أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يٰۤـاَيُّهَا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوا اصۡبِرُوۡا وَصَابِرُوۡا وَرَابِطُوۡا وَاتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمۡ تُفۡلِحُوۡنَ

ترجمہ:

اے ایمان والو ! فی نفسہ صبر کرو اور لوگوں کی زیادیتوں پر صبر کرو اور اپنے نفسوں اور اپنی سرحدوں کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو ؏

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اے ایمان والو ! فی نفسہ صبر کرو اور لوگوں کی زیادتیوں پر صبر کرو اور اپنے نفسوں اور اپنی سرحدوں کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تم کامیاب ہو۔ (آل عمران : ٢٠٠) 

رب آیات : 

یہ اس سورت کی آخری آیت ہے ‘ اور سورة آل عمران میں جو تمام مضامین تفصیلی طور پر ذکر کیے گئے ہیں وہ تمام مضامین اجمالی طور پر اس آیت میں ذکر کردیئے گئے ہیں ‘ اس آیت میں عبادات کی مشقتوں کو برداشت کرنے کا حکم دیا گیا ہے اس کی طرف ” اصبروا “ میں اشارہ ہے ‘ اور مخالفین کی ایذا رسانیوں پر صبر کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی طرف ” صابروا “ میں اشارہ ہے اور کفار اور منافقین کے خلاف جہاد کا حکم دیا گیا ہے اس کی طرف ” رابطوا “ میں اشارہ ہے اور اصول اور فروع یعنی عقائد اور اعمال سے متعلق احکام شرعیہ پر عمل کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اس کی طرف ” واتقوا اللہ “ میں اشارہ ہے۔ 

صبر کا لغوی اور شرعی معنی : 

علامہ راغب اصفہانی لکھتے ہیں : 

صبر کے معنی ہیں تنگی میں کسی چیز کو روکنا ‘ صبرت الدابۃ کا معنی ہے میں نے بغیر دانے اور چارہ کے سواری کو روک لیا ‘ اور صبر کا اصطلاحی معنی ہے عقل اور شرع کے تقاضوں کے مطابق نفس کو روکنا اور پابند کرنا ‘ صبر ایک جنس ہے اور اس کی کئی انواع ہیں ‘ مصیبت پہنچنے پر نفس کو جزع وفزع ہے اور جنگ کے وقت نفس کو بزدلی سے روکنا صبر ہے اس کو شجاعت کہتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں بزدلی ہے ‘ عبادات میں مشقتوں کو برداشت کرنا اور غضب ‘ شہوت اور حرص وطمع کی تحریک کے وقت اپنے نفس کو اللہ کی نافرمانی سے روکنا بھی صبر ہے اس کو اطاعت کہتے ہیں اور اس کے مقابلہ میں فسق وفجور ہے (مفردات الفاظ القرآن ص ٢٧٣‘ مطبوعہ المکتبہ المرتضویہ ‘ ایران ‘ ١٣٦٢ ھ) 

صبر کے متعلق احادیث :

مصیبت کے وقت نفس کو جزع اور فزع سے روکنے کے متعلق یہ حدیث ہے : 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک عورت کے قریب سے گزرے جو قبر کے پاس رو رہی تھی ‘ آپ نے فرمایا اللہ سے ڈرو اور صبر کرو اس نے کہا ایک طرف ہٹو تم کو میری طرح مصیبت نہیں پہنچی ‘ اس نے آپ کو پہچانا نہیں تھا ‘ اس کو بتایا گیا کہ یہ تو نبی کریم ہیں ‘ وہ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے دروازہ پر آئی وہاں اس نے کوئی دربان نہیں پایا ‘ اس نے کہا میں نے آپ کو پہچانا نہیں تھا ‘ آپ نے فرمایا جب پہلی بار صدمہ (یامصبیت نہیں پہنچی ‘ اس نے آپ کو پہنچانا نہیں تھا ‘ آپ نے فرمایا جب پہلی بار صدمہ (یامصیبت) پہنچے اسی وقت (نفس کو روکنا) صبر ہوتا ہے۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ج ١٢٨٣‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٩٢٦) 

اور کفار سے جنگ کے وقت اپنے نفس کو بزدلی سے روکنے کے متعلق یہ حدیث ہے 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عبداللہ بن ابی اوفی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے دشمنوں سے جنگ کرتے ہوئے ایک دن انتظار کیا حتی کہ سورج ڈھل گیا ‘ پھر آپ نے لوگوں میں خطبہ دیتے ہوئے فرمایا : اے لوگو ! دشمن سے مقابلہ کی توقع نہ کرو ‘ اور اللہ سے عافیت کا سوال کرو ‘ اور جب تمہارا دشمن سے مقابلہ ہو تو صبر کرو (یعنی بزدلی نہ کرو) اور یقین رکھو کہ جنت تلواروں کے سائے کے نیچے ہے۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ٦٦‘ ٢٩٦٥‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٨٧٧) 

عبادات کی مشقتوں کو برداشت کرنے کے متعلق یہ حدیث ہے : 

امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت اسماء بنت ابی بکر (رض) بیان کرتی ہیں کہ جس دن سورج گرہن ہوا اس دن نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) گھبرائے آپ نے اپنی قمیص پہنی ‘ اور چادر اوڑھی ‘ پھر آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی اور اس میں بہت لمبا قیام کیا پھر آپ نے رکوع کیا ‘ میں نے دیکھا کہ ایک عورت مجھ سے عمر میں بڑی تھی اور کھڑی ہوئی تھی اور ایک عورت میری بہ نسبت بیماری تھی وہ بھی قیام میں تھی تو میں نے دل میں کہا میں تمہاری بنسبت زیادہ حقدار ہوں کہ طول قیام کی مشقت پر صبر کروں (مسند احمد ج ٦ ص ٣٤٩‘ مطبوعہ مکتب اسلامی بیروت ‘ ١٣٩٨ ھ) 

حرص ‘ غضب اور شہوت کے تقاضوں پر صبر کرنے کے متعلق یہ حدیث ہے : 

امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث متوفی ٢٧٥ ھ روایت کرتے ہیں :

حضرت سلمہ بن صخر (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رمضان میں اپنی بیوی سے ظہار کیا پھر ایک رات کو اس سے جماع کرلیا ‘ صبح نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے یہ واقعہ عرض کیا : آپ نے فرمایا اے سلمہ ! تم نے یہ کام کیا ؟ میں نے دو مرتبہ عرض کیا : یا رسول اللہ ! مجھ سے تقصیر ہوگئی اور میں اللہ کے حکم پر صابر ہوں ‘ آپ کو جو اللہ فرمائے آپ مجھے اس کا حکم دیجئے۔ الحدیث : (سنن ابوداؤد ‘ رقم الحدیث : ٢٢١٣) 

صابروا کا لغوی معنی اور صبر اور مصابرہ میں فرق : 

علامہ سید محمد مرتضیٰ حسینی متوفی ١٢٠٥ ھ لکھتے ہیں : 

اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : (اصبروا وصابروا ورابطوا “ اس آیت میں ادنی سے اعلی کی طرف انتقال ہے ‘ صبر ‘ مصابرہ سے کم ہے اور مصابرہ ‘ مرابطہ سے کم ہے ‘ ایک قول یہ ہے کہ اصبروا کا معنی ہے اپنے نفوس کے ساتھ صبر کرو اور صابروا کا معنی ہے مصیبتوں پر اپنے دلوں میں اللہ پر صبر کرو ‘ اور رابطوا کا معنی ہے اپنے اسرار کا اللہ کے ساتھ رابطہ رکھو اور ایک قول یہ ہے کہ اصبروا کا معنی ہے اللہ میں صبر کرو ‘ اور صابروا کا معنی ہے اللہ کے ساتھ صبر کرو اور رابطوا کا معنی ہے اللہ کے ساتھ رابطہ رکھو۔ (تاج العروس ج ٣ ص ‘ ٣٢٤ مطبوعہ المطبعۃ الخیریہ ‘ مصر ‘ ١٣٠٦ ھ) 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت اسامہ بن زید (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ کے اصحاب مشرکین کو معاف کردیتے تھے اور ان کی ایذا ارسانیوں پر صبر کرتے تھے۔ (صحیح البخاری ‘ رقم الحدیث : ج ٦٢٠٧‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٧٩٨) 

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : جو شخص اپنے امیر کی کوئی ناگوار چیز دیکھے وہ اس پر صبر کرے کیونکہ جو شخص جماعت سے ایک بالشت بھی علیحدہ ہوا ‘ اور مرگیا وہ جاہلیت کی موت مرا (صحیح مسلم رقم الحدیث : ١٨٤٩) 

امام عبداللہ بن عبدالرحمن دارمی متوفی ٢٥٥ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت صہیب (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ایک مجلس میں تشریف فرما تھے ‘ آپ ہنسے ‘ پھر آپ نے فرمایا کیا تم مجھ سے نہیں دریافت کرتے کہ میں کس وجہ سے ہنسا ہوں ؟ صحابہ نے عرض کیا آپ کس وجہ سے ہنسے ہیں ؟ آپ نے فرمایا مجھے مومن کے حال پر تعجب ہوتا ہے ‘ اس کا ہرحال خیر ہے اگر اس کو کوئی پسندیدہ چیز ملے اور وہ اس پر اللہ کی حمد کرے تو یہ اس کے لیے خیر ہے اور اگر اس کو کوئی ناگوار چیز ملے اور وہ اس پر صبر کرے تو یہ بھی اس کے لیے خیر ہے اور مومن کے سوا کوئی شخص ایسا نہیں ہے جس کا ہرحال خیر ہو۔ (سنن دارمی ‘ رقم الحدیث : ٢٧٨٠‘ صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ٢٩٩٩‘ مسند احمد ج ٤ ص ٣٣٣‘ ٣٣٢‘ ج ٦ ص ١٥١٦) 

مرابطہ کے معنی : 

علامہ حسین بن محمد راغب اصفہانی لکھتے ہیں : 

مرابطہ کی دو قسمیں ہیں ‘ مسلمانوں کی سرحدوں کی نگہبانی اور حفاظت کرنا ‘ کہیں اس پر دشمن اسلام حملہ آور نہ ہوں اور دوسری قسم ہے نفس کا بدن کی نگہبانی اور حفاظت کرنا کہیں شیطان اس سے گناہ نہ کرائے نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا بھی رباط ہے ‘ یہ دوسری قسم ہے اور پہلی قسم کے متعلق یہ آیت ہے : 

(آیت) ” واعدوا لھم ما استطعتم من قوۃ ومن رباط الخیل “۔ (الانفال : ٦٠) 

ترجمہ : ان کے لیے بہ قدر استطاعت ہتھیاروں کی قوت اور گھوڑے باندھنے کو فراہم کرو۔ (مفردات الفاظ القرآن ص ١٨٦ ‘۔ ١٨٥‘ مطبوعہ مطبوعہ المکتبہ المرتضویہ ایران ‘ ١٣٦٢ ھ) 

آیت مذکورہ میں رابطور کے محامل : 

ہر چند کہ انسان ضبط نفس کرکے فی نفسہ صبر کرتا ہے اور لوگوں کی ایذاء رسانی پر بھی صبر کرتا ہے لیکن پھر بھی اس میں شہوت ‘ غضب اور حرص پر مبنی برے اخلاق ہوتے ہیں اور اپنے نفس کو برے اخلاق سے پاک کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ انسان اپنے نفس سے جہاد کرے اور اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور جب کبھی شہوت یا حرص کے غلبہ سے کسی گناہ کی تحریک ہو تو اپنے نفس کو اس گناہ سے آلودہ نہ ہونے دے ‘ اور یہ محاسبہ اور نگہبانی اسی وقت ہوسکتی ہے جب انسان کے دل میں اللہ کا ڈر اور خوف ہو ‘ اس لیے اللہ تعالیٰ نے صبر کرنے کا حکم دینے کے بعد فرمایا : (آیت) ’ ورابطوا واتقوا اللہ “۔ یعنی اپنے نفس کی نگہبانی کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ تمہیں کامیابی کی امید ہو۔ 

چونکہ سورة آل عمران کی زیادہ کی زیادہ تر آیتیں جنگ احد سے متعلق ہیں اور بعض مسلمانوں نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ایک حکم کی خلاف ورزی کی تھی جس کے نتیجہ میں وہ شکست سے دوچار ہوئے اور اس شکست پر آزردہ خاطر ہوئے ‘ اس لیے اس آیت کا ایک ظاہری محمل یہ ہے کہ کفار سے جنگ کے دوران ثابت قدم رہو اور جنگ میں ان کی طرف سے پہنچنے والی تکلیفوں پر صبر کرو ‘ اور اپنی سرحدوں کی حفاظت کرو ‘ اور اس سلسلہ میں اللہ اور رسول کے احکام پر عمل کرنے میں اللہ سے ڈرتے رہو اور کسی قسم کی حکم عدولی نہ کرو تاکہ تمہیں کامیابی اور سرفرازی کی امید ہو۔ 

اس آیت کا ایک محمل یہ بھی ہے کہ نفسہ صبر کرو اور مخالفوں کی ایذاء رسانیوں پر صبر کرو اور ہرحال میں اللہ سے رابطہ استوار رکھو اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ 

اسلامی ملک کی سرحد کی حفاظت کے متعلق احادیث : 

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی ٢٥٦ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت سہل بن سعد ساعدی (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ کی راہ میں ایک دن سرحد کی حفاظت کرنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے۔ 

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت سلمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ایک دن اور ایک رات سرحد کی حفاظت کرنا ‘ ایک ماہ کے روزوں اور قیام سے افضل ہے ‘ اور اگر وہ مرگیا تو اس کا یہ اجر جاری رہے گا اور وہ فتنہ میں ڈالنے والے سے محفوظ رہے گا۔ (صحیح مسلم ‘ رقم الحدیث : ١٩١٣‘ سنن نسائی ‘ رقم الحدیث : ٣١٦٨‘ ٣٦٧‘ سنن ابن ماجہ ‘ رقم الحدیث : ٢١٦٧‘ مسنداحمد ‘ ج ٢ ص ١٧٧‘ ج ٥ ص ٤٤١‘ ٤٤٠‘ تحفۃ الاشراف : رقم الحدیث : ٩١ ٤٤) 

فتنہ میں ڈالنے سے مراد یا تو منکر نکیر ہیں اور یا اس سے مراد شیطان ہے۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عمل منقطع ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کے ثواب کو جاری رکھے گا اور جس حدیث میں ہے ابن آدم میں سے ہر ایک کا عمل منقطع ہوجاتا ہے ماسوا تین کے اس کا مطلب ہے ان تین کا عمل منقطع نہیں ہوتا اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ اس کا عمل منقطع ہونے کے باوجود اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس کا ثواب جاری رکھے گا۔ 

امام احمد بن حنبل متوفی ٢٤١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت عثمان (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے منی میں فرمایا اللہ کی راہ میں ایک دن سرحد کی حفاظت کرنا اس کے علاوہ ہزار ایام سے افضل ہے۔ (مسند احمد ج ١ ص ٥٧‘ ٦٦‘ ٦٤‘ سنن دارمی ‘ رقم الحدیث : ٢٤٣١) 

امام مسلم بن حجاج قشیری ٢٦١ ھ روایت کرتے ہیں : 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتاؤں جس سے اللہ گناہوں کو مٹا دے اور درجات کو بلند کر دے ‘ صحابہ نے عرض کیا : کیوں نہیں ! یا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) آپ نے فرمایا مشقت کے وقت مکمل وضو کرنا ‘ زیادہ قدم چل کر مسجد میں جانا اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا ‘ سو یہی رباط ہے۔ (صحیح مسلم رقم الحدیث : ٢٥١‘ جامع ترمذی ‘ رقم الحدیث : ٥١، سنن نسائی ‘ رقم الحدیث : ١٤٣‘ مسند احمد ج ٢ ص ٢٧٧‘ ٢٠٢) 

گناہوں کو مٹانے سے مراد یہ ہے کہ ان کے نامہ اعمال سے گناہ مٹادیئے جائیں ‘ یا گناہ کے مقابلہ میں دل کے اندر جو ایک سیاہ نقطہ بن جاتا ہے اس کو مٹا دیا جائے ‘ مشقت کے وقت مکمل وضو کرنے سے مراد یہ ہے کہ جب انسان کو پانی ٹھنڈا لگے یا پانی کے استعمال سے جسم میں تکلیف ہو اس وقت مکمل وضو کرے ‘ دور سے چل کر مسجد میں آنا یہ واضح ہے ‘ ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرنا اس سے یا تو مسجد میں بیٹھ کر انتظار کرنا مراد ہے تو یہ اعتکاف کے ایام میں پانچوں نمازوں سے حاصل ہوتا ہے اور عام دنوں میں آسانی سے عصر کے بعد مغرب کی نماز اور مغرب کے بعد مسجد میں عشاء کی نماز کے انتظار میں حاصل ہوتا ہے اور اس سے مراد یہ ہے کہ انسان ایک نماز پڑھ کر اپنے گھر یا دکان یا دفتر میں آجائے لیکن اس کا دل و دماغ دوسری نماز کے انتظار میں لگا ہوا ہو ‘ تو یہ انتظار پانچویں نمازوں میں آسانی سے حاصل ہوسکتا ہے ‘ اس کو آپ نے رباط فرمایا ہے کیونکہ رباط سے مراد نفس کو پابند کرنا ہے۔ خواہ سرحد کی حفاظت پر خواہ ان عبادات میں یا اس لیے کہ رباط کا معنی ہے نفس اور جسم کا عبادات کے ساتھ ارتباط رکھنا ‘ یا رباط کا معنی ہے نگہبانی کرنا خواہ سرحد کی دشمنان اسلام سے نگہبانی کی جائے خواہ وضو سے نماز کی حفاطت کی جائے اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرکے اس کی نگہبانی کی جائے اور اس کو ضائع ہونے بچایا جائے ‘ نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو فرمایا ہے سو یہی رباط ہے اس کا یہ مطلب بھی ہوسکتا ہے کہ سورة آل عمران میں جو رابطو ‘ کا لفظ ہے اس سے مراد ان عبادات کی نگہبانی کرنا ہے۔ 

آج ٢٢ صفر المظفر ١٤١٧ ھ۔ جولائی ١٩٩٦ ء بروز پیر سورة آل عمران کی تفسیر مکمل ہوگئی الہ العلمین جس طرح آپ نے آل عمران کی تفسیر مجھ سے مکمل کرائی ہے بقیہ قرآن مجید کی تفسیر بھی مکمل کرا دیں اور اس تفسیر میں مجھ کو غلطیوں اور لغزشوں سے محفوظ رکھیں اور اس تفسیر تبیان القرآن کو تا روز قیامت مقبول اور اثر آفرین رکھیں اور مجھے ‘ میرے والدین ‘ میرے اساتذہ اور میرے قارئین اور محبین کو دنیا اور آخرت کے عذاب سے بچائیں اور ان کے لیے دارین کی نعمتوں کا دروازہ کھول دیں ” واخر دعوانا ان الحمد للہ رب العلمین والصلوۃ والسلام علی رسولہ خیر خلقہ سیدنا محمد و علی الہ و اصحابہ وازواجہ وعلمآء ملتہ واولیآء امتہ وامتہ اجمعین “۔

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 3 آل عمران – آیت نمبر 200