بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَقَالَ لَهُمۡ نَبِيُّهُمۡ اِنَّ اٰيَةَ مُلۡکِهٖۤ اَنۡ يَّاۡتِيَکُمُ التَّابُوۡتُ فِيۡهِ سَکِيۡنَةٌ مِّنۡ رَّبِّکُمۡ وَبَقِيَّةٌ مِّمَّا تَرَكَ اٰلُ مُوۡسٰى وَاٰلُ هٰرُوۡنَ تَحۡمِلُهُ الۡمَلٰٓٮِٕكَةُ‌ ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰلِكَ لَاٰيَةً لَّـکُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَ

اور ان کے نبی نے ان سے کہا : بیشک اس بادشاہ کی سلطنت کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس ایک تابوت آئے گا جس میں تمہارے رب کی طرف سے سکینہ (سکون آور چیز) ہے اور آل موسیٰ اور آل ہارون کی چھوڑی ہوئی باقی ماندہ کچھ چیزیں ہیں اس تابوت کو فرشتے اٹھائے ہوئے ہوں گے ‘ اگر تم مومن ہو تو بیشک اس میں ضرور تمہارے لیے ایک عظیم نشانی ہے

بنواسرائیل کے تابوت کی تحقیق :

علامہ ابو الحیان اندلسی لکھتے ہیں : حضرت ابن عباس (رض) اور حضرت ابن السائب (رض) بیان کرتے ہیں کہ یہ صندق شمشاد کی لکڑی سے بنا ہوا تھا ‘ اور اس پر سونے کے پترے چڑھتے ہوئے تھے ‘ یہ تین ہاتھ لمبا اور دو ہاتھ چوڑا تھا ‘ اس تابوت کی عظمت بنواسرائیل کے نزدیک مشہور و معروف تھی ‘ وہ اس کو گم کرچکے تھے ‘ اللہ تعالیٰ نے اس کے مندرجات کو مبہم رکھا ہے اور اس کی تصریح نہیں فرمائی کہ اس صندوق میں کیا تھا ‘ اس کو فرشتے اٹھائے ہوئے تھے ‘ ہم اس صندوق کے متعلق اس چیز کو اختصار سے بیان کریں گے جس کو مفسرین اور مؤرخین نے بیان کیا ہے ‘ مؤرخین نے ذکر کیا ہے کہ یہ تابوت حضرت آدم (علیہ السلام) پر اتارا گیا تھا ‘ اس میں انبیاء (علیہم السلام) اور ان کے گھروں کی تصویریں تھیں ‘ اور آخری گھر سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تھا ‘ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد یہ تابوت حضرت شیث (علیہ السلام) سے منتقل ہوتا ہوا حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک پہنچا پھر حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کے پاس رہا ‘ پھر ان کے بیٹے قیدار کے پاس ‘ پھر ان سے ان کے عم زاد اولاد اسحاق نے اس میں تنازع کیا ‘ اور یہ کہا : اس نور کے سوا تم سے نبوت لے لی گئی ہے ‘ انہوں نے تابوت نہ دیا ‘ اور ایک دن اس کو کھولنے کی کو کشش کی تو ان سے نہیں کھلا ‘ پھر آسمان سے ایک منادی نے ان کو ندا کی کہ نبی کے سوا اس کو کوئی نہیں کھول سکتا ‘ تم یہ اپنے عم زاد یعقوب کو دے دو ‘ سو انہوں نے اس کو اپنی پیٹھ پر اٹھا کر اپنے عم زاد حضرت یعقوب (علیہ السلام) تک پہنچا دیا ‘ پھر یہ تابوت بنو اسرائیل میں منتقل ہوتا رہا ‘ یہاں تک کہ موسیٰ (علیہ السلام) تک پہنچا ‘ انہوں نے اس میں تورات کو رکھا اور اپنی بعض دوسری چیزیں رکھیں پھر یہ بنواسرائیل کے انبیاء میں منتقل ہوتا ہوا حضرت شمویل تک پہنچا۔ (البحر المحیط ج ٢ ص ‘ ٥٨١ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

سکینہ کا معنی اور اس کے مصداق کی تحقیق :

سکینہ کا معنی ثبات ‘ امن اور سکون ہے ‘ قرآن مجید میں ہے ؛ (آیت) ” ثم انزل اللہ سکینتہ علی رسولہ وعلی المؤمنین “۔ (التوبہ : ٢٦ )

پھر اللہ نے اپنے رسول اور مسلمانوں پر سکون اور اطمینان نازل کیا “۔

صحابہ کرام اور فقہاء تابعین سے سکینہ کے متعدد معانی منقول ہیں : زناٹے دار ہوا ‘ پروں اور دم والی کوئی چیز ‘ سونے کا طشت ‘ زمرد یا یاقوت کی تصویر جس کا سر اور دم بلی کی ہو ‘ وہ بشارات جو اللہ نے حضرت موسیٰ اور ہارون (علیہما السلام) پر نازل کیں ‘ طالوت کی فتح کی بشارت وہ جانی پہچانی آیات جن سے سکون حاصل ہو ‘ رحمت اور وقار وغیرہ ‘۔

امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ : حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں : سکینہ انسان کے چہرہ کی طرح ایک چہرہ ہے یا پھر یہ زناٹے دار ہوا ہے۔

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ سکینہ کے دو پر اور ایک دم ہے۔

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ سکینہ سونے کا ایک جنتی طشت ہے جس میں انبیاء (علیہم السلام) کے قلوب کو غسل دیا جاتا ہے۔

ربیع نے کہا : سکینہ تمہارے رب کی طرف سے رحمت ہے۔ قتادہ نے کہا : سکینہ وقار ہے ‘ سب سے اولی تفسیر وہ ہے جس کو عطاء بن ابی رباح نے بیان کیا کہ سکینہ وہ معروف علامتیں ہیں جن سے دلوں کو سکون حاصل ہوتا ہے۔ (جامع البیان ج ٢ ص ‘ ٣٨٧۔ ٣٨٥‘ ملخلصا مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

ہم اس سے پہلے بیان کرچکے ہیں کہ سکینہ کا معنی طمانیت ہے اور جب کہ بنواسرائیل کو تابوت کے آنے سے طمانیت حاصل ہوئی تو تابوت کو سکینہ کے لیے مجازا ظرف قرار دیا گیا۔

امام مسلم روایت کرتے ہیں : حضرت براء (رض) بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی سورة کہف پڑھ رہا تھا ‘ اور اس کا گھوڑا اس دو لمبی رسیوں سے بندھا ہوا تھا ‘ اس شخص کو ایک بادل نے ڈھانپ لیا ‘ وہ بادل چکر لگاتا ہوا قریب ہورہا تھا اور اس کا گھوڑا اس سے ڈر کر متوحش ہو رہا تھا ‘ جب صبح ہوئی تو اس نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کا ذکر کیا آپ نے فرمایا : وہ سکینہ تھا جو قرآن کی وجہ سے نازل ہوا۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ٢٦٨‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

علامہ نووی نے لکھا ہے کہ سکینہ کے کئی معنی ہیں اور مختار یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق میں سے کوئی چیز ہے جس میں طمانیت اور رحمت ہوتی ہے اور اس کے ساتھ فرشتے ہوتے ہیں۔

نیز امام مسلم نے روایت کیا ہے کہ ایک رات حضرت اسید بن حضیر اپنے اصطبل میں قرآن مجید پڑھ رہے تھے ‘ ناگاہ ان کا گھوڑا اچھلنے لگا اور حضرت اسید کو یہ خوف ہوا کہ کہیں وہ ان کے بچے یحییٰ کو کچل نہ دے میں (حضرت اسید کہتے ہیں) اس کی طرف کھڑا ہوا تو کیا دیکھتا ہوں کہ میرے سر کے اوپر فضا میں چراغوں کی مثال سائبان ہے۔ صبح میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے اس واقعہ کو عرض کیا ‘ آپ نے فرمایا : یہ فرشتے تھے جو تمہارا قرآن سن رہے تھے اگر تم پڑھتے رہتے تو صبح سب لوگ انکو دیکھ لیتے اور وہ کسی پر مخفی نہ رہتے۔ (صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ٢٨٩ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو حضرت براء کی حدیث میں سکینہ سے تعبیر کیا اور حضرت اسید کی حدیث میں اس کو فرشتوں سے تعبیر فرمایا ‘ آپ نے فرشتوں کو سکینہ اس لیے فرمایا کہ ان کا ایمان غایت طمانیت میں ہوتا ہے ‘ اور وہ ہمیشہ اللہ کی اطاعت کرتے ہیں اور اس کی کبھی معصیت نہیں کرتے۔

امام مسلم روایت کرتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص علم کی تلاش میں کسی راستہ پر جائے ‘ اللہ تعالیٰ ان کے لیے جنت کا راستہ آسان کردیتا اور جو جماعت اللہ کے گھروں میں سے کسی گھر میں کتاب اللہ کی تلاوت کرتی ہے اور ایک دوسرے کے ساتھ درس کا تکرار کرتی ہے ان پر سکینہ ناز ہوتی ہے انہیں رحمت ڈھانپ لیتی ہے اور فرشتے ان کو گھیر لیتے ہیں (صحیح مسلم ج ١ ص ‘ ٣٤٥ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

حضرت ابوہریرہ (رض) کی اس حدیث میں اللہ کے گھر میں کتاب اللہ کی تلاوت کرنے والوں اور اس کے درس کی تکرار کرنے والوں پر نزول سکینہ کا بیان ہے کیونکہ جو شخص کتاب اللہ کی تلاوت کرتا ہے اور اس کے معانی میں تدبر اور تفکر کرتا ہے اس کو طمانیت اور انشراح قلب حاصل ہوتا ہے۔

آل موسیٰ اور آل ہارون کے باقی ماندہ تبرکات کا بیان :

بنو اسرائیل کے تابوت میں آل موسیٰ اور آل ہارون کے باقی ماندہ تبرکات تھے ‘ ان کی تعیین میں صحابہ اور فقہاء تابعین کے مختلف اقوال ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے ‘ امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا : ان باقی متروکہ چیزوں میں سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کا عصا اور الواح تورات کے ٹکڑے تھے۔ ابوصالح نے بیان کیا : اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کا عصا ‘ تورات کی دو تختیان اور من رکھتے ہوئے تھے۔

عطیہ بن سعد نے بیان کیا : اس میں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون (علیہ السلام) کی لاٹھیاں ‘ ان کے کپڑے اور الواح تورات کے ٹکرے تھے اور بعض نے کہا : اس میں ان کی لاٹھیاں اور نعلین تھیں۔

ابن زید نے بیان کیا کہ دن کے وقت فرشتے تابوت کو لے کر آئے اور بنواسرائیل ان کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے ‘ سدی نے کہا ہے کہ فرشتوں تابوت لے کر آئے اور بنو اسرائیل ان کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے سدی نے کہا ہے کہ فرشتوں وہ تابوت طالوت کے گھر کے سامنے لا کر رکھ دیا ‘ تب بنو اسرائیل حضرت شمعون (یا حضرت شمویل) کی نبوت اور طالوت کی بادشاہت پر ایمان لے آئے (جامع البیان ج ٢ ص ‘ ٣٨٩۔ ٣٨٧ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

علامہ ابوالحیان اندلسی لکھتے ہیں :

قتادہ نے بیان کیا ہے کہ اس تابوت کو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے حضرت یوشع کے پاس میدان تیہ میں چھوڑا تھا ‘ وہ وہیں پر رکھا رہا اور بنو اسرائیل اس پر مطلع نہ ہوسکے حتی کہ فرشتوں نے اس کو اٹھا کر طالوت کے گھر میں رکھ دیا ‘ پھر وہ طالوت کی بادشاہت پر ایمان لے آئے۔

اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کے ذریعہ اس تابوت کو بھجوایا تاکہ اس نشانی کی عظمت پر لوگ متنبہ ہوں ‘ کیونکہ فرشتے بڑے بڑے کاموں کی صلاحیت رکھتے ہیں اور اللہ تعالیٰ نے ان کو بہت عظیم قوت عطا کی ہے ‘ کیا تم نہیں دیکھتے کہ وہ اللہ کی کتابوں کو اللہ کے پاس سے لاتے ہیں اور انبیاء (علیہم السلام) پر نازل کرتے ہیں۔ انہوں نے اللہ کے نافرمانوں پر مدائن کی سر زمین الٹ دی تھی ‘ وہ روحوں کو قبض کرتے ہیں اور عرش الہی کو اٹھائے ہوئے ہیں ایسی قوت والے فرشتے جس تابوت کو اٹھا کر لائیں گے وہ اللہ کی طرف سے بہت بڑی نشانی ہوگی ‘

وہب بن منبہ نے بیان کیا کہ بنو اسرائیل نے اپنے نبی سے پوچھا کہ تابوت کس وقت آئے گا ؟ انہوں نے فرمایا صبح کو وہ تمام رات نہ سوئے حتی کہ صح انہوں نے آسمانوں اور زمین کے درمیان فرشتوں کے چلنے کی آواز سنی۔ (البحر المحیط ج ٢ ص ٥٨٤‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٤١٢ ھ)

امام رازی لکھتے ہیں :

یہ تابوت حضرت آدم (علیہ السلام) پر نازل کیا گیا تھا اس میں ان کی اولاد میں سے انبیاء (علیہ السلام) کی تصویریں تھیں۔ یہ اولاد آدم (علیہ السلام) سے منتقل ہوتا ہوا حضرت یعقوب (علیہ السلام) تک پہنچا ‘ پھر بنو اسرائیل کے پاس رہا ‘ ان کا جب کسی چیز میں اختلاف ہوتا تو وہ اس تابوت کو حکم بناتے اور جب دشمنوں سے جنگ ہوتی تو اس تابوت کو اپنے آگے رکھتے اور اس کے وسیلہ سے اللہ تعالیٰ سے اپنے دشمنوں کے خلاف فتح کی دعا کرتے اور فرشتے اس تابوت کو ان کے لشکر کے اوپر اٹھا لیتے ‘ وہ لشکر سے لڑتے رہتے اور جب تابوت سے ایک چیخ کی آواز آتی تو انکو فتح اور نصرت کا یقین ہوجاتا ‘ بنو اسرائیل کے نے اللہ کی نافرمانی کی اور زمین میں فساد کیا تو اللہ نے ان کے دشمن عمالقہ کو ان پر مسلط کردیا ‘ عمالقہ نے ان کو شکست دے دی ‘ اور ان سے تابوت چھین کرلے گئے ‘ پھر جن کافروں نے ان سے تابوت چھینا تھا انہوں نے اس تابوت کو گندگی اور بول وبراز کی جگہ ڈال دیا ‘ اس وقت کے نبی نے ان کے خلاف دعاء ضرر کی تو اللہ نے ان کافروں کو ایک بلاء میں مبتلا کردیا ‘ جو شخص بھی اس تابوت کے پاس گندگی ڈالتا اللہ تعالیٰ اس کو بواسیر میں مبتلا کردیتا ‘ تب ان کافروں نے یہ جانا کہ ان پر یہ مصیبت اس تابوت کی بےحرمتی کی وجہ سے نازل ہوئی ہے ‘ انہوں نے دو بیلوں کے جوئے پر اس تابوت کو رکھ کر ہانک دیا ‘ وہ بیل چلتے رہے ‘ اللہ تعالیٰ نے چار فرشتے ان بیلوں کے ساتھ محافظ کردیئے حتی کہ وہ فرشتے اس تابوت کو طالوت کے پاس لے آئے اور تب بنو اسرائیل کو طالوت کی بادشاہت کا یقین ہوگیا۔

فقال (رح) نے کہا ہے کہ اس تابوت کی اضافت حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون کی آل کی طرف کی گئی ہے ‘ حالانکہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون کے دور کے صدیوں بعد عہد طالوت تک یہ بنو اسرائیل کی تحویل میں رہا اور تورات میں جو چیزیں تھیں ان کے وارث حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون کے متبع علماء تھے اس لیے یہاں پر آل متبعین کے معنی میں ہے جیسا کہ قرآن مجید میں ہے : (آیت) ” ادخلوا ال فرعون اشد العذاب “۔ (الغافر : ٤٦) (تفسیر کبیر ج ٢ ص ٢٩١، ٢٨٩‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

دیگر انبیاء (علیہم السلام) اور ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تبرکات سے استفادہ اور حصول شفاء :

قرآن مجید کی اس آیت اور امام رازی کی بیان کردہ تفسیر سے یہ واضح ہوتا ہے انبیاء (علیہم السلام) کی استعمال کی ہوئی چیزوں میں اللہ تعالیٰ نے کس قدر برکت رکھی ہے ‘ ان تبرکات (عصاء کپڑے اور نعلین) کے وسیلہ سے بنواسرائیل نے فتح اور نصرت کی دعائیں کی ‘ وہ فتح یاب ہوئے اور قوم عمالقہ نے ان تبرکات کی بےحرمتی کی تو وہ بواسیر جیسی مہلک بیماری میں مبتلا ہوگئے۔ اس کی تائید سورة یوسف میں ہے ‘ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) کی قمیص حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی آنکھوں پر رکھی گئی تو ان کی بینائی لوٹ آئی :

(آیت) ” اذھبوا بقمیصی ھذا فالقوہ علی وجہ ابی یات بصیرا “۔ (یوسف : ٩٣)

ترجمہ : میری یہ قمیص لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو انکی آنکھیں روشن ہوجائیں گی۔

احادیث میں بھی انبیاء (علیہم السلام) کے تبرکات سے استفادہ اور استفاضہ کا بیان ہے۔

امام مسلم روایت کرتے ہیں :

حضرت اسماء بنت ابی بکر کے غلام عبداللہ بیان کرتے ہیں کہ مجھے حضرت اسماء نے حضرت عبداللہ بن عمر (رض) کے پاس بھیجا اور کہا : یہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا جبہ ہے ‘ انہوں نے طیالسی کسروانی جبہ حضرت عائشہ (رض) کی وفات تک انکے پاس تھا ‘ اور جب ان کی وفات ہوئی تو پھر میں نے اس پر قبضہ کرلیا ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس جبہ کو پہنتے تھے ‘ ہم اس جبہ کو دھو کر اس کا پانی بیماروں کو پلاتے تھے اور اس جبہ سے ان کیلیے شفا طلب کرتے تھے۔ (صحیح مسلم ج ٢ ص ‘ ١٩٢ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٧٥ ھ)

امام بخاری روایت کرتے ہیں :

حضرت عثمان بن عبداللہ بن موہب بیان کرتے ہیں کہ مجھے میرے گھروالوں نے حضرت ام المؤمنین ام سلمہ (رض) کے پاس پیالہ دے کر بھیجا۔ اسرائیل نے تین انگلیاں سکیڑ کر اشارہ کیا کہ وہ چھوٹا پیالہ تھا ‘ اس میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بالوں میں ایک بال تھا ‘ اور لوگوں کی عادت تھی کہ جب کسی انسان کو نظر لگ جاتی یا اور کوئی مرض لاحق ہوجاتا تو وہ حضرت ام المؤمنین کے پاس ایک تغار بھیجتا ‘ سو میں نے گھنٹی کی شکل میں ایک نلکی دیکھی جس میں (آپ کے) سرخ رنگ کے موئے مبارک تھے۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٨٧٥‘ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں :

مراد یہ ہے کہ جو شخص بیمار ہوجاتا وہ اپنا برتن حضرت ام سلمہ کے پاس بھیجتا وہ اس برتن میں ان مبارک بالوں کو رکھ دیتیں اور اس برتن میں ان بالوں کو بار بار دھوتیں ‘ پھر برتن والا حصول شفاء کے لیے اس غسالہ (دھو ون) کو پی لیتا یا اپنے بدن پر ملتا تو اس کو اس کی برکت حاصل ہوتی۔ (فتح الباری ج ١٠ ص ٣٥٣ مطبوعہ دار نشر الکتب الاسلامیہ ‘ لاہور ١٤٠١ ھ)

امام بیہقی روایت کرتے ہیں :

جعفر بیان کرتے ہیں کہ جنگ یرموک کے دن حضرت خالد بن ولید کی ٹوپی گم ہوگئی ‘ انہوں نے کہا : اسکو تلاش کرو انہوں نے بار بار ڈھونڈا ‘ وہ ٹوپی نہیں ملی ‘ بلآخر وہ ٹوپی مل گئی ‘ وہ بہت بوسیدہ ٹوپی تھی ‘ حضرت خالد نے کہا : رسول اللہ نے عمرہ کیا اور سر کے بال منڈوائے تو صحابہ ہر طرف سے آپ کے بال مبارک لینے کے لیے جھپٹ پڑے ‘ میں نے بھی آپ کے چند بال لے لیے اور میں نے انکو اس ٹوپی میں رکھ لیا ‘ اس کے بعد میں جس جنگ میں بھی شریک ہوا تو یہ ٹوپی میرے ساتھ ہوتی تھی اور مجھے اس جنگ میں فتح نصیب ہوتی تھی۔ (دلائل النبوۃ ج ٦ ص ٢٤٩‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)

اس حدیث کو امام حاکم نے بھی روایت کیا ہے۔ (المستدرک ج ٣ ص ٢٩٩‘ مطبوعہ دارا الباز مکہ مکرمہ)

حافظ الہیثمی نے اس حدیث کو امام ابویعلی اور طبرانی کے حوالوں سے بیان کیا ہے اور کہا ہے کہ یہ دونوں سندیں صحیح۔ (مجمع الزوائد ج ٩ ص ٣٣٩‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

امام بیہقی روایت کرتے ہیں :

خبیب بن عبدالرحمان بیان کرتے ہیں کہ جنگ بدر میں خبیب بن عدی کا ہونٹ کٹ کر لٹک گیا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لعاب دہن لگا کر اس کو جوڑ دیا (دلائل النبوۃ ج ٣ ص ٩٨۔ ٩٧‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)

امام ابو یعلی روایت کرتے ہیں :

حضرت قتادہ بن نعمان بیان کرتے ہیں کہ  بدر میں ان کی ایک آنکھ کا ڈھیلا نکل کر رخسار پر لٹک گیا ‘ لوگوں نے ارادہ کیا کہ اس کو کاٹ دیں انہوں نے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے پوچھا ‘ آپ نے فرمایا : نہیں ‘ پھر آپ نے ان کو بلایا اور اپنی ہتھیلی سے اس ڈھیلے کو اپنی جگہ پر رکھ کر دبایا پھر قتادہ بن نعمان کو پتہ نہیں چلتا تھا کہ ان کی کون سی آنکھ ڈھیلا نکلا تھا۔ (مسند ابو یعلی موصلی ج ٢ ص ٢١٦‘ مطبوعہ دارالمامون تراث بیروت ‘ ١٤٠٤ ھ)

اس حدیث کو امام بیہقی۔ ١ (امام احمد بن حسین بیہقی متوفی ٤٥٨ ھ ‘ دلائل النبوۃ ج ٣ ص ١٠٠‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ ‘ بیروت)

امام ابن اثیر۔ ٢ (امام ابوالحسن علی بن ابی المکرم المعروف بابن الاثیر الجزری المتوفی ٦٣٠ ھ ‘ اسدالغابہ ج ٤ ص ١٩٥‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت)

حافظ ابن کثیر ٣ (حافظ عمادالدین اسماعیل بن عمر بن کثیر متوفی ٧٧٤ ھ ‘ البدایہ والنہایہ ج ٣ ص ٢٩١‘ مطبوعہ دارالفکر ‘ بیروت ‘ ١٣٩٣ ھ)

اور حافظ ابونعیم۔ ٤ (حافظ نعیم احمد بن عبداللہ اصبہانی متوفی ٤٣٠ ھ ‘ دلائل النبوۃ ج ٢ ص ٤٨٤۔ ٤٨٣‘ مطبوعہ دار النفائس) نے بھی روایت کیا ہے۔

حافظ نور الدین الہیثمی نے اس حدیث کو امام بزار اور امام طبرانی کے حوالوں سے بیان کیا ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٨ ص ٢٩٥‘ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

حافظ ابن حجر عسقلانی لکھتے ہیں ؛

اس حدیث کو امام بغوی اور امام دارقطنی نے بھی روایت کیا ہے اور اس میں یہ الفاظ ہیں کہ وہ ان کی سب سے زیادہ صحیح آنکھ تھی۔ (الاصابہ ج ٣ ص ٢٢٥‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

حافظ الہیثمی بیان کرتے ہیں :

حضرت ابوذر (رض) بیان کرتے ہیں کہ جنگ احد کے دن ان کی آنکھ زخمی ہوگئی نبی کریم نے اس میں لعاب دہن لگایا تو وہ ان کی سب سے بہتر آنکھ تھی ‘(مجمع الزوائد ج ٨ ص ‘ ٢٩٨ مطبوعہ دارالکتاب العربی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٢ ھ)

حضرت سہل بن سعد (رض) بیان کرتے ہیں کہ جنگ خیبر کے دن رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کل میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں میں اللہ فتح فرمائے گا ‘ وہ شخص اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس شخص سے محبت کرتا ہے ‘ اس رات صحابہ یہ غور کرتے رہے کہ کل آپ کس کو جھنڈا عطا فرماتے ہیں ‘ صبح کو صحابہ آپ کے پاس گئے اور ہر ایک کو امید تھی کہ آپ کو جھنڈا عطا کریں گے ‘ آپ نے فرمایا : علی بن ابی طالب کہاں ہیں ؟ صحابہ نے کہا : یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان کی آنکھیں دکھ رہی ہیں ‘ آپ نے فرمایا : انہیں بلاؤ ‘ وہ بلائے گئے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا تو ان کی آنکھیں اس طرح ٹھیک ہوگئیں کہ گویا کبھی ان میں درد ہی نہیں ہوا تھا۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ٦٠٦‘ ٦٠٥ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

امام احمد بن حنبل روایت کرتے ہیں :

حضرت سلمہ بن اکوع (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے مجھے حضرت علی کو بلانے کے لیے بھیجا ‘ اور فرمایا : آج میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول اسے محبت کرتا ہے یا فرمایا : جس سے اللہ اور اس کا رسول محبت کرتے ہیں حضرت علی کی آنکھیں دکھتی تھیں ‘ میں ان کے سہارے سے پکڑ کر لایا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھ میں لعاب دہن ڈالا اور انکو جھنڈا عطا فرمایا ‘ حضرت علی نے اپنی تلوار سے مرحب کا سر اڑ دیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح فرمایا۔ (مسند احمد ج ٤ ص ‘ ٥٢ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

قاضی عیاض مالکی لکھتے ہیں :

عقیلی نے حبیب بن فدیک سے روایت کیا ہے کہ ان کے والد کی آنکھیں سفید ہوگئیں اور انہیں کچھ بھی نہیں دکھائی دیتا تھا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کی آنکھوں میں لعاب دہن ڈالا تو ان کی آنکھیں روشن ہوگئیں اور میں نے دیکھا کہ وہ اسی سال کی عمر میں سوئی میں دھاگا ڈال لیتے تھے۔

جنگ احد کے دن کلثوم بن حصین کے سینہ میں زخم لگا ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس میں لعاب دہن ڈالا تو وہ ٹھیک ہوگیا۔

جنگ خیبر کے دن حضرت سلمہ بن اکوع کی ٹوٹی ہوئی پنڈلی پر لعاب دہن لگایا تو وہ جڑ گئی۔

کعب بن اشرف کے قتل کے معرکہ میں حضرت زید بن معاذ کی ٹانگ ٹوٹ گئی ‘ آپ نے لعاب دہن لگایا تو وہ جڑ گئی۔

جنگ خندق کے دن حضرت علی بن الحکم کی پنڈلی ٹوٹ گئی ‘ آپ نے لعاب دہن ڈالا تو وہ جڑ گئی۔

جنگ بدر کے دن ابوجہل نے حضرت معوذ بن عفراء کا ہاتھ کاٹ دیا ‘ آپ نے لعاب دہن لگا کر وہ ہاتھ جوڑ دیا۔

جنگ بدر کے دن حضرت حبیب بن یساف کے کندھے پر ضرب لگی ‘ کندھا کٹ کر ایک طرف جھک گیا ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کندھا جوڑ کر لعاب دہن لگایا ‘ وہ جڑ گیا۔

قبیلہ خثعم کی ایک عورت آپ کے پاس اپنے بچہ کو لے کر آئی ‘ وہ کسی بیماری سے بول نہیں سکتا تھا ‘ آپ نے پانی منگایا ‘ کلی کی اور ہاتھ دھوئے ‘ پھر وہ غسالہ اس بچہ کو پلایا تو وہ بچہ صحیح ہوش و حواس سے باتیں کرنے لگا۔

آپ کے سامنے کھانا رکھا تھا ‘ آپ وہ کھانا کھا رہے تھے ‘ ایک لڑکی میں حیا بہت کم تھی وہ کہنے لگی : آپ اپنے منہ سے نوالہ نکال کر مجھے دے دیں ‘ آپ نے وہ نوالہ اس کو دے دیا ‘ آپ سے جس چیز کا بھی بھی سوال کیا جاتا تھا تو آپ منع نہیں فرماتے تھے ‘ جب وہ نوالہ اس کو دے دیا ‘ آپ سے جس چیز کا بھی سوال کیا جاتا تھا تو آپ منع نہیں فرماتے تھے ‘ جب وہ نوالہ اس کے پیٹ میں پہنچا تو پورے مدینہ میں اس سے زیادہ باحیاء کوئی لڑکی نہیں تھی۔ (الشفاء ج ١ ص۔ ٢١٤۔ ٢١٣‘ مطبوعہ عبدالتواب اکیڈمی ‘ ملتان)

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 248