أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اِنَّ اللّٰهَ اصۡطَفٰۤى اٰدَمَ وَنُوۡحًا وَّاٰلَ اِبۡرٰهِيۡمَ وَاٰلَ عِمۡرٰنَ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَۙ

ترجمہ:

بیشک اللہ نے آدم کو اور نوح کو اور آل ابراہیم کو اور آل عمران کو (ان کے زمانہ میں) تمام جہانوں پر بزرگی دی

تفسیر:

خاص انسانوں کا خاص فرشتوں سے اور عام انسانوں کا عام فرشتوں سے افضل ہونا۔ 

اس سے پہلی آیت میں فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ کی محبت رسولوں کی اتباع سے حاصل ہوتی ہے ‘ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے رسولوں کی فضیلت اور ان کے درجات کی بلندی کو بیان فرمایا ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی دو قسمیں ہیں مکلفین اور غیر مکلفین اور بلاشبہ مکلفین غیر مکلفین سے افضل ہیں ‘ اور مکلفین کی چار قسمیں ہیں ملائکہ شیطان ‘ جن اور انسان ‘ شیطان اور اس کی ذریات تو کافر ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(آیت) ” وان الشیاطین لیوحون الی اولیآئھم لیجادلوکم وان اطعتموھم انکم لمشرکون “۔۔ (الانعام : ١٢١)

ترجمہ : اور بیشک شیطان اپنے دوستوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتے رہتے ہیں تاکہ وہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم نے ان کی پیروی کی تو بیشک تم مشرک ہوجاؤ گے۔

(آیت) ” افتتخذونہ وذریتہ اولیآء من دونی وھم لکم عدو ‘ بئس للظلمین بدلاا “۔ (الکہف : ٥٠)

ترجمہ : کیا تم میرے سوا شیطان اور اس کی ذریت کو دوست بناتے ہو ؟ حالانکہ وہ تمہارے دشمن ہیں ظالموں کے لئے کیسا برا بدل ہے۔

اور جنات میں سے بعض مومن ہیں اور بعض کافر ہیں ‘ قرآن مجید میں ہے :

(آیت) ” وانا منا المسلمون ومنا القاسطون فمن اسلم فاولئک تحروا رشدا۔ واما القاسطون فکانوا لجھنم حطبا “۔ (الجن : ١٥۔ ١٤)

ترجمہ : اور ہم میں سے بعض اللہ کے فرمانبردار اور بعض (نافرمان) ظالم ہیں سو جنہوں نے فرمانبرداری کی انہوں نے بھلائی کا راستہ تلاش کرلیا۔ اور رہے ظالم تو وہ جہنم کا ایندھن ہوئے۔

بشر ‘ شیاطین اور جنات سے بالاتفاق افضل ہیں اور ملائکہ اور بشر کے درمیان افضلیت میں اختلاف ہے۔ معتزلہ ملائکہ کو افضل قرار دیتے ہیں حتی کہ وہ ملائکہ کو رسل بشر سے بھی افضل کہتے ہیں ‘ اور اہل سنت کے نزدیک رسل ملائکہ تو عوام بشر سے افضل ہیں لیکن رسل بشر ملائکہ سے افضل ہیں اور عوام ملائکہ سے افضل ہیں (عوام بشر سے مومنین صالحین مراد ہیں کفار اور فساق سے بالاجماع ملائکہ افضل ہیں) رسل بشر کا عوام ملائکہ سے افضل ہونا تو بالبداہت ہے اور رسل بشر کی رسل ملائکہ سے افضیلت پر دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تمام فرشتوں کو یہ حکم دیا کہ وہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو بہ طور تعظیم اور تکریم سجدہ کریں اور حکمت کا یہی تقاضا ہے کہ ادنی کو اعلی کی تعظیم کا حکم دیا جائے دوسری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(آیت) ” وعلم ادم الاسمآء کلھا “۔ الآیہ (البقرہ : ٣١)

ترجمہ : اور اللہ نے آدم کو سب (چیزوں کے) نام سکھائے۔

اس آیت کو بیان کرنے یہی مقصود ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) کو فرشتوں پر فضیلت دی اور ان کے علم کی زیادتی کو بیان فرمایا اور ان کی تعظیم اور تکریم کے استحقاق کی وجہ بیان فرمائی۔ اور عوام ملائکہ سے افضلیت پر دلیل یہ ہے کہ انسان فضائل اور علمی اور عملی کمالات حاصل کرتا ہے جب کہ اس کی طبیعت میں اس کے خلاف شہوانی اور غضبانی موانع اور عوائق موجود ہیں اور اس کو اپنی بھوک مٹانے ‘ تن ڈھانپنے اور سر چھپانے کے لئے کسب معاش کیا حتیاج ہوتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ موانع اور صوارف کے باوجود عبادت اور ریاضت کرنا اور علمی اور عملی کمال حاصل کرنا زیادہ دشوار ہے اور اس میں زیادہ اخلاص ہے اور یہ فرشتوں کی عبادات سے زیادہ افضل ہے کیونکہ ان کی عبادت میں کوئی مانع اور شاغل نہیں ہے اور چوتھی دلیل قرآن مجید کی یہ آیت ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا : بیشک اللہ نے آدم کو اور نوح کو اور آل ابراہیم کو اور آل عمران کو (ان کے اپنے اپنے زمانہ میں) تمام جہانوں پر برزگی دی (آل عمران : ٣٤) اور تمام جہانوں میں فرشتے بھی داخل ہیں اس سے معلوم ہوا کہ عوام ملائکہ سے عوام بشر افضل ہیں اور ملائکہ کے اس عموم سے رسل ملائکہ بالاجماع مستثنی ہیں ‘ اسی طرح آل ابراہیم اور آل عمران کے عموم سے کفار اور فساق عقلا مستثنی ہیں اور اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ حضرت آدم (علیہ السلام) ، اور حضرت نوح (علیہ السلام) ، اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تو تمام فرشتوں سے افضل ہیں خواہ رسول ملائکہ ہو یا عوام ملائکہ اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) اور حضرت عمران کی اولاد میں سے مومنین اور صالحین عوام ملائکہ سے افضل ہیں۔

حضرت آدم (علیہ السلام) ، حضرت نوح، وغیرہم کے خصوصی ذکر کی توجیہ اور ان کی فضیلتوں کا بیان :

اس آیت اللہ تعالیٰ نے ان فضیلت یافتہ اور بزرگ شخصیتوں کا ذکر فرمایا ہے جن کی اتباع کرنا واجب ہے اور جن کی اتباع کرنے سے اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل ہوتی ہے، سب سے پہلے حضرت آدم (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا ہے کیونکہ وہ تمام انسانوں کی اصل ہیں۔ اس کے بعد حضرت نوح (علیہ السلام) کا ذکر فرمایا کیونکہ وہ آدم اصغر ہیں اور دنیا میں رہنے والے تمام انسان ان ہی کی اصل سے ہیں۔ اس کے بعد آل ابراہیم میں مندرج ہیں ‘ جن کی اتباع اور اطاعت کا خصوصیت کے ساتھ اس سے پہلی آیت میں حکم دیا گیا ہے ‘ اور حضرت موسیٰ (علیہ السلام) بھی اس میں مندرج ہیں ‘ اور اس کے بعد آل عمران کا ذکر فرمایا اور اس میں حضرت مریم (علیہ السلام) اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مندرج ہیں آل ابراہیم کا خصوصیت کے ساتھ اس لئے ذکر کیا کہ یہودی اپنے آپ کو حضرت ابراہیم کے ساتھ مخصوص کرتے تھے اور آل عمران کا خصوصیت کے ساتھ ذکر عیسائیوں کی وجہ سے کیا ‘ اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایا یہ وہ لوگ ہیں جن کو اللہ تعالیٰ نے منتخب فرما لیا ان کو بزرگی دی اور فضیلت عطا فرمائی۔

حضرت آدم (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ نے کئی وجوہ سے فضیلت عطا فرمائی انہیں بنی نوع انسان کا مبدء بنایا۔ وہ پہلے نبی ہیں۔ ان کو تمام اشیاء کے ناموں کا علم عطا فرمایا اور فرشتوں کے سامنے ان کی علمی برتری ظاہر فرمائی ‘ انہیں مسجود ملائک بنایا ‘ ان کو سجدہ نہ کرنے کی وجہ سے ابلیس راندہ درگاہ ہوا ‘ ان کو زمین پر اپنا خلیفہ بنایا ان کو جنت میں رکھا ‘ اس کے علاوہ حضرت آدم (علیہ السلام) کی اور بہت فضیلتیں ہیں۔

حضرت نوح (علیہ السلام) کی فضیلتوں میں سے یہ ہے کہ زمین پر وہ پہلے تشریعی نبی ہیں۔ بیٹوں ‘ بہنوں ‘ پھوپھیوں ‘ خالاؤں اور دیگر تمام ذوی الارحام کے ساتھ نکاح کی تحریم کا حکم سب سے پہلے ان پر نازل ہوا حضرت آدم کے بعد روئے زمین کے تمام انسانوں کے والد ہیں۔ آل ابراہیم کی یہ فضیلت ہے کہ ان کو نبوت اور کتاب عطا کی۔ اس آیت میں جو آل عمران کا لفظ آیا ہے اس میں عمران سے مراد کون ہیں ؟ ایک قول یہ ہے کہ اس سے مراد عمران بن ماثان ہیں جو حضرت سلیمان بن داؤد کی اولاد میں سے ہیں اور وہی حضرت مریم بتول ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی والدہ کے باپ ہیں۔ یہ حسن اور وہب کا قول ہے ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ وہ عمران ہیں جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور حضرت ہارون کے والد ہیں اور وہ عمران بن نصیر ہیں۔ یہ مقاتل کا قول ہے لیکن پہلا قول راجح ہے کیونکہ اس آیت میں بعد والی آیتوں میں جس عمران کا ذکر ہے وہ قطعی طور پر حضرت مریم کے والد ہیں۔

انبیاء کرام (علیہم السلام) کی جسمانی اور روحانی خصوصیات : 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے تمام عالمین پر انبیاء (علیہم السلام) کی فضیلت بیان فرمائی ہے۔ امام رازی نے علامہ حلیمی کی کتاب المناج سے یہ نقل کیا ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کی جسمانی قوتیں عام انسان کی جسمانی قوتوں سے بالکل مختلف ہوتی ہیں۔ انہوں نے پہلے حواس خمسہ کا ذکر کیا ہے اس کا بیان حسب ذیل ہے :

(١) قوت باصرہ : ہمارے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوت باصرہ منتہاء کمال کو پہنچی ہوئی تھی کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے تمام روئے زمین کو میرے لئے سمیٹ دیا اور میں نے اس کے مشارق اور مغارب کو دیکھ لیا۔ (صحیح مسلم) نیز رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اپنی صفوں کو قائم کرو اور مل کر کھڑے ہو کیونکہ میں تم کو پس پشت سے بھی اسی طرح دیکھتا ہوں جس طرح سامنے سے دیکھتا ہوں۔ (صحیح بخاری) اسی طرح حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے متعلق اللہ تعالیٰ نے فرمایا :

(آیت) ” وکذالک نری ابراہیم ملکوت السموت والارض ولیکون من الموقنین “۔ (الانعام : ٧٥)

اس آیت کی تفسیر میں ذکر کیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کی بصر اتنی قوی کردی کہ انہوں نے تحت الثری سے لے کر عرش علی تک تمام مخلوق کو دیکھ لیا۔

(٢) قوت سامعہ : ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سماعت تمام انسانوں سے زیادہ قوی تھی کیونکہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا آسمان چرچراتا ہے اور اسے چر چرانے کا حق ہے۔ آسمان میں ہر قدم پر ایک فرشتہ اللہ کے حضور سجدہ ریز ہے (ترمذی) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نبی کریم نے آسمان کے چرچرانے کی آواز سنی ‘ نیز نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے پتھروں اور درختوں کا کلام سنا اونٹ ‘ گوہ اور ہرنی کا کلام سنا ‘ جنات اور فرشتوں کا کلام سنا۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ اللہ عزوجل کا کلام سنا۔ اسی طرح قرآن مجید میں مذکور ہے کہ حضرت سلیمان (علیہ السلام) نے چیونٹی کا کلام سنا ؛

(آیت) ” حتی اذا اتوا علی وادا النمل قالت نملۃ یایھا النمل ادخلوا مساکنکم لایحطمنکم سلیمن و جنودہ وھم لایشعرون۔ فتبسم ضاحکا من قولھا۔ (النمل : ١٩۔ ١٨)

ترجمہ : حتی کہ جب (سلیمان اور اس کے لشکری) چیونٹی بولی اے چیونٹیو ! تم اپنے گھروں میں داخل ہوجاؤ (کہیں) سلیمان اور اس کا لشکر تمہیں کچل نہ ڈالے ! درآں حالیکہ انہیں خبر نہ ہو ‘ تو (سلیمان) اس کی بات پر مسکرا کرہنس پڑے۔

(٣) قوت شامہ : جس طرح حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی سونگھنے کی قوت تھی کیونکہ جب حضرت یوسف (علیہ السلام) نے اپنے بھائیوں سے کہا :

(آیت) ” اذھبوا بقمیصی ھذا فالقوہ علی وجہ ابی یات بصیرا واوتونی باھلکم اجمعین۔ ولما فصلت العیر قال ابوھم انی لاجد ریح یوسف لو لا ان تفندون۔ (یوسف : ٩٤۔ ٩٣)

ترجمہ : میرے اس کرتے کو لے جاؤ اور اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو ان کی آنکھیں روشن ہوجائیں گی ‘ ور جب قافلہ (مصر سے) چلا تو ان کے باپ نے (گھر والوں سے) کہا بیشک میں ضرور یوسف کی خوشبو سونگھ رہا ہوں اگر تم مجھے بڑھاپے کی وجہ سے ناقص العقل نہ کہو

ان آیات سے معلوم ہوا کہ ادھر قافلہ مصر سے روانہ ہوا اور ادھر حضرت یعقوب (علیہ السلام) کو حضرت یوسف (علیہ السلام) کے کرتے سے انکی خوشبوآگئی۔

(٤) قوت ذائقہ : ہمارے نبی سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو خیبر میں ایک یہودی عورت نے زہر آلود لقمہ کھلایا تو اس لقمہ نے آپ سے کہا مجھ میں زہر ملا ہو ہے، اور اسی باب سے یہ واقعات ہیں کہ جب آپ نے اپنا لعاب دہن حضرت ابوبکر کی زہر خوردہ ایڑی میں ‘ حضرت علی کی دکھتی ہوئی آنکھوں میں ‘ حضرت رافع بن خدیج کی ٹوٹی ہوئی ٹانگ میں اور حضرت سلمہ بن اکوع کی ٹوٹی ہوئی پنڈلی میں ڈالا تو ان کو شفاء ہوگئی۔ حضرت جابر کی ہنڈیا میں لعاب دہن ڈالا تو کم کھانا بہت زیادہ آدمیوں کو کافی ہوگیا اور اس طرح کے بہت سے واقعات ہیں۔

(٥) قوت لامسہ : جیسے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کو آگ میں ڈالا گیا تو وہ گلزار ہوگئی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) برص کے مریضوں اور مادر زاد اندھوں پر ہاتھ پھیرتے تو وہ شفایاب ہوجاتے ‘ اور ہمارے نبی کریم سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے کجھور کے ستون سے ٹیک لگائی تو اس میں حیات آگئی جب آپ اسے چھوڑ کر منبر پر بیٹھے تو وہ آپ کے فراق میں اونٹنی کی طرح چیخنے لگا۔ جب آپ نے احد پہاڑ پر قدم رکھا تو اس میں حیات آگئی ‘ وہ ہلنے لگا آپ نے فرمایا اے احد ! پر سکون ہوجا تو وہ ساکن ہوگیا۔

یہ تو حواس خمسہ ظاہرہ کا بیان ہے اور آپ کے حواس باطنہ کی غیر معمولی قوت کا اندازہ اس سے ہوتا ہے کہ ان حواس باطنہ میں سے ایک قوت حافظہ ہے اس کی کیفیت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔

(آیت) ” سنقرئک فلا تنسی “۔ (الاعلی : ٦) (

ترجمہ : اب ہم آپ کو قرآن پڑھائیں گے تو آپ نہ بھولیں گے۔

اور ان حواس میں سے ایک قوت ذکاوت ہے۔ حضرت علی (رض) فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علم کے ایک ہزار باب سکھائے ہیں اور میں نے ہر باب سے ایک ہزار باب متنبط کر لئے ہیں جب ایک ولی کی قوت ذکاوت کا یہ عالم ہے تو نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی قوت ذکاوت کا کیا عالم ہوگا۔

قوت محرکہ : نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا معراج پر جانا ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا زندہ آسمان پر اٹھا لیاجانا ‘ حضرت ادریس (علیہ السلام) اور حضرت الیاس (علیہ السلام) کا آسمان پر اٹھایا جانا جیسا کہ احادیث میں آیا ہے ‘ اور قرآن مجید میں ہے حضرت سلیمان (علیہ السلام) کے مصاحب نے پلک جھپکنے سے پہلے تخت ان کے سامنے حاضر کردیا :

(آیت) ” قال الذی عندہ علم من الکتاب انا اتیک بہ قبل ان یرتد الیک طرفک “۔ (النمل : ٤٠)

ترجمہ : جس کے پاس کتاب کا علم تھا اس نے کہا میں اس (تخت) کو آپ کی پلک جھپکنے سے پہلے آپ کے پاس لے آتا ہوں۔

اور جب نبی کے صحابی اور ان کے ولی کی قوت محرکہ کا کیا عالم ہوگا۔

جب انبیاء (علیہم السلام) کی جسمانی قوتیں اس قدر کامل ہوتی ہیں تو ان کی روحانی اور عقلی قوتیں بھی منتہاء کمال پر ہوتی ہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ انبیاء (علیہم السلام) کا نفس قدسیہ تمام انسانوں کی نفوس سے اپنی ماہیت میں مختلف ہوتا ہے اور ان کے نفس کے کمال کے لوازم سے یہ ہے کہ وہ ذکاوت ‘ ذہانت اور قوت عقیلہ میں عام انسانوں سے بہت بلندو برتر ہوں اور جسمانیات اور شہوات سے تنزہ میں بھی عام لوگوں سے بہت فائق ہوں ‘ اور جب ان کی روح انتہائی صاف اور مشرف ہو اور بدن بھی بہت منزہ اور پاکیزہ ہو تو ان کی قوت محرکہ اور قوت عاقلہ انتہائی کامل ہوں گی ‘ کیونکہ روح فاعل ہے اور بدن قابل ہے اور روح کے انوار بدن تک پہنچتے ہیں اور جب فاعل اور قابل دونوں کامل ہوں تو ان کے آثار بھی بہت قوی اور بہت مشرف ہوں گے ‘ اب اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے عالم علوی کے ساکنین پر حضرت آدم کو فضیلت دی پھر قوت روحانیہ کے کمال کو ان کی اولاد میں سے حضرت شیث میں رکھا اور ان کی اولاد میں سے حضرت نوح میں پھر ان کی اولاد میں سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) میں اس کمال کو رکھا۔ پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) سے دو شاخیں ظاہر ہوئیں حضرت اسماعیل اور حضرت اسحاق (علیہ السلام) ، پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی روح قدسیہ کے ظہور کے لئے حضرت اسماعیل (علیہ السلام) کو مبدء بنایا ‘ اور حضرت اسحاق کو دو شاخوں کا مبدء بنایا حضرت یعقوب اور عیسیٰ (علیہ السلام) حضرت یعقوب (علیہ السلام) کی نسل میں نبوت رکھی اور عیسو کی نسل میں بادشاہت رکھی اور سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ظہور تک یہ سلسلہ چلتا رہا اور جب سیدنا محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ظہور ہوا تو نبوت کا نور اور بادشاہت کا نور دونوں حضرت سیدنا محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف منتقل کر دئیے گئے اور قیامت تک کے لئے دین کی امامت اور ریاست کی فرمانروائی آپ کی امت کو سونپ دی گئی چناچہ آپ کے بعد آنے والے خلفاء ریاست کے سربراہ بھی تھے اور دین کے امام بھی تھے۔ (تفسیر کبیر ج ٢ ص ٤٣٤ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 33