أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فِيۡهِ اٰيٰتٌ ۢ بَيِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبۡرٰهِيۡمَۚ  وَمَنۡ دَخَلَهٗ كَانَ اٰمِنًا ‌ؕ وَلِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الۡبَيۡتِ مَنِ اسۡتَطَاعَ اِلَيۡهِ سَبِيۡلًا ‌ؕ وَمَنۡ كَفَرَ فَاِنَّ اللّٰهَ غَنِىٌّ عَنِ الۡعٰلَمِيۡنَ

ترجمہ:

اس میں واضح نشانیاں ہیں مقام ابراہیم ہے اور جو شخص اس میں داخل ہوا وہ بےخوف ہوگیا۔ بیت اللہ کا حج کرنا ان لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو اس کے راستہ کی استطاعت رکھتے ہوں اور جس نے کفر (انکار) کیا تو بیشک اللہ سارے جہانوں سے بےپروا ہے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہ شخص اس میں داخل ہوا وہ بےخوف ہوگیا۔ (آل عمران : ٩٧)

(آیت) ” اولم یروا انا جعلنا حرما امنا ویتخطف الناس من حولھم “۔ (العنکبوت : ٦٧)

ترجمہ : کیا انہوں نے نہیں دیکھا کہ ہم نے حرم کو امن کی جگہ بنادیا اور حرم والوں کے آس پاس سے لوگوں کو اچک لیا جاتا ہے۔

(آیت) ” اولم نمکن لھم حرما امنا یجبی الیہ ثمرات کل شیء رزقا “۔ (القصص : ٥٧)

ترجمہ : کیا ہم نے انہیں حرم میں نہیں بسایا ؟ جو امن والا ہے ‘ اس کی طرف ہر قسم کے پھل لائے جاتے ہیں :

(آیت) ” واذ جعلنا البیت مثابۃ للناس وامنا “۔ (البقرہ : ١٢٥) 

ترجمہ : اور جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کا مرجع اور مقام امن بنادیا۔

حرم میں داخل ہونے والے مجرم کے مامون ہونے میں مذاہب فقہاء :

علامہ ابوبکر احمد بن علی جصاص رازی حنفی لکھتے ہیں :

یہ آیت صورۃ خبر ہے اور معنی امر ہے ہمیں حرم میں قتل کرنے سے روکا گیا ہے ‘ اب یہ حکم دو حال سے خالی نہیں ہے یا تو ہمیں ظلما قتل کرنے سے روکا گیا ہے یا عدلا قتل کرنے سے روکا گیا ہے یعنی جو شخص قتل کیے جانے کا مستحق ہو اس کو بھی قتل کرنے سے روکا گیا ہے۔ اگر اس آیت میں صرف ظلما قتل کرنے سے روکا گیا ہے تو پھر حرم کی کوئی خصوصیت نہیں ہے کیونکہ ظلما قتل کرنا کسی جگہ بھی جائز نہیں ہے ‘ لہذا اس سے متعین ہوگیا کہ جو شخص اپنے جرم کی وجہ سے قتل کیے جانے کا مستحق ہو حرم میں اس کو بھی قتل نہیں کیا جائے گا۔

جو شخص غیر حرم میں کوئی جرم کرے پھر حرم میں آکر پناہ لے اس کے متعلق فقہاء کا اختلاف ہے ‘ امام ابوحنیفہ اور ان کے اصحاب یہ کہتے ہیں کہ جب کوئی شخص غیر حرم میں قتل کرے پھر حرم میں آکر پناہ لے تو جب تک وہ حرم میں رہے گا اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا ‘ البتہ اس کو کوئی چیز فروخت کی جائے گی نہ اس کو کھانے پینے کی کوئی چیز دی جائے گی حتی کہ وہ مجبور ہو کر حرم سے باہر آجائے پھر اس سے قصاص لے لیا جائے گا اور اگر اس نے حرم میں قتل کیا ہے تو پھر اس سے حرم میں ہی قصاص لے لیا جائے گا ‘ اور اگر اس کے جرم کی سزا قتل سے کم ہے تو پھر بھی اس پر حرم میں سزا نافذ کردی جائے گی ‘ امام مالک اور امام شافعی (اور اسی طرح امام احمد) یہ کہتے ہیں کہ تمام صورتوں میں حرم میں قصاص لے لیا جائے گا۔ (احکام القرآن ج ٢ ص ٢١‘ مطبوعہ سہیل اکیڈمی ‘ لاہور ‘ ١٤٠٠ ھ)

امام ابوجعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

مجاہد بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جب کوئی شخص ایسا جرم کرے جس پر حد لگتی ہو مثلا قتل کرے یا چوری کرے پھر حرم میں داخل ہو تو اس سے بیع کی جائے نہ اس کو پناہ دی جائے حتی کہ وہ زچ ہوجائے اور پھر حرم سے باہر آجائے پھر اس پر حد قائم کی جائے کیونکہ حرم شدت کو زیادہ کرتا ہے۔

عطا بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جس شخص نے حرم کے علاوہ کہیں جرم کیا ‘ پھر اس نے حرم میں آکر پناہ لی ‘ اس کو کوئی چیز پیش کی جائے گی اور نہ اس سے بیع کی جائے گی اور نہ اس سے کلام کیا جائے گا ‘ اور نہ اس کو پناہ دی جائے گی ‘ حتی کہ وہ حرم سے باہر آجائے اور جب وہ حرم سے باہر آجائے گا تو اس کو پکڑ لیا جائے گا اور پھر اس پر حد قائم کی جائے گی۔

عکرمہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جس شخص نے کوئی جرم کیا پھر بیت اللہ میں آکر پناہ لی ‘ وہ مامون ہے ‘ اور مسلمانوں کے لیے یہ جائز نہیں ہے کہ اس کو کسی چیز پر سزا دیں کہ وہ حرم سے باہر نکل آئے اور جب وہ باہر آئے تو اس پر حد قائم کردیں۔

عطا بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر (رض) نے فرمایا اگر میں حضرت عمر کے قاتل کو حرم میں دیکھوں تو اس کو کچھ نہیں کہوں گا۔

عمرو بن دینار بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) نے فرمایا جب کوئی شخص کوئی جرم کرے پھر حرم میں داخل ہو تو اس کو پناہ دی جائے نہ بٹھایا جائے ‘ نہ اس کو کوئی چیز فروخت کی جائے نہ کھلایا جائے نہ پلایا جائے حتی کہ وہ حرم سے باہر آجائے ‘ سعید بن جبیر کی روایت میں ہے جب وہ حرم سے باہر آجائے تو اس پر حد قائم کردی جائے۔ (جامع البیان ج ٤ ص ‘ ١٠۔ ٩ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

یہ تمام آثار امام ابوحنیفہ (رح) کے مسلک کی واضح دلیل ہیں اور یہی آیت کریمہ ” ومن دخلہ کان امنا “ کا صریح مدلول ہے ‘ ائمہ ثلاثہ اس آیت کی یہ تلاویل کرتے ہیں کہ جو شخص حرم میں داخل ہوگیا وہ آخرت میں عذاب ہے مامون ہوجائے گا ‘ امام رازی نے اس آیت کی ایک یہ تاویل بھی کی ہے کہ جو شخص نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ عمرۃ القضاء ادا کرنے کے لیے جائے گا وہ مامون ہوگا ‘ لیکن یہ تمام تاویلات ضعیف ہیں ‘ علامہ ابوبکر جصاص نے اس آیت کی یہ تقریر کی ہے کہ اگر اس آیت کو خبر پر محمول کیا جائے تو اس کو معنی ہوگا جو شخص بھی حرم میں داخل ہوا وہ مامون ہوگیا حالانکہ حس اور مشاہدہ اس کا مکذب ہے کیونکہ کئی لوگ حرم مکہ میں داخل ہوتے ہیں اور مار دیئے جاتے ہیں اس لیے یہ خبر امر کے معنی میں ہے یعنی ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص حرم داخل ہو اس کو مامون رکھو اور اگر وہ جرم کر کے آیا ہو تو اس پر حد جاری نہ کرو اور اس لحاظ سے اس آیت کا واقع کے خلاف ہونا لازم نہیں آتا ‘ اور اگر امام رازی کی تاویل کے مطابق یہ کہا جائے کہ جو شخص حرم میں داخل ہوا وہ آخرت میں عذاب سے مامون ہوگیا تو اس کے معارض یہ ہے کہ بعض گنہ گار مسلمان ‘ یا بعض منافقین حرم میں داخل ہونے کے باوجود عذاب سے مامون نہیں رہیں گے اور جو بدعقیدہ اور گمراہ لوگ حرم میں رہتے ہیں وہ بھی عذاب سے مامون نہیں رہیں گے اور جو حج کرنے کے بعد العیاذ باللہ مرتد ہوگیا وہ بھی مامون نہیں ہوگا اس لیے اس آیت کی تقریر وہی ہے جو علامہ ابوبکر رازی حنفی نے کی ہے کہ یہ آیت بہ ظاہر خبر ہے اور حقیقت میں امر ہے اور ہمیں یہ حکم دیا گیا ہے کہ جو شخص حرم میں آجائے اس کو مامون رکھو اور ہم نے جو آثار ذکر کیے ہیں ان کا ائمہ ثلاثہ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے۔

حرم میں قتال کے تکوینا ممنوع ہونے پر بحث و نظر۔ 

حرم مکہ میں تشریعا قتال ممنوع ہے ‘ اور وہاں تکوینا قتال ممنوع نہیں ہے (حرم میں قتال تشریعا ممنوع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ حرم میں قتال نہ کیا جائے اور حرم میں قتال تکوینا ممنوع ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے خبر دی ہے کہ حرم میں قتال نہیں ہوگا) ذوالقعدہ ٧٢ ھ میں حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) پر حجاج بن یوسف نے جو حرم میں حملہ کیا اور جمادی الثانیہ ٧٣ ھ میں حضرت عبداللہ بن الزبیر (رض) کو مکہ میں شہید کیا وہ ناجائز اور گناہ کبیرہ تھا اور اس سے یہ معلوم ہوگیا کہ حرم شریف شرعا مامون ہے تکوینا مامون نہیں ہے ‘ بعض علماء نے حرم کو تکوینا بھی مامون لکھا ہے اور یہ صحیح نہیں ہے۔

مفتی محمد شفیع دیوبندی متوفی ١٣٩٦ ھ لکھتے ہیں :

دوسرے حرم میں داخل ہونے کا مامون و محفوظ ہونا یوں بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تکوینی طور پر ہر قوم وملت کے دلوں میں بیت اللہ کی تعظیم و تکریم ڈال دی ہے ‘ اور وہ سب عموما ہزاروں اختلافات کے باوجود اس عقیدے پر متفق ہیں کہ اس میں داخل ہونے والا اگرچہ مجرم یا ہمارا دشمن ہی ہو تو حرم کا احترام اس کا مقتضی ہے کہ وہاں اس کو کچھ نہ کہیں حرم کو عام جھگڑوں لڑائیوں سے محفوظ رکھا جائے۔

حجاج بن یوسف نے جو حرم میں قتال کیا اس کے متعلق مفتی صاحب لکھتے ہیں :

اور تکوینی طور بھی اس کو احترام بیت اللہ کے منافی اس لیے نہیں کہہ سکتے کہ حجاج خود بھی اپنے اس عمل کے حلال ہونے کا معتقد نہ تھا وہ بھی جانتا تھا کہ میں ایک سنگین جرم کر رہا ہوں لیکن سیاست و حکومت کی مصالح نے اس کو اندھا کیا ہوا تھا (معارف القرآن ج ٢ ص ١٢١‘ مطبوعہ ادارۃ المعارف کراچی ‘ ١٣٩٧ ھ)

اس توجیہ کے ظاہر البطلان ہونے کے علاوہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ٣١٧ ھ میں قاہر محمد بن المعتضد باللہ کے دور خلافت میں قرامطہ نے حرم مکہ پر حملہ کیا اور بیشمار حجاج کو تہ تیغ کیا کعبہ کی بےحرمتی کی اور حجراسود کو اکھاڑ کر اپنے ساتھ لے گئے اور بائیس سال کے بعد اس کو واپس کیا اور انہوں نے حرم میں جو خون ریزی کی تھی وہ جرم سمجھ کر نہیں کی تھی ‘ کہ وہ کوئی جرم کر رہے ہیں اس سے یہ بالکل واضح ہوگیا کہ حرم میں قتال کرنا تشریعا ممنوع ہے اور تکوینا ممنوع نہیں ہے۔

قرامطہ کا مکہ فتح کرکے حجر اسود کو اکھاڑ کرلے جانا۔ 

حافظ عماد الدین اسماعیل بن عمر بن کثیر شافعی متوفی ٧٧٤ ھ لکھتے ہیں :

قرامطہ نے ٨ ذوالحج کو مکہ پر حملہ کیا اور حجاج کے اموال لوٹ لیے اور ان کو تہ تیغ کیا ‘ مکہ کے راستوں ‘ گھاٹیوں ‘ مسجد حرام اور خانہ کعبہ کے اندر بیشمار حجاج کو قتل کیا گیا ‘ اور قرامطہ کا امیر ابوطاہر لعنہ اللہ کعبہ کے دروازہ پر بیٹھا ہوا تھا ‘ اور اس کے گرد حجاج کی لاشیں گر رہی تھیں اور حرمت والے مہینہ میں ‘ مسجد حرام میں ٨ ذالحج کے معظم دن مسلمانوں پر تلواریں چل رہی تھیں اور ابو طاہر ملعون کہہ رہا تھا کہ میں اللہ ہوں ‘ میں ہی مخلوق کو پیدا کرتا ہوں اور میں ہی مخلوق کو فنا کرتا ہوں ‘ لوگ اس سے بھاگ کر کعبہ کے پردوں سے لپٹتے تھے اور انہیں اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوتا تھا ‘ بلکہ وہ اسی حال میں قتل کیے جارہے تھے اور حالت طواف میں قتل کیے جارہے تھے بعض محدثین بھی اس دن طواف کر رہے تھے ان کو بھی طواف کے بعد قتل کردیا گیا۔

جب قرمطی ملعون حجاج کو قتل کرنے سے فارغ ہوگیا تو اس نے حکم دیا کہ مقتولین کو زمزم کے کنویں میں دفن کردیا جائے ‘ اور بہت سے حجاج کو حرم کی جگہوں میں دفن کردیا گیا ‘ اور بہت سوں کو مسجد حرام میں دفن کردیا گیا ‘ ان حجاج کو غسل دیا گیا ‘ نہ کفن دیا گیا ‘ نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی گئی ‘ وہ سب حالت احرام میں شہید ہوئے تھے ‘ اس ملعون نے زمزم کا گنبد گرا دیا ‘ اور کعبہ کے دروازہ کو اکھاڑنے کا حکم دیا اور اس کے پردے اتارنے کا حکم دیا ‘ اس نے وہ پردے پھاڑ کر اپنے اصحاب میں تقسیم کردیئے اس نے کعبہ کے میزاب کو بھی اکھاڑنے کا حکم دیا مگر وہ اس پر قادر نہ ہوسکا پھر اس نے ایک بھاری آلہ کے ذریعہ حجر اسود کو اکھاڑ کر کعبہ سے الگ کرلیا ‘ اور وہ چلا کر کہہ رہا تھا کہ وہ ابابیل نامی پرندے کہاں ہیں ؟ اور وہ نشان زدہ کنکریاں کہاں ہیں ؟ پھر وہ حجراسود کو اپنے ساتھ اپنے ملک (الاحساء ‘ خلیج فارس کے مغربی ساحل پر ایک شہر ‘ جو مکہ کی راہ پر ہے) میں لے گئے ‘ بائیس سال تک ان کے پاس حجر اسود رہا ‘ اس کے بعد انہوں نے اس کو واپس کیا جیسا کہ ہم ٣٣٩ ھ کے حالات میں ذکر کریں گے۔ (آیت) ” انا للہ وانا الیہ راجعون “۔ !

جب قرمطی حجراسود لے کر اپنے ملک میں پہنچا تو امیر مکہ اپنے اہل بیت اور لشکر کو لے کر اس کے پیچھے گیا اور اس کی خوشامد کی کہ وہ حجر اسود اس کو واپس کر دے تاکہ وہ حجر اسود کو اس کے مقام پر رکھ دے اور اس کے عوض اس کے پاس جس قدر بھی مال تھا وہ اس کو پیش کردیا ‘ لیکن قرمطی نہیں مانا ‘ پھر امیر مکہ نے اس سے جنگ کی ‘ قرمطی نے اس کو اور اس کے اکثر اہل بیت کو قتل کردیا ‘ اور حجراسود اور حجاج کے دیگر اموال قرمطی کے قبضہ میں رہے ‘ اس ملعون نے مسجد حرام میں اس قدر الحاد کیا جو پہلے کبھی ہوا تھا نہ بعد میں ہوا ‘ اور عنقریب اللہ تعالیٰ اس کو ایسی سزا دے گا جیسی اس سے پہلے کسی کو نہ دی ہوگی ‘ قرامطہ نے یہ کام اس لیے کیا تھا کہ وہ کفار اور زندیق تھے اور اس صدی میں افریقہ میں زمین کے مغرب میں جو فاطمیین نمودار ہوئے تھے انہوں نے ان کا بھیس بدل لیا تھا ‘ ان کے امیر کا لقب مہدی تھا ‘ اس کا نام ابو عبید اللہ بن میمون القداح تھا ‘ یہ سلیمہ میں رنگریز تھا ‘ یہ اصل میں یہودی تھا ‘ پھر اس نے مسلمان ہونے کا دعوی کیا ‘ پھر یہ افریقی ممالک میں داخل ہوگیا ‘ اس نے یہ دعوی کیا کہ یہ فاطمی سید ہے ‘ بربر کی ایک بڑی جماعت اور دوسرے جاہلوں نے اس کی تصدیق کردی ‘ اور اس نے حکومت قائم کرلی اور یہ بحلماسہ نامی شہر کا بادشاہ بن گیا ‘ پھر اس نے ایک شہر بسایا اور اس کا نام مہدیہ رکھا ‘ اور قرامطہ اس کے ساتھ پیغام رسانی رکھتے تھے۔ یہ سب ان کی سیاست تھی۔ (البدایہ والنہایہ ج ١١ ص ١٦١‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت)

کعبہ کی بےحرمتی کرنے کی وجہ سے اصحاب الفیل کی طرح قرامطہ پر عذاب کیوں نہیں آیا ؟ 

یہاں پر یہ سوال ہوتا ہے کہ اصحاب الفیل نصاری تھے اور انہوں نے مکہ مکرمہ میں اس طرح کی خونریزی نہیں کی تھی جیسی قرامطہ نے کی اور یہ بھی معلوم ہے کہ قرامطہ ‘ یہود نصاری ‘ مجوس بلکہ بت پرستوں سے بھی بدتر ہیں اور انہوں نے مکہ مکرمہ کی اور مسجد حرام کی ایسی بےحرمتی کی ہے ہے جو کسی نے بھی نہیں کی تو پھر ان پر اس طرح جلد عذاب کیوں نہیں آیا جس طرح اصحاب الفیل پر آیا تھا ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ اصحاب الفیل پر فوری گرفت بیت اللہ کے شرف کو ظاہر کرنے کے لیے کی گئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس عظمت والے شہر میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مبعوث کرنا تھا اور جس زمین کے خطہ مبارکہ میں آپ کی تشریف آوری ہونی تھی۔ اصحاب الفیل اس خطہ زمین کی اہانت کرنا چاہتے تھے ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان کو فورا ہلاک کردیا اور اس سے پہلے کی شریعتوں میں مکہ مکرمہ اور کعبہ کی فضیلت نہیں بیان کی گئی تھی ‘ اگر اصحاب الفیل اس شہر میں داخل ہو کر اس کو تباہ کردیتے تو پھر لوگوں کے لیے اس کی فضیلت کا اعتراف کرنا بہت مشکل ہوتا ‘ اور رہے یہ قرامطہ تو انہوں نے حرم شریف کی بےحرمتی شرعی احکام اور قواعد کے مقرر ہونے کے بعد کی ہے اور جب سب کو بداھۃ معلوم ہوچکا تھا کہ اللہ کے دین میں مکہ اور کعبہ محترم ہیں اور ہر مومن کو یہ یقین ہے کہ انہوں نے حرم میں بڑا الحاد کیا ہے اور یہ بہت بڑے ملحد اور کافر ہیں۔ اس لیے ان کو فورا سزا نہیں دی گئی اور اللہ تعالیٰ نے ان کی سزا کو روز قیامت کے لیے موخر کردیا ‘ جیسا کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ تعالیٰ ظالم کو ڈھیل دیتا رہتا ہے حتی کہ جب اس کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے توت پھر اس کو مہلت نہیں دیتا ‘ پھر آپ نے قرآن مجید کی یہ آیت پڑھی :

(آیت) ” ولا تحسبن اللہ غافلا عما یعمل الظالمون انما یؤخرھم لیوم تشخص فیہ الابصار “۔۔ (ابراھیم : ٤٢)

ترجمہ : ظالموں کے کاموں سے اللہ کو ہرگز غافل گمان نہ کرو وہ انہیں صرف اس دن کے لیے ڈھیل دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔

(آیت) ” لا یغرنک تقلب الذین کفروا فی البلاد۔ متاع قلیل ثم ماواھم جہنم وبئس المھاد۔ (ال عمران : ١٩٧)

ترجمہ : (اے مخاطب) کافروں کا (تکبر کے ساتھ) ملکوں میں پھرنا ‘ تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے ‘ (یہ حیات فانی کا) قلیل فائدہ ہے ‘ پھر ان کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ کیا ہی بری جگہ ہے !

نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے ہم ان کو تھوڑا فائدہ پہنچائیں گے پھر ان کو سخت عذاب کی طرف کھینچ لیں گے۔ (البدایہ والنہایہ ج ١١ ص ١٦٢‘ مطبوعہ دارالفکر بیروت)

قرامطہ کی تاریخ : 

صحیح معنی میں عربوں اور نبطیوں کی باغی جماعتوں کا نام قرامطہ تھا ‘ جو ٢٦٤ ھ سے عراق زیریں میں زنج کی جنگ غلامی کے بعد منظم ہوئیں جس کی بنیاد اشتراکی نظام پر رکھی گئی ‘ پرجوش تبلیغ کے باعث اس خفیہ جماعت کا دائرہ عوام ‘ کسانوں اور اہل حرفت تک وسیع ہوگیا ‘ خلیفہ بغداد سے آزاد ہو کر انہوں نے الاحساء (خلیج فارس کے مغربی ساحل پر ایک شہر جو مکہ مکرمہ کی راہ پر ہے۔ منہ) میں ایک ریاست کی بنیاد رکھ لی ‘ اور خراسان ‘ شام اور یمن میں ان کے ایسے اڈے قائم ہوگئے جہاں سے ہمیشہ شورشیں ہوتی رہتی تھیں۔

نویں صدی عیسوی کے درمیان انہوں نے ساری اسلامی دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ‘ پھر اسماعیلی خاندان نے اس تحریک پر اپنا قبضہ کرلیا انہوں نے ٢٩٧ ھ میں خلافت فاطمیہ کے نام سے ایک حریف سلطنت قائم کی یہ تحریک ناکام رہی آخرکار دولت فاطمیہ کے ساتھ اس تحریک کا بھی خاتمہ ہوگیا۔

اشتقاقی اعتبار سے اس باغیانہ تحریک کے اولین قائد حمدان قرمط (یہ ایک ملحد شخص تھا) کی طرف یہ نام منسوب ہے ‘ قرامطہ کی تحریک بغاوت کا آغاز حمدان نے واسطہ کے مضافات سے شروع کیا ‘ ٢٧٧ ھ میں اس نے کوفہ کے مشرق میں اپنے رفقاء کے لیے دارالہجرت کی بنیاد ڈالی جن کے متعلق رضاکارانہ چندے (مثلا صدقہ فطر اور خمس وغیرہ) جماعت کے مشترکہ خزانے میں جمع ہوتے تھے ‘ عراق زیریں میں بزور شمشیر قرامطہ کی تحریک ختم کردی گئی اور ٢٩٤ ھ میں اس کی سیاسی اہمیت بھی ختم ہوگئی۔

کچھ عرصہ بعد اس تحریک نے الاحساء میں پھر سراٹھایا ٢٨٢ ھ میں عبدالقیس کے ربیعی قبیلہ کی اعانت سے الجنابی نے الاحساء کے سارے علاقہ پر قبضہ کرلیا اور وہاں ایک آزاد ریاست قائم کرلی جو قراطمہ کی پشت پناہ اور خلافت بغداد کے لیے ایک زبردست خطرہ بن گئی ‘ الجنابی کے بیٹے اور جانشین ابوطاہر سلیمان (٣٠١ ھ تا ٣٣٢ ھ) نے عراق زیریں کی تاخت و تاراج کے ساتھ ساتھ حجاج (حج کرنے والوں) کے راستے بند کردیئے آخر ٨ ذوالحجہ ٣١٧ ھ کو اس نے مکہ فتح کرلیا اور اس کے چھ روز بعد حجراسود کو اٹھا کرلے گیا تاکہ اسے الاحساء میں نصب کرسکے ‘ اپنے باپ کی طرح ابو طاہر بھی ایک خفیہ انجمن کا داعی اور الاحساء میں اس کا ناظم امور خارجہ تھا۔

اس نے یہاں بزرگان قبیلہ (السادۃ) کی ایک نمائندہ مجلس قائم کی اور امور داخلہ کا نظم ونسق اس کے سپرد کردیا۔ یہ تنظیم قرامطہ کی عسکری قوت کے زوال کے بعد ٤٢٢ ھ تک باقی تھی ‘ تاآنکہ اسماعیلی دعوت کے احیاء نے ایک نئے خاندان مکرمیہ کی شکل اختیار کی جس کا مرکز المومنیہ تھا۔

قرامطہ کے عقائد : 

قرمطی عقائد میں عام رجحان یہ ہے کہ حضرت علی کے حق خلافت کے نظریہ کو ایک مقصد کے بجائے ایک ذریعہ سمجھا جائے ‘ ان کے نزدیک امامت کوئی موروثی اجارہ نہیں جو ایک ہی خاندان میں منتقل ہوتا رہے ‘ ٢٨٧ ھ میں عبیداللہ نے فاطمی خاندانی لقب اختیار کیا تو ان میں سے کسی ایک نے بھی واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ نسلی اعتبار سے ان کا سلسلہ نسب حضرت علی کی اسماعیلی شاخ سے ملتا ہے۔

جب المغرب (تونس) میں خلافت فاطمیہ قائم ہوگئی تو خراسان اور یمن کی طرح الاحساء میں بھی قرامطہ نے عام طور پر ان سے بہت سی توقعات وابستہ کرلیں ‘ ابوسعید ابتداء ہی سے صاحب الناقہ کو خمس ادا کرتا تھا ‘ پھر حیلے بہانے کے بعد ابوطاہر نے یہ رقم القائم کو بھیجنا شروع کردی ‘ لیکن وہ اس کے جائز استحقاق کے متعلق اس قدر بدگمان تھا کہ ٣١٩ ھ میں اس نے ایک دیوانے ابوالفضل الزکری التمامی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے امام منتظر کی حیثیت سے تخت نشین کردیا ‘ ٣٤٠ ھ میں فاطمی خلیفہ المنصور کے حکم سے حجراسود اہل مکہ کو واپس کردیا گیا۔

قرامطہ کے عقائد میں الوہیت محض ایک تصور واحد ہے جو تمام صفات سے مبرا اور منزہ ہے ‘ حقیقی عبادت کا تعلق اس علم کے حصول پر ہے کہ ذات الہیہ سے باہر کائنات کا تخلیقی ارتقاء کن کن مدارج سے گزرا ہے ‘ ہر مرید کو بتدریج اس علم سے آشنا کیا جاتا ہے حتی کہ اس میں یہ استعداد پیدا ہوجائے کہ وہ معکوس عمل معرفت سے ان مدارج ارتقاء کو فراموش کر کے ذات الہی میں جذب ہوجائے۔

اگر قرامطہ کے اصول و عقائد کا مقابلہ ان کے پیش روامامیہ عقائد سے کیا جائے تو معلوم ہوجاتا ہے کہ فرقہ امامیہ کے تجسیمی اور تشخصی تصورات اور حضرت علی اور ان کے اخلاف کی پرستش کی بجائے قرامطہ کے ہاں ان عقائد کو محض عقلیت کے رنگ میں اور مجرد تصورات کی شکل میں پیش کیا ہے۔ فلسفہ میں الفارابی اور ابن سینا کے مثالی امامت کے سیاسی نظریہ اور عقول عشریہ کا نظریہ صدور ‘ ان کے زیر اثر تسلیم کئے گئے ‘ ایسے ہی اصول و عقائد میں بھی قرمطی اثرات سرایت کر گئے مثلا قرامطہ وحدۃ الوجود کو مانتے تھے ‘ ان کا کہنا یہ تھا کہ حروف ابجد محض عقلی علامات ہیں نام کسی شے کا حجاب ہے اس کا شہود نہیں۔ انبیاء ائمہ اور ان کے مریدان خاص کی عقول اشعئہ نورانیہ کے شرارے ہیں جو ابتدائی انوار و تجلیات کے وقفوں کے مطابق نور ظلامی یعنی غیر حقیقی اور اندھے مادے میں گھری ہوئی ہوتی ہیں اور یک بیک یوں منور ہوجاتی ہیں جیسے آئینہ میں عکس۔ (اردودائرہ معارف اسلامیہ ج ٢۔ ٣٢۔ ٢١ ملخصا مطبوعہ دانش گاہ پنجاب لاہور ‘ ١٣٩٧ ھ)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : بیت اللہ کا حج کرنا لوگوں پر اللہ کا حق ہے جو اس کے راستہ کی استطاعت رکھتا ہو۔

پہلے اللہ تعالیٰ نے بیت اللہ کے فضائل اور مناقب بیان فرمائے اس کے بعد حج بیت اللہ کی فرضیت بیان فرمائی نیز اس آیت میں لوگوں پر حج کا فرض ہونا بیان فرمایا ہے اور اس کو مسلمانوں کے ساتھ خاص نہیں کیا ‘ اس سے معلوم ہوا کہ کفار بھی حج اور دیگر اسلامی احکام کے مخاطب ہیں۔

حج کی تعریف : شرائط فرائض ‘ واجبات ‘ سنن اور آداب ‘ ممنوعات اور مکروہات : 

حج کا لغوی معنی ہے کسی عظیم شے کا قصد کرنا اور اس کا شرعی معنی حسب ذیل ہے :

نو ذوالحجہ کو زوال آفتاب کے بعد سے دس ذوالحجہ کی فجر تک حج کی نیت سے احرام باندھے ہوئے میدان عرفات میں وقوف کرنا اور دس ذوالحجہ سے آخر عمر تک کسی وقت بھی کعبہ کا طواف زیارت کرنا حج ہے ‘ حج کی تعریف یہ بھی کی گی ہے کہ وقوف عرفات اور کعبہ کے طواف زیارت کا قصد کرنا حج ہے۔

حج کی شرائط یہ ہیں : حج اسلام کرنے والا مسلمان ہو ‘ آزاد ہو ‘ مکلف ہو ‘ صحیح البدن ہو ‘ بصیر ہو ‘ اس کے پاس حج کے لیے جانے ‘ سفر حج تک کے قیام حج سے واپس آنے اور اس دوران جن کے خرچ کا وہ ذمہ دار ہے ان سب کا خرچ ہو ‘ نیز اس کے پاس سواری ہو یا سواری کا خرچ ہو ‘ اور راستہ مامون ہو ‘ اور اگر عورت حج کرنے والی ہے تو اس کے ساتھ اس کا خاوند ہو یا عاقل بالغ محرم ہو۔

حج کے فرائض : 

حج میں تین امور فرض ہیں۔ احرام ٩ ذوالحجہ کو زوال آفتاب سے دسویں کی فجر تک کسی بھی وقت میدان عرفات میں وقوف کرنا اور دس ذوالحجہ سے اخیر عمر تک کسی بھی وقت کعبہ کا طواف کرنا ‘ موخر الذکر دونوں رکن ہیں ‘ ان میں ترتیب بھی فرض ہے یعنی پہلے حج کی نیت سے احرام باندھنا ‘ پھر وقوف عرفات کرنا ‘ اور اس کے بعد طواف زیارت کرنا ‘ حج کی سعی کو طواف زیارت سے پہلے کرنا بھی جائز ہے۔

حج کے واجبات : 

مزدلفہ میں وقوف کرنا ‘ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرنا (دوڑنا) ‘ جمرات کو رمی کرنا ‘ طواف وداع کرنا ‘ (مکہ میں رہنے والا حائضہ عورت طواف وداع سے مستثنی ہے) سرمنڈانا بال کٹوانا ‘ میقات سے احرام باندھنا ‘ غروب آفتاب تک میدان عرفات میں وقوف کرنا ‘ طواف کی ابتداء حجر اسود سے کرنا ‘ اپنی دائیں جانب سے طواف کرنا ‘ اگر عذر نہ ہو تو خود چل کر طواف کرنا ‘ باوضو طواف کرنا (ایک قول یہ ہے کہ سنت ہے) پاک کپڑوں کے ساتھ طواف کرنا ‘ شرم گاہ کو ڈھانپ کر رکھنا ‘ صفا اور مروہ کے درمیان سعی کی ابتداء صفا سے کرنا ‘ اگر عذر نہ ہو تو خود چل کر سعی کرنا ‘ قرآن اور تمتع کرنے والے کے لیے ایک بکری ذبح کرنا ‘ سات چکر پورے ہونے کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا ‘ قربانی کے دن رمی کرنا حطیم کے باہر سے طواف کرنا ‘ طواف کے بعد سعی کرنا ‘ قربانی کے ایام میں اور حرم کے اندر حلق کرانا۔

حج کے سنن اور آداب :

خرچ میں وسعت اختیار کرنا ‘ ہمیشہ باوضو رہنا ‘ فضول باتوں سے زبان کی حفاظت کرنا (گالی وغیرہ سے حفاظت کرنا واجب ہے) اگر ماں باپ کو اس کی ضرورت ہو تو ان سے اجازت لے کر حج کے لیے جانا ‘ قرض خواہ اور کفیل سے بھی اجازت طلب کرنا ‘ اپنی مسجد میں دو رکعت نماز پڑھ کر نکلنا ‘ لوگوں سے کہا سنا معاف کرانا ‘ ان سے دعا کی درخواست کرنا ‘

نکلتے وقت کچھ صدقہ و خیرات کرنا ‘ اپنے گناہوں پرسچی توبہ کرے ‘ جن لوگوں کے حقوق چھین لیے تھے وہ واپس کردے ‘ اپنے دشمنوں سے معافی مانگ کر ان کو راضی کرے ‘ جو عبادات فوت ہوگئیں (مثلا جو نمازیں اور روزے رہ گئے ہیں) ان کی قضا کرے ‘ اور اس کوتاہی پر نادم ہو اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عزم کرے ‘ اپنی نیت کو ریاکاری اور فخر سے مبرا کرے ‘ حلال اور پاکیزہ سفر خرچ کو حاصل کرے کیونکہ حرام مال سے کیا ہوا حج مقبول نہیں ہوتا ‘ اگرچہ فرض ساقط ہوجاتا ہے ‘ اگر اس کا مال مشتبہ ہو تو کسی سے قرض لے کر حج کرے اور اپنے مال سے وہ قرض ادا کردے ‘ راستہ میں گناہوں سے بچتا رہے اور بہ کثرت اللہ تعالیٰ کا ذکر کرے ‘ سفر حج میں تجارت کرنے سے اجتناب کرے ہرچند کہ اس سے ثواب کم نہیں ہوتا۔

حج کے ممنوعات : 

جماع نہ کرے ‘ احرام کی حالت میں سر نہ منڈائے ناخن نہ کاٹے ‘ خوشبو نہ لگائے ‘ سر اور چہرہ نہ ڈھانپے ‘ سلا ہوا کپڑا نہ پہنے ‘ حرم اور غیر حرم میں شکار کے درپے نہ ہو ‘ حرم کے درخت نہ کاٹے۔

حج کے مکروہات :

اگر ماں پاب کو اس کی خدمت کی ضرورت ہے اور اس کے حج پر جانے کو ناپسند کرتے ہوں تو اس کا حج کے لیے جانا مکروہ ہے ‘ اور اگر ان کو اس کی خدمت کی ضرورت نہیں ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ہے ‘ اگر ماں باپ نہ ہوں اور دادا ‘ دادی ہوں تو وہ ان کے قائم مقام ہیں ‘ اس کے اہل و عیال جن کا خرچ اسکے ذمہ ہے اگر وہ اس کے حج پر جانے کو ناپسند کرتے ہوں اور اسے ان کے ضائع ہونے کا خدشہ نہ ہو تو پھر اس کے جانے میں کوئی حرج نہیں اور اگر اس کو یہ خدشہ ہو کہ اس کی غیر موجودگی میں وہ ضائع ہوجائیں گے تو پھر اس کا حج پر جانا مکروہ ہے ‘ اگر کسی شخص کا بیٹا بےریش ہو وہ داڑھی آنے تک اس کو حج کرنے سے منع کرے ‘ اگر حج فرض ہو تو وہ ماں باپ کی اطاعت سے اولی ہے اور اگر حج نفل ہو تو ماں باپ کی اطاعت اولی ہے ‘ جس شخص کے ذمہ کسی کا قرض ہو تو قرض ادا کرنے سے پہلے اس کا حج یا جہاد کے لیے جانا مکروہ ہے ‘ ہاں اگر قرض خواہ اجازت دے دے تو پھر کوئی حرج نہیں۔ (یہ تمام احکام اور مسائل درمختار ‘ ردالمختار اور عالم گیری سے ماخوذ ہیں)

حج کے فضائل : 

امام زکی الدین عبدالعظیم بن عبدالقوی المنذری المتوفی ٦٥٦ ھ لکھتے ہیں :

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے حج کیا اور (اس میں) جماع یا اس کے متعلق باتیں نہیں کیں اور کوئی گناہ نہیں کیا وہ گناہوں سے اس طرح (پاک) لوٹے گا جس طرح اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ (صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم ‘ سنن نسائی ‘ سنن ابن ماجہ)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک عمرہ سے لے کر دوسرا عمرہ اس کے درمیان گناہوں کا کفارہ ہے ‘ اور حج مبرور کی جزا صرف جنت ہے (موطا امام مالک ‘ صحیح بخاری ‘ صحیح مسلم ‘ جامع ترمذی ‘ سنن نسائی ‘ سنن ابن ماجہ ‘ حلیۃ الاولیاء)

حضرت عمرو بن العاص (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ نے میرے دل میں اسلام ڈالا ‘ تو میں نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوا میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ اپنا ہاتھ بڑھائیے تاکہ میں آپ سے بیعت کروں ‘ آپ نے ہاتھ بڑھایا تو میں نے اپنا ہاتھ کھینچ لیا ‘ آپ نے فرمایا اے عمرو کیا ہوا ؟ میں نے عرض کیا میں ایک شرط لگانا چاہتا ہوں ؟ آپ نے فرمایا جو چاہو شرط لگاؤ میں نے عرض کیا میری مغفرت کردی جائے ‘ آپ نے فرمایا اے عمرو ! کیا تم نہیں جانتے کہ اسلام اس سے پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے ‘ اور ہجرت اس سے پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتی ہے اور حج اس سے پہلے کے گناہوں کو مٹا دیتا ہے۔ (صحیح مسلم و صحیح ابن خزیمہ)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! ہمارے رائے میں جہاد افضل ہے کیا ہم جہاد نہ کریں ؟ آپ نے فرمایا لیکن افضل حج مبرور ہے۔ امام نسائی نے اس حدیث کو سند حسن سے روایت کیا ہے۔

حضرت ام سلمہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ہر کمزور آدمی کا جہاد حج ہے۔ (سنن ابن ماجہ)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حج مبرور کی جزا صرف جنت ہے ‘ پوچھا گیا بر کیا ہے ؟ فرمایا : کھانا کھلانا اور اچھی باتیں کرنا ‘ اس حدیث کو امام احمد نے روایت کیا ہے ‘ امام طبرانی نے المعجم الاوسط روایت کیا ہے۔

حضرت ابوموسی (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حج کرنے والا اپنے خاندان کے چار سو آدمیوں کے لیے شفاعت کرتا ہے اور اپنے گناہوں سے اس طرح نکل آتا ہے جس دن اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ ابوالقاسم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص مسجد حرام کے قصد سے روانہ ہوا ‘ اور اپنے اونٹ پر سوار ہوا اس کے اونٹ کے ہر قدم کے بدلہ میں اللہ تعالیٰ ایک نیکی لکھ دے گا اور اس کا ایک گناہ مٹا دے گا ‘ اور اس کا ایک درجہ بلند کر دے گا ‘ حتی کہ جب وہ بیت اللہ پہنچ کر طواف کرے گا اور صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے گا پھر سر منڈوائے یا بال کٹوائے گا تو وہ گناہوں سے اس دن کی طرح پاک ہوجائے گا جس دن اپنی ماں کے بطن سے پیدا ہوا تھا۔ (سنن بیہقی)

حضرت زاذان (رض) بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس (رض) سخت بیمار ہوگئے انہوں نے اپنے تمام بٹیوں کو بلا کر فرمایا میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص مکہ سے پیدل حج کے لیے روانہ ہوا حتی کہ واپس مکہ پہنچ گیا ‘ اللہ تعالیٰ اس کے ہر قدم کے بدلہ سات سو نیکیاں لکھ دے گا ‘ اور ہر نیکی حرم کی نیکیوں کی طرح ہوگی ‘ ان سے پوچھا گیا اور حرم کی نیکیاں کتنی ہیں انہوں نے فرمایا ہر نیکی ایک لاکھ نیکیوں کے برابر ہے۔ اس حدیث کو امام ابن خزیمہ نے اپنی صحیح میں روایت کیا ہے اور حاکم نے ‘ دونوں نے عیسیٰ بن سوارہ سے روایت کیا ہے ‘ حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح الاسناد ہے ‘ امام ابن خزیمہ نے کہا اگر حدیث صحیح ہو تب بھی عیسیٰ بن سوارہ کے متعلق دل میں تشویش ہے ‘ امام بخاری نے کہا وہ منکر الحدیث ہے۔ (حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ اس حدیث کو امام بزار اور امام طبرانی نے روایت کیا ہے ‘ امام بزار نے اس حدیث کو دو سندوں سے روایت کیا ہے کہ ایک سند میں کذاب راوی ہے اور دوسری سند میں اسماعیل بن ابراہیم کی سعید بن جبیر سے روایت ہے اور اس کو میں نہیں پہچانتا اور اس کے بقیہ راوی ثقہ ہیں۔ (مجمع الزوائد ج ٣ ص ٢٠٩) میں کہتا ہوں کہ امام ابو یعلی کی سند میں سعید بن جبیر سے روایت کرنے والا مجہول ہے اور یہ سند منقطع ہے۔ )

حضرت ابن عمر (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے ‘ حج کرنے والے اور عمرہ کرنے والے ‘ اللہ کے وفد ہیں ‘ اللہ نے ان کو بلایا تو انہوں نے لبیک کہا ‘ یہ اللہ سے سوال کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ انہیں عطا فرماتا ہے ‘ اس حدیث کو امام ابن ماجہ اور امام ابن حبان نے اپنی سنن اور صحیح میں روایت کیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : حج کرنے والے کی مغفرت کی جائے گی اور جس کے لیے حج کرنے والا استغفار کرے گا اس کی مغفرت کی جائے گی۔ (الترغیب والترہیب ج ٢ ص ١٦٧‘ مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ)

حافظ شہاب الدین احمد بن علی بن حجر عسقلانی متوفی ٨٥٢ ھ لکھتے ہیں

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ مسجد خیف میں بیٹھا ہوا تھا ‘ کہ ایک انصاری اور ایک ثقفی آئے ‘ انہوں نے آکر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو سلام عرض کیا اور کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہم آپ سے ایک سوال کرنے آئے ہیں ‘ آپ نے فرمایا اگر تم چاہو تو میں خود تمہارا سوال بیان کروں ‘ اور اگر تم چاہو تو تم سوال کرو ‘ انہوں نے کہا یا رسول اللہ ! آپ بیان فرمائیں ہمارا ایمان اور زیادہ ہوگیا ! انصاری نے ثقفی سے کہا تم سوال کرو ‘ اس نے کہا بلکہ تم سوال کرو ‘ انصاری نے کہا یارسول اللہ ! ہمیں بتائیے ! آپ نے فرمایا تم یہ سوال کرنے آئے ہو کہ جب تم اپنے گھر سے بیت اللہ کے لیے روانہ ہو اور بیت اللہ کا طواف کرو تو اس میں تمہارے لیے کیا اجر ہے ؟ اور رمی جمار کا کیا اجر ہے اور نحر (قربانی) کا کیا اجر ہے ؟ اور سرمنڈانے کا کیا اجر ہے ؟ اور اس کے بعد طواف (زیارت) کا کیا اجر ہے ؟ انصاری نے کہا یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے ‘ ہم آپ سے یہی سوال کرنے آئے تھے ‘ آپ نے فرمایا : جب تم اپنے گھر سے بیت اللہ کے لیے روانہ ہوتے ہو تو تمہاری سواری کے ہر قدم رکھنے اور اٹھانے کے بدلہ میں اللہ تمہاری ایک نیکی لکھتا ہے ‘ ایک گناہ مٹاتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے اور جب تم طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے ہو تو تمہاری ایک نیکی لکھتا ہے ‘ ایک گناہ مٹاتا ہے اور ایک درجہ بلند کرتا ہے اور جب تم طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھتے ہو تو تمہیں اولاد اسماعیل سے ایک غلام آزاد کرنے کا اجر ملتا ہے ‘ اور جب تم صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرتے ہو تو تمہیں ستر غلام آزاد کرنے کا اجر ملتا ہے ‘ اور جب تم زوال آفتاب کے بعد میدان عرفات میں وقوف کرتے ہو تو اللہ تعالیٰ آسمان دنیا کی طرف متوجہ ہوتا ہے اور تمہاری وجہ سے فرشتوں پر فخر کرتا ہے اور فرماتا ہے یہ میرے وہ بندے ہیں جو دور دراز کے علاقوں سے بکھرے ہوئے غبار آلود بالوں کے ساتھ آئے ہیں یہ میری رحمت اور میری مغفرت کی امید رکھتے ہیں سو اگر تمہارے گناہ ریت کے ذروں اور سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں تو اللہ ان کو معاف کردے گا ‘ میرے بندو ! عرفات سے مزدلفہ کی طرف جاؤ‘ تمہاری بھی مغفرت ہوگی اور جن کی تم شفاعت کرو گے اس کی بھی مغفرت ہوگی ‘ اور جب تم رمی جمار (کنکری پھینکتے ہو) کرتے ہو تو ہر کنکری کے بدلہ میں تمہارا ایک کبیرہ گناہ معاف کردیا جاتا ہے ‘ اور تمہاری قربانی تمہارے رب کے پاس ذخیرہ کی جائے گی اور جب تم سرمنڈاتے ہو تو ہر بال کے بدلہ میں ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے اور ایک نیکی لکھ دی جاتی ہے ‘ انصاری نے کہا : یارسول اللہ ! اگر اس کے گناہ کم ہوں ؟ آپ نے فرمایا تو پھر اس کی نیکیاں ذخیرہ کی جائیں گی اور جب تم اس کے بعد طواف (زیارت) کرو گے تو تم اس حال میں طواف کرو گے کہ تمہارا کوئی گناہ نہیں ہوگا ‘ پھر ایک فرشتہ تمہارے دو کندھوں کے درمیان ہاتھ رکھ کر کہے گا جاؤ از سرنو عمل کرو تمہار پچھلے گناہ معاف کردیئے گئے ہیں (المطالب العالیہ ج ١ ص ٣١٤۔ ٣١٢‘ تو زیع عباس احمد الباز مکہ مکرمہ)

حافظ الہیثمی نے لکھا ہے اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے اور اس میں اسماعیل بن رافع نام کا ایک ضعیف راوی۔ (مجمع الزوائد ج ٣ ص ٢٧٦)

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جس نے حج کی عبادات انجام دیں اور مسلمان اس کی زبان اور اس کے ہاتھ کے شر سے محفوظ رہے ‘ اس کے اگلے اور پچھلے گناہوں کی مغفرت کردی جاتی ہے۔ اس کی سند میں موسیٰ بن عبیدہ ربذی ایک ضعیف راوی ہے۔

حضرت جابر (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ بیت اسلام کا ستون ہے ‘ جو شخص حج ‘ عمرہ ‘ یا زیارت کے قصد سے اس بیت کے لیے روانہ ہو ‘ تو اللہ اس بات کا ضامن ہے کہ اگر وہ اس دوران فوت ہوگیا تو اس کو جنت میں داخل کر دے اور اگر اس کو لوٹائے تو اجر اور غنیمت کے ساتھ لوٹائے۔

اس حدیث کو امام طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کی سند میں ایک متروک راوی ہے (مجمع الزوائد ج ١ ص ٢٠٩)

حضرت عائشہ (رض) بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص حج یا عمرہ کے لیے روانہ ہوا اور راستہ میں مرگیا ‘ اس سے حساب نہیں لیا جائے گا اور اس سے کہا جائے گا کہ جنت میں داخل ہوجا۔ اس حدیث کو امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔

حافظ الہیثمی نے لکھا ہے کہ اس حدیث میں ایک راوی عائذبن بشیر ضعیف ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٣ ص ٢٠٨)

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو شخص حج کے لیے روانہ ہوا اور مرگیا اس کے لیے قیامت تک حج کا اجر لکھا جاتا رہے گا ‘ اور جو شخص عمرہ کے لیے روانہ ہوا اور مرگیا اس کے لیے قیامت تک عمرہ کا اجر لکھا جاتا رہے گا ‘ اور جو شخص اللہ کی راہ میں جہاد کے لیے روانہ ہوا اور مرگیا ‘ اس کے لیے قیامت تک غازی کا اجر لکھا جاتا رہے گا۔ اس حدیث کو بھی امام ابو یعلی نے روایت کیا ہے۔ (المطالب العالیہ ج ١ ص ٣٢٦۔ ٣٢٤‘ توزیع عباس احمد الباز ‘ مکہ مکرمہ)

حافظ الہیثمی نے لکھا ہے اس حدیث کو سند میں جمیل بن ابی میمونہ ہے ‘ امام ابن حبان نے اس کا ثقات میں ذکر کیا ہے اس حدیث کو امام طبرانی نے بھی روایت کیا ہے۔ (مجمع الزوائد ج ٣ ص ٢٠٩)

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : جو اس کے راستہ کی استطاعت رکھتا ہو۔

حج کی استطاعت کی تفصیل : 

علامہ ابو الحسن علی بن محمد بن حبیب ماوردی شافعی متوفی ٤٥٠ ھ لکھتے ہیں :

استطاعت میں تین قول ہیں : امام شافعی کے نزدیک استطاعت مال سے ہوتی ہے اور یہ سفر خرچ اور سواری ہے ‘ امام مالک کے نزدیک استطاعت بدن کے ساتھ ہوتی ہے یعنی وہ شخص صحت مند اور تندرست ہو ‘ امام ابوحنیفہ کے نزدیک استطاعت مال اور بدن دونوں کے ساتھ مشروط ہے۔ (النکت والعیون ج ١ ص ٤١١‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت)

علامہ ابن جوزی حنبلی نے بھی استطاعت کی تفسیر مال اور بدن دونوں کے ساتھ کی ہے۔ (زادالمیسر ج ١ ص ‘ ٤٢٨ مطبوعہ مکتب اسلامی ‘ بیروت ‘ ١٤٠٧ ھ)

فتاوی عالم گیری میں استطاعت کی تفصیل میں حسب ذیل امور مذکور ہیں :

(١) حج کرنے والے کے پاس اتنا مال ہو جو اس کی رہائش ‘ کپڑوں ‘ نوکروں ‘ گھر کے سامان اور دیگر ضروریات سے اس قدر زائد ہو کہ مکہ مکرمہ تک جانے کے دوران حج تک وہاں رہنے اور پھر واپس آنے کے لیے اور سواری کے خرچ کے لیے کافی ہو اور اس کے پاس اس کے علاوہ اتنا مال ہو جس سے وہ اپنے قرضہ جات ادا کرسکے اور اس عرصہ کے لیے اس کے اہل و عیال کا خرچ پورا ہو سکے اور گھر کی مرمت اور دیگر مصارف ادا ہوسکیں۔

(٢) اس کو یہ علم ہو کہ اس پر حج کرنا فرض ہے ‘ جو شخص دارالاسلام میں رہتا ہے اس کے لیے دارالاسلام میں رہنا اس علم کے قائم مقام ہے ‘ اور جو شخص دارالحرب میں ہو اس کو دو مسلمان خبر دیں یا ایک عادل مسلمان خبر دے کہ اس پر حج فرض ہے تو یہ اس کے علم کے لیے کافی ہے۔

(٣) وہ شخص سالم الاعضاء اور تندرست ہو ‘ حتی کہ لولے ‘ لنگڑے ‘ مفلوج ‘ ہاتھ پیر بریدہ ‘ بیمار اور بہت بوڑھے شخص پر حج فرض نہیں ہے ‘ اگر وہ سفر خرچ اور سواری کے مالک ہوں تب بھی ان پر حج کرنا فرض نہیں ہے اور نہ بیمار شخص پر حج کی وصیت کرنا فرض ہے۔ (فتح القدیر والبحر الرائق) اسی طرح جو شخص قیدی ہو یا جو شخص سلطان سے خائف ہو جس نے اس کو حج کرنے سے منع کیا ہو اس پر بھی حج کرنا فرض نہیں ہے ‘ (النہر الفائق) اور جو شخص نابینا ہو اس پر بھی حج کرنا فرض نہیں ہے اور نہ اپنے مال سے حج کرانا فرض ہے ‘ اگر اس کو قائد میسر ہو تو امام ابوحنیفہ کے نزدیک اس پر پھر بھی حج فرض نہیں ہے اور امام ابو یوسف اور محمد کے نزدیک اس میں دو روایتیں ہیں۔ (قاضی خاں)

(٤) اگر راستہ میں سلامتی غالب ہو تو اس پر حج فرض ہے اور اگر سلامتی غالب نہ ہو تو پھر حج فرض نہیں ہے۔

(٥) اگر اس کے شہر اور مکہ کے درمیان تین دن یا اس سے زیادہ کی مسافت ہو تو عورت کے لیے ضرورت ہے کہ اس کے ساتھ اس کا خاوند ہو یا اس کا محرم ہو اور محرم کے لیے ضروری ہے کہ وہ مامون ‘ آزاد اور عاقل اور بالغ ہو ‘ محرم کا خرچ حج کرنے والے کے ذمہ ہے۔

(٦) عورت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ اس وقت میں عدت وفات یا عدت طلاق نہ گزار رہی ہو۔ (فتاوی عالمگیرج ١ ص ٢١٩۔ ٢١٧‘ مطبوعہ مطبعہ امیریہ بولاق مصر ‘ ١٣١٠ ھ)

آج کل استطاعت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ حج کرنے والے کو حج پاسپورٹ اور حج ویزا مل جائے اس سے یہ بھی واضح ہوگیا کہ جو لوگ کہتے ہیں کہ شوال میں عمرہ کرنے والے پر حج فرض ہوجاتا ہے ان کا قول باطل ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور جس نے کفر (انکار) کیا تو بیشک اللہ سارے جہانوں سے بےپرواہ ہے۔

قدرت کے باوجود حج نہ کرنے والے پر وعید : 

حافظ زکی الدین عبدالعظیم بن عبدالقوی المنذری المتوفی ٦٥٦ ھ بیان کرتے ہیں :

حضرت علی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص سفر خرچ اور سواری کا مالک ہو جس کے ذریعہ وہ بیت اللہ تک پہنچ سکے اس کے باوجود وہ حج نہ کرے تو اس کوئی افسوس نہیں خواہ وہ یہودی ہو کر مرے خواہ نصرانی ہو کر مرے۔ اس حدیث کو بھی امام بیہقی نے روایت کیا ہے۔

ان حدیثوں میں حج نہ کرنے والے پر تغلیظا وعید کی گئی ہے۔

حضرت حذیفہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اسلام کے آٹھ حصے ہیں ‘ ایک حصہ اسلام ہے ‘ ایک حصہ نماز ہے ‘ ایک حصہ زکوۃ ہے ‘ ایک حصہ حج بیت اللہ ہے ‘ ایک حصہ نیکی کا حکم دینا ہے ‘ ایک حصہ برائی سے روکنا ہے ‘ ایک حصہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنا ہے ‘ وہ شخص نامراد ہے جس کا کوئی حصہ نہیں ہے ‘ اس حدیث کو امام بزار نے روایت کیا ہے۔ (غالبا راوی ایک حصہ کا ذکر کرنا بھول گیا)

حضرت ابو سعید خدری (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ عزوجل ارشاد فرماتا ہے : جس بندہ کا جسم تندرست ہو اور وہ مالی اعتبار سے خوشحال ہو اور وہ پانچ سال تک میرے پاس نہ آئے وہ ضرور محروم ہے۔ (صحیح ابن حبان وسنن بیہقی) (الترغیب والترہیب ج ٢ ص ٢١٢۔ ٢١١‘ مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ۔ ٤٠٧ ھ)

حلال مال سے حج کرنے کی فضیلت اور حرام مال سے حج کرنے کی مذمت : 

حافظ منذری بیان کرتے ہیں : حضرت بریدہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا حج میں خرچ کرنا اللہ کی راہ میں سات سو گنا زیادہ خرچ کرنے کی مثل ہے۔ اس حدیث کو امام احمد نے ‘ امام طبرانی نے معجم اوسط میں اور امام بیہقی نے روایت کیا ہے امام احمد کی اسناد حسن ہے۔

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا حج میں خرچ کرنا اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی مثل ہے ایک درہم سات سو گنا زیادہ ہے ‘ اس حدیث کو بھی امام طبرانی نے معجم اوسط میں روایت کیا ہے۔

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جب حج کرنے والا پاکیزہ کمائی لے کر نکلتا ہے اور اپنا پیر رکاب میں ڈالتا ہے اور اللہم لبیک اللہم لبیک سے ندا کرتا ہے تو آسمان سے ایک منادی کہتا ہے لبیک وسعدیک ‘ تمہارا سفر خرچ حلال ہے ‘ تمہاری سواری حلال ہے ‘ تمہارا حج مبرور (مقبول) ہے ‘ اس میں گناہ نہیں ہے ‘ اور جب وہ حرام مال سے حج کے لیے روانہ ہوتا ہے اور اپنا پاؤں رکاب میں ڈالتا ہے اور لبیک کہتا ہے تو آسمان سے ایک منادی ندا کرتا ہے تمہارا لبیک کہنا مقبول نہیں ‘ تمہارا زاد راہ حرام ہے ‘ تمہارا خرچ حرام ہے تمہارا حج گناہ ہے ‘ مقبول نہیں منادی ندا کرتا ہے تمہارا لبیک کہنا مقبول نہیں ‘ تمہارا زاد راہ حرام ہے ‘ خرچ حرام ہے تمہارا حج گناہ ہے ‘ مقبول نہیں ہے۔ اس حدیث کو امام طبرانی نے معجم اوسط میں اوسط میں روایت کیا ہے اور امام اصبہانی نے بھی روایت کیا ہے۔ (الترغیب والترہیب ج ٢ ص ١٨١۔ ١٧٩‘ مطبوعہ دارالحدیث قاہرہ ‘ ١٤٠٧ ھ)

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 97