أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡۤا اِنۡ تُطِيۡعُوۡا فَرِيۡقًا مِّنَ الَّذِيۡنَ اُوۡتُوا الۡكِتٰبَ يَرُدُّوۡكُمۡ بَعۡدَ اِيۡمَانِكُمۡ كٰفِرِيۡنَ

ترجمہ:

اے ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب کے ایک گروہ کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں گے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب کے ایک گروہ کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں گے۔ (آل عمران ١٠٠)

شاس بن قیس کا مسلمانوں میں عداوت کی آگ بھڑکانے کی ناکام سعی کرنا : 

امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری متوفی ٣١٠ ھ اس آیت کے شان نزول کے متعلق اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں :

زید بن اسلم بیان کرتے ہیں کہ شاس بن قیس ایک بوڑھا یہودی تھا اور کٹر کافر تھا ‘ مسلمانوں سے سخت بغض رکھتا تھا ‘ ایک دن اس نے دیکھا کہ اوس اور خزرج کے کچھ لوگ آپس میں بیٹھے ہوئے الفت اور محبت سے باتیں کر رہے ہیں ‘ وہ ان کی الفت اور محبت کو دیکھ کر غصہ سے جل بھن گیا ‘ اس نے ایک یہودی کو وہاں بٹھا لیا اور اس کے سامنے پرانے قصے چھیڑدیئے اور جنگ بعاث کے متعلق اشعار پڑھنے لگا ‘ اس اوس اور خزرج میں زبردست جنگ ہوئی تھی ‘ اور اوس فتحیاب ہوئے تھے ‘ اس نے اس راکھ میں سے چنگاریاں نکال آگ بھڑکا دی اور اوس اور خزرج ایک دوسرے خلاف باتیں کرنے لگے اور ایک دوسرے کے خلاف ہتھیار نکل آئے قریب تھا کہ خون کی ندیاں بہہ جاتیں ‘ دونوں فریق اپنے اپنے حمایتیوں کو بلا چکے تھے ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ خبر پہنچ گئی آپ چند مہاجرین صحابہ کے ساتھ آئے آپ نے فرمایا : اے مسلمانو ! اللہ سے ڈرو ! کیا تم زمانہ جاہلیت کی طرف چیخ و پکار کر رہے ہو ! حالانکہ تمہارے پاس اللہ کی ہدایت آچکی ہے اور اللہ تمہیں دولت اسلام سے مشرف کرچکا ہے اور تمہاری گردنوں سے جاہلیت کا جوا اتارپھینکا ہے ‘ اور تم کو کفر سے نجات دے دی ہے اور تم کو ایک دوسرے کا بھائی بنادیا ہے ‘ کیا تم پچھلی جاہلیت اور کفر کی طرف لوٹ رہے ہو ؟ تب مسلمانوں کو احساس ہوا کہ یہ شیطان کا وسوسہ تھا ‘ اور ان کے دشمنوں کا مکر تھا ‘ انہوں نے ہتھیار پھینک دیئے اور رونے لگے ‘ اوس اور خزرج نے ایک دوسرے کو گلے لگایا ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ساتھ اطاعت اور موافقت کرتے ہوئے چلے گئے اور اللہ کے دشمن شاس بن قیس نے جو ان کے دلوں میں عداوت کی آگ بھڑکائی تھی اس کو اللہ تعالیٰ نے بجھا دیا تب اللہ تعالیٰ نے شاس بن قیس کی اس ناکام سعی کے متعلق یہ آیت نازل کی ‘ اے ایمان والو ! اگر تم اہل کتاب کے ایک گروہ کی اطاعت کرو گے تو وہ تمہیں تمہارے ایمان لانے کے بعد کفر کی طرف لوٹا دیں گے۔ (جامع البیان ج ٤ ص ١٦‘ مطبوعہ دارالمعرفہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ)

صحابہ کرام اور بعد کے مسلمانوں کے لیے دین پر استقامت کے ذرائع : 

اس سے پہلی آیت میں اللہ تعالیٰ نے اہل کتاب کو مسلمانوں کے گمراہ کرنے سے منع فرمایا تھا اور اس پر عذاب کی وعیدسنائی تھی ‘ اور اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو حکم دیا ہے کہ وہ اہل کتاب کے بہکانے ‘ ورغلانے اور ان کے گمراہ کرنے خبردار رہیں اور ان کے بھڑکانے میں نہ آجائیں ورنہ وہ ان کو کفر کی طرف لوٹا دیں گے۔

تفسیر تبیان القرآن – سورۃ 3 – آل عمران – آیت 100