بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَمۡ تَرَ اِلَى الَّذِىۡ حَآجَّ اِبۡرٰهٖمَ فِىۡ رَبِّهٖۤ اَنۡ اٰتٰٮهُ اللّٰهُ الۡمُلۡكَ‌ۘ اِذۡ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ رَبِّىَ الَّذِىۡ يُحۡىٖ وَيُمِيۡتُۙ قَالَ اَنَا اُحۡىٖ وَاُمِيۡتُ‌ؕ قَالَ اِبۡرٰهٖمُ فَاِنَّ اللّٰهَ يَاۡتِىۡ بِالشَّمۡسِ مِنَ الۡمَشۡرِقِ فَاۡتِ بِهَا مِنَ الۡمَغۡرِبِ فَبُهِتَ الَّذِىۡ كَفَرَ‌ؕ وَاللّٰهُ لَا يَهۡدِى الۡقَوۡمَ الظّٰلِمِيۡنَ‌ۚ

(اے محبوب ! ) کیا آپ نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے ان کے رب کے متعلق جھگڑا کیا (کیونکہ) اللہ نے اس کو سلطنت دی تھی ‘ جب ابراہیم نے کہا : میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ‘ اس نے کہا : میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ‘ ابراہیم نے کہا : بیشک اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اس کو مغرب سے لے آ ‘ تو کافر حیران اور لاجواب ہوگیا اور اللہ ظلم کرنے والوں کو ہدایت نہیں دیتا

مومن کے نور اور کافر کی ظلمت کی مثالیں :

اس سے پہلے اللہ تعالیٰ نے ذکر فرمایا تھا : اللہ تعالیٰ مؤمنوں کا مددگار ہے اور کفار کے دوست ‘ شیاطین ہیں ‘ اب اللہ تعالیٰ ایک مثال مومن کی اور ایک مثال کافر کی بیان فرما رہا ہے تاکہ اس قاعدہ کی وضاحت ہو اور اس قاعدہ پر دلیل قائم ہو مومن کی مثال میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو بیان کیا۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) واللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور صفات پر دلائل پیش کرنے کی توفیق عطا کی اور انہوں نے کافر کے شبہات کا قلع قمع کیا اور کافر کی مثال میں نمرود بادشاہ کو بیان کیا جو اپنے شکوک اور شبہات کے اندھیروں میں رہا۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور نمرود کے مباحثہ کا پس منظر اور پیش منظر :

امام ابن جریر اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

قتادہ بیان کرتے ہیں کہ جس شخص کے سامنے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے اللہ کے رب ہونے پر دلیل پیش کی تھی اس کا نام نمرود بن کنعان تھا ‘ یہ زمین پر پہلا بادشاہ تھا ‘ اس نے بابل میں قلعہ بنایا تھا اور یہ پہلا شخص تھا جو اللہ کی ربوبیت پر دلیل قائم ہونے کے بعد زمین پر لاجواب اور حیران ہوا۔

زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ زمین پر سب سے پہلا بادشاہ نمرود تھا ‘ لوگ اس کے پاس خوراک طلب کرنے کے لیے جاتے تھے ایک دن لوگوں کے ساتھ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) بھی اس کے پاس گئے ‘ وہ لوگوں سے پوچھتا تمہارا رب کون ہے ؟ لوگ کہتے کہ آپ ہیں ‘ حتی کہ جب وہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے پاس سے گزرا تو پوچھا : تمہارا رب کون ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : جو لوگوں کو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ؟ اس نے کہا : میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اس کو مغرب سے نکال ‘ تو وہ کافر حیران اور لاجواب ہوگیا ‘ پھر اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو خوراک اور طعام دیئے بغیر واپس کردیا ‘ واپسی میں حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا ایک ریت کے ٹیلہ سے گزر ہوا ‘ انہوں نے سوچا کیوں نہ میں کچھ ریت کپڑے میں باندھ کرلے جاؤں تاکہ گھر والوں کو ‘ کوئی بندھی ہوئی چیز دیکھ کر تسکین ہو ‘ گھر جا کر انہوں نے گٹھٹری کو رکھ دیا ‘ اہلیہ نے کھول کر دیکھا تو وہ بہترین طعام تھا ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جان لیا کہ یہ طعام انہیں اللہ نے دیا ہے ‘ پھر اللہ نے بادشاہ کی طرف ایک فرشتہ بھیجا کہ وہ اللہ پر ایمان لائے ‘ اللہ اسے اس کے ملک پر برقرار رکھے گا ‘ نمرود نے کہا : میرے سوا اور کون رب ہے ؟ اللہ تعالیٰ نے اس کے پاس تین بار فرشتے کو بھیجا اس نے ہر بار انکار کیا پھر فرشتے نے اس سے کہا تم تین دن کے اندر اپنے سب لوگوں کو جمع کرلو سب لوگ جمع ہوگئے تو اللہ تعالیٰ نے ان لوگوں پر مچھر چھوڑ دیئے مچھروں نے ان لوگوں کا گوشت کھالیا اور خون پی لیا اور وہ لوگ صرف ہڈیوں کا پنجر رہ گئے اللہ تعالیٰ نے ایک مچھر اس کے نتھنے کے ذریعہ اس کے دماغ میں بھیج دیا چار سو سال تک نمرود کے سر کو ہتھوڑوں سے کو ٹا جاتا تھا ‘ چار سو سال تک وہ اس عذاب میں مبتلا رہا ‘ لوگ اس کو دیکھ کر رحم کھاتے تھے ‘ بالآخر وہ مرگیا ‘ یہ وہی شخص ہے جس نے آسمان کی جانب ایک قلعہ بنایا تھا ‘ اس کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : بیشک ان سے پہلے لوگوں نے فریب کیا تو اللہ نے ان کی عمارت بنیادوں سے اکھاڑ دی ‘ سو ان پر ان کے اوپر سے چھت گر پڑی اور ان پر وہاں سے عذاب آیا جہاں سے انہیں وہم و گمان بھی نہیں تھا۔

ربیع بیان کرتے ہیں کہ جب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے تو نمرود نے دو آدمیوں کو بلایا ‘ ایک کو چھوڑ دیا اور دوسرے کو مار دیا ‘ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : بیشک اللہ سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اس کو مغرب سے نکال تو پھر وہ کافر حیران اور لاجواب ہوگیا۔

سدی بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ سے نکال کر بادشاہ کے سامنے پیش کیا گیا ‘ اس سے پہلے وہ بادشاہ کے سامنے پیش نہیں ہوئے تھے ‘ بادشاہ نے ان سے بات کی اور پوچھا : تمہارا کون ہے ؟ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا : میرا رب وہ ہے جو زندہ کرتا ہے اور مارتا ہے ‘ نمرود نے کہا میں زندہ کرتا ہوں اور مارتا ہوں ‘ اس نے چار آدمیوں کو بلایا اور ان کا کھانا پینا بند کردیا ‘ جب وہ بھوک سے مرنے لگے تو اس نے ان میں سے دو آدمیوں کو کھلایا اور پلایا ‘ وہ زندہ رہے اور باقی دو کو بدستور بھوکا رکھا ‘ وہ مرگئے تب حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جانا کہ اس کو اپنی سلطنت میں اقتدار حاصل ہے اور وہ اس طرح کے کام کرسکتا ہے ‘ تب پھر انہوں نے کہا : بیشک میرا رب سورج کو مشرق سے نکالتا ہے تو اس کو مغرب سے نکال ‘ یہ سن کر وہ حیران اور لاجواب ہوگیا ‘ اس نے کہا : یہ شخص مجنون ہے اس کو لے جاؤ ‘ کیا تم نے نہیں دیکھا اس نے تمہارے خداؤں پر جرأت کی اور انہیں توڑ دیا اور آگ اس کو جلا نہیں سکی اور نمرود کو یہ ڈر تھا کہ وہ اپنی قوم کے سامنے رسوا ہوجائے گا ‘ پھر اس نے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو نکالنے کا حکم دیا۔ (جامع البیان ج ٣ ص ‘ ١٨۔ ١٦ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے دلائل کا خلاصہ :

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے نمرود کے سامنے جو دلیل پیش کی تھی اس کی ایک تقریر تو یہ ہے کہ نمرود حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی پہلی دلیل نہیں سمجھ سکا ‘ وہ اس قدر موٹی عقل کا انسان تھا کہ اس نے زندہ کرنے کا معنی زندہ چھوڑنا سمجھا ‘ حالانکہ زندہ کرنے کا معنی ہے : بےجان جسم میں جان ڈالنا ‘ اس لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دوسری واضح دلیل پیش کی ‘ اور دوسری تقریر یہ ہے کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) ایک دلیل سے دوسری دلیل کی طرف منتقل نہیں ہوئے ‘ بلکہ دونوں مرتبہ ایک ہی دلیل پیش کی البتہ اس کی دو مثالیں بیان فرمائیں۔

حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی دلیل کی تقریر یہ ہے کہ ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ بہت سی ایسی چیزیں حادث ہوتی ہیں جن کے وجود میں کسی شخص کا دخل نہیں ہوتا ‘ مثلا زندہ کرنا ‘ مارنا ‘ بادلوں کی کڑک اور بجلی کا چمکنا ‘ سورج ‘ چاند اور دیگر کواکب سیارہ کی حرکات ‘ نمرود کا کسی کو زندہ چھوڑ دینا اور کسی کو قتل کردینا ‘ اس کا زندہ کرنا اور مارنا نہیں ہے ‘ کیونکہ اس سے پہلے بھی لوگ پیدا ہوتے تھے اور مرتے تھے ‘ وہ خود بھی پیدا ہوا اور اس نے ایک مقررہ دن میں مرنا تھا ‘ جب اس مثال سے اس پر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کا استدلال واضح نہیں ہوسکا تو حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دوسری آسان مثال دی۔

مناظرہ اور مباحثہ کے احکام اور آداب :

اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کو ملک (بادشاہ) کہنا جائز ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا : اللہ نے اس کو ملک دیا تھا ‘ نیز اس سے یہ معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کافروں کو دنیا میں نعمتیں عطا فرماتا ہے ‘ اور آخرت میں اس کو محروم کردیتا ہے اور دوزخ کے سوا ان کا کوئی ٹھکانہ نہیں ہے نیز اس آیت سے یہ معلوم ہوا کہ دین کو ثابت کرنے کے لیے مخالفین سے مباحثہ اور مناظرہ کرنا جائز ہے بلکہ انبیاء (علیہم السلام) کی سنت ہے ‘ ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اہل کتاب سے مباحثہ کیا اور دلیل قائم کرنے کے بعد مباہلہ کیا یعنی یہ دعا کی : جو ہم میں سے ظالم اور باطل ہو اللہ اس پر لعنت کرے ‘ اسی طرح صحابہ (رض) میں سے مہاجرین اور انصار نے سقیفہ بنوساعدہ میں اس بات پر مباحثہ کیا کہ مہاجرین اور انصار میں خلافت کا مستحق کون ہے ‘ مناظرہ اور مباحثہ کا مقصد صرف حق کو ثابت کرنا اور باطل کا رد ہونا چاہیے ‘ مناظرہ کا معنی ہے : فریقین کے دلائل میں نظر کرنا ‘ انانیت ‘ ہٹ دھرمی ‘ کج بحثی اور اپنی ضد پر قائم رہنا اور اپنے مؤقف پر اڑے رہنا مناظرہ نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں مناظرہ کے حسب ذیل آداب بیان فرمائے ہیں۔

(آیت) ” فلم تحاجون فیما لیس لکم بہ علم “۔ (آل عمران : ٦٦)

ترجمہ : تم اس چیز میں کیوں بحث کرتے ہو جس کا تمہیں علم نہیں ہے۔

اس سے معلوم ہوا کہ بغیر علم کے مناظرہ نہیں کرنا چاہیے۔ امام اعظم نے اپنے بیٹے حماد کو مناظرہ سے منع کیا ‘ انہوں نے کہا : آپ خود تو مناظرہ کرتے ہیں ‘ امام اعظم نے کہا : تمہارا مقصد یہ ہوتا ہے کہ کب مخالف کوئی کفریہ بات کہے اور ہم اس کی گرفت کریں اور ہم مخالف کو ایسے موقع پر سنبھال لیتے ہیں اور اس کو اس درجہ کی ضد سے بچا لیتے ہیں۔

(آیت) ” ادع الی سبیل ربک بالحکمۃ والموعظۃ الحسنۃ وجادلھم بالتیھی احسن “۔ (النحل : ١٢٥)

ترجمہ : حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ اپنے رب کے راستہ کی طرف بلائیے اور ان سے عمدہ طریقہ سے بحث کیجئے :۔

اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مخلوق میں سے کوئی شے اللہ کے مشابہ نہیں ہے اور حقائق کائنات میں غور وفکر کرنے سے اللہ تعالیٰ کی توحید کا علم حاصل ہوتا ہے اور انبیاء (علیہم السلام) نے اللہ تعالیٰ کے افعال اور آثار سے اس کی ذات اور صفات پر استدلال کیا ہے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 2 – البقرة – آیت 258