أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلَّذِيۡنَ اسۡتَجَابُوۡا لِلّٰهِ وَالرَّسُوۡلِ مِنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَصَابَهُمُ الۡقَرۡحُ  ۛؕ لِلَّذِيۡنَ اَحۡسَنُوۡا مِنۡهُمۡ وَاتَّقَوۡا اَجۡرٌ عَظِيۡمٌ‌ۚ

ترجمہ:

جن لوگوں نے زخمی ہونے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہا ان میں سے نیکی کرنے والوں اور اللہ سے ڈرنے والوں کے لیے بڑا اجر ہے

تفسیر:

آیات مذکورہ کے شان نزول میں دو روایتیں : 

ان آیات کے شان نزول کے متعلق دو روایتیں بیان کی گئی ہیں ‘ ایک روایت یہ ہے :

امام محمد ابن جریر متوفی ٣١٠ ھ اپنی سند کے ساتھ روایت کرتے ہیں : 

سدی بیان کرتے ہیں کہ جب ابو سفیان احد سے واپس ہوا تو وہ راستہ میں ایک جگہ اپنے واپس ہونے پر پچھتایا اور اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا تم نے اچھا نہیں کیا تم نے بہت سے مسلمانوں کو قتل کردیا تھا اور جب ان میں سے تھوڑے رہ گئے تو تم واپس آگئے ‘ واپس چلو اور انکی بنیاد ختم کردو اور ان کو بیخ و بن سے اکھاڑ پھینکو ‘ اللہ تعالیٰ نے ان کے اس ارادہ سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو مطلع کردیا ‘ آپ نے مسلمانوں سے فرمایا ان کافروں کا تعاقب کرو ‘ مسلمان اگرچہ جنگ احد میں زخمی اور دل شکستہ تھے لیکن انہوں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حکم پر لبیک کہی اور دشمن کے مقابلہ کے لیے روانہ ہوگئے ‘ ابوسفیان کو جب یہ خبر ملی کہ مسلمان ان کا پیچھا کر رہے ہیں تو وہ خوف زدہ ہو کر مکہ روانہ ہوگئے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے حمراء الاسد (ایک مقام ہے) تک ان کا پیچھا کیا۔ (جامع البیان ج ٤ ص ‘ ١١٧ مطبوعہ دارالمعرفتہ بیروت ‘ ١٤٠٩ ھ) 

اس کی تائید میں امام بخاری کی یہ روایت ہے : 

حضرت عائشہ (رض) (آیت) ” الذین استجابوا اللہ والرسول “۔ الخ کی تفسیر میں عروۃ بن الزبیر سے فرمایا : اے میری بہن کے بیٹے ان مسلمانوں میں تمہارے باپ حضرت زبیر اور حضرت ابوبکر (رض) شامل تھے۔ جب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جنگ احد میں زخمی ہوگئے اور مشرکین واپس چلے گئے تو آپ کو یہ اندیشہ ہوا کہ مشرکین لوٹ آئیں گے آپ نے فرمایا ان کا پیچھا کون کرے گا َ ؟ تو ستر مسلمانوں نے لبیک کہا ان میں حضرت ابوبکر (رض) اور حضرت زبیر (رض) بھی تھے۔ (صحیح بخاری ج ٢ ص ‘ ٥٨٤ مطبوعہ نور محمد اصح المطابع ‘ کراچی ‘ ١٣٨١ ھ)

دوسری روایت یہ ہے : 

امام علی بن احمد واحدی نیشا پوری متوفی ٤٥٨ ھ بیان کرتے ہیں 

مجاہد ‘ مقاتل ‘ واقدی ‘ اور کلبی نے بیان کیا ہے کہ جنگ احد کے دن جب ابوسفیان نے واپس جانے کا ارادہ کیا تو اس نے اعلان کیا : 

اے محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہمارے اور تمہارے درمیان آئندہ سال بدر صغری کے موسم میں جنگ ہوگی ‘ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا یہ ہمارے درمیان ہے انشاء اللہ ! جب اگلا سال آیا تو ابوسفیان اہل مکہ میں نکلا اور مقام مجنہ پر ٹھیرا پھر اللہ تعالیٰ نے اس کے دل میں رعب طاری کردیا اور اس نے واپس جانے کا ارادہ کیا ‘ پھر اس کی نعیم بن مسعود اشجعی سے ملاقات ہوئی ‘ اس نے نعیم کو مدینہ بھیجا اور کہا وہاں جا کر (سیدنا) محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو روک دینا اور مسلمانوں کو ڈرانا حتی کہ وہ بدر صغری میں ہمارے مقابلے کے لیے نہ آئیں ‘ کیونکہ اگر ان کی جانب سے اس میعاد کی مخالفت ہو تو وہ مجھے زیادہ پسند ہے ‘ نعیم مسلمانوں کے پاس گیا تو وہ اس میعاد پر پہنچنے کے لیے تیاریاں کر رہے تھے ‘ اس نے مسلمانوں سے کہا اہل مکہ تمہارے گھر پر آکر تم پر حملہ کرچکے ہیں اور اس جنگ میں تم کو نقصان پہنچا چکے ہیں تو جب تم ان کے شہر پر جا کر حملہ کرو گے حالانکہ تم تعداد میں کم ہو گے اور وہ زیادہ ہوں گے تو پھر تم کو کسی قدر نقصان اٹھانا پڑے گا ‘ اسی طرح منافقوں نے بھی مسلمانوں کو ڈرایا کہ ابوسفیان اور اس کے اصحاب ایک بڑا لشکر تیار کرچکے ہیں سو تم ان سے ڈرو ‘ مسلمانوں نے کہا ہمیں اللہ کافی ہے ‘ پھر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے اصحاب کے ساتھ روانہ ہوئے اور بدر صغری پر پہنچ گئے ‘ یہ وہ جگہ ہے جہاں پر آٹھ دن بازار لگتا تھا ‘ جب مسلمان وہاں پہنچے تو وہاں ان سے مقابلہ کرنے کے لیے کوئی مشرک موجود نہیں تھا مسلمانوں نے اس بازار میں کافی تجارت اور خریدو فروخت کی اور بہت نفع لے کر کامیابی اور کامرانی کے ساتھ واپس آئے۔ (الوسیط ج ١ ص ٥٢٣۔ ٥٢٢‘ مطبوعہ دارالکتب العلمیہ بیروت ‘ ١٤١٥ ھ) 

ان آیتوں کے شان نزول میں اختلاف ہے ‘ امام واقدی کی تحقیق یہ ہے کہ پہلی آیت : جن لوگوں نے زخمی ہونے کے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہی ‘ یہ آیت غزوہ حمراء الاسد کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ “ اور دوسری آیت ” ان لوگوں سے بعض لوگوں نے کہا تھا کہ تمہارے مقابلہ کے لیے بہت بڑا لشکر جمع ہوچکا ہے۔ سو تم ان سے ڈرو “۔ یہ آیت بدر صغری کے متعلق نازل ہوئی ہے اور بعض ائمہ تفسیر نے کہا یہ دونوں آیتیں بدر صغری کے متعلق نازل ہوئی ہیں ‘ لیکن امام واقدی کی تحقیق زیادہ قرین قیاس ہے ‘ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان مسلمانوں کی اس بات پر مدح فرمائی ہے کہ انہوں نے زخمی ہونیکے باوجود اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر لبیک کہی اور یہ مدح اسی وقت لائق ہے جب وہ غزوہ احد کے فورا بعد غزوہ حمراء الاسد کے لیے روانہ ہوں ‘ کیونکہ اس وقت وہ تازہ تازہ زخمی ہوئے تھے اور غزوہ بدر صغری تو ایک سال بعد واقع ہوا تھا اس وقت ان کے زخم مندمل ہوچکے تھے۔ اور دوسری آیت جس میں مسلمانوں کو شیطان کے ڈرانے کا ذکر ہے وہ غزوہ بدر صغری کے مناسب ہے کیونکہ اسی موقع پر نعیم بن مسعود ‘ ابوسفیان کے کہنے سے مسلمانوں کو ڈرانے مدینہ گیا تھا۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران – آیت نمبر 172