ (علامہ جصاص فرماتے ہیں) اس حدیث سے امام شافعی کا استدلال کرنا درست نہیں ہے کیونکہ ان کا مذہب یہ ہے کہ عورت کے لعان سے پہلے خاوند کے لعان کرنے سے تفریق ہوجاتی ہے اور عورت اس سے علیحدہ ہوجاتی ہے اور اس کے بعد طلاق لاحق نہیں ہوتی ‘ اور جب طلاق واقع ہوئی نہ اس کا حکم ثابت ہوا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کا کیسے انکار فرماتے۔ اگر یہ سوال کیا جائے کہ تمہارے یعنی احناف کے مذہب پر اس حدیث کی کیا توجیہ ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ ہوسکتا ہے کہ یہ طلاق دینے کا طریقہ اور وقت مقرر کرنے سے پہلے کا واقعہ ہو اور ایک طہر میں تین طلاقوں کو جمع کرنے کی ممانعت سے پہلے انہوں نے تین طلاقیں دیں ہوں۔ (احکام القرآن ج ١ ص ‘ ٣٨٤‘ مطبوعہ سہیل اکیڈمی ‘ لاہور ‘ ١٤٠٠ ھ)

اس عبارت سے واضح ہوگیا کہ علامہ جصاص کی بحث اس بات میں ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا ممنوع ہے یا مباح ہے اس میں بحث نہیں ہے کہ تین طلاقیں دینے کے بعد ایک طلاق واقع ہوتی ہے یا تین۔

اب ہم آپ کے سامنے علامہ سرخسی کی اصل عبارت پیش کررہے ہیں ‘ علامہ سرخسی فرماتے ہیں :

امام شافعی (رح) نے فرمایا تین طلاقوں کے جمع کا بدعت ہونا اور ان کو الگ الگ دینے کا سنت ہونا ‘ میں نہیں جانتا ‘ بلکہ سب طرق طلاق دینا مباح ہے اور بسا اوقات کہتے ہیں کہ تین طلاقوں کو جمع کرکے دینا سنت ہے حتی کہ جب کسی شخص نے اپنی بیوی سے کہا : تم کو سنت کے مطابق تین طلاقیں ہیں تو تینوں واقع ہوجائیں گی اور اس پر سب کا اتفاق ہے کہ اگر وہ اکٹھی تین طلاقوں کی نیت کرلے تو تینوں اکٹھی واقع ہوجاتی ہیں کیونکہ الفاظ کے برخلاف نیت کرنا باطل ہے۔ امام شافعی نے حضرت عویمر عجلانی (رض) سے حدیث سے استدلال کیا ہے ‘ جب حضرت عویمر نے اپنی بیوی سے لعان کرلیا تو کہا : یا رسول اللہ ! میں نے اگر اب اس عورت کو رکھ لیا تو میں جھوٹا قرار پاؤں گا ‘ اس کو تین طلاقیں۔ (المبسوط ج ٦ ص ٤‘ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت الطبعۃ الثالثۃ ‘ ١٣٩٨ ھ)

اس کے بعد علامہ سرخسی نے امام شافعی کے اور بھی دلائل ذکر کیے ہیں اور اخر میں اس حدیث کا جواب دیتے ہوئے اور احناف کے مسلک پر دلیل قائم کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

حضرت عبداللہ بن عمر (رض) نے جب اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کو رجوع کرنے کا حکم دیا ‘ انہوں نے پوچھا : یہ بتلائیے کہ اگر میں اس کو تین طلاقیں دے دوں تو کیا پھر بھی رجوع کرسکتا ہوں ؟ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : نہیں ‘ تمہاری بیوی تم سے علیحدہ ہوجائے گی اور تین طلاق دینا گناہ ہے (یہی احناف کی دلیل ہے۔ سعید غفرلہ) ان احادیث سے یہ ظاہر ہوگیا کہ آپ نے حضرت عویمر عجلانی کو تین طلاقیں دینے سے اس وجہ سے نہیں روکا تھا کہ وہ اس وقت سخت غصہ میں تھے اور آپ کو علم تھا کہ اس وقت وہ آپ کی بات نہیں مانیں گے اور اس وجہ سے کافر ہوجائیں گے۔ اس وجہ سے آپ نے از روئے شفقت انکار کو کسی اور وقت کے لیے مؤخر کردیا ‘ دوسرا جواب یہ ہے کہ جب آپ نے یہ فرمایا تھا کہ جاؤ تمہارا اس پر کوئی حق نہیں ہے تو یہی آپ کا انکار تھا۔ تیسرا جواب یہ ہے کہ تین طلاقوں کو بیک وقت دینا اس وقت مکروہ ہے جب وہ بلاضرورت ہوں اور ان کی تلافی اور تدارک ممکن ہو ‘ اور حضرت عویمر عجلانی کے حق میں یہ وجہ متحقق نہیں تھی ‘ کیونکہ جو میاں بیوی آپس میں لعان کرنے پر مصر ہوں ان کی طلاق کا تدارک نہیں ہوسکتا اور حضرت عویمر عجلانی (رض) لعان کرنے پر مصر تھے۔ (المبسوط ج ٦ ص ٦۔ ٥‘ مطبوعہ دارالمعرفۃ بیروت الطبعۃ الثالثۃ ‘ ١٣٩٨ ھ)

دیکھئے شمس الائمہ سرخسی کیا فرما رہے ہیں : اور پیر محمد کرم شاہ صاحب الازہری ان کے حوالے سے کیا سمجھا رہے ہیں ؟ فیاللاسف۔

صحیحین کی ایک اور حدیث سے استدلال پر اعتراض کا جواب :

امام بخاری ” باب من اجاز الطلاق الثلاث “ جس نے بیک وقت تین طلاقوں کو جائز قرار دیا “ کے باب میں اس حدیث کو روایت کرتے ہیں :

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں ‘ اس عورت نے کہیں اور شادی کرلی ‘ اس نے بھی طلاق دے دی ‘ پھر نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا گیا کہ آیا یہ عورت پہلے خاوند پر حلال ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں ‘ جب تک کہ دوسرا خاوند پہلے خاوند کی طرح اس کی مٹھاس نہ چکھ لیے۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٧٩١ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ الطبعۃ الاولی ‘ ١٣٨١ ھ)

اس حدیث کو امام مسلم نے بھی روایت کیا ہے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ٤٦٣ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ الطبعۃ الاولی ‘ ١٣٧٥ ھ)

علامہ عینی اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ ظاہر یہ ہے کہ اس شخص نے اس کو تین طلاقیں مجموعی طور پر (ایک مجلس میں) دی تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ امام بخاری نے اس حدیث کو اس باب میں ذکر کیا ہے۔ (عمدۃ القاری ج ٢٠ ص ‘ ٢٦٧ مطبوعہ ادارۃ الطباعۃ المنیریہ ‘ مصر ١٣٤٨ ھ)

علامہ ابن حجر عسقلانی نے بھی حدیث کی باب سے مطابقت بیان کرتے ہوئے یہی لکھا ہے۔ (فتح الباری ج ٩ ص ٣٦٧ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ)

صحیح بخاری و مسلم کی اس حدیث سے بھی واضح ہوگیا کہ بیک وقت تین طلاقوں کے بعد تحریم ہوجاتی ہے اور رجوع جائز نہیں رہتا کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بیک وقت تین طلاقیں دی جانے کے بعد فرمایا کہ یہ اس شوہر پر حلال نہیں ہے ‘ اور یہ استدلال بالکل واضح ہے کیونکہ بیک وقت تین طلاقوں کے بعد رجوع کا ناجائز ہونا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم سے ہے۔ بیک وقت تین طلاقوں کی تحریم میں یہ حدیث بھی بالکل واضح ہے۔

پیر محمد کرم شاہ الازہری اس حدیث سے جمہور کے استدلال کا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

حدیث میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس سے یہ معلوم ہو کہ یہ تین طلاقیں ایک ساتھ دی گئیں تھیں بلکہ ” طلق ثلاثا “ کا مطلب تو یہ ہے کہ اس نے تین بار طلاقیں دیں ‘ اس لیے اس حدیث سے بھی استدلال درست نہ ہوا۔ (دعوت فکر ونظر مع ایک مجلس کی تین طلاقیں ص ٢٢٦‘ مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور ١٩٧٩ ء)

جمہور فقہاء اسلام کا اس حدیث سے استدلال بالکل درست ہے اور طلق ثلاثا کا یہی معنی ہے کہ اس نے بیک وقت تین طلاقیں دیں۔ پیرصاحب جو کہہ رہے ہیں کہ اس کا مطلب ہے : اس نے تین بار طلاقیں دیں اس کے لیے ” طلق ثلاثا “ کی جگہ ” طلق ثلث مرات “ کا لفظ ہونا چاہیے تھے اور اس سے بھی پیر صاحب کا مدعا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ ایک مجلس میں تین لفظوں سے تین بارطلاق دی جائے تو وہ بھی ان کے نزدیک ایک طلاق ہوتی ہے۔ پیر صاحب کا مدعا تب ثابت ہوتا جب حدیث کے الفاظ یوں ہوتے : ” طلق ثلاث تطلیقات فی ثلاثۃ اطہار ‘ تین طہروں میں تین طلاقیں دیں “ لیکن بخاری اور مسلم کی روایت میں ہے : ” طلق ثلاثا “ یعنی انہوں نے بیک وقت تین طلاقیں دیں اور اس سے جمہور فقہاء اسلام ہی کا مدعا ثابت ہوتا ہے ‘ لہذا اس حدیث سے جمہور کا استدلال بالکل درست ہے۔

سویدبن غفلہ کی روایت کی تحقیق :

امام بیہقی روایت کرتے ہیں :

سوید بن غفلہ بیان کرتے ہیں کہ عائشہ خثعمیہ ‘ حضرت حسن بن علی (رض) کے نکاح میں تھیں ج ‘ جب حضرت علی (رض) شہید ہوئے تو اس نے حضرت حسن سے کہا : آپ کو خلافت مبارک ہو ‘ حضرت حسن نے کہا : تم حضرت علی کی شہادت پر خوشی کا اظہار کررہی ہو ‘ تم کو تین طلاقیں دیں ‘ اس نے اپنے کپڑے لیے اور بیٹھ گئی ‘ حتی کہ اس کی عدت پوری ہوگئی ‘ حضرت حسن نے اس کو طرف اس کا بقیہ مہر اور دس ہزار کا صدقہ بھیجا ‘ جب اس کے پاس قاصد یہ مال لے کر آیا تو اس نے کہا : مجھے اپنے جدا ہونے والے محبوب سے یہ تھوڑا سا سامان ملا ہے ‘ جب حضرت حسن تک یہ بات پہنچی تو انہوں نے آبدیدہ ہو کر فرمایا : اگر میں نے اپنے نانا سے یہ حدیث نہ سنی ہوتی یا کہا : اگر میرے والد نے یہ بیان نہ کیا ہوتا کہ انہوں نے میرا نانا سے سنا ہے : جس شخص نے بھی اپنی بیوی کو تین طلاقیں دی خواہ الگ الگ طہروں میں یا بیک وقت تو وہ عورت اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ کسی اور خاوند سے نکاح نہ کرلے ‘ تو میں اس سے رجوع کرلیتا۔ (سنن کبری ج ٧ ص ٢٣٦‘ مطبوعہ نشرالسنۃ ‘ ملتان)

یہ حدیث انتہائی واضح اور صریح ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقوں سے تین طلاقیں ہی واقع ہوتی ہیں۔

امام دارقطنی نے بھی اس حدیث کو سوید بن غفلہ سے دو سندوں کے ساتھ روایت کیا ہے۔ (سنن دارقطنی ج ٤ ص ‘ ٣١۔ ٣٠ مطبوعہ نشرالسنۃ ‘ ملتان)

امام الہیثمی نے بھی اس حدیث کو طبرانی کے حوالے سے سوید بن غفلہ اور ابو اسحاق سے روایت کیا ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٤ ص ‘ ٣٣٩ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

غیر مقلدوں کے عالم شیخ شمس الحق عظیم آبادی ‘ امام دار قطنی کی بیان کردہ اس حدیث کی پہلی سند پر جرح کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

اس حدیث کی سند میں عمرو بن قیس رازی ارزق ہے ‘ یہ راوی بہت سچا ہے لیکن اس کے ادہام میں ‘ امام ابوداؤد نے کہا : اس میں کوئی حرج نہیں لیکن اس کی حدیث میں خطاء ہے اور اس کی سند میں سلمہ بن فضل قاضی رہے ہے۔ ابن راھویہ نے اس کو ضعیف قرار دیا ہے اور امام بخاری نے کہا : اس کی احادیث میں منکر روایات بھی ہیں ‘ ابن معین نے کہا : یہ تشیع کرتا تھا میں نے اس کی احادیث لکھی ہیں اور اس میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ ابو حاتم نے کہا : اس کی احادیث سے استدلال نہیں ہوتا۔ ابوزرعہ نے کہا کہ رے کے لوگ اس کی غلط رائے اور ظلم کی وجہ سے اس کو پسند نہیں کرتے تھے (التعلیق المغنی علی دارقطنی ج ٤ ص ٣٠‘ مطبوعہ نشر السنۃ ملتان)

شیخ عظیم آبادی نے اس حدیث کے دو راویوں کے بارے میں صرف جرح کے اقوال نقل کردیئے ہیں ‘ حالانکہ ان دونوں کی زیادہ تعدیل کی گئی ہے ‘ حافظ ابن حجر لکھتے ہیں : عمر ابن حجر لکھتے ہیں : عمرو بن قیس رازی ازرق سے ‘ امام بخاری نے تعالیق میں روایت کی ہے ‘ امام ترمذی ‘ امام ابوداؤد ‘ امام نسائی اور امام ابن ماجہ نے ان کی روایات کو ذکر کیا ہے اور ان سے استدلال کیا ہے رے کے لوگ امام ابوسفیان ثوری کے پاس گئے اور ان سے احادیث سننے کی درخواست کی۔ انہوں نے فرمایا : کیا تمہارے پاس عمرو بن ابی قیس نہیں ہیں ؟ امام ابو داؤد نے ایک جگہ کہا کہ ان کی حدیث میں خطاء ہوتی ہے اور دوسری جگہ فرمایا : ان سے روایت میں کوئی حرج نہیں ہے ‘۔ امام ابن حبان اور ابن شاہین نے ان کا ثقات میں ذکر کیا ہے۔ عثمان بن ابی شیبہ نے کہا : ان سے روایت کیا میں کوئی حرج نہیں ہے ‘ ہاں ان سے حدیث میں کچھ وہم بھی ہے۔ امام بزار نے فرمایا : یہ مستیقم الحدیث ہیں ‘ یعنی ان کی روایت صحیح ہے۔ (تہذیب التہذیب ج ٨ ص ٩٥۔ ٩٤‘ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف ‘ ہند)

اس حدیث کی سند کے دوسرے راوی پر شیخ عظیم آبادی نے جرح کی ہے ‘ وہ ہیں سلمہ بن فضل قاضی رے (طہران) حافظ ابن حجر عسقلانی اس کے بارے میں لکھتے ہیں : امام ابن معین ان کو ایک روایت میں ثقہ اور ایک میں ” لیس بہ باس “ کہتے ہیں ابن سعد ان کو ثقہ اور صدوق کہتے ہیں ‘ محدث ابن عدی فرماتے ہیں : ان کی حدیث میں غرائب وافراد تو ہیں ‘ لیکن میں نے ان کی کوئی حدیث نہیں دیکھی جو حد انکار تک پہنچتی ہو ‘ ان کی احادیث متقارب اور قابل برداشت ہیں۔ امام ابن حبان نے ان کا ثقات میں ذکر کیا ہے۔ اور لکھتے ہیں ” یخطی ویخالف “ امام ابو داؤد ان کو ثقہ کہتے ہیں۔ امام احمد فرماتے ہیں : میں ان کے بارے میں سوائے خیر کے اور کچھ نہیں جانتا۔ (تہذیب التہذیب ج ٤ ص ١٥٤۔ ١٥٣‘ مطبوعہ مجلس دائرۃ المعارف ‘ ہند ‘ ١٣٢٥ ھ)

حافظ ابن حجر عسقلانی نے اس حدیث کی سند کے دو راویوں عمرو بن ابی قیس رازی اور سلمہ بن فضل قاضی رے (طہران) کے بارے میں جو ائمہ حدیث کی آراء پیش کی ہیں ان میں ان کی زیادہ تر تعدیل کی گئی ہے اور ان کے حفظ اور اتقان کی توثیق ‘ اور حافظ الہیثمی اس حدیث کی سن کے راویوں کے بارے میں لکھتے ہیں :

اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے ‘ اس کے راویوں میں کچھ ضعف ہے لیکن ان کی توثیق کی گئی ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٤ ص ٣٤٠۔ ٣٣٩‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

حافظ نور الدین الہیثمی کا علم رجال میں بہت اونچا مقام ہے ‘ اور جب انہوں نے یہ تصریح کردی ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے تو ایک انصاف پسند شخص کو اس کی سند میں تردد کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ‘ علاوہ ازیں یہ حدیث متعدد اسانید سے مروی ہے ‘ دوسندوں سے امام دارقطنی نے روایت کیا ہے ‘ دوسندوں سے امام طبرانی نے روایت کیا ہے ‘ امام بیہقی نے لکھا ہے کہ سوید بن غفلہ سے اس کو عمرو بن شمر اور ابراہیم بن عبدالاعلی نے بھی روایت کیا ہے ‘ اس طرح اس حدیث کی سات اسانید کا بیان آگیا ہے جس سے اس حدیث کو مزید تقویت پہنچتی ہے۔ ١ (پیر محمد کرم شاہ الازہری نے اس حدیث کو بیہقی کی ایک سند کے حوالے سے بیان کیا ہے اور اس سند پر جرح کی ہے جب کہ ہم نے ” سنن دارقطنی “ کی ایک روایت کی سند کی صحت کو ثابت کیا ہے اور اس کی سند کی جرح کا جواب دیا ہے اور ” مجمع الزوائد “ سے اس کی توثیق کی ہے۔ (سعیدی غفرلہ)

سنن نسائی کی روایت سے استدلال پر اعتراض کا جواب :

بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے کے ثبوت میں یہ حدیث بھی بہت واضح اور صریح ہے۔

امام نسائی روایت کرتے ہیں :

محمودبن لبید روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دے دیں۔ آپ غصہ سے کھڑے ہوگئے اور فرمایا : میرے سامنے کتاب اللہ کو کھیل بنایا جارہا ہے ؟ حتی کہ ایک شخص نے کھڑے ہو کر کہا : یا رسول اللہ ! میں اس کو قتل نہ کر دوں۔ (سنن نسائی ج ٢ ص ١٨١‘ مطبوعہ نور محمد کارخانہ تجارت کتب ‘ کراچی)

اگر بیک وقت دی گئی طلاقوں کے نافذہونے کا عہد رسالت میں معمول نہ ہوتا اور تین طلاقوں سے ایک طلاق مراد لینے کا معمول ہوتا تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس قدر ناراض کیوں ہوئے تھے ؟ ظاہر ہے کہ ایک طلاق تو سنت ہے اور اگر بیک وقت دی گئی طلاقیں بھی ایک طلاق کے مترادف ہیں تو وہ حکما سنت قرار پائیں گی اور اس پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے غضب اور ناراضگی کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ اس حدیث سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ بیک وقت تین طلاقیں دینا بدعت اور گناہ ہے۔ ورنہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس پر ناراض نہ ہوتے۔

پیر محمد کرم شاہ الازہری اس حدیث کے بارے میں لکھتے ہیں : حضور کا ایسے شخص پر ناراض ہونا جس نے تین طلاقیں ایک بار دی تھیں اس امر پر صراحۃ دلالت کرتا ہے کہ ایسا کرنا حکم الہی کے سراسر خلاف ہے (دعوت فکر ونظر مع ایک مجلس کی تین طلاقیں ص ٢٣١‘ مطبوعہ نعمانی کتب خانہ لاہور ١٩٧٩ ء)

یقیناً خلاف ہے اور یہ احناف کا مذہب ہے ‘ اسی لیے وہ بیک وقت تین طلاقوں کو بدعت اور گناہ کہتے ہیں لیکن پیر صاحب کا مدعا یہ ہے کہ یبک وقت تین طلاقوں سے ایک طلاق ہوتی ہے اور وہ اس حدیث سے ثابت نہیں ہوتا بلکہ اس کے برخلاف جمہور فقہاء اسلام کا مؤقف ثابت ہوتا ہے کہ بیک وقت تین طلاقیں دینے سے تین طلاقیں ثابت ہوجاتی ہیں۔

حافظ الہیثمی روایت کرتے ہیں۔

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنی بیوی کو حالت حیض میں طلاق دی ‘ پھر عرض کیا : یا رسول اللہ ! کیا میں اپنی بیوی کو تین طلاقیں دینے کے بعد رجوع کرسکتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا : تین طلاقیں دینے کے بعد تمہاری بیوی تم سے علیحدہ ہوجائے گی اور تمہارا بیوی کو تین طلاقیں دینا گناہ ہے۔ اس حدیث کو طبرانی نے روایت کیا ہے ‘ اس میں علی بن سعید ایک راوی ہے۔ دارقطنی نے کہا : وہ قوی نہیں ہے اور دوسروں نے اس کو عظیم قرار دیا اور اس کے باقی تمام راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ٤ ص ‘ ٣٣٦ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

حافظ الہیثمی نے اس حدیث کی فنی حیثیت بھی متعین کردی ہے کہ امام دارقطنی نے اس کے ایک راوی علی بن سعید رازی کی ثقاہت سے اختلاف کیا ہے اور اس حدیث کے باقی تمام راویوں کی ثقاہت پر اتفاق ہے اور امام دارقطنی کے اختلاف سے اس حدیث کی صحت پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس حدیث میں یہ بھی تصریح ہے کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں اور یہ بھی کہ یہ فعل گناہ ہے۔

بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے میں آثار صحابہ اور اقوال تابعین :

امام عبدالرزاق روایت کرتے ہیں : سالم بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا : جس شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں اور وہ واقع ہوجائیں گی اور اس شخص نے اپنے رب کی نافرمانی کی۔ (المصنف ج ٦ ص ٣٩٥ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

یہ حدیث صحیح مسلم میں بھی ہے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٤٧٦‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

مجاہد کہتے ہیں کہ حضرت ابن عباس نے بیان کیا کہ ان سے ایک شخص نے کہا : اے ابو عباس میں نے اپنی عورت کو تین طلاقیں دے دی ہیں۔ حضرت ابن عباس نے (طنزا) فرمایا : یا اباعباس پھر فرمایا : تم میں سے کوئی شخص حماقت سے طلاق دیتا ہے ‘ پھر کہتا ہے : اے ابو عباس ! تم نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور تمہاری بیوی تم سے علیحدہ ہوگئی۔ (المصنف ج ٦ ص ٣٩٧ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

امام ابوبکر بن ابی شیبہ روایت کرتے ہیں :

واقع بن سحبان بیان کرتے ہیں کہ عمران بن حصین (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دے دیں ؟ حضرت عمران بن حصین نے کہا : اس شخص نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس پر حرام ہوگئی۔ (المصنف ج ٥ ص ١١ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت عمر (رض) کے پاس کوئی ایسا شخص لایا جاتا جس نے اپنی بیوی کو ایک مجلس میں تین طلاقیں دی ہوں تو آپ اس کو مارتے تھے اور ان کے درمیان تفریق کردیتے تھے۔ (المصنف ج ٥ ص ١١ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

زہری کہتے ہیں کہ جس شخص نے اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاق دے دیں اس نے اپنے رب کی نافرمانی کی اور اس کی بیوی اس سے علیحدہ ہوگئی۔ (المصنف ج ٥ ص ١١ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

شعبی سے پوچھا گیا : اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے علیحدہ ہونا چاہے ؟ اس نے کہا : اس کو تین طلاقیں دے دے۔ (المصنف ج ٥ ص ١٢ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

علقمہ کہتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دیں ؟ آپ نے فرمایا : تین طلاقوں سے اس کی بیوی حرام ہوگئی اور باقی ستانوے طلاقیں حد سے تجاوز ہیں۔ (المصنف ج ٥ ص ١٢ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

حبیب کہتے ہیں کہ حضرت علی (رض) کے پاس آکر ایک شخص کہنے لگا : میں نے اپنی بیوی کو ہزار طلاقیں دی ہیں ‘ آپ نے فرمایا : تمہاری بیوی تین طلاقوں سے علیحدی ہوگئی ‘ باقی طلاقیں اپنی بیویوں میں تقسیم کردو۔ (المصنف ج ٥ ص ١٣ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

معاویہ بن ابی یحییٰ کہتے ہیں کہ حضرت عثمان کے پاس ایک شخص نے آکر کہا : میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دیں ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تین طلاقوں سے تمہاری بیوی تم پر حرام ہوگئی اور باقی ستانوں طلاقیں ‘ حد سے تجاوز ہیں۔ (المصنف ج ٥ ص ١٣ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

حضرت مغیر بن شعبہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دی ہیں۔ آپ نے فرمایا : تین طلاقوں نے اس پر اس کی بیوی کو حرام کردیا اور ستانوں طلاقیں زائد ہیں۔ (المصنف ج ٥ ص ١٤۔ ١٣ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

شعبی کہتے ہیں کہ شریح سے کسی نے پوچھا : میں نے اپنی بیوی کو سو طلاقیں دے دی ہیں۔ انہوں نے کہا : تمہاری بیوی تین طلاقوں سے علیحدہ ہوگئی اور باقی طلاقیں اسراف اور معصیت ہیں۔ (المصنف ج ٥ ص ١٤ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

حسن بصری سے ایک شخص نے کہا : میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تمہاری بیوی تم سے علیحدہ ہوگئی۔ (المصنف ج ٥ ص ١٤ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

حضرت جابر بیان کرتے ہیں کہ حضرت ام سلمہ (رض) سے سوال کیا گیا کہ ایک شخص نے مقاربت سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی۔ آپ نے فرمایا : اس کی بیوی اس کے لیے اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک دوسرا شوہر اس سے مقاربت نہ کرلے۔ (المصنف ج ٥ ص ٢٢ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

حضرت ابوہریرہ ‘ حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت عائشہ (رض) تینوں پر فتوی دیتے تھے کہ جس شخص نے مقاربت سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو اس کی بیوی اس پر اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک وہ دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے۔ (المصنف ج ٥ ص ٢٣ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ جب کسی شخص نے مقاربت سے پہلے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں تو وہ اس پر اس وقت تک حلال نہیں ہے جب تک کہ وہ دوسرے شوہر سے نکاح کرلے۔ (المصنف ج ٥ ص ٢٣ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

مذکورالصدر تینوں روایات میں غیر مدخولہ پر جن تین طلاقوں کے واقع کرنے کا حکم کیا گیا ہے اس سے مراد بیک وقت دی گئی لفظ واحد سے تین طلاقیں ہیں کیونکہ اگر الفاظ متعددہ سے تین طلاقیں دی جائیں تو پہلی طلاق سے غیر مدخولہ عورت بائنہ ہوجاتی ہے اور بقیہ طلاقوں کا محل نہیں رہتی اور وہ طلاقیں لغو ہوجاتی ہیں۔ حسب ذیل حدیث سے اس کی وضاحت ہوجاتی ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) فرماتے ہیں : جب کوئی شخص دخول سے پہلے تین طلاقیں دے تو وہ عورت اس پر اس وقت تک حلال نہیں نہیں ہے جب تک کہ دوسرے شخص سے نکاح نہ کرلے اور اگر اس نے متفرق الفاظ سے یہ طلاقیں دی ہیں تو عورت پہلی طلاق سے بائنہ ہوجائے گی۔ (المصنف ج ٥ ص ٢٥ مطبوعہ ادارۃ القرآن ٗکراچی ٗالطبعۃ الاولی ١٤٠٦ ھ)

ہم نے مذکور الصدر روایات میں حضرت عمر (رض) ‘ حضرت عثمان (رض) ‘ حضرت علی (رض) ‘ حضرت عبداللہ بن مسعود ‘ حضرت عبداللہ بن عمر (رض) ‘ حضرت عبداللہ بن عباس (رض) ‘ حضرت عمران بن حصین (رض) ‘ حضرت مغیرہ بن شعبہ (رض) ‘ حضرت ابوہریرہ (رض) ‘ حضرت ام سلمہ (رض) اور حضرت عائشہ (رض) ایسے گیارہ جلیل القدر فقہاء صحابہ اور امہات المؤمنین کے فتاوی اور تصریحات پیش کی ہیں کہ بیک وقت دی گئی تین طلاقیں تین ہی واقع ہوتی ہیں اور فقہاء تابعین میں سے ابن شہاب زہری ‘ شعبی ‘ شریح ‘ حسن بصری ‘ اور ابراہیم نخعی کے فتاوی پیش کیے ہیں ‘ قرآن مجید اور احادیث صحیحہ کی صراحت کے بعد جمہور فقہاء اسلام کا مؤقف انہی نفوس قدسیہ کی اتباع پر مبنی ہے۔

حرف آخر :

تین طلاقوں کے مسئلہ میں ‘ میں نے اس قدر تفصیل اور تحقیق اس لیے کی ہے کہ آج کل غیر مقلدین کی عام روش یہ ہے کہ جس شخص نے بھی اپنی بیوی کو بیک وقت تین طلاقیں دیں وہ اس کو ایک طلاق قرار دے کر ثبوت میں طاؤس کی روایت لکھ کر دیدیتے ہیں جس کی وجہ سے عام مسلمان شکوک و شبہات میں مبتلا ہوتے ہیں جب میں نے یہ دیکھا کہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حرام کردیا ہے اس کو بکثرت حلال کیا جارہا ہے حتی کہ ملک کے عائلی قانون میں بھی تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دیدیا گیا ہے تو میں نے اللہ اور اس کے رسول کی قائم کردہ حدود کے علمی تحفظ اور دفاع کے لیے یہ صفحات لکھ دیئے۔

اے اللہ ! اس تحریر کو نفع آور بنا ‘ منکرین کے لیے اس کو ذریعہ ہدایت اور ماننے والوں کیلیے سبب استقامت کر دے اس کے مصنف ‘ معاون اور پڑھنے والوں اور اس پر عمل کرنیوالوں کی لغزشوں اور خطاؤں کو معاف فرما اور ان کے لیے دارین کی سعادتوں اور کامرانیوں کو مقدر کر دے۔ والحمد للہ رب العالمین والصلوۃ والسلام علی محمد خاتم النبیین شفیع المذنبین قائد الغرالمحجلین وعلی و اصحابہ وازواجہ المھات المؤمنین اجمعین “۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 230