أَعـوذُ بِاللهِ مِنَ الشَّيْـطانِ الرَّجيـم

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَهُوَ الَّذِىۡ سَخَّرَ الۡبَحۡرَ لِتَاۡكُلُوۡا مِنۡهُ لَحۡمًا طَرِيًّا وَّتَسۡتَخۡرِجُوۡا مِنۡهُ حِلۡيَةً تَلۡبَسُوۡنَهَا‌ۚ وَتَرَى الۡـفُلۡكَ مَوَاخِرَ فِيۡهِ وَلِتَبۡتَغُوۡا مِنۡ فَضۡلِهٖ وَلَعَلَّكُمۡ تَشۡكُرُوۡنَ‏ ۞

ترجمہ:

اور وہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کردیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے زیور نکالتے ہو جن کو تم پہنتے ہو اور تم اس میں کشتیوں کو دیکھتے ہو جو پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔

تفسیر:

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اور وہی ہے جس نے سمندر کو مسخر کردیا تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ اور تم اس میں سے زیور نکالتے ہو جن کو تم پہنتے ہو، اور تم اس میں کشتیوں کو دیکھتے ہو جو پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں، تاکہ تم اللہ کا فضل تلاش کرو اور تاکہ تم شکر ادا کرو۔ (النحل :14)

سمندر میں اللہ تعالیٰ کی نعمتیں 

اس سورت کی آیتوں میں اللہ تعالیٰ نے اپنی الوہیت اور اپنی توحید پر مختلف طریقوں سے استدلال فرمایا ہے، پہلے اللہ تعالیٰ نے آسمانوں کے اجسام سے اپنی الوہیت اور اپنی توید پر استدلال فرمایا، پھر انسان کے بدن اور اس کی روح سے استدلال فرمایا، پھر تیسری بار حیوانات کی مختلف قسموں اور ان کے عجائب وغرائب سے استدلال فرمایا، اور چوتھی بات نباتات سے استدلال فرمایا اور اس کے ضمن میں سورج اور چاند اور دن اور رات سے استدلال فرمایا اور اب سمندر سے استدلال فرمایا ہے۔ سمندر کے بیشمار منافع اور فوائد ہیں اللہ تعالیٰ ان میں سے یہاں تین منافع اور فوائد کا ذکر فرمایا ہے۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ تم سمندر سے تروتازہ گوشت کھاتے ہو، اس سے مراد مچھلیاں ہیں اور دوسرا فائدہ یہ ہے کہ تم سمندر سے موتی، یاقوت اور مونگے وغیرہ نکالتے ہو اور ان سے خواتین کے زیورات بناتے ہو، اور تیسرا فائدہ یہ ہے کہ تم سمندر میں کشتیاں چلاتے ہو اور ان میں بیٹھ کر سفر کرتے ہو اور اپنا مال و متاع ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرتے ہو۔ 

سمندر کی تسخیر کا معنی 

سمندر کو مسخر کرنے کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو سمندر میں تصرف کرنے پر قادر کردیا وہ اس میں تیر سکتے ہیں، کشیتوں اور جہازوں کے ذریعہ ایک جگہ سے دوسری جگہ جاسکتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی بہت عظیم نعمت ہے، وہ و اگر چاہتا تو سمندر کو انسانوں کے اوپر مسلط کردیتا اور سمندر لوگوں کو غرق کردیتا اور ان کے لیے سمندر میں تیرنا، کشتیوں کے ذریعہ اس میں سفر کرنا کچھ بھی ممکن نہ ہوتا، اور یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام اور اس کا احسان ہے کہ اس نے سمندر کو ایسا بنادیا کہ انسان آسانی کے ساتھ اس سے فوائد کو حاصل کرسکتا ہے۔

کڑوے پانی میں لذیذ مچھلی کا پیدا کرنا 

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : تاکہ تم اس سے تازہ گوشت کھاؤ، تروتازہ فرمانے میں یہ اشارہ ہے کہ اس کو جلدی کھا لینا چاہیے، ورنہ یہ گوشت سڑ کر خراب ہوجائے گا، نیز تروتازہ فرمانے میں یہ اشارہ ہے کہ انسان اس کو کھانے میں رغبت کرتا ہے اور اس میں اللہ تعالیٰ کی عظیم قدرت کا اظہار ہے کیونکہ سمندر کا پانی سخت کھاری اور کڑوا ہوتا ہے، انسان اس کا ایک گھونٹ بھی نہیں پی سکتا، اور اس کھاری اور کڑوے پانی میں پیدا ہونے والی اور پلنے بڑھنے والی مچھلی کے گوشت میں کھاری پن اور کڑواہٹ کا ذائقہ بھی نہیں ہوتا اور اس کا گوشت بہت خوش ذائقہ اور لذیذ ہوتا ہے، پس سبحان ہے وہ زات جو ایک چیز میں اس کی ضد پیدا کردیتا ہے۔

مچھلی پر گوشت کے اطلاق کی بحث 

اس آیت میں مچھلی کو لحما طریا یعنی تروتازہ گوشت فرمایا ہے، لیکن امام ابوحنیفہ کے نزدیک مچھلی پر گوشت کا اطلاق نہیں ہوتا، امام ابوبکر جصاص متوفی 370 ھ لکھتے ہیں : اس میں فقہا کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے کہ اگر کسی شخص نے قسم کھائی کہ وہ لحم (گوشت) نہیں کھائے گا اور اس نے مچھلی کھالی تو وہ حانث نہیں ہوگا یعنی اس کی قسم نہیں ٹوٹے گی، حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مچھلی کو لحما طریا (تروتازہ گوشت) فرمایا ہے۔ (احکام القرآن ج 3، ص 184، مطبوعہ لاہور، 1400) امام اعظم کی دلیل یہ ہے کہ مچھلی میں خون نہیں ہوتا اور عرف میں گوشت اس کو کہتے ہیں جو خون سے بنتا ہے، نیز مچھلی کے گوشت میں گائے، بکری اور مرغی کے گوشت کی طرح قوت نہیں ہوتی، لیکن ودسرے فقہا نے اس مسئلہ میں امام اعظم سے اختلاف کیا ہے اور وہ مچھلی کے گوشت پر بھی گوشت کا اطلاق کرتے ہیں، امام رازی شافعی فرماتے ہیں : اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں صراحت سے مچھلی پر لحم کا اطلاق فرمایا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بیان کے ا وپر کس کا بیان ہوسکتا ہے، نیز امام رازی فرماتے ہیں : لغت اور عرف میں مچھلی پر گوشت کا اطلاق کرنا حقیقت ہے مجاز نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر، ج 7، ص 188، مطبوعہ بیروت 1415 ھ)

سمندری جانوروں کے کھانے کے متعلق مذاہب فقہا 

اس آیت میں چونکہ سمندر کے تروتازہ گوشت کا ذکر آگیا ہے، اس لیے ہم یہاں مچھلی اور سمندر کے دیگر جانوروں کا حکم بیان کرتا چاہتے ہیں :

علامہ موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوفی 620 ھ لکھتے ہیں :

جو جانور پانی کے بغیر زندہ نہیں رہتے جیسے مچھلی اور اس کے مشابہ دیگر جانور، ان کو بغیر ذبح کیے ہوئے کھانا جائز ہے، ہم کو اس میں کسی کا اختلاف معلوم نہیں ہے اور روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ہمارے لیے دو مردہ جانور اور دو خون حلال کیے گئے ہیں، رو ہے دو مردہ جانور تو وہ مچھلی اور ٹڈی ہیں۔ (سسن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3218) اور صحیح حدیث میں ہے کہ حضرت ابو عبیدہ اور ان کے اصحاب نے ساحل سمندر پر ایک مرا ہوا جانور پڑا دیکھا جس کو عنبر کہا جاتا تھا، وہ ایک ماہ تک اس مچھلی کو کھاتے رہے، حتی کہ خوب موٹے ہوگئے، اور جب وہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس پہنچے اور اس واقعہ کا ذکر کیا تو آپ نے فرمایا : یہ اللہ کا رزق تھا جو اس نے تمہیں دیا تھا کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ ہے تو تم ہمیں وہ کھلاؤ۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 5494 ۔ 5493، سنن الترمذی رقم الحدیث 435)

امام شافعی کے نزدیک مینڈک کے سوا سمندر کے تمام جانوروں کا شکار حلال ہے اور حضرت ابوبکر صدیق نے فرمایا : سمندر میں جتنے جانور ہیں ان کو اللہ نے تمہارے لیے حلال کردیا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

احل لکم صید البحر و طعامہ۔ (تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا طعام حلال کردیا گیا) المائدہ :96

سمندر کے تمام جانوروں کے حلال ہونے پر یہ حدیث دلالت کرتی ہے، عطا اور عمرو بند ینار بیان کرتے ہیں کہ ان کو یہ حدیث پہنچی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : بیشک اللہ نے ابن آدم کے لیے سمندر میں ہر چیز کو ذبح کردیا ہے، رہا مینڈک تو امام نسائی نے راویت کیا ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اس کو قتل کرنے سے منع فرمایا ہے، سو یہ حدیث مینڈک کی تحریم پر دلالت کرتی ہے اور رہا مگرمچھ تو آپ سے ایسی حدیث منقول ہے جو اس پر دلالت کرتی ہے کہ اس کو نہ کھایا جائے، اور امام اوزاعی نے یہ کہا ہے کہ جس شخص کو مگرمچھ کھانے کی خواہش ہو وہ اس کو کھا سکتا ہے، اور ابن ماجہ نے یہ کہا ہے کہ مگرمچھ اور شارک مچھلی کو نہیں کھایا جائے گا کیونکہ وہ انسانوں کو کھا جاتے ہیں اور ابراہیم نخعی نے کہا ہے کہ سمندری درندوں کو کھانا مکروہ تحریمی ہے جس طرح خشکی کے درندوں کو کھانا مکروہ تحریمی ہے کیونکہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ہر کچلیوں سے پھاڑنے والے درندے کو کھانے سے منع فرمایا ہے، اور ابو علی النجار نے کہا ہے کہ جس جانور کی نظیر خشکی میں حرام ہے اس کی نظیر سمندر میں بھی حرام ہے، جیسے سمندری کتا، سمندری خنزیر اور سمندری انسان، اور امام ابوحنیفہ نے کہا : مچھلی کے سوا کوئی سمندری جانور حلال نہیں ہے اور امام مالک نے کہا کہ سمندر کا ہر جانور حلال ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے مطلقا فرمایا ہے : تمہارے لیے سمندر کا شکار اور اس کا طعام حلال کردیا گیا۔

(علامہ ابن قدامہ حنبلی فرماتے ہیں) ہم اس آیت کے عموم اور حدیث سے استدلال کرتے ہیں، عبداللہ نے کہا میں نے اپنے والد سے سمندری کتے کے متعلق پوچھا تو انہوں نے عمرو بن دینار اور ابی الزبیر سے روایت کیا کہ ایک شخص نے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سمندر کی ہر چیز ذبح کی ہوئی ہے وہ کہتے ہیں میں نے اس کا عطا سے ذکر کیا تو انہوں نے کہا رہے پرندے تو ہم ان کو ذبح کرتے ہیں۔ ابو عبداللہ نے کہا ہم سمندری کتے کو ذبح کریں گے۔ (المغنی ج 9، ص 239، مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1405 ھ)

سمندری جانوروں کو کھانے کے متعلق مذہب احناب 

امام علاء الدین ابوبکیر بن مسعود کاسانی حنفی متوفی 587 ھ لکھتے ہیں :

حیوان کی اسل میں دو قسمیں ہیں : ایک وہ قسم ہے جو سمندر میں زندہ رہتی ہے اور ایک وہ قسم ہے جو خشکی میں زندہ رہتی ہے، رہے وہ جانور جو سمندر میں زندہ رہتے ہیں تو مچھلی کے سوا سمندر کے تمام جانروں کا کھانا حرام ہے، مچھلی کا کھانا حلال ہے البتہ جو مچھلی طبعی موت مر کر کر سطح آب پر ابھرے آئے اس کا کھانا حلال نہیں ہے، یہ ہمارے اصحاب کا قول ہے اور ابن ابی لیلی نے کہا کہ مچھلی کے علاوہ مینڈک، کیکڑے، سمندری سانپ، سمندری کتے اور سمندری خنزیر وغیرہ کو بھی کھانا جائز ہے، لیکن ذبح کر کے اور لیث بن سعد کا بھی یہی قول ہے لیکن انہوں نے کہا کہ سمندریا نسان اور سمندری خنزیر کا کھانا جائز نہیں ہے، اور امام شافعی نے کہا یہ تمام جانور بغیر ذبح کے حلال ہیں، ان کو پکڑنا ہی ان کو ذبح کرنا ہے اور جو مچھلی مر کر سطح آب پر آجائے وہ بھی حلال ہے۔

ائمہ ثلاثہ نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ تمہارے لیے سمندری شکار اور اس کا طعام حلال کردیا گیا ہے۔ (المائدہ : 96) اور شکار کا اطلاق مچھلی کے علاوہ سمندر کے دوسرے جانوروں پر بھی ہوتا ہے اور اس کا تقاضا یہ ہے کہ سمندر کے تمام جانور حلال ہوں، اور جب نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سمندر کے متعلق پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا اس کا پانی پاک کرنے والا ہے اور اس کا مردار حلال ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 69، سنن ابو داؤد، رقم الحدیث :83، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 386، سنن دارمی رقم الحدیث 735، سمند احمد ج 2 ص 237) اس حدیث میں آپ نے مطلقا سمندر کے مردار کو حلال فرمایا ہے خواہ وہ مچھلی ہو یا کوئی اور جانور ہو۔

ہماری دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

حرمت علیکم المیتۃ والدم و لحم الخنزیر۔ (تم پر مردار اور خون اور خنزیر کا گوشت حرام کیا گیا ہے۔ (المائدہ :3)

اس آیت میں مطلقا مردہ جانور کو اللہ تعالیٰ نے حرام فرمایا ہے خواہ خشکی کا مردہ جانور ہو یا سمندر کا۔

اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے :

ویحرم علیھم الخبائث۔ (وہ نبی پر خبیث چیزوں کو حرام کرتے ہیں) الاعراف :157 ۔

اور مینڈک، کیکڑا، سانپ وغیرہ خبیث جانور ہیں، اور روایت ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سوال کیا گیا کہ مینڈک کی چربی کو دوا میں استعمال کیا جاتا ہے تو آپ (علیہ السلام) نے فرمایا وہ خبائث میں سے ایک خبیث جانور ہے (یہ جزئیات سے قاعدہ کلیہ پر استدلال ہے) اور انہوں نے جو اس آیت سے استدلال کیا ہے : احل لکم صید البحر وطعامہ، المائدہ 96 ۔ اس آیت میں صید سے مراد مصید ہے یعنی شکار کیا ہوا اور یہ اطلاق مجازی ہے اور شکار اس کو کہتے ہیں جو جانور گھبرا کر بھاگ رہا ہو اور بغیر حیلہ کے اس کو پکڑا نہ جاسکتا ہو، یا تو وہ اڑ جائے یا بھاگ جائے اور یہ حالت شکار کے وقت ہوتی ہے پکڑنے کے بعد نہیں ہوتی کیونکہ اس کے بعد تو وہ گوشت ہوجاتا ہے اور حقیقتا شکار نہیں رہتا اور اس پر دلیل یہ ہے کہ اس کا عطف اس آیت پر ہے :

وحرم علیکم صید البر ما دمتم حرما۔ اور تم پر خشکی کا شکار حرام کردیا گیا ہے جب تک محرم ہو۔ (المائدہ :96)

اور اس سے مراد محرم کا شکار کرنا ہے نہ کہ اس کا کھانا کیونکہ محرم اگر خود شکار نہ کرے اور نہ شکار کا حکم دے تو اس کے لیے غیر محرم کا کیا ہوا شکار کھانا جائز ہے، اس تفصیل سے ثابت ہوگیا کہ اس آیت میں کھانے کی اباحت نہیں ہے، بلکہ یہ آیت اس لیے ذکر کی گئی ہے تاکہ محرم کو بتایا جائے کہ خشکی کے شکار اور سمندر کے شکار میں فرق ہے اول الذکر محرم کے لیے ممنوع ہے اور ثانی الذکر جائز ہے (علامہ کا سانی کی یہ دلیل بےسود ہے کیونکہ جب محرم ہر قسم کے سمندری جانور کا شکار کرسکتا ہے تو اس کو کھا بھی سکتا ہے کیونکہ محرم کے لیے صرف خس کی کے جانور کو شکار کر کے کھانا ممنوع ہے اور سمندری جانور کو شکار کر کے کھانا ممنوع ہے)

اور نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے جو فرمایا ہے اور سمندر کا مردار حلال ہے اس سے آپ کی مراد خصوصیت کے ساتھ مچھلی ہے، کیونکہ آپ نے فرمایا ہے ہمارے لیے دو مردار اور دو خون حلال کیے گئے ہیں دو مردار مچھلی اور ٹڈی اور دو خون جگر اور تلی ہیں، اس حدیث میں آپ نے مردار کی تفسیر مچھلی اور ٹڈی سے کی ہے اس سے معلوم ہوا کہ سمندری مردار سے آپ کی مراد مچھلی ہے۔

رہا دوسرا مسئلہ کہ مچھلی طبعی موت سے مر کر پانی پر ابھر آئے تو وہ امام شافعی کے نزدیک حلال ہے، انہوں نے اس پر و طعامہ سے استدلال کیا ہے یعنی تمہارے لیے سمندر کا شکار کیا ہوا جانور بھی حلال ہے اور جس کا شکار نہ کیا گی ہو وہ بھی حلال ہے اور جو مچھلی طبعی موت مر کر پانی کے اوپر آجائے وہ شکار نہیں کی گئی اور وہ طعامہ میں داخل ہے اور نیز آپ نے فرمایا سمندری مردار حلال ہے اور اس میں آپ نے اس مچھلی کا استثنا نہیں کیا جو مر کر سطح آب پر آجائے۔

ہماری دلیل یہ ہے کہ حضرت جابر سے مروی ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا جو مچھلی مر کر پانی کے اوپر آجائے اس کو مت کھاؤ۔ (مصنف ابن ابی شیہ ج 4، ص 248) اور حدیث میں جو آپ نے فرمایا ہے کہ سمندری مردار حلال ہے اس سے آپ کی مراد اس مچھلی کا غیر ہے جو طبعی موت سے مر کر سطح آب پر آجائے۔ (بدائع الصنائع ج 6، ص 178 ۔ 173، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت، 1418 ھ)

فقہا احناف نے اس سے بھی استدلال کیا ہے کہ قرآن مجید میں ہے کہ وہ ان پر خبیث چیزیں حرام کرتے ہیں اور مچھلی کے سوا تمام سمندری جانور خبیث ہیں یعنی طبائع سلیمہ اس سے متنفر ہوتی ہیں، اس دلیل پر یہ اعتراض ہے کہ طبائع سلیمہ کا تنفر ایک اضافی چیز ہے، ہم چوہے، چھپکلی، سانپ اور گرگٹ وغیرہ سے متنفر ہوتے ہیں لیکن چینی اور جاپانی ان کو بڑے شوق سے اور رغبت سے کھاتے ہیں، اسی طرح ائہ ثلاثہ اور ان کے مقلدین تمام سمندری جانوروں کو بڑے شوق اور رغبت سے کھاتے ہیں، پھر دیکھے امام ابوحنیفہ کے نزدیک مچھلی کے سوا تمام سمندری جانور حرام ہیں اور ان کے مقلدین زیادہ تر خشکی کے علاقوں میں رہتے ہیں جیسے ہندوستان، پاکستان، افغانستان، وسط ایشیا کی ریاستیں اور ترکی وغیرہ اور ائمہ ثلاثہ کے مقلدین زیادہ تر سمندری جزائر میں رہتے ہیں جیسے انڈونیشیا، ملیشیا، جزائر مالدیپ وغیرہ 

اور وہاں ائمہ ثلاثہ کے فیضان سے مستفید ہوتے ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کی نہایت حکمت بالغہ ہے۔

گوشت کو کمی اور زیادتی کے ساتھ فروخت کرنے میں مذاہب فقہاء 

اس آیت میں تروتازہ گوشت کا ذکر ہے اس لیے ہم نے مچھلی اور سمندر کے دیگر جانوروں کے متعلق مذاہب فقہا بیان کیے ہیں، اس منسبت سے اب ہم گوشت کی خریدوفروخت کے متعلق بھی مذاہب فقہا بیان کرنا چاہتے ہیں، امام شافعی اور امام احمد کے نزدیک تمام جانوروں کا گوشت ایک جنس ہے، اس لیے ہر قسم کے گوشت کی دوسرے گوشت کے ساتھ مساوی بیع ضروری ہے اور کمی اور زیادتی کے ساتھ بیع جائز نہیں ہے، مثلا ایک کلوبکری کے گوشت کی اگر گائے یا اونٹ کے گوشت کے بدلہ میں بیع کی جائے تو ضروری ہے کہ گائے یا اونٹ کا گوشت بھی ایک کلو ہو، اگر ایک کلو بکری کے گوشت کے مقابلہ میں دو کلو گائے کا گوشت ہو تو یہ ان کے نزدیک سود ہوگا، اور امام ابوحنیفہ اور امام مالک کے نزدیک جس طرح بکری، گائے اور اونٹ الگ الگ جنس ہیں اسی طرح ان کے گوشت بھی الگ الگ اجناس ہیں اور ایک جنس کے گوشت کو دوسری جنس کے ساتھ کمی اور زیادتی کے ساتھ فروخت کیا جاسکتا ہے، البتہ بکری اور بھیڑ، گائے اور بھینس، عربی اونٹ اور بختی اونٹ ایک جنس کی اصناف ہیں اور ان کے گوشت کی بیع مساوی گوشت کے ساتھ کرنا ضروری ہے۔

علامہ موفق الدین عبداللہ بن احمد بن قدامہ حنبلی متوجہ 620 ھ لکھتے ہیں :

تمام گوشت ایک جنس ہیں اور ان کی انواع مختلف ہیں، اس سلسلہ میں امام احمد سے دو روایتیں ہیں ایک روایت یہ ہے کہ گوشت کی چار اجناس ہیں، ایک جنس اونٹ، گائے اور بکری ہیں، دوسری جنس وحشی جانور ہیں (مثلا نیل گائے، ہرن بارہ سنگھا وغیرہ) تیسری جنس پرندے ہیں اور چوتھی جنس پانی کے جانور ہیں اسی طرح ان کے گوشت کی چار اجناس ہیں، البتہ امام مالک اونٹ، گائے، بکری اور وحشی جانوروں کو ایک جنس قرار دیتے ہیں اس لیے ان کے نزدیک گوشت کی تین اجناس ہیں، امام احمد کا دوسرا قول یہ ہے کہ گوشت کا مختلف اجناس ہونا ان کی اجناس کے تابع ہے مثلا اونٹ، گائے اور بکری الگ الگ اجناس ہیں تو ان کا گوشت بھی الگ الگ جنس ہے اور یہ امام ابوحنیفہ کا قول ہے۔ (المغنی ج 4، ص 40، مطبوعہ دار الفکر بیروت 1405 ھ)

گوشت کو کمی اور زیادتی کے ساتھ فروخت کرنے میں مذہب احناف۔

علامہ عبدالواحد کمال ابن ہمام حنفی متوفی 861 ھ لکھتے ہیں :

مختلف اجناس کے گوشت کو ایک دوسرے کے ساتھ کمی اور زیادتی کے ساتھ فروخت کرنا جائز ہے، اور مصنف کی مراد یہ ہے کہ اونٹ، گائے اور بکری کے گوشت کو ایک دوسرے کے ساتھ کمی اور زیادتی کے ساتھ فروخت کرنا جائز ہے، کیونکہ یہ گوشت مختلف اجناس ہیں جس طرح ان کے اصول مختلف اجناس ہیں، لیکن گائے اور بھینس ایک جنس ہے، اس لیے گائے کے گوشت کو بھینس کے گوشت کے ساتھ کمی اور زیادتی کے ساتھ فروخت کرنا جائز نہیں ہے، اسی طرح بکرا اور دنبہ اور عربی اونٹ اور بختی اونٹ ایک جنس ہے، اس لیے ایک کے گوشت کو دوسرے کے گوشت کے ساتھ کمی اور زیادتی کے ساتھ فروخت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ ان کی ایک جنس ہے۔ (فتح القدیر ج 7، ص 34 ۔ مطبوعہ دار الفکر بیروت، 1415 ھ)

زیورات کے متعلق احادیث 

اللہ تعالیٰ نے سمندر کی دوسری نعمت یہ بتائی اور تم اس میں سے زیورات نکالتے ہو جن کو تم پہنچتے ہو، اس سے مراد موتی اور مرجان ہیں، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

یخرج منھما اللولو والمرجان۔ (ان سے موتی اور مونگے نکلتے ہیں) الرحمن :22 ۔

امام محمد بن اسماعیل بخاری متوفی 256 ھ روایت کرتے ہیں :

عبدالرحمن بن ابی لیلی بیان کرتے ہیں کہ وہ حضرت حذیفہ کے پاس بیٹھے ہوئے تھے انہوں نے پانی مانگا تو ایک مجوسی پانی لایا، جب اس نے پیالہ ان کے ہاتھ میں رکھا تو انہوں نے وہ پیالہ اٹھا کر پھینک دیا اور کہا میں نے اس کو کئی مرتبہ منع کیا ہے کہ چاندی کے پیالہ میں پانی مت دیا کرو، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ میں نے رسول اللہ کو فرماتے ہوئے سنا ہے : ریشم اور دیباج مت پہنو اور سونے اور چاندی کے پیالوں میں مت پیو، اور نہ ان کی پلیٹوں میں کھاؤ، کیونکہ یہ ان کے لیے دنیا میں ہیں اور ہمارے لیے آخرت میں ہیں۔ (صحیح البخاری رقم الحدیث : 5426، صحیح مسلم رقم الحدیث : 2067، سنن النسائی رقم الحدیث 5301)

حضرت انس بن مالک بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے بعض عجمیوں کو خط لکھنے کا ارادہ کیا، آپ کو بتایا گیا کہ وہ اسی خط کو قبول کرتے ہیں جس پر مہر لگی ہوئی ہو، تو آپ نے چاندی کی ایک انگوٹھی بنوائی جس پر محمد رسول اللہ نقش تھا۔ ( صحیح البخاری، رقم الحدیث : 5872، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 4214، سنن الترمذی رقم الحدیث 2718، سنن النسائی رقم الحدیث : 5216، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3641)

حضرت عبداللہ بن عمر بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے سونے کی انگوٹھی بنائی اور اس کا نگینہ ہتھیلی کے باطن کی طرف رکھا، اور اس میں محمد رسول اللہ نقش کرایا، جب صحابہ نے یہ دیکھا تو انہوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں، جب رسول اللہ نے یہ دیکھا کہ انہوں نے بھی سونے کی انگوٹھیاں بنوا لیں ہیں تو آپ نے اس انگوٹھی کو اتار دیا، اور فرمایا میں اس کو کبھی نہیں پہنوں گا، پھر آپ نے ایک چاندی کی انگوٹھی بنوائی جس میں محمد رسول اللہ نقش تھا، پھر اس کے بعد حضرت ابوبکر نے وہ انگوٹھی پہنی، اور ان کے بعد حضرت عمر نے، پھر حضرت عثمان نے اس انگوٹھی کو پہنا حتی کہ وہ انگوٹھی اریس نامی کنوئیں میں گرگئی۔ (صحیح بخاری رقم الحدیث : 5866، صحیح مسلم رقم الحدیث : 2092، سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 4218، سنن الترمذی رقم الحدیث : 1741، سنن النسائی رقم الحدیث : 5305)

حضرت بریدہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں ایک شخص آیا اور اس نے پیتل کی انگوٹھی پہنی ہوئی تھی، آپ نے اس سے فرمایا، کیا وجہ ہے کہ مجھے تم سے بتوں کی بو آرہی ہے اس نے اس انگوٹھی کو پھینک دیا، وہ پھر آیا تو اس کے ہاتھ میں لوہے کی انگوٹھی تھی، آپ نے فرمایا کیا وجہ ہے میں تمہارے اوپر دوزخیوں کا زیور دیکھ رہا ہوں، اس نے اس انگوٹھی کو بھی پھینک دیا پھر کہا یا رسول اللہ میں کس چیز کی انگوٹھی بناؤں ؟ آپ نے فرمایا ایک مثقال سے کم چاندی کی انگوٹھی بناؤ۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث : 4223، سنن الترمذی رقم الحدیث : 1785، سنن النسائی، رقم الحدیث 5210)

حضرت عائشہ بیان کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پاس نجاشی کی طرف سے وہ زیورات آئے جو اس نے آپ کو ہدیہ کیے تھے، ان میں سونے کی ایک انگوٹھی تھی جس میں حبشی نگینہ تھا، رسول اللہ نے ان سے اعراض کرتے ہوئے ایک چھڑٰ یا اپنی انگولیوں سے ایک انگوٹھی اٹھائی پھر حضرت زینب کی صاحبزادی حضرت امامہ بنت ابی العاص کو بلا کر فرمایا : اے بیٹا تم یہ انگوٹھی پہن لو۔ ( سنن ابو داؤ رقم الحدیث : 4235، سنن ابن ماجہ رقم الحدیث : 3644، مسند ابو یعلی رقم الحدیث : 4470)

حضرت ابو موسیٰ اشعری بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : میری امت کے مردوں پر رشیم اور سونا پہننا حرام کردیا گیا ہے اور میری امت کی عورتوں پر حلال کردیا گیا ہے۔ (سنن الترمذی رقم الحدیث : 1720، مصنف ابن ابی شیبہ ج 8، ص 832، مسند احمد ج 4، ص 394، سنن النسائی رقم الحدیث : 5163)

زیورات کے متعلق فقہی احکام 

علامہ ابو الحسن علی بن ابی بکر المرغینانی الحنفی المتوفی 593 ھ لکھتے ہیں :

مردوں کے لیے سونے کے زیورات پہننا جائز نہیں ہے جیسا کہ حدیث میں گزر چکا ہے اور چاندی کے زیورات پہننا بھی جائز نہیں ہے کیونکہ وہ بھی اسی کے حکم میں ہیں، البتہ چاندی کی انگوٹھی اور منطقہ (کمر کی پیٹی) اور تلوار کا زیور چنادی کا بنانا جائز ہے، اور چاندی نے سونے سے مستغنی کردیا کیونکہ وہ دونوں ایک جنس سے ہیں، اور الجامع الصغیر میں ہے کہ صرف چاندی کی انگوٹھی بنائے جائے اور اس میں یہ تصڑیح ہے کہ پتھر، لوہے اور پیتل کی انگوٹھی بنانا جائز نہیں ہے، اور مردوں کے لیے سونے کی انگوٹھی پہننا حرام ہے اور عورتوں کے لیے جائز ہے کیونکہ زینت ان کا حق ہے، صرف قاضی اور سلطان کے لیے انگوٹھی بنائے جائے کیونکہ ان کو مہر لگانے کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کے غیر کے لیے انگوٹھی نہ پہننا افضل ہے، کیونکہ ان کو ضرورت نہیں ہے، سونے سے دانت نہ باندھا جائے چاندی سے باندھا جائے، یہ امام ابوحنیفہ کے نزدیک ہے اور امام محمد کے نزدیک سونے میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اور امام ابو یوسف کے اس میں دو قول ہیں۔

صاحبین کی دلیل یہ ہے کہ حضرت عرفحہ بن اسعد الکنانی کی جنگ کلاب میں ناک کٹ گئی، انہوں نے چاندی کی ناک بنا لی تو اس میں بدبو ہوگئی تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انہیں یہ حکم دیا کہ وہ سونے کی ناک بنا کر لگا لیں۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث :4232 ۔ سنن الترمذی رقم الحدیث 1770، سنن النسائی رقم الحدیث 5176، مسند احمد ج 5، ص 133، مصنف ابن ابی شیبہ ج 8، ص 499، مسند ابو یعلی رقم الحدیث 1501، المعجم الکبیر ج 17، ص 457، صحیح ابن حبان رقم الحدیث 5462، سنن بیہقی ج 2 ص 425) نابالغ لڑکوں کو سونا اور ریشم پہنانا مکروہ ہے۔ (ہدایہ اخیرین ص 457، مطبوعہ مکتبہ شرکت علمیہ ملتان)

زیورات کی زکوۃ کے متعلق احادیث اور آثار 

عمرو بن شیعب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ ایک عورت نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں آئی اور اس کے ساتھ اس کی بیٹی تھی اور اس کی بیٹی کے ہاتھ میں سونے کے موٹے موٹے کنگن تھے، آپ نے اس عورت سے فرمایا : کیا تم ان کی زکوۃ ادا کرتی ہو ؟ اس عورت نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا کیا تم اس سے خوش ہوگی کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہیں ان کے بجائے آگ کے کنگن پہنا دے، پھر اس عورت نے ان کنگنوں کو اتار کر نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے سامنے رکھ دیا، اور کہا یہ اللہ اور اس کے رسول کے لیے ہیں۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث 1563، سنن الترمذی رقم الحدیث 637، سنن النسائی رقم الحدیث 2325، مسند احمد ج 2 ص 278، مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث 7065، مصنف ابن ابی شیبہ ج 3 ص 153، حلیۃ الاولیاء ج 9، ص 232، سنن بیہقی ج 9، ص 199، 198، شرح السنہ رقم الحدیث 2753)

امام ابن القطان نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ اس حدیث کی سند صحیح ہے، امام منذری نے مختصر سنن ابو داؤد میں لکھا ہے اس حدیث کی سند میں کوئی مقال نہیں ہے کیونکہ امام ابو داؤد نے ابو کامل جحدری اور حمید بن مسعدہ سے روایت کیا ہے اور وہ ثقات سے ہیں۔

حضرت عائشہ بیان کرتی ہیں کہ میرے پاس رسول اللہ تشریف لائے آپ نے میرے ہاتھ میں چاندی کی انگوٹھیاں دیکھیں، آپ نے فرمایا اے عائشہ یہ کیا ہے ؟ میں نے کہا یا رسول اللہ میں نے ان انگوٹھیوں کو زیب وزینت کے لیے پہنا ہے، آپ نے پوچھا کیا تم ان کی زکوۃ ادا کرتی ہو، میں نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا تمہیں دوزخ کے عذاب کے لیے یہ کافی ہیں۔ (سنن ابو داؤد رقم الحدیث 1565، حاکم نے کہا شیخین کی شرط کے مطابق یہ حدیث صحیح ہے، المستدرک ج 1 ص 390، 389، سنن دار قطنی رقم الحدیث 1934، سنن بیہقی ج 4، ص 139)

حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ میں سونے کا زیور پہنے ہوئے تھی میں نے عرض کیا یا رسول اللہ کیا یہ کنز ہے ؟ (وہ جمع کیا ہوا سونا جس پر دوزخ کے عذاب کی وعدی ہے) آپ نے فرمایا جو زیور زکوۃ کے نصاب کو پہنچ گیا اور اس کی زکوۃ ادا کری گئی تو وہ کنز نہیں ہے۔ (سنن ابو داؤد رقم الھدیث 1564، حاکم نے کہا یہ حدیث امام بکاری کی شرط کے مطابق صحیح ہے، المستدرک ج 1 ص 390، سنن بیہقی ج 4 ۔ ص 140)

حضرت اسماء بنت یزید بیان کرتی ہیں کہ میں اور میری خالہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ہم نے سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھے آپ نے پوچھا کیا تم دونوں ان کی زکوۃ ادا کرتی ہو ؟ ہم نے کہا نہیں، آپ نے فرمایا کیا تم کو اس کا خوف نہیں ہے کہ اللہ تم دونوں کو آگ کے کنگن پہناوے، تم دونوں ان کی زکوۃ ادا کرو۔ (مسند احمد ج 6، ص 461، حمزہ احمد زین نے کہا اس کی سند حسن ہے، مسند احمد رقم الحدیث 27486، دار الحدیث قاہرہ، مسند احمد رقم الحدیث 28166 ۔ عالم الکتب)

حضرت عمر بن الخطاب نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو خط لکھا کہ تمہاری طرف جو مسلمان عورتیں ہیں ان کو حکم دو کہ وہ اپنے زیورات کی زکوۃ ادا کریں۔ (مصنف ابن ابی شیبہ ج 3، ص 27، مطبوعہ ادارۃ الفرقان کراچی، 1406 ھ)

حضرت ابن مسعود نے فرمایا : زیورات میں زکوۃ ہے۔ (مصنف عبدالرزاق رقم الحدیث 7056، المعجم الکبیر رقم الحدیث 9594، مجمع الزوائد ج 3، ص 67)

زیورات کی زکوۃ میں مذاہب فقہاء اور بحث و نظر 

امام مالک، امام احمد بن حنبل اور ایک قول میں امام شافعی کے نزدیک زیورات پر زکوۃ نہیں ہے، امام ابوحنیفہ کے نزدیک زیورات پر زکوۃ ہے اور امام شافعی کا راجح قول بھی یہی ہے۔

علامہ ابن قدامہ حنبلی متوفی 620 ھ لکھتے ہیں :

ظاہر مزہب یہ ہے کہ عورت کے زیورات پر زکوۃ نہیں ہے، امام مالک اور امام شافعی کا بھی یہی مسلک ہے اور حضرت عمر، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص (رض) اور تابعین میں سے سعید بن مسیب، سعید بن جبیر، عطا، مجاہد، عبداللہ بن شداد، جابر بن زید، ابن سیرین، میمون بن مہران، زہری، ثوری اور اصحاب رائے کا نظریہ یہ ہے کہ زیورات میں زکوۃ ہے۔ (المغنی ج 2، ص 322، مطبوعہ دار الفکر بیرو، 1405 ھ)

ائمہ ثلاثہ کی طرف سے دلائل دیتے ہوئے علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں :

امام احمد بن حنبل فرماتے ہیں : رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پانچ صحابہ کہتے تھے کہ زیورات میں زکوۃ نہیں ہے اور زیورات کو عاریتا دینا ہی ان کی زکوۃ ہے، نیز عافیہ بن ایوب لیث بن سعد سے وہ ابو زبیر سے اور وہ حضرت جابر سے روایت کرتے ہیں کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : زیورات میں زکوۃ نہیں ہے علاوہ ازیں زیورات کو مباح استعمال کے لیے رکھا جاتا ہے اس لیے اس میں زکوۃ واجب نہیں ہے جس طرح کام کاج کی چیزوں میں اور استعمال کے کپڑوں میں زکوۃ نہیں ہے۔

علامہ ابن قدامہ نے اس مسئلہ پر بحث کرتے ہوئے ہماری پیش کردہ صحیح السند ابو داؤد کی روایت بھی ذکر کی ہے لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا اور اگر پانچ صحابہ اس مسئلہ میں زکوۃ کے قائل نہیں تو پانچ سے زیادہ صحابہ اس مسئلہ میں وجوب زکوۃ کے قائل ہیں، مثلا حضرت عمر، حضرت ابن مسعود، حضرت ابن عباس، حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص، حضرت ابو موسیٰ اشعری اور حضرت زینب زوجہ ابن مسعود (رض) اور ان کی فقاہت ان صحابہ سے زیادہ مسلم ہے جو زکوۃ کے قائل نہیں ہیں۔ علامہ ابن قدامہ نے اس سلسلے میں جن صحابہ کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں : حضرت ابن عمر، حضرت جابر، حضرت عائشہ اور حضرت اسماء، نیز یہ بھی قاعدہ ہے کہ جب حلت اور حرمت میں تعارض ہو تو ترجیح تحریم کو ہوتی ہے۔

ائمہ ثلاثہ کی دوسری دلیل وہ حدیث ہے جو حضرت جابر سے مروی ہے، اس پر بحث کرتے ہوئے امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقی متوفی 458 ھ لکھتے ہیں :

حضرت جابر سے مروی ہے زیورات میں زکوۃ نہیں ہے، یہ صرف حضرت جابر کا قول ہے، حدیث مرفوع نہیں ہے۔ عافیہ بن ایوب نے ازلیث ازابی الزبیر از جابر اس کو مرفوعا روایت کیا ہے اس کی کوئی اصل نہیں ہے۔ (معرفۃ السنن والاثار ج 3، ص 299، 298، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیرو، 1412 ھ)

علامہ ابن قدامہ نے اس مسئلہ میں جو کام کاج کی چیزوں پر قیاس کیا ہے وہ ظاہر ہے کہ احادیث صحیحہ کے مقابلہ میں متروک ہے۔

مواخر کا معنی 

اور تم اس میں کشتیوں کو دیکھتے ہو جو پانی کو چیرتی ہوئی چلتی ہیں۔

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے پانی کو چیرنے والی کشتیوں کو مواخر فرمایا ہے اور مواخر کے معنی حسب ذیل ہیں :

مواخر، ماخرہ کی جمع ہے، ماخرہ کا معنی ہے پانی کو پھاڑنے والی کشتی، آواز دینے والی کشتی، ہوا کے ایک جھونکے سے آگے بڑھنے والی کشتی، اس کا مصدر مخیر اور مخور ہے، اس کا معنی ہے کشتی کا چلنا، پانی کو پھاڑنا، چلنے میں آواز پیدا ہونا، پانی کو ہاتھوں سے چیرنا، زمین کو نرم کرنے کے لیے اس کو پانی سے سیراب کرنا۔ حدیث میں ہے :

اذا بال احدکم فلیتمخر الریح۔ جب تم پیشاب کرو تو ہوا کا رخ دیکھو (یعنی یہ دیکھو کہ ہوا کس رخ سے آرہی ہے اور ہوا کے رخ کی طرف پیشاب نہ کرو ورنہ تم پر چھینٹیں پڑیں گی)

(النہایہ ج 4، ص 260، کتاب العین ج 3، ص 1682، المفردات ج 2، ص 600 قاموس ج 2، ص 185)

تبیان القرآن – سورۃ نمبر 16 النحل آیت نمبر 14