أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَرَسُوۡلًا اِلٰى بَنِىۡۤ اِسۡرٰٓءِيۡلَ ۙ اَنِّىۡ قَدۡ جِئۡتُكُمۡ بِاٰيَةٍ مِّنۡ رَّبِّكُمۡ ۙۚ اَنِّىۡۤ  اَخۡلُقُ لَـكُمۡ مِّنَ الطِّيۡنِ كَهَیْـــَٔةِ الطَّيۡرِ فَاَنۡفُخُ فِيۡهِ فَيَكُوۡنُ طَيۡرًاۢ بِاِذۡنِ اللّٰهِ‌‌ۚ وَاُبۡرِئُ الۡاَكۡمَهَ وَالۡاَبۡرَصَ وَاُحۡىِ الۡمَوۡتٰى بِاِذۡنِ اللّٰهِ‌ۚ وَ اُنَبِّئُكُمۡ بِمَا تَاۡكُلُوۡنَ وَمَا تَدَّخِرُوۡنَۙ فِىۡ بُيُوۡتِكُمۡ‌ؕ اِنَّ فِىۡ ذٰ لِكَ لَاٰيَةً لَّـكُمۡ اِنۡ كُنۡتُمۡ مُّؤۡمِنِيۡنَۚ‏

ترجمہ:

اور وہ بنواسرائیل کی طرف رسول ہوگا (یہ کہتا ہوا) کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں ‘ میں تمہارئے لئے پرندہ کی طرح ایک صورت بناتا ہوں پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے اڑنے والی ہوجاتی ہے اور میں اللہ کے اذن سے مادر زاد اندھے اور برص زدہ کو شفا دیتا ہوں اور میں اللہ کے اذن سے مردہ کو زندہ کرتا ہوں اور میں تمہیں اس چیز کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو ‘ اگر تم مومن ہو تو بیشک ان سب چیزوں میں تمہارے لئے قوی نشانی ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ بنو اسرائیل کی طرف رسول ہوگا یہ کہتا ہوا کہ میں تمہارے پاس تمہارے رب کی طرف سے ایک نشانی لایا ہوں۔ (آل عمران : ٤٩)

یہ آیت اس پر دلالت کرتی ہے کہ حضرت عیسیٰ تمام بنو اسرائیل کی طرف رسول تھے اور اس میں بعض یہودیوں کے اس قول کا رد ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ایک مخصوص قوم کے رسول تھے اس آیت میں ایک نشانی سے مراد جنس نشانی ہے جو ان تمام نشانیوں کو شامل ہے جن کا ذکر اس آیت کے اگلے حصہ میں کیا ہے :

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : میں تمہارے لئے مٹی سے پرندہ کی ایک صورت بناتا ہوں۔ پھر اس میں پھونک مارتا ہوں تو وہ اللہ کے حکم سے اڑنے والی ہوجاتی ہے۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات :

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ لکھتے ہیں :

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بچپن میں مکتب کے لڑکوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے مٹی اٹھائی اور فرمایا میں تمہارے لئے اس مٹی ایک پرندہ بنا دیتا ہوں۔ لڑکوں نے کہا کیا آپ ایسا کرسکتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا ہاں ! میں اپنے رب کے حکم سے ایسا کرسکتا ہوں ‘ پھر آپ نے مٹی اٹھا کر ایک پرندہ کی ایک صورت بنائی اور اس میں پھونک مار دی۔ پھر فرمایا ” تو اللہ کے اذن سے اڑنے والا ہوجا “ وہ ان کے ہاتھوں سے نکل کر اڑنے لگا۔ لڑکوں نے جا کر اپنے معلم سے اس واقعہ کا ذکر کیا ‘ انہوں نے لوگوں میں یہ خبر پھیلا دی۔ لوگ اس سے خوف زدہ ہوگئے اور بنو اسرائیل نے ان کو قتل کرنے کا ارادہ کیا۔ جب ان کی ماں حضرت مریم کو ان کی جان کا خوف دامن گیر ہوا تو وہ ان کو لے کر اس شہر سے چلی گئیں اور یہ بھی مذکور ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے پرندہ بنانے کا ارادہ کیا تو انہوں نے پوچھا کون سے پرندہ کو بنانا مشکل ہے تو بتایا گیا چمگادڑ کو۔ (جامع البیان ج ٣ ص ‘ ١٩٠ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

امام رازی متوفی ٦٠٦ ھ نے لکھا ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) پرندہ کی صرف صورت بناتے تھے اور اس کا پتلا بناتے تھے اور اس میں جان اللہ ڈالتا تھا کیونکہ خالق صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

(آیت) ” ذالکم اللہ ربکم لا الہ الا ھو خالق کل شیء فاعبدوہ “۔ (الانعام : ١٠٢)

ترجمہ : یہ ہے اللہ تمہارا رب ‘ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں وہ ہر چیز کا خالق ہے سو تم اس کی عبادت کرو۔

(آیت) ” ھل من خالق غیر اللہ یرزقکم من السمآء والارض “۔ (الفاطر : ٣)

ترجمہ : کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق دیتا ہے ؟

یہ بھی روایت ہے کہ جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے نبوت کا دعوی کیا اور معجزات کو ظاہر کیا تو منکرین نے ہٹ دھرمی کی اور ان سے چمگادڑ پیدا کرنے کا مطالبہ کیا۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے مٹی لے کر چمگادڑ کی صورت بنائی اور اس میں پھونک ماری تو وہ فضا میں اڑنے لگی۔ وہب بن منبہ نے کہا جب تک لوگ اس کی طرف دیکھتے رہتے تھے وہ اڑتی رہتی تھی اور جب وہ ان کی نظر سے غائب ہوجاتی تو مر کر زمین پر گرجاتی تھی۔ (تفسیر کبیر ج ٢ ص ٤٥٢۔ ٤٥١ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور میں اللہ کے اذن سے مادر زاد اندھوں اور برص کے مریضوں کو شفا دیتا ہوں۔

علامہ ابو الحیان اندلسی لکھتے ہیں :

اکثر اہل لغت کا قول یہ ہے کہ اکمہ وہ شخص ہے جو مادر داز اندھا ہو ‘ اور اس امت میں قتادہ بن دعامہ السدوسی کے سوا کوئی مادر زاد اندھا نہیں ہوا ‘ یہ صاحب تفسیر تھے ‘ حضرت ابن عباس (رض) ‘ حسن بصری ‘ اور سدی کا قول یہ ہے کہ اس سے مراد مطلقا نابینا شخص ہے۔

اس میں اختلاف ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) دعا کرکے بیماروں کو شفا دیتے تھے یا ان پر ہاتھ پھیر کر۔ روایت ہے کہ بعض اوقات ایک دن میں ان کے پاس پچاس ہزار بیمار جمع ہوگئے ‘ جو ان کے پاس آنے کی طاقت رکھتے تھے وہ آگئے اور جو نہیں آسکے ان کے پاس حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) خود چلے گئے ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں طب کا غلبہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے اس جنس میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو معجزہ دے کر بھیجا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے مادر زاد اندھوں اور برص کے مریضوں کا علاج کیا جن کی بیماریوں کو لاعلاج سمجھا جاتا تھا ‘ جس طرح حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے زمانہ میں سحر کا چرچا تھا تو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور یدبیضا دے کر بھیجا جس کا معارضہ کرنے سے اس زمانہ کے تمام جادوگر عاجز رہے ‘ اور نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے زمانہ میں بلاغت کا شہرہ تھا تو اللہ تعالیٰ نے آپ کو قرآن مجید دے کر بھیجا۔ جس کی نظیر لانے سے تمام عرب عاجز رہے اور آج تک پوری دنیا علوم کی ترقی اور اسلام کی مخالفت کے باوجود عاجز ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور میں اللہ کے اذن سے مردہ کو زندہ کرتا ہوں۔ (آل عمران : ٤٩)

ائمہ تفسیر سے منقول ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے چار مردوں کو زندہ کیا۔ ایک شخص حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کا دوست تھا جس کا نام عازر تھا آپ نے اس کے مرنے کے تین دن بعد اس کو زندہ کردیا وہ کافی عرصہ زندہ رہا حتی کہ اس کی اولاد ہوئی۔ دوسرا شخص ایک بڑھیا کا بیٹا تھا وہ اپنے جنازہ سے اٹھ کھڑا ہوا وہ بھی کافی عرصہ زندہ رہا اور اس کی اولاد ہوئی۔ تیسری بنت عاشر تھی وہ زندہ ہونے کے بعد اپنی اولاد سے نفع یاب ہوئی ‘ اور لوگوں نے آپ سے سوال کیا کہ آپ سام بن نوح کو زندہ کریں تاکہ وہ لوگوں کو کشتی کے حال کی خبر دے۔ وہ قبر سے نکلے اور پوچھا کیا قیامت قائم ہوگئی ‘ ان کے آدھے سر پر بڑھاپے کے آثار تھے ان کی عمر پانچ سو سال تھی انہوں نے کہا مجھے قیامت کے خوف سے بوڑھا کردیا۔ روایت ہے کہ حضرت عیسیٰ میت یا قبر یا میت کی کھوپڑی پر اپنی لاٹھی مار کر اس کو زندہ کرتے ‘ وہ جس انسان کو زندہ کرتے وہ باتیں کرتا اور کافی عرصہ زندہ رہتا ‘ اور ایک قول یہ ہے کہ وہ جلد مرجاتا تھا۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور میں تمہیں اس چیز کی خبر دیتا ہوں جو تم کھاتے ہو اور جو تم اپنے گھروں میں ذخیرہ کرتے ہو۔ (آل عمران : ٤٩)

امام فخرالدین محمد بن ضیاء الدین عمر رازی متوفی ٦٠٦ ھ لکھتے ہیں :

اس آیت کی تفسیر میں دو قول ہیں ایک قول یہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) بچپن ہی سے غیب کی خبریں دیتے تھے۔ سدی نے روایت کی ہے کہ آپ بچوں کے ساتھ کھیلتے اور ان کو ان کے ماں باپ کے کئے ہوئے کاموں کی خبر دیتے ‘ اور بچہ کو بتاتے کہ تمہاری ماں نے فلاں چیز تم سے چھپا کر رکھی ہے۔ پھر بچہ گھر جا کر روتا حتی کہ وہ اس چیز کو حاصل کرلیتا۔ پھر ان کے گھر والوں نے کہا اس جادوگر کے ساتھ مت کھیلا کرو اور سب بچوں کو ایک گھر میں جمع کردیا ‘ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ان کو ڈھونڈنے کے لئے آئے تو گھروالوں نے کہا وہ گھر میں نہیں ہیں۔ حضرت عیسیٰ نے پوچھا پھر اس گھر میں کون ہے ؟ انہوں نے کہا خنزیر ہیں۔ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) نے فرمایا تو پھر خنزیر ہی ہیں۔ سو وہ سب خنزیر بن گئے۔ دوسرا قول یہ ہے کی غیب کی خبریں دینے کا واقعہ اس وقت ظاہر ہوا جب مائدہ نازل ہوا ‘ کیونکہ لوگوں کو منع کیا گیا تھا کہ وہ اس مائدہ سے کوئی چیز بچا کر نہ رکھیں اور اس کو ذخیرہ نہ کریں ‘ اور وہ لوگ آپ کی حکم عدولی کرکے ذخیرہ کرتے تھے تو آپ خبر دیتے تھے کہ فلاں شخص نے مائدہ سے کھانا بچا کر ذخیرہ کیا ہے۔ بعض لوگ مختلف آلات کے ذریعے غیب کی خبریں بتا دیتے ہیں یہ معجزہ نہیں ہے۔ معجزہ یہ ہے کہ بغیر کسی آلہ اور ذریعہ کے محض وحی سے غیب کی خبر دی جائے۔ (تفسیر کبیر ج ٢ ص ٤٥٢ مطبوعہ دارالفکر بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اگر تم مومن ہو تو بیشک ان سب چیزوں میں تمہارے لئے قوی نشانی ہے۔ (آل عمران : ٤٩)

یعنی یہ مذکور الصدر پانچ چیزیں زبردست اور قوی ترین معجزات ہیں جو میرے دعوی نبوت کے صدق پر دلالت کرتے ہیں اور جو شخص بھی دلیل سے کسی بھی دلیل سے کسی بات کو مانتا ہو اس پر حجت ہیں۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 49