أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

قُلۡ اَمَرَ رَبِّىۡ بِالۡقِسۡطِ‌ وَاَقِيۡمُوۡا وُجُوۡهَكُمۡ عِنۡدَ كُلِّ مَسۡجِدٍ وَّادۡعُوۡهُ مُخۡلِصِيۡنَ لَـهُ الدِّيۡنَ ؕ كَمَا بَدَاَكُمۡ تَعُوۡدُوۡنَؕ ۞

ترجمہ:

آپ کہیے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے، اے لوگو ! ہر نماز کے وقت اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اخلاص کے ساتھ اطاعت کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرو، جس طرح اس نے تم کو ابتداءً پیدا کیا ہے، اسی طرح تم لوٹوگے

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ” آپ کہیے کہ میرے رب نے انصاف کا حکم دیا ہے، اے لوگو ! ہر نماز کے وقت اپنا رخ ٹھیک رکھو اور اخلاص کے ساتھ اطاعت کرتے ہوئے اسی کی عبادت کرو، جس طرح اس نے تم کو ابتداءً پیدا کیا ہے، اسی طرح تم لوٹوگے “

قَسَطَ اور عدل کے معانی : قسط کا معنی ہے کسی چیز کے دو برابر حصے کرنا۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” واقیموا الوزن بالقسط : اور انصاف کے ساتھ وزن کو درست رکھو ” (الرحمن :9) ۔ قَسَطَ کا معنی ہے ظلم کرنا اور اَقسَطَ کا معنی ہے عدل کرنا۔ قرآن مجید میں ہے : واما القاسطون فکانوا لجہنم حطبا : اور رہے ظالم لوگ تو وہ جہنم کا ایندھن ہیں ” (الجن :15) ۔ ” واقسطوا ان اللہ یحب المقسطین : اور انصاف کرو، بیشک اللہ انصاف کرنے والوں کو بہت پسند فرماتا ہے ” (الحجرات :9) ۔ (المفردات، ج 2، س 423، دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1418 ھ)

عدل، عدالت اور معادلہ۔ ان کا معنی ہے مساوات۔ عدل اور عدل دونوں کا معنی مساوات ہے۔ لیکن عدل امور معنویہ میں مساوات کو کہتے ہیں اور عدل امور محسوسہ میں مساوات کو کہتے ہیں۔ مثلاً وزن۔ پیمائش اور عدد میں مساوات کو کہتے ہیں اور عدل کی محسوسات میں مساوات اس آیت میں ہے : ” ولن تستطیعوا ان تعدلوا بین النساء : اور تم بیویوں کے درمیان ہرگز عدل نہ کرسکو گے) ” (النساء :129) ۔ اس میں یہ اشارہ ہے کہ انسان کی فطرت میں کسی ایک طرف میلان کرنا ہے۔ اس لیے انسان اپنی بیویوں کے درمیان محبت میں مساوات کرنے پر قادر نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : ” ان اللہ یامر بالعدل والاحسان : بیشک اللہ عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے ” (النحل :90)

عدل کا معنی ہے مکافات اور بدلہ میں مساوات : خیر کا بدلہ خیر اور شر کا بدلہ اس کے مساوی شر۔ مثلاً : ” جزاء سیئۃ سیئۃ مثلھا : برائی کا بدلہ اس جیسی اتنی ہی برائی ہے ” (الشوری :42) ۔ اور احسان کا معنی ہے نیکی کے بدلہ میں اس سے زیادہ نیکی کی جائے اور برائی کے بدلہ میں اس سے کم برائی کی جائے۔ جتنی رقم کسی سے قرض لی تھی، اتنی ہی واپس کردینا عدل ہے۔ اور اس سے زیادہ رقم واپس کرنا احسان ہے اور کسی نے دس گھونسے مارے ہوں تو بدلہ میں اس کو دس گھونسے مارنا عدل ہے اور صرف ایک گھونسا مارنا احسان ہے۔ (المفردات، ج 2، س 423، دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1418 ھ)

اخلاص کا معنی : اخلاص، خالص سے بنا ہے۔ جس چیز میں کسی چیز کی آمیزش کا شبہ ہو، جب وہ اس سے صاف ہوجائے تو اس کو خالص کہتے ہیں۔ یعنی جو چیز ملاوٹ سے پاک ہو۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اخلاص کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت صرف اس کی رضا جوئی یا اس کے حکم کی فرمانبرداری کی نیت سے کی جائے۔ اس میں کسی کو دکھانے یا سنانے کی نیت نہ ہو اور نہ اس کام پر اپنی تعریف سننے کی خواہش ہو۔ اخلاص کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اللہ کی پرستش اور اس کی رضا جوئی کے سوا ہر ایک کی پرستش اور اس کی رضا جوئی سے بری ہوجائے۔ (المفردات، ج 1، ص 204، دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1418 ھ) 

قرآن مجید میں اخلاص کے ساتھ عبادت کرنے کا حکم : اس سے پہلی آیت میں یہ فرمایا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے فحشاء (بےحیائی کرنے) کا حکم نہیں دیا۔ اس آیت میں یہ بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کس چیز کا حکم دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قسط (عدل) کا حکم دیا ہے اور قبلہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم دیا ہے اور اخلاص کے ساتھ اللہ سے دعا کرنے اور اس کی عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔

قسط سے مراد ہے لا الہ الا اللہ کا اعتقاد رکھنا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : ” شہد اللہ انہ لا الہ ھو والملئکۃ واولوا العلم قائما بالقسط لا الہ الا ھو العزیز الحکیم : اللہ نے گواہی دی کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں اور فرشتوں نے اور علما نے در آنحالیکہ وہ عدل کے ساتھ قائم ہیں یہ کہ اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں۔ بہت عزت والا بڑی حکمت والا ” 

اس آیت میں دوسرا حکم یہ دیا ہے کہ قبلہ کی طرف رخ کرو اور اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ سے دعا کرو اور اس کی عبادت کرو۔ 

عمل میں اخلاص کے فوائد اور ثواب کے متعلق احادیث : امام ابو عیسیٰ ترمزی متوفی 279 ھ روایت کرتے ہیں : حضرت عبداللہ بن مسعود (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس میں مسلمان میں یہ تین اوصاف ہوں اس کے دل میں کبھی کھوٹ (کینہ اور فساد) نہیں ہوگا۔ اس کے عمل میں اللہ کے لیے اخلاص ہو، وہ ائمہ مسلمین کے لیے خیر خواہی کرے اور مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ لازم ہے۔ (الحدیث) (سنن ترمذی، ج 4، رقم الحدیث : 2667، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1414 ھ) 

امام احمد بن شعیب نسائی توفی 303 ھ روایت کرتے ہیں : مصعب بن سعد اپنے والد (رض) سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا اللہ اس امت کے ضعیف لوگوں کی دعاؤں، ان کی نمازوں اور ان کے اخلاص کی وجہ سے اس امت کی مدد فرماتا ہے۔ (سنن نسائی، ج 6، رقم الحدیث : 3178، مطبوعہ دار المعرفہ، بیروت، 1412 ھ)

حضرت معاذ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے دین میں اخلاص رکھو تمہارا قلیل عمل (بھی) کافی ہوگا۔ امام حاکم نے کہا یہ حدیث صحیح ہے۔ (المستدرک، ج 4، ص 306، حلیۃ الاولیاء ج 1، ص 244، الجامع الصغیر، ج 1، رقم الحدیث : 298، الجامع الکبیر، ج 1، رقم الحدیث : 731)

حضرت ضحاک بن قیس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اپنے تمام اعمال اخلاص کے ساتھ کرو۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ اخلاص کے بغیر کسی عمل کو قبول نہیں کرتا۔ حافظ سیوطی نے اس حدیث کو صحیح لکھا ہے۔ (سنن دار قطنی، ج 1، رقم الحدیث : 130 ۔ الجامع الصغیر، ج 1، رقم الحدیث : 299 ۔ الجامع الکبیر، ج 1، رقم الحدیث : 732)

حضرت ابو درداء بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : اللہ کی عبادت اخلاص کے ساتھ کرو۔ پانچ (فرض) نمازیں پڑھو اور اپنے اموال کی زکوۃ خوشی سے ادا کرو۔ اپنے مہینہ (رمضان) کے روزے رکھو، اپنے بیت (کعبہ) کا حج کرو۔ (اور) اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔ حافظ الہیثمی نے اس حدیث کو ضعیف لکھا ہے (حلیۃ الاولیاء، ج 5، ص 166، مجمع الزوائد، ج 1، ص 45، الجامع الصغیر، ج 1، رقم الحدیث 300، الجامع الکبیر، ج 1، رقم الحدیث : 733)

حضرت عمر بن الخطاب (رض) بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اعمال کا مدار صرف نیت پر ہے۔ ہر شخص کے عمل کا وہی ثمرہ ہے جس کی اس نے نیت کی ہے تو جس شخص کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے تو اس کی ہجرت اللہ اور اس کے رسول کی طرف ہے اور جس شخص کی ہجرت دنیا کی طرف ہو جس کو وہ پائے یا کسی عورت کی طرف ہو جس سے وہ نکاح کرے، تو اللہ کے نزدیک اس کی ہجرت اسی کی طرف ہے جس کی اس نے نیت کی ہے۔ (صحیح البخاری، ج 1، رقم الحدیث :1 ۔ صحیح مسلم، الامارۃ :155، (1907) ۔ سنن ابو داود، ج 2، رقم الحدیث : 2201، سنن الترمزی، ج 3، رقم الحدیث : 1653، سنن النسائی، ج 1، رقم الحدیث : 75 ۔ سنن ابن ماجہ، ج 2، رقم الحدیث : 4227 ۔ مسند احمد، ج 1، ص 25 ۔ مسند الحمیدی، رقم الحدیث : 28 ۔ صحیح ابن خزیہ، رقم الحدیث : 142 ۔ سنن کبری للبیہقی، ج 1، ص 298، المنتقی، رقم الحدیث : 64 ۔ صحیح ابن حبان، ج 2، رقم الحدیث : 388 ۔ حلیۃ الویاء، ج 8 ص 42 ۔ سنن دار قطنی، ج 1 رقم الحدیث : 128)

حضرت انس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن میری امت کے تین گروہ ہوں گے۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہوگا جنہوں نے خالص اللہ عز وجل کے لیے عبادت کی ہوگی۔ ایک گروہ ان لوگوں کا ہوگا جنہوں نے دکھاوے کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہوگی۔ اور ایک گروہ ان لوگوں کا ہوگا جنہوں نے دنیا کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہوگی۔ تو جس نے دنیا کے لیے اللہ تعالیٰ کی عبادت کی ہوگی، اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا، تو نے میری عبادت سے کس چیز کا ارادہ کیا تھا ؟ وہ کہے گا دنیا کا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا یقیناً جس چیز کو تو نے جمع کیا تھا، اس نے تجھ کو نفع نہیں دیا اس کو دوزخ میں لے جاؤ اور جس نے ریاکاری کے لیے عبادت کی تھی، اس سے اللہ تعالیٰ فرمائے گا تیری عبادت صرف ریاکاری کے لیے تھی، اس میں سے میری طرف کوئی چیز نہیں پہنچی اور وہ ریا تجھے آج نفع نہیں دے گا، اس کو دوزخ میں لے جاؤ اور جس نے خالص اللہ عز وجل کے لیے عبادت کی تھی، اس سے فرمائے گا تو نے میری عبادت کرنے سے کس چیز کا ارادہ کیا تھا۔ وہ شخص کہے گا تیری عزت اور جلال کی قسم ! تو ضرور مجھ سے زیادہ جاننے والا ہے۔ میں تیری رضا جوئی اور جنت کے لیے تیری عبادت کرتا تھا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : میرے بندہ نے سچ کہا اس کو جنت کی طرف لے جاؤ۔ (حافظ الہیثمی نے کہا اس حدیث کی سند میں، ایک راوی عبید بن اسحاق کو جمہور نے ضعیف کہا ہے اور ابوحاتم رازی اور ابن حبان نے اس کی توثیق کی ہے اور اس کی سند کے باقی راوی ثقہ ہیں) (شعب الایمان، ج 5، رقم الحدیث : 16808 ۔ المعجم الاوسط، ج 6، رقم الحدیث :5101 ۔ مجمع الزوائد، ج 10، ص 350)

عمل میں اخلاص نہ ہونے سے نقصان اور عذاب کے متعلق احادیث : حضرت انس بن مالک (رض) بیان کرتے ہیں کہ جب قیامت کے دن مہرزدہ نامہ اعمال لائیں گے، اللہ تبارک و تعالیٰ فرمائے گا، اس صحیفہ کو قبول کرلو اور اس صحیفہ کو چھوڑ دو فرشتے کہیں گے تیری عزت کی قسم ! ہم نے وہی لکھا ہے جو اس نے عمل کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تم نے سچ کہا (لیکن) اس کا عمل میری ذات کے لیے نہیں تھا۔ آج میں صرف اسی عمل کو قبول کروں گا جو میری ذات کے لیے کیا گیا ہوگا۔ حافظ الہیثمی نے کہا : یہ حدیث دو سندوں سے مروی ہے اور اس کی ایک سند صحیح ہے۔ (المعجم الاوسط، ج 7، رقم الحدیث : 2129، سنن دار قطنی، ج 1، رقم الحدیث : 129، مجمع الزوائد، ج 10، ص 35)

حضرت ابو درداء (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : کسی نیک عمل کو باقی رکھنا نیک عمل کرنے سے زیادہ دشوار ہے۔ ایک شخص تنہائی میں کوئی نیک عمل کرتا ہے تو اس کا اجر ستر گنا لکھ دیا جاتا ہے۔ پھر شیطان اس کو بہکاتا رہتا ہے حتی کہ وہ اس عمل کا لوگوں سے ذکر کرتا ہے اور اس کا اعلان کردیتا ہے۔ پھر اس کی وہ نیکی (مخفی نیکیوں کے بجائے) ظاہر نیکیوں میں لکھ دی جاتی ہے اور تنہائی میں عمل کرنے کی وجہ سے جو اس کا زیادہ اجر تھا، وہ کم کردیا جاتا ہے اور شیطان اس کو مسلسل ورغلاتا رہتا ہے حتی کہ وہ چاہتا ہے کہ اس کی اس نیکی کا ذکر کیا جائے اور اس نیکی پر اس کی تعریف کی جائے۔ پھر اس کے عمل کو ظاہری نیکیوں سے بھی کاٹ دیا جاتا ہے اور یہ لکھ دیا جاتا ہے کہ اس نے یہ عمل ریاکاری کے طور پر کیا تھا۔ سو جو شخص اللہ سے ڈرتا ہے، وہ اپنے دین کی حفاظت کرتا ہے اور بیشک ریاکاری شرک ہے۔ (شعب الایمان، ج 5، رقم الحدیث :6813، دار الکتب العلمیہ، بیروت، 1410 ھ)

(ہر چند کہ اس حدیث کی سند میں مجہول راوی ہیں لیکن اس کا معنی صحیح ہے اور درج ذیل حدیث میں اس کی تائید ہے) 

حضرت ابوہریرہ (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا قیامت کے دن سب سے پہلے جس کے خلاف فیصلہ کیا جائے گا وہ ایک شہید ہوگا۔ اس کو لایا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ اس کو دی ہوئی نعمتیں بتلائے گا۔ جن کا وہ اعتراف کرے گا۔ پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا تم نے ان نعمتوں کے مقابلہ میں کیا عمل کیا ؟ وہ کہے گا : میں نے اپنے مال کو نیکی کے ہراس راستہ میں تیری خاطر خرچ کیا جو تجھ کو پسند ہے۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا : تم نے جھوٹ بولا تم نے تو یہ اس لیے کیا تھا تاکہ یہ کہا جائے کہ یہ بہت سخی ہے۔ سو وہ کہا گیا۔ پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس کو جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔ (صحیح مسلم، الامارۃ : 152 (1905) 4840 ۔ سنن الترمذی، ج 4، رقم الحدیث : 2389 ۔ سنن النسائی، ج 6، رقم الحدیث : 3137، سنن کبری للبیہق، ج 9، ص 198)

اخلاص ہونے پر فائدہ اور اخلاص نہ ہونے کے نقصان کے متعلق ایک اسرائیلی روایت : امام محمد بن غزالی متوفی 505 ھ لکھتے ہیں : اسرائیلیات میں مذکور ہے کہ ایک عابد بہت بڑے عرصہ تک اللہ تعالیٰ کی عبادت کرتا رہا۔ اس کے پاس کچھ لوگ آئے اور انہوں نے کہا کہ فلاں جگہ لوگ اللہ کو چھوڑ کر ایک درخت کی عبادت کرتے ہیں۔ وہ عابد غضناک ہوا اور کلہاڑا کندھے پر رکھ کر اس درخت کو کاٹنے کے لیے چل پڑا راستے میں ابلیس اس کو ایک بوڑھے آدم کی شکل میں ملا اور پوچھا : کہاں جارے ہو ؟ اس نے کہا : میں درخت کو کاٹنے جا رہا ہوں۔ ابلیس نے کہا : تمہارا اس درخت سے کیا تعلق ہے ؟ تم بلاوجہ اپنی عبادت کو چھوڑ کر ایک غیر اہم کام کے درپے ہو رہے ہو۔ عابد نے کہا : یہ کام بھی میری عبادت ہے۔ ابلیس نے کہا : میں تم کو وہ درخت کاٹنے نہیں دوں گا۔ پھر ان دونوں میں کشتی ہوئی۔ عابد نے اس کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور اس کے سینہ پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ ابلیس نے کہا : مجھے چھوڑ دو ۔ میں تم کو ایک مشورہ دیتا ہوں۔ عابد نے اس کو چھوڑ دیا۔ ابلیس نے کہا : اے شخص ! اللہ نے تم سے یہ کام ساقط کردیا ہے۔ اور تم پر اس کو فرض نہیں کیا۔ اور تم اس درخت کی عبادت نہیں کرتے اور اگر کوئی اور عبادت کرتا ہے تو اس کا تم سے مواخذہ نہیں ہوگا اور اس زمین میں اللہ تعالیٰ کے انبیاء بہت ہیں۔ اگر اللہ چاہے گا تو اس درخت کی پرستش کرنے والوں کی طرف اپنا کوئی نبی بھیج دے گا۔ اور اس نبی کو اس درخت کے کاٹنے کا حکم دے گا۔ عابد نے کہا : میں اس درخت کو ضرور کاٹوں گا اور ابلیس کو کشتی کے لیے للکارا اور عابد ابلیس کو پچھاڑ کر اس کے سینہ پر چڑھ کر بیٹھ گیا۔ آخر ابلیس عاجز آگیا اور اس سے کہنے لگا تمہارا کیا مشورہ ہے ؟ میں تم کو دریانی راہ بتاتا ہوں۔ وہ تمہارے لیے زیادہ بہتر اور زیادہ فائدے مند ہوگی۔ عابد نے پوچھا : وہ کیا ہے ؟ ابلیس نے کہا : مجھے چھوڑ دو تاکہ میں تم کو تفصیل سے بتاؤں ! عابد نے اس کو چھوڑ دیا۔ ابلیس نے کہا : تم فقیر آدمی ہو۔ تمہارے پاس مال نہیں ہے۔ لوگ تمہاری کفالت کرتے ہیں اور تم ان پر بوجھ ہو۔ اور شاید کہ تمہارے دل میں خواہش ہو کہ تم اپنے بھائیوں کی مالی امداد کرو اور اپنے پڑوسیوں کے ساتھ غم خواری کرو اور تم سیر ہو کر کھاؤ اور لوگوں سے مستغنی رہو ؟ عابد نے کہا : ہاں ! ابلیس نے کہا : پھر درخت کاٹنے سے باز آجاؤ اور تمہیں ہر رات اپنے سرہانے دو دینار مل جائیں گے۔ صبح کو تم وہ دو دینار لے لینا اور ان کو اپنے اوپر اور انے عیال کے اوپر خرچ کرنا اور اپنے بھائیوں کے اوپر صدقہ کرنا تو یہ تمہارے اور دیگر مسلمانوں کے لیے اس درخت کے کاٹنے سے زیادہ سودمند ہوگا۔ اور اس درخت کے بعد وہاں اور درخت اگ سکتا ہے اور اس کے کاٹنے سے ان کو کوئی ضرر نہیں پہنچے گا اور تمہارے مسلمان ضرورت مند بھائیوں کو اس درخت کے کاٹنے سے کوئی فائدہ نہیں پہنچے گا۔ عابد ابلیس کی اس پیشکش پر غور کرنے لگا اور بےساختہ کہنے لگا بات تو اس بوڑھے کی سچی ہے۔ میں نبی تو ہوں نہیں جو مجھ پر اس درخت کا کاٹنا لازم ہو اور نہ اللہ نے مجھے اس درخت کے کاٹنے کا حکم دیا ہے۔ حتی کہ میں اس درخت کے نہ کاتنے کی وجہ سے گنہ گار ہوجاؤں اور جو صورت اس نے بتائی ہے اس میں زیادہ نفع ہے۔ سو دونوں نے قس کھا کر اس بات پر معاہدہ کرلیا۔ عابد لوٹ آیا۔ اس نے اپنے معبد میں رات گزاری۔ صبح کو اسے اپنے سرہانے دو دینار مل گئے۔ اس نے وہ دینار لے لیے۔ اسی طرح اگلے دن بھی ہوا۔ تیسری صبح کو عابد کو اپنے سرہانے کوئی چیز نہیں ملی۔ وہ غضب ناک ہوا اور کلہاڑی کندھے پر ڈال کر چل پڑا۔ اس کے سامنے سے ابلیس ایک بوڑھے کی صورت میں آتا ہوا ملا۔ اس نے پوچھا کہا جارہے ہو ؟ عابد نے کہا میں اس درخت کو کاٹوں گا۔ ابلیس نے کہا : تم جھوٹ بولتے ہو۔ خدا کی قسم ! تم اس درخت کو کاٹنے پر قادر نہیں ہو۔ اور تمہارے لیے یہ ممکن نہیں ہے۔ عابد پہلی بار کی طرح اس سے کشتی کے لیے آگے بڑھا۔ ابلیس نے کہا : اب یہ نہیں ہوسکتا۔ اور ایک ہی ہلے میں اس کو پچھاڑ دیا اور عابد چڑیا کی طرح اس کے پیروں میں گرپڑا اور ابلیس اس کے سینہ پر بیٹھ گیا۔ ابلیس نے کہا باز آجاؤ ورنہ میں تم کو ذبح کردوں گا۔ عابد نے غور کیا تو اس کو ابلیس کے مقابلہ میں بالکل طاقت محسوس نہیں ہوئی۔ عابد نے کہا تم مجھ پر غالب آگئے۔ اب مچھ کو چھوڑ دو اور یہ بتاؤ کہ میں پہلی بار تم پر کس طرح غالب آیا تھا اور اس بار کیوں نہ غالب آسکا ! 

ابلیس نے کہا : اس لیے کہ پہلی بار تم اللہ کے لیے غضب ناک ہوئے تھے۔ اور تمہاری نیت آخرت تھی۔ اس لیے اللہ تعالیٰ نے مجھے تمہارے لیے مسخر کردیا اور اس بار تم اپنے نفس اور دنیا کے لیے غضب ناک ہوئے تو میں نے تم کو پچھاڑ دیا۔ (احیاء العلوم، ج 4، ص 284 ۔ 285، مطبوعہ دار الخیر، بیروت، 1413 ھ)

اخلاص سے کیا ہوا کم عمل بغیر اخلاص کے زیادہ اعمال سے افضل ہے : علامہ عبدالرءوف المناوی المتوفی 1021 ھ لکھتے ہیں : علامہ ابن الکمال نے کہا ہے کہ لغت میں اخلاص کا معنی ہے عبادت میں ریا کو ترک کرنا۔ اور اصطلاح میں اس کا معنی ہے جس چیز کی آمیزش کا شائبہ بھی ہو اس سے دل کو خالص کرلینا۔ پس جس شخص کی کسی فعل سے غرض صرف ایک ہو اور وہ غرض اللہ کا تقرب اور اس کی رضا جوئی ہو اور اس کے دل میں دنیا کی محبت بالکل نہ ہو حتی کہ اس کا کھانا پینا بھی طبعی تقاضوں کی وجہ سے نہ ہو بلکہ محض اللہ کے حکم پر عمل کرنے اور اس کے حکم کی اطاعت کے لیے تقویت حاصل کرنے اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی سنت پر عمل کرنے کے لیے ہو تو اس سنیت سے اس کا ہر عمل اخلاص سے ہوگا، اور جس شخص کی اپنے فعل سے غرض واحد ہو اور وہ غرض ریا اور دکھاوا ہو، ایسا شخص اپنے نفس اور دنیا سے محبت کرتا ہے اور اس کے دل و دماغ میں ہر وقت اپنے نفس کے تقاضوں کو پورا کرنے کی دھن سمائی رہتی ہے اور اس کے دل میں اللہ کی محبت کے لیے بالکل جگہ نہیں ہوتی۔ ایسے شخص کی عبادات ریا سے بالکل محفوظ نہیں رہتیں، اور بعض لوگ ایسے ہوتے ہیں کہ ان پر کبھی روحانیت کا غلبہ ہوتا ہے کبھی نفسانیت کا غلبہ ہوتا ہے اور کبھی ان کے افعال میں اخلاص ہوتا ہے اور کبھی ان کے افعال میں ریا ہوتا ہے۔

امام غزالی نے کہا ہے عبادت کم ہو، لیکن اس میں ریا اور تکبر نہ ہو اور اس عبادت کا باعث اخلاص ہو تو اللہ تعالیٰ کی نزدیک اس عبادت کی غیر متناہی قیمت ہے اور عبادت بہت زیادہ ہو لیکن اخلاص سے خالی ہو تو اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس کی کوئی قیمت اور حیثیت نہیں ہے۔ الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے لطف و کرم سے اس کے تدارک کی کوئی سبیل پیدا فرما دے۔ اس لیے اہل بصیرت زیادہ عمل میں کوشش نہیں کرتے بلکہ اخلاص کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ قدروقیمت صاف شفاف اور صیقل چیز کی ہوتی ہے، کثرت کی نہیں ہوتی۔ ایک سچا موتی ہزار ٹھیکریوں سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ جو لوگ بہت زیادہ نمازیں پڑھتے ہیں، اور بہ کثرت روزے رکھتے ہیں اور نمازوں میں اخلاص اور خضوع اور خشوع کے درپے نہیں ہوتے اور نہ روزوں میں للہیت کے جذبہ کی کوشش کرتے ہیں، اپنی نمازوں اور روزوں کی بڑی تعداد سے دھوکا کھاتے ہیں اور یہ نہیں سوچتے کہ بےمغز اخروٹوں کے ڈھیر کی کیا قدروقیمت ہے۔ (فیض القدیر، ج 1، ص 414 ۔ 415، مطبوعہ مکتبہ نزار مصطفیٰ 1418 ھ)

انسانوں کے حشر کی کیفیت : اس کے بعد فرمایا : جس طرح اس نے تم کو ابتدا میں پیدا کیا ہے، اسی طرح تم لوٹو گے۔ 

محمد بن کعب نے اس کی تفسیر میں کہا : جس کو اللہ تعالیٰ نے ابتداء اہل شقاوت میں سے پیدا کیا ہے وہ قیامت کے دن اہل شقاوت سے اٹھے گا خواہ وہ پہلے نیک کام کرتا ہو، اور جس کو اللہ تعالیٰ نے ابتداءً اہل سعادت سے پیدا کیا، وہ قیامت کے دن اہل سعادت سے اٹھے گا خواہ وہ پہلے برے کام کرتا رہا ہو۔ جیسے ابلیس لعین کو اللہ تعالیٰ نے اہل شقاوت سے پیدا کیا تھا وہ پہلے نیک کام کرتا تھا لیکن وہ انجام کار کفر کی طرف لوٹ گیا اور جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلا کے زمانہ کے جادوگر اپنی ابتداء خلقت کے اعتبار سے سعادت کی طرف لوٹ گئے۔ جاہد اور سعید بن جبیر نے بھی اس آیت کی اسی طرح تفسیر کی ہے۔ (جامع البیان، ج 8، ص 206، مطبوعہ دار الفکر، بیروت، 1415 ھ)

اس آیت کی دوسری تفسیر یہ کی گئی ہے جس طرح انسان ماں کے پیٹ سے ننگے پیر، ننگے بدن اور غیر مختون پیدا ہوا تھا، وہ حشر میں بھی اسی طرح طرح ننگے پیر، ننگے بدن اور غیر مختون اٹھے گا۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256 ھ روایت کرتے ہیں : حضرت ابن عباس (رض) بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : تم محشر میں ننگے پیر، ننگے بدن اور غیر مختون اٹھائے جاؤگے۔ پھر آپ نے یہ آیت پڑھی : ” کما بدانا اول خلق نعیدہ وعدا علینا انا کنا فعلین : جس طرح ہم نے پہلے پیدائش کی ابتداء کی تھی، اسی طرح ہم پھر اس کو دہرائیں گے، یہ ہمارا وعدہ ہے، ہم اس کو ضرور (پورا) کرنے والے ہیں ” (الانبیاء :104) ۔ اور سب سے پہلے جس کو لباس پہنایا جائے گا، وہ حضرت ابراہیم ہیں۔ (مسلم کی ایک روایت میں ہے : حضرت عائشہ نے پوچھا : یا رسول اللہ ! عورتیں اور مرد دونوں ایک دوسرے کی طرف دیکھ رہے ہوں گے ؟ آپ نے فرمایا : اے عائشہ ! وہ دن اس سے بہت ہولناک ہوگا کہ وہ ایک دوسرے کی طرف دیکھیں) ۔ (صحیح البخاری، ج 4، رقم الحدی : 3447 ۔ صحیح مسلم، الحشر : 68 (2859) 7068 ۔ سنن الترمذی ج 4، رقم الحدیث : 2431 ۔ سنن النسائی، ج 4 ۔ رقم الحدیث : 2087 ۔ صحیح ابن حبان، ج 16، رقم الحدیث : 7347 ۔ مسند احمد، ج 1، رقم الحدیث : 2096 ۔ سنن کبری للبیہقی، ج 2، ص 138 ۔ المعجم الکبیر، ج 12، رقم الحدیث : 12314)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 7 الأعراف آیت نمبر 29